افغانستان اور کشمیر
امریکا کے افغانستان میں داخل ہونے کے بعد ہی بھارت نے بھی وہاں ٹھکانہ بنالیا تھا۔
MOSCOW:
تین سپرپاورز کو شکست دے کر افغان قوم نے یہ ثابت کردیا ہے کہ کوئی بھی ملک ان کی آزادی کو نہیں چھین سکتا اور نہ ہی ان کے ملک پر قابض ہو سکتا ہے۔ اس ملک پر جب بھی کسی ملک نے قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے اول تو اسے وہاں سے ذلیل و خوار ہو کر نکلنا پڑا اور اس کے بعد وہ پھل پھول بھی نہیں سکا۔
برطانوی سامراج نے سب سے پہلے افغانستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی مگر اسے وہاں سے نامراد ہی لوٹنا پڑا۔ وہ برصغیر پر دائمی قبضہ کرنے کی غرض سے داخل ہوا تھا مگر اسے برصغیر سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں نے اس کی ایسی کمر توڑی کہ وہ اکثر مقبوضہ علاقوں سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
اسے عجلت میں برصغیر کو چھوڑنا پڑا وہ کشمیر جیسے کئی مسائل کو حل کیے بغیر ہی یہاں سے کوچ کرگیا پھر آگے ایسا حال خراب ہوا کہ جس ملک کی سرحدوں میں کبھی سورج غروب ہی نہیں ہوتا تھا وہ سمٹ کر صرف برطانوی جزیرے تک محدود ہوکر رہ گیا۔ سوویت یونین امریکا کی ہم پلہ سپر پاور تھی پوری دنیا میں اس کا دبدبہ تھا۔ بدقسمتی اسے بھی گھیر کر افغانستان لے آئی۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ وہ وہاں برسوں حکومت کرے گا مگر چند ہی سالوں میں اسے افغانوں کی مزاحمت کی وجہ سے وہاں سے نکلنا پڑا۔
اس کے بعد وہ ایسا مصائب میں گھرا کہ ملک بھی بکھر گیا اور اس کے سر سے سپر پاور کا تاج بھی اتر گیا ساتھ ہی سوویت یونین سے پھر اپنے پرانے نام روس پر واپس آگیا۔ پھر امریکا بہادر کی باری تھی وہ ملکوں پر قبضہ کرنے میں بڑی مہارت رکھتا ہے وہ ویت نام سے لے کر عراق تک کئی ممالک پر قبضے کا پہلے ہی تجربہ رکھتا تھا البتہ وہ ویت نام میں ضرور ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوا تھا مگر اس نے اس شکست کے غم کو ہوا میں اڑا دیا تھا۔
اس نے عراق پر بلاجواز قبضے کے بعد افغانستان کو نائن الیون کا ذمے دار قرار دے کر اسے بھی اپنی ہوس ملک گیری کا نشانہ بنا ڈالا تھا۔ وہ بیس سال تک طالبان کو شکست دینے میں لگا رہا مگر طالبان کو شکست دینے کے بجائے خود شکست سے چکنا چور ہوکر تیزی سے گزشتہ دنوں اپنا بوریا بستر سمیٹ کر رات کی تاریکی میں طالبان کے خوف کے پیش نظر وہاں سے بھاگ گیا۔
اب لگتا ہے امریکا بھی اپنی سپرمیسی سے جلد ہی ہاتھ دھونے والا ہے کیونکہ وہ پوری دنیا میں اس وقت اپنا امیج کھو چکا ہے اور اپنی ایک غاصب اور جارح ملک کی پہچان بنا چکا ہے۔ اس کا مدمقابل چین اپنی غریب پروری اور شاندار معاشی اور فوجی برتری کی وجہ سے امریکا سے آگے نکل کر دنیا کی نئی سپرپاور کا تاج اپنے سر پر سجانے والا ہے۔
اگر بغور جائزہ لیا جائے تو افغانستان میں اسے شکست سے دوچار کرنے کے ذمے دار اس کی اپنی اسٹیبلشمنٹ اور اس کا اسٹرٹیجک پارٹنر بھارت ہے۔ امریکا افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کو زیر کرنے کی غرض سے داخل ہوا تھا پھر وہ اکیلا افغانستان میں نہیں آیا تھا۔ نیٹو ممالک کے فوجی دستوں کو اپنی مدد کے لیے ساتھ لے کر آیا تھا۔ ابتدا میں تو ضرور امریکی اور نیٹو افواج نے طالبان سے چھیڑ چھاڑ کی اور انھیں ٹھکانے لگانے کی کوشش کی مگر وہ اسامہ کو مارنے کے بعد القاعدہ اور طالبان سے لاتعلق ہو گیا تھا۔
امریکا کے افغانستان میں داخل ہونے کے بعد ہی بھارت نے بھی وہاں ٹھکانہ بنالیا تھا حقیقت یہ ہے کہ امریکا نے بھارت کو افغانستان میں داخل ہونے کی اجازت دے کر دراصل اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری تھی۔ بھارت کا افغانستان میں داخل ہونے کا کوئی جواز نہیں تھا کیونکہ وہ نہ تو نیٹو کا ممبر ہے اور نہ ہی افغانستان کا پڑوسی ہے اسے وہاں داخل کرانے میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کا بڑا ہاتھ تھا یوں امریکا نے وہاں سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی پھیلانے کا من پسند موقع فراہم کردیا۔
پھر ہوا یہ کہ امریکا طالبان کو زیر کرنے کا اپنا مشن بھول کر بھارت کی پاکستان کے خلاف مہم جوئی میں سرگرم شریک کار بن گیا۔ بھارت مستعدی سے اپنا کام کرتا رہا اور امریکا طالبان کے خلاف کارروائی کرنا ہی بھول گیا۔ پھر تو ایسا لگنے لگا کہ امریکا نے افغانستان پر بھارت کے ساتھ مل کر صرف پاکستان کو ٹارگٹ کرنے کے لیے ہی افغانستان پر قبضہ کیا تھا۔ بھارت نے وہاں امریکی آشیر باد سے ایک دو نہیں دس بارہ قونصل خانے قائم کرلیے جو کہنے کو تو قونصل خانے تھے مگر اصل میں وہ تمام دہشت گردوں کو تربیت دینے کے مراکز تھے۔
ان تمام دہشت گردوں کو پاکستان میں دہشت گردی کرنے کے لیے بھیجا جاتا تھا۔ پاکستان گزشتہ پندرہ برس تک خودکش بم دھماکوں اور دہشت گردوں کے نشانے پر رہا۔ پاکستان اس وقت دو طرفہ مصیبت میں پھنس گیا تھا۔ ایسے میں بھارت اپنے پالتو دہشت گردوں سے بھارت کے مختلف شہروں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کروا کر ان کا الزام پاکستان پر عائد کر دیتا تھا اس کا سرپرست امریکا پاکستانی حکومتوں کو انھیں اپنے لوگوں کی کارروائیاں تسلیم کرنے پر مجبور کر دیتا تھا۔
ممبئی میں ہونے والا دہشت گردی کا واقعہ سراسر بی جے پی کے غنڈوں کی کارروائی تھی ، بعد میں خود مغربی میڈیا نے اس حملے کو بھارت کی اپنی دہشت گردی قرار دیا تھا اور اس کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنا اور کشمیریوں پر بھارتی مظالم سے عالمی توجہ ہٹانا تھا۔ ایک مغربی مصنف اور محقق Eliya Davidson نے اس حملے کی باقاعدہ تحقیق کرکے ایک کتاب Betryal of India کے نام سے مرتب کی تھی جس میں بذریعہ دستاویز ثابت کیا گیا تھا یہ حملہ خود بھارت سرکار نے کرایا تھا۔
اس وقت افغانستان سے امریکی اور اس کی اتحادی افواج کے نکل جانے کے بعد طالبان دھڑا دھڑ علاقے فتح کرتے چلے جا رہے ہیں۔ بھارت ان کی فتح کو مقبوضہ کشمیر کے لیے خطرناک سمجھتا ہے اس کا خیال ہے کہ طالبان افغانستان پر اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد کشمیر کا رخ کریں گے اور کشمیر کو آزاد کرا لیں گے۔ خوش قسمتی سے اس وقت طالبان نے افغانستان کے شمال میں واقع واخان کے علاقے کو بھی فتح کرلیا ہے۔
یہ ایک لمبی پٹی ہے جس کے ایک طرف تاجکستان اور دوسری طرف گلگت بلتستان واقع ہے اس اہم علاقے کی فتح سے پاکستان کے لیے وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔ اب طالبان مقبوضہ کشمیر میں بھی آسانی سے داخل ہو سکتے ہیں۔ بھارت نے چونکہ مقبوضہ کشمیر پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے اس لیے اسے اس کے چھننے کا ہر دم کھٹکا لگا رہتا ہے۔
ابھی طالبان کے کشمیر میں داخل ہونے والی بات توصرف ایک قیاس آرائی ہے کیونکہ ابھی طالبان کے لیے پورے افغانستان پر کنٹرول کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے تاہم یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بھارت طالبان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس نے مکاری کی بھی انتہا کر دی ہے ایک طرف طالبان سے مذاکرات کی کوشش کر رہا ہے تو دوسری طرف افغان حکومت کو مضبوط بنانے کے لیے وہاں اسلحہ اور اپنے پائلٹس بھی بھیج رہا ہے ۔عالمی برادری اس کا نوٹس لے تاکہ افغان اپنا مسئلہ خود حل کرسکیں۔