اُدرے گا

غیورپٹھان انگریزوں کواپنے علاقوں میں داخل نہیں ہونے دیتے تھے حتیٰ کہ اکثرآزادقبائل کے علاقوں میں سڑکیں نہیں بنانے دیں۔

2 مارچ 1888کی صبح دونوں اپنے گاؤں سے ٹانگے میں شہر کے لیے روانہ ہوئے، ان کے ساتھ دو افراد کو کہیں اور جانا تھا لہٰذا یہ دونوں ہشت نگری اترے۔ ٹانگہ دوسرے دو افراد کو لے کر آگے روانہ ہوا۔

تمام روز ہشت نگری، قصہ خوانی بازاروں میں مختلف اشیا کی خریداری میں شام ہوگئی۔ عصر کی نماز وزیر مسیت (وزیر مسجد) میں بہ جماعت ادا کی۔ نماز کے بعد گاؤں جانے کے لیے کوئی سواری نہ ملی۔ گھر کے تمام افراد کی پریشانی کا احساس تھا لہٰذا دونوں نے شہر سے پیدل جانے کا قصد کیا۔ گاؤں جرنیلی شاہراہ کے کنارے تھا، جرنیلی سڑک پر پیدل چلنا شروع کیا۔

گاؤں ابھی دور تھا اندھیرا چھا گیا، اندھیری رات اس خاموشی میں ان دونوں کی پشاوری چپل کی چرخ چوں کی آواز دور تک جارہی تھی، اچانک ایک گرج دار آواز آئی ''اُدریگا'' دونوں اُدرے گا سنتے ہی کھڑے ہوگئے۔ دونوں سمجھے آج ہم دونوں مفرور (ڈاکو، چور) کے نرغے میں آچکے ہیں۔ حوالدار کے ساتھ چار سپاہی جن میں ایک نے ہری کین (لال ٹین) پکڑی ہوئی تھی، حوالدار نے سپاہی سے لال ٹین پکڑ کر اوپر اٹھایا اور ان دونوں کے چہرے دیکھے اس نے دونوں کے نام پوچھے ''استانم سادے'' جواب ملنے کے بعد پوچھا ''کم خواہ دے'' گاؤں جا رہے ہیں، گاؤں کا نام بتایا۔

پشتو نہایت شائستہ تھی سوال جواب کے بعد کہنے لگا تم کو معلوم نہیں عصر کے بعد سڑک پر جانا ممنوع ہے۔ کیا تمہیں یہ معلوم نہیں ''مفرور'' پکڑ کر لے جاتے ہیں بہت مشکل ہے کوئی ان سے بچ سکے۔ حوالدار دونوں کو سناتا رہا وہ سنتے رہے جب وہ کہہ چکا تو جس کی عمر 26 برس تھی وہ بولا برطانیہ کے راج میں بھی ان مفروروں پر قابو نہیں ہے، کیسی حکومت ہے۔ یہ انگریز مقامی لوگوں کو آگے رکھتے ہیں جو قلعہ بالا حصار میں اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ہیں یہ انگریز بہت چالاک، عیار، مکار قوم ہیں۔ تیزی سے وہ سب کہہ گیا حوالدار نے اس کو کہا ''چپ شا''۔

چپ ہو جاؤ انگریز کو برا کہنا، حکومت پر نکتہ چینی کرنا، ان کے خلاف برے الفاظ استعمال کرنا قانون میں جرم ہے۔ تمہاری ان باتوں پر میں تم کو حوالات میں بند کرسکتا ہوں سزا کے مستحق ہو۔ چھوٹا فرد جس کی عمر 24 برس تھی اس نے سمجھداری کی بولا حوالدار صاحب! معاف کردیں اپنے ساتھی سے بولا معافی مانگو، اس نے بھی معافی مانگی۔ حوالدار اچھا انسان تھا اس نے دونوں نوجوانوں کا خیال کرتے ہوئے درگزر کردیا۔

حقیقت یہ ہے کہ غیور پٹھان انگریزوں کو اپنے علاقوں میں داخل نہیں ہونے دیتے تھے حتیٰ کہ اکثر آزاد قبائل کے علاقوں میں سڑکیں نہیں بنانے دیں۔ ان کا کہنا تھا فرنگی سڑکیں بنا کر ہمارے آزاد علاقوں میں آجائے گا ہم اس کی حکمرانی قبول نہیں کریں گے۔ عجب خان جیسے بہت سے غیور پٹھانوں نے انگریزوں سے مقابلے کیے۔ یہ انگریز کی چالاکی تھی وہ مقامی لوگوں کو آگے کرتا اور خود پیچھے رہتا۔ علاقوں میں بمباری تک ہوئی لیکن قبائل پیچھے نہیں ہٹے۔ پاکستان بننے کے بعد ان علاقوں میں امن آیا، میل ملاپ ، سڑکیں بنیں ان علاقوں کو ترقی حاصل ہوئی۔


کوئی شخص انگریز کہتا ورنہ اکثریت فرنگی کہتی تھی یہ فرنگی کے نام سے مشہور تھے آج بھی پرانے لوگ فرنگی کہتے ہیں وہ اپنے دادا، پر دادا کے زمانے کی فرنگی کی باتیں سناتے ہیں، یہ تاریخ سینہ بہ سینہ چل رہی ہے۔ ان لوگوں پر جس قدر ظلم ہوا اس کی داستان جب کوئی سناتا ہے تو ایسا لگتا ہے شاید یہ کل کی بات ہے، فرنگی کا سارا ظلم و ستم آنے والی نسلوں کو ازبر ہے مائیں اپنے بچوں کو سناتی ہیں وہ دوسری نسل کو سناتے ہیں شاید آنے والی صدیوں میں بھی یہ داستانیں سینوں میں موجود رہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے دور برطانیہ نے کسی بہادر کو بھی مفرور بنا دیا ایسے بہت سے واقعات ہیں۔ کہا جاتا ہے مفرور اب بھی ہیں یقینا ان کی سرپرستی کسی بڑے فرد کی ہوتی ہے، وہ جس کو چاہتا ہے اغوا کرواتا ہے۔ اغوا برائے تاوان میں بھاری رقم وصول کی جاتی ہے اس میں پچھتر فیصد اس بڑے بااثر آدمی کی ہوتی ہے۔ 25فیصد اغوا کرنے والے کو دیتے ہیں نام کی تشہیر اسی اغوا کار کی ہوتی ہے سرپرستی کرنے والے کا نام کہیں نہیں ہوتا۔ وہ اسی طرح بچتا رہتا ہے زیادہ خطرہ محسوس ہوتا ہے تو وہ اغوا کار کو قتل کروا دیتا ہے تاکہ وہ بھی کچھ بتا نہ سکے۔

ایک مثال پیش کی یقینا 20 مارچ 1888 کے علاوہ اور بہت سے چھوٹے بڑے واقعات رونما ہوئے حوالدار نے جو کہا اس کو دہرا کر موجودہ دور میں کئی مثالیں ہیں اس نے چپ کرا کر جو کہا ''انگریز کو برا کہنا، حکومت پر نکتہ چینی کرنا، ان کے خلاف برے الفاظ استعمال کرنا قانون میں جرم ہے۔'' برطانیہ کا بنایا ہوا قانون آج بھی موجود ہے جس پر عمل ہو رہا ہے برطانیہ دور سے زیادہ موجودہ دور میں سرکاری اداروں کو ان کے بڑوں کو کس قدر برا کہتے ہیں ۔

کسی نے سوال کیا ''پھر قانون کہاں چلا گیا، اگر کوئی غریب، فقیر، ادنیٰ انسان غلطی سے صرف ایک لفظ غلط کہہ دیتا وہ حوالات میں ہوتا اس کی ضمانت بھی نہ ہوتی۔'' اسی لیے کہتے ہیں غریب کے لیے قانون اور ہے، امیر بڑے آدمی کے لیے قانون اور ہے۔ چھپی ہوئی بات نہیں سب کچھ عیاں ہے، جنھوں نے ہمارے اداروں کو اداروں کے بڑوں کو برا کہا یقینا وہ بااثر لوگ ہیں جن سے یہ ادارے، ان کے بڑے بھی خوف زدہ ہیں۔

یہ بھی کہہ رہے ہیں ''اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا مجال کوئی اس طرح بدکلامی کرتا، برے جملے استعمال کرتا، چونکہ ان کو معلوم ہے ہم جو کچھ بھی کہیں گے ہمارا کچھ ہونے والا نہیں جو چاہیں وہ کریں، کسی نے ہم سے احتساب کرنا ہے نہ باز پرس ہوگی۔''ادرے گا'' کسی بڑے کو کہنے کی ملک کے بڑے کی بھی جسارت نہیں ہاں غریب کو بار بار کہا جاسکتا ہے۔ روایت کے مطابق برطانوی دور میں ایک عام پولیس کا سپاہی کسی بھی بڑے آدمی کو ''ادرے گا'' کہہ سکتا تھا بلکہ کہا بھی تھا۔ یہ الگ بات ہے مقامی کو ہی کہا گیا فرنگی کو نہیں کہا گیا۔

ماضی میں جو پشاور تھا وہ حال میں بھی ہے، پہلے آبادی کم تھی اب آبادی زیادہ ہے۔ پہلے جدھر چاہیں آگے بڑھ جائیں ایسا بالکل نہیں تھا۔ لیکن اب خاص طور پر پشاور شہر اور قلعہ بالا حصار کے گرد اس قدر لوگوں نے اپنی دکانیں بنا لی ہیں جو تمام غیر قانونی معلوم دیتی ہیں۔ یقینا ان کی پشت پناہی بااثر لوگ کر رہے ہوں گے، ورنہ قلعہ میں فوج کی موجودگی میں چاروں طرف جگہ گھر لینا جس کا قلعہ پر برا اثر پڑا ہے جس طرح پہلے نمایاں تھا اب ایسا نہیں رہا، شاید آیندہ اس سے بھی زیادہ نہ رہے۔
Load Next Story