کابل  حصہ اول

عجیب تھا انگریز اسے ہمیشہ انھی راستوں سے ڈر تھا جہاں سے ترک و مغل برصغیر پاک وہند پر حملہ آور ہوئے۔


جاوید قاضی July 18, 2021
[email protected]

وہ قصہ خوانی بازار جہاں دلیپ کمار اور راج کپور پیدا ہوئے اور اپنا بچپن گزارا، تاریخ ہوا۔ کئی مندر و گردوارے تھے۔ وہ پرانی شاہراہ ریشم جن کے پیچ و خم سوات تک جا نکلتے تھے جہاں بدھا کے مجسمے پہاڑوں کے سینے پھاڑ کر بنائے گئے تھے جن کو بنانے میں سیکڑوں لوگوں کی دہائیوں کی مزدوری تھی، یا وہ بامیان میں بنا دیو قامت طویل و وسیع بدھا کا مجسمہ جسے طالبان نے میزائل اور راکٹ لانچروں سے چھلنی کردیا۔

کوئٹہ میں رہنے والے ہزارہ کمیونٹی کے لوگ سو سال پہلے ہجرت کرکے انھیں بامیان کے نواح سے آئے تھے۔ یہ منگول تھے، چنگیز خان و ہلاکو خان کے نسب سے ہیں۔ یہ لوگ افغانستان کے علاقے بامیان میں آباد ہوگئے۔ مسلمان ہوئے آج سے ہزار سال پہلے ۔ جس طرح سکندر اعظم ترکی ، ایران ، آرمینیا پار کرتے ہوئے برصغیر آیا اور یونانی نسل کے بہت سے لوگ کیلاش میں آباد ہوگئے اور اب بھی اسی انداز و طرز و ثقافت میں رہتے ہیں۔

کتنے سارے حملے ہوئے اس دھرتی پے؟ آریا آئے، یہ یورپ، کاکیشیا کے خانہ بدوش غلہ بان قبائل تھے۔ اشوکا، موھن جو دڑو یعنی آج سے پانچ ہزار سال پہلے کی بات ہے۔ ڈھائی ہزار سال پہلے یہاں پہ سکندر اعظم کا لشکر آیا۔ ٹھاٹھیں مارتے سمندر جیسے دیو قامت دریا سندھ نے اسے آگے جانے سے روک دیا ،وہ ملتان میں مزاحمت دیکھتا ہے، زخمی ہوگیا، یونان واپس پہنچتے پہنچتے راستے میں انتقال بھی کر گیا۔ اس کے مرنے پے یہ روایت ہے کہ اس کی لاش میں اس کے پڑے دونوں ہاتھ نکال کر اس کی میت کا جلوس نکلا ،اس کی وصیت کے مطابق کہ یہ پتہ سب کو پڑے کے دنیا کو فتح کرنے والا سکندر اعظم جب دنیا سے رخصت ہوا تو اس کے دونوں ہاتھ خالی تھے!!!

کتنے سارے حملے ہوئے ۔ لشکر در لشکر آئے ، آریاؤں سے لے کر یونانیوں تک ، ترکوں سے لے کر منگولوں اور افغانیوں تک۔ سکندر اعظم کے بعد یوں لگتا ہے دریا سندھ وہ دیو قامت بہتا دریا نہ تھا جسے یونانی اپنی کتابوں سمندر رقم کر گئے۔ خود سندھ اور ہند کا نام انھی کی لکھی کتابوں سے ملتا ہے جسے وہ Indus رقم کرگئے۔ ہزار سال پہلے تک خود مولانا جلال الدین رومی یہاں کے دو بڑے ملک جو بتاتے ہیں وہ سندھ اور ہند ہیں ۔ تب تک یہاں بصرا کے گورنر حجاج بن یوسف کا سالہ سالار لشکر محمد بن قاسم آچکا تھا ۔ لیکن تب تک محمود غزنوی ، تغلق و غوری نہیں آئے تھے، ابھی سومناتھ کے مندر کو لوٹا نہیں گیا تھا۔

جنگ در جنگ تھی بجنگ تھی اور تنگی تھی، لوٹ و کھسوٹ ، فاتح و غاصب کی دو معنی میں بٹی دنیا تھی، ریاستیں اور بادشاہتیں بنتی اور ٹوٹتیں تھیں۔ خون کی ندیاں تھیں، دجلا و فر ات کی مانند۔ کس طرح نادر شاہ نے دلی کو لوٹا، یہ بات 1737 کی ہے۔ پھر احمد شاہ ابدالی نے لوٹا۔نادر شاہ کے مرنے کے بعد خراسان کا صوبہ الگ ہوا ، یوں خراسان سے افغانستان نکلا اور اسی افغانستان کا حصہ تھا یہ سب پشاور اٹک تک جو رنجیت سنگھ نے بازو و شمشیر سے جیتا ، پھر بلوچستان کا ڈیرہ غازی خان بھی رنجیت سنگھ کی آزاد ریاست کا حصہ بنا ۔

عجیب تھا انگریز اسے ہمیشہ انھی راستوں سے ڈر تھا جہاں سے ترک و مغل برصغیر پاک وہند پر حملہ آور ہوئے اور پھر یہاں کے ہی ہوکر رہ گئے۔ انگریز کلکتہ سے دلی آیا تھا۔ اس سے پہلے پرتگیزی سندھ آئے تھے اور پورے ٹھٹھہ کو نذر آتش کیا تھا ۔یہ وہ سترہویں صدی ہے جب جب حملہ آوروں کے آنے کے راستے سمندر کے ذریعے تھے ، جب نپولین مصر کو فتح کر رہے تھا اور نپولین نے جب ایلگزینڈریا پے اپنے قدم جمائے تو ایک چٹھی فرنگیوں سے لڑنے والے ٹیپو سلطان کو بھی بھیجی تھی۔

انگریزوں نے سندھ کو فتح کرنے سے پہلے سندھ میں جاسوس بھیجے تھے ، پنجاب کو فتح کرنے سے پہلے بھی یہی کام کیا۔ ان کا مقصد روسی سامراج کو آگے آنے سے روکنا تھا۔ روس میں اس وقت زار تھا۔ وہ زار جس نے نپولین کو شکست دی تھی۔ نپولین کو بھی کہاں چین تھا، جب روس کی فوجیں پیرس اتر رہیں تھیں، نپولین لاطینی امریکا کو فتح کرنے نکلا تھا ۔ پھر کیا ہوا ؟ باقی زندگی جلا وطنی میں گزاری۔ آہستہ آہستہ قید میں مر گیا۔ اس وقت سندھ میں بھٹائی نہ تھا ہاں مگر سچل ابھی زندہ تھا۔

انگریز قبضہ نے 1856 میں افغانستان کے ساتھ معاہدہ کیا ، کہ جو علاقہ رنجیت سنگھ کی سلطنت میں شامل تھا وہ انگریزوں کا اور باقی افغانستان کا۔ پھر 1890 میں افغانستان کے بادشاہ کے ساتھ معاہدہ ہوا ، ہندوستان کے وائس رائے سر ڈیورنڈ خود آئے وہ لکیر کھینچنے جسے آج ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے۔ سر ڈیورنڈگھوڑے سے گر گئے زخمی ہوگئے اور زخموں کی وجہ سے بیمار پڑگئے اور رحلت کر گئے۔

انگریز نے ڈیورنڈ لائن متصل علاقے کو NWFP کا نام دیا۔عجیب سرحدیں ہیں پاکستان کے ارد گرد ۔ آدھا پنجاب ادھر ہے تو آدھا ادھر ہے، بیچ میں ان کے صرف مذہب آڑے آگیا۔ آدھا بلوچستان ادھر پاکستان کا حصہ ہے تو آدھا ایرانی بلوچوں کی ایران سے بنتی نہیں، اور پاکستان کا پنجاب جوکل تک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سمجھا جاتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے، اب ایک نواز شریف والا پنجاب اور ایک اسٹیبلشمنٹ والا !!!!

لیکن سندھ وہی ہے جو 1947 سے پہلا تھا۔ اس کی سرحدیں بھی وہیں ہیں۔جو ہندو یہاں سے زبردستی بھیجے گئے کہ وہ جانا نہیں چاہتے تھے کہ بھٹائی اور سچل سندھ میں وہ مذہبی نفرتیں و دوریاں نہیں تھیں۔ ہندوستان سے مہاجر آئے، کراچی دار الحکومت بنا۔ ایوب دار الحکومت پنڈی ، اسلام آبادلے گئے۔ یہ وہ پنڈی تھا جہاں انگریز نے پورے ہندوستان کا جی ایچ کیو بنایا تھا، وسط ایشیا اور کابل سے ممکنہ خطروں کے تناظر میں۔ جب کہ ہم ابھی تک کابل کے ٹوٹنے اور بننے کے محور پر کھڑے ہیں۔ ابھی یہ جنگ جاری ہے اس بار تو اور بھیانک ہے۔ (جاری )

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں