مہنگائی سے قربانی کے رجحان میں 15 فیصد کمی

رواں برس گائے ،بیل کی کھال 700، بکرے کی کھال 200 جب کہ بھیڑکی کھال 100 روپے میں خریدی جائے گی


Kashif Hussain July 19, 2021
رواں سال 70 لاکھ کھالیں ملیں گی، گزشتہ سال سے 10 سے 15 فیصدکم ہوں گی ۔ فوٹو : فائل

کورونا وبا کے معاشی اثرات اور مہنگائی کی وجہ سے اس سال ملک بھر میں قربانی کے رجحان میں 10 سے 15 فیصد کمی کا امکان ہے۔

عیدالاضحی چمڑے کی صنعت کے لیے خام مال کے حصول کا اہم ذریعہ ہے، قربانی کے جانوروں کی95 فیصد کھالیں ٹینریز کو موصول ہوتی ہیں جن سے سالانہ قربانی کے اعدادوشمار واضح ہوتے ہیں، پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کو امید ہے کہ اس سال 60 سے 70لاکھ کھالیں موصول ہوں گی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 10سے 15فیصد کم ہوں گی۔

پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کی کور کمیٹی اور منیجنگ کمیٹی کے رکن اعجاز احمد شیخ کے مطابق کوروناکی وبا کے معاشی اثرات کی وجہ سے دیگر صنعتوں کی طرح چمڑے کی صنعت بھی مشکلات کا شکار ہے، عالمی سطح پر فیشن کے بدلتے ہوئے رجحانات کی وجہ سے لیدر کی صنعت دباؤ کا شکار تھی جس میں کورونا کے باعث پیدا ہونے والے حالات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کے اثرات پاکستان کی لیدر انڈسٹری پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس سال عید قربان پر خام کھالوں کی تعداد میں 10سے 15فیصد کمی متوقع ہے تاہم گزشتہ سال کے مقابلے میں کھالوں کی قیمت میں قدرے اضافہ ہوا ہے انھوں نے بتایا کہ اس سال گائے بیل کی کھالیں 700 روپے میں خریدی جائیں گی اسی طرح بکرے کی کھال200 روپے، بھیڑ کی کھالیں 100 روپے میں خریدی جائیں گی گزشتہ سال گائے بیل کی کھالیں 500روپے سے 600 روپے میں خریدی گئی تھیں اسی طرح بکرے کی کھال 125سے 150روپے جبکہ بھیڑ کی کھالیں 25سے 35روپے میں خریدی گئی تھیں۔

اعجاز احمد شیخ کے مطابق 3 سال کے دوران کھالوں کی تعداد ایک کروڑ 10لاکھ سے کم ہوکر گزشتہ سال 80سے 85 لاکھ تک آ گئی جبکہ رواں سال یہ تعداد مزید کم ہوکر 60 سے 70 لاکھ تک محدود رہنے کی توقع ہے، لیدر انڈسٹری سے وابستہ اعجاز احمد شیخ نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے دنیا میں لاک ڈاؤن ہے اور سیاحت کی صنعت کے ساتھ انٹرٹینمنٹ سیاحت اور ہوٹلنگ کی صنعتیں بھی بند پڑی ہے۔

دنیا کی بڑی منڈیوں یورپ اور امریکا میں عوام 2 سال سے گھروں سے کام کررہے ہیں اس لیے ملبوسات، فٹ ویئر اور گارمنٹس کی فروخت کم ہورہی ہے صرف کھانے پینے کی اشیا کی طلب بڑھ رہی ہے، لیدر مصنوعات کا شمار لگژری آئٹمز میں کیا جاتا ہے اور تمام لگژری آئٹمز کی فروخت متاثر ہوئی ہے۔

جیسے جیسے دنیا میں ویکسی نیشن ہو رہی ہے تجارتی سرگرمیاں بحال ہو رہی ہیں جس سے لیدر کی طلب بڑھنے کی امید ہے لیکن 3 سے 4 سال کی سطح کی بحالی میں کافی وقت لگے گا انھوں نے بتایا کہ لیدر کی طلب کم ہونے کی وجہ سے پاکستان میں کئی بڑی ٹینریز بند ہوچکی ہیں جن میں تاجر رہنما ایس ایم منیر کی ٹینری بھی شامل ہے اس وقت ملک بھر میں30 فیصد ٹینریز میں کام مکمل طور پر بند ہے جبکہ باقی ٹینریز بھی پیداواری استعداد سے کم پر چل رہی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں