حج اور اس کا بنیادی تصور

’’لوگوں پر اﷲ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو‘‘


Abdul Qadir Sheikh July 19, 2021
’’لوگوں پر اﷲ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو‘‘۔ فوٹو : فائل

حج کے لغوی معنی کسی عظیم الشان چیز کی طرف قصد کرنا ہے۔ شرعی اصطلاح میں حج ان افعال کا نام ہے جو حج کی نیّت سے احرام باندھنے کے بعد ادا کیے جاتے ہیں اور وہ افعال فرض طواف، وقوف، عرفات اور اس کے بعد چند دیگر واجبات جو مقررہ وقت پر ہی ادا کیے جاتے ہیں۔ حج، اسلام کا ایک اہم رُکن ہے۔ یہ ہر عاقل، بالغ، تن درست اور صاحب استطاعت مسلمان پر پوری زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے۔

قرآن حکیم میں ارشاد کا مفہوم: ''لوگوں پر اﷲ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، وہ اس کا حج کرے اور کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اﷲ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔'' (سورہ آلعمران)

مفہوم: ''اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور دبلے پتلے اونٹوں پر سوار آئیں۔'' (سورہ الحج)

اس عظیم عبادت کا ذکر احادیث میں بھی ملتا ہے۔ ایک حدیث مبارک جو حضرت علیؓ سے روایت ہے، حضورؐ نے فرمایا، مفہوم: ''جس کے پاس سفر حج کا ضروری سامان ہو اور سواری بھی میّسر ہو جو بیت اﷲ تک اسے پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر اور یہ اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اﷲ کی لیے بیت اﷲ کا حج فرض ہے ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں۔'' (ترمذی)

حج کا ایک بڑا اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ دین حنیف کے امام حضرت ابراہیمؑ جن کا لقب خلیل اﷲ تھا، سے تجدید تعلق ہو اور ان کے دیے ہوئے اس نظریے اور اساس کی حفاظت کی جائے، ان کی حیات مبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی زندگی کا موازنہ اور مسلمانوں کی حالت کا جائزہ لیا جائے اور اس زندگی میں جو فساد برپا ہے اسے دور کرنے کا مکمل اہتمام کیا جائے۔ خصائل فطر ت اور مناسک حج انہی کی دی ہوئی یادگار ہیں۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ ''اپنے مشاعر یعنی مقامات حج پر ٹھہرو اس لیے کہ تم اپنے باپ کی ایک وراثت کے وارث ہو۔''

(مشکوٰۃ کتاب المناسک)

مشاہدے میں آیا ہے کہ اکثر لوگوں کو حج کے شعائر اور ان کے حقائق سے قطعی لاعلم ہیں، کاش! وہ ان سے آگاہی حاصل کرلیں تو انہیں حج ادا کرتے وقت دوبالا لطف محسوس ہوگا بل کہ ان کا حج بھی حج مبرور ہوگا۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ سے دریافت کیا گیا کو ن سا عمل افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ''اﷲ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانا۔ پھر پوچھا اس کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا: جہاد۔ پھر پوچھا اس کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا: حج مبرور۔'' (صحیح بخاری، صحیح مسلم)

حضور ﷺ نے حاجی کو جنّت کی خوش خبری دی ہے۔ حج مبرور سے متعلق اقوال ہیں کہ حج مبرور وہ حج ہے جس میں کوئی گناہ نہ ہو۔ حج مقبول ہی حج مبرور ہے۔ جس میں ریا اور نام و نمود نہ ہو۔ حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ حج کے بعد دنیا سے بے توجہی اور آخرت سے رغبت ہو۔

قرآن حکیم میں شعائر کے بارے میں ارشاد ہوا ہے، مفہوم: ''بے شک! صفاء اور مروہ اﷲ کی نشانیاں ہیں۔'' (البقرہ) دوسرے مقام پر عرفات اور مزدلفہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔ مفہوم: ''جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعر حرام کے پاس ذکر الٰہی کرو اور اس کا ذکر کرو جیسا کہ اس نے ہدایت دی۔'' (سورہ بقرہ) ان آیات میں لفظ شعائر استعمال ہوا ہے جو شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی علامت کے ہیں۔ یہاں علامت سے مراد حج کے وہ مناسک یا مقام مراد ہیں مثلاً موقف یعنی منیٰ کا قیام ، وقوف عرفہ، مزدلفہ میں رات کا قیام، منحر (قربان گاہ) ہدی یعنی قربانی کے جانور۔ (سورہ الحج)

حج کی حقیقت قربانی ہے، جس کے لیے آدمی طویل سفر کرتا ہے جو وقت کی قربانی ہے۔ اس کے سفر اور تیاری کے لیے اخراجات برداشت کرتا ہے جو مال کی قربانی ہے۔ جانور ذبح کرتا ہے سو وہ مال کی قربانی ہے۔ سعی و طواف کرتا ہے جس کا مطلب دنیاوی امور سے اپنی تمام تر توجہ ہٹا کر خدائے بزرگ و برتر کی جانب مرکوز کر دینا ہے۔

حج کی حقیقت کا یہ فلسفہ ہمیں اب سے سوا چار ہزار سال قبل حضرت ابراہیم ؑ نے عطا کیا تھا۔ جنہوں نے اپنی پوری متاعِ زندگی خدائی مشن کے لیے وقف کردی تھی اور اس مشن کی آخری حد بھی ہمیں عزیز بیٹے کی قربانی پیش کرکے بتلا دی۔ یہی وجہ ہے کہ حج کا ہر عمل ہمیں اس داعی اعظمؑ کی یاد دلاتا ہے۔ آپؑ کی پوری زندگی سراپا دعوت تھی چناں چہ ہر حاجی آپؑ کی اتباع میں اپنے رب سے وہی عہد کرتا ہے یعنی دعوت حق اور احیائے دین کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنا اور پھر ہر حال میں اس پر اپنے آپ کو قائم رکھنا خواہ اس راہ میں اس پر کیسے ہی کٹھن مراحل درپیش ہوں۔

مناسک حج کے تمام کے تما م ارکان حضرت ابراہیمؑ کے گھرانے کی اداؤں کا نام ہے۔ حج ادا کرنے کی پہلی شرط احرام باندھنا (فرض) ہے۔ روحانی طور پر یوں سمجھیے کہ اپنے آپ کو مجرم اور قیدی کے سے لباس میں رب کے حضور پیش کرنا ہے اور دنیاوی طور پر اپنی تمام تر احتیاج اور ضروریات سے دست کشی اختیار کرلینا۔ یہ ان سلا لباس حضرت ابراہیمؑ کے پیراہن کی یاد گار ہے جسے اختیار کیے بغیر نہ تو حج اصغر اور نہ ہی حج اکبر ادا ہو سکتا ہے۔

اب وہ طواف کے لیے آتا ہے جو اپنی ذات کو ہمہ تن اﷲ کے لیے وقف کر دینے کی تصویر ہے، جب آپؑ تعمیر کعبہ سے فارغ ہوئے تھے تو آپؑ نے بھی تو اسے بیت اﷲ مانتے ہوئے اس کے گرد سات چکر لگائے تھے اور پھر حکم الٰہی کے مطابق لوگوں کو صفاء کی پہاڑی سے حج کی دعوت دی تھی۔ سعی آپؑ کی اہلیہ محترمہ حضرت ہاجرہؓ کی اس ادا کا نام ہے جو انہوں نے شیر خوار اسمٰعیلؑ کی پیاس بجھانے کی خاطر صفاء مروہ کے درمیان سات مرتبہ دوڑ لگائی تھی۔ رمی جمار اس بات کا اظہار ہے کہ خدا کے دشمنوں سے اس کا رویہ مصالحت کا نہیں بل کہ تصادم والا ہوگا۔

آپؑ جب اسمٰعیلؑ کو قربان گاہ (منحر) کی جانب لے جا رہے تھے تو تین مرتبہ شیطان نے آپؑ کو اﷲ کی راہ سے بھٹکانے کی کوشش کی اور ہر مرتبہ اس پر سات کنکریوں کی مار ماری گئی جو شیطان سے کھلی جنگ کا واضح اشارہ ہے۔ اسی جنگ کا زمانہ آج بھی متقاضی ہے۔ آخر میں قربانی پیش کی گئی جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ جان اور مال کی قربانی پیش کرکے صرف اس کی رضا مطلوب ہے۔

روایات میں آتا ہے کہ جس وقت حضرت ابراہیم ؑ نے یہ قربانی پیش کی اس وقت آپؑ کی عمر مبارک 99 برس حضرت ہاجرہ ؓ کی عمر85 برس اور حضرت اسمٰعیلؑ13برس کے تھے۔ عمر کے اس حصے میں جب کہ اسمٰعیلؑ اپنی نو عمری کی حدود میں تھے کہ خواب میں حضرت ابراہیمؑ کو حکم ہوتا ہے کہ اپنی عزیز ترین شے ہماری راہ میں قربان کرو۔

صبح ہاجرہؓ کو آپؑ نے خواب سنایا۔ خواب سنتے ہی اس صابر و شاکرہ خاتون نے اسے حکم الٰہی مانتے ہوئے تعبیر یوں پیش کی کہ اپنے ہاتھوں سے بیٹے کو نہلا دھلا کر تیار کیا اور ابراہیمؑ کے حوالے کیا کہ وہ اپنی عزیز ترین شے اﷲ کی راہ میں قربان کردیں۔ اس وقت کیا وہ منظر ان کے سامنے نہیں آیا ہوگا جب شیر خوار گی کے عالم میں وہی پیاسے اسمٰعیلؑ کے لیے پانی کی طلب میں صفاء اور مروہ کے درمیان دوڑی تھیں۔ ان بوڑھے والدین کے جذبات اور دلی کیفیات کا کوئی اندازہ کر سکتا ہے۔۔۔ ؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں