حکمرانی کے حقدار
اپوزیشن کو فوج پر مکمل اعتماد ہے اور حکومتوں سے ہمیشہ شکایات رہی ہیں۔
گزشتہ دنوں عسکری قیادت کی طرف سے ملک کے پارلیمانی رہنماؤں کو ایک طویل بریفنگ دی گئی۔اس میٹنگ میں آرمی چیف نے سیاسی رہنماؤں کو اپنے رول کا بھی بتایا کہ ہم اسٹیٹ کے نمایندے ہیں۔
یہ تو پتا نہیں کہ سیاسی رہنماؤں نے 2018 کے انتخابات کے موقع پر ہونے والی شکایات کا اس بریفنگ میں اظہار کیا یا نہیں جو باہر اس سلسلے میں بیان بازی کرتے رہتے ہیں۔ عسکری قیادت نے ملک کے منتخب نمایندوں کو جن میں اپوزیشن اور حکومتی رہنما بھی شامل تھے کہ ملک کے دفاعی معاملات، افغانستان کی صورتحال اور دیگر معاملات پر اعتماد میں لیا اور یہاں تک کہا کہ آپ ہمارا فلیش اینڈ بلڈ ہیں آپ ہمیں گائیڈ کریں آپ پالیسی بنائیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
اس موقع پر آرمی چیف نے کہا کہ ہم ہر روز سرحدوں سے اپنے دس شہدا کی لاشیں اٹھاتے ہیں۔ آپ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں اپنے معاملات پر حکومت سے بات کریں۔ اس اہم میٹنگ میں صرف دو ارکان اسمبلی مولانا سعد محمود اور امیر حیدر ہوتی مکمل تیاری کرکے آئے تھے اور دونوں نے فوج کے کردار کو سراہا اور واضح کیا کہ ہمارے نزدیک کوئی گڈ اور بیڈ نہیں ہے آپ ملک کے حالات کے مطابق پالیسی بنائیں۔
اس اہم بریفنگ میں اپوزیشن لیڈر بھی موجود تھے اور باہر شکایتیں کرنے والے بھی مگر صرف دو ارکان کے سوا کوئی بھی تیاری کرکے نہیں آیا تھااور وہ حکومتی وزیر بھی موجود تھے جو یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہے اگر واقعی ایسا ہوتا تو ٹی وی پر چھائے رہنے کے شوقین یہ وزیر ہی مکمل تیاری کرکے آتے مگر تیاری کرکے آنے والوں میں صرف اپوزیشن کے دو ارکان تھے جب کہ جنرلز مکمل تیاری کرکے آئے تھے جس سے ملک کی سیاسی قیادت کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو صرف آرمی چیف سمیت جنرلز سے ملنے، وقت گزارنے اور فوجی کھانا کھانے آئے تھے اس لیے وہ صرف جنرلز کی باتیں سنتے رہے جب کہ ان غیر سنجیدہ پارلیمانی رہنماؤں کو آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ ہمیں گائیڈ کریں۔
پالیسی بنائیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے مگر جواب دینے کے لیے ان 90 فیصد منتخب نمایندوں کے پاس کوئی سلوشن نہیں تھا۔ اپنی تقریروں اور میڈیا پر لمبی لمبی باتیں کرنے والوں کو بریفنگ میں شاید سانپ سونگھ گیا تھا کیونکہ انھوں نے اس سلسلے میں کوئی تیاری ہی نہیں کی تھی وہ فوجی قیادت کو کیا گائیڈ کرتے، انھیں تو ان کی قیادت کی طرف سے جو گائیڈ کیا جاتا ہے وہ اسی کے مطابق اپنی اپنی سیاسی قیادت کو خوش کرنے اور اپنے نمبر بڑھانے کے لیے بولتے ہیں ملکی حالات اور سرحدی صورتحال سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں۔
ہمارے سیاسی رہنماؤں کو ملکی و عوامی مفاد سے زیادہ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کی فکر زیادہ ہے، اسی لیے بلاول زرداری نے علی وزیر کی سفارش کی اور سینیٹر مشاہد حسین نے آرمی چیف سے کہا کہ وہ مسلم لیگ (ن) پر ہاتھ ہولا رکھیں۔
آرمی چیف نے صرف علی وزیر کے سوال پر ہی جواب دیا۔ مسلم لیگ (ن) کا یہ بیانیہ درست ہے کہ ووٹ کو عزت دو اور ادارے اپنی اپنی حدود میں رہیں جب کہ حکومت نے یہ حالات پیدا کر دیے ہیں کہ اپوزیشن اور حکومت مل بیٹھنے کو تیار نہیں۔ ملک کے تاجر رہنماؤں کو حکومت پر اعتماد نہیں اور وزیر اعظم یوٹرن لینے کو لیڈر کا حق قرار دیتے ہیں انھیں صرف اپوزیشن لیڈروں کو گرفتار کرانے سے دلچسپی ہے۔
اپوزیشن کو فوج پر مکمل اعتماد ہے اور حکومتوں سے ہمیشہ شکایات رہی ہیں۔ ملک میں مارشل لا لگوانے میں آمر حکمرانوں اور سیاستدانوں کا ہمیشہ ہاتھ رہا۔ آمر حکومتوں کا ساتھ سیاستدانوں نے دیا۔ قربانیاں فوج نے دیں ،مفادات سیاستدانوں نے اٹھائے۔ غیر جمہوری کابیناؤں میں بھی سیاستدان شامل رہے اور ان سے حصول اقتدار کے لیے مدد بھی لیتے رہے تو ایسے سیاستدانوں کو کیا اقتدار کا حق ہے جو پڑھتے ہیں، نہ ملک کا سوچتے ہیں۔