مسلمانوں سے امتیازی سلوک امریکی معاشرے کی لاعلاج بیماری
2017 سے 2018 تک امریکی مسلمانوں کی ملک سے اطمینان کی شرح صرف 27 فیصد رہ گئی
امریکا ہمیشہ اپنے آپ کو ''انسانی حقوق کا عالمی محافظ'' کہتا ہے لیکن اس نے طویل عرصے سے اپنے ہی ملک میں مسلمانوں سے امتیازی اور غیر منصفانہ سلوک کی حقیقت کو نظرانداز کیا ہے اور مذہبی عقیدے کی آزادی کی راہ ترک کی ہے۔
اکیسویں صدی کے آغاز سے، امریکا میں ''اسلامو فوبیا'' وقتاً فوقتاً سامنے آ رہا ہے۔ ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی بھی مسلمانوں کو سیاسی ووٹ حاصل کرنے کے آلے کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔
نائن الیون کے بعد سے امریکیوں کی اکثریت بتدریج مسلمانوں کے خلاف خوف، عدم اعتماد، حتی کہ شدید نفرت میں مبتلا رہی ہے جس کی تصدیق ایف بی آئی کی رپورٹ سے بھی ہوتی ہے۔
2001 میں، نائن الیون کے بعد، امریکا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں 1,600 فیصد اضافہ ہوا۔
نام نہاد ''اسلامو فوبیا کی صنعت'' بھی آہستہ آہستہ امریکا میں فروغ پاتی رہی ہے۔ امریکا میں بہت سے اسلام دشمن، مسلمانوں کے خلاف کتابیں شائع کرنے، بلاگ لکھنے، اسلام مخالف انٹرویوز و تبصرے کرنے اور غلط معلومات کی تشہیر کرنے میں مصروف ہیں جو عام مسلمانوں کو غنڈہ، تشدد پسند اور امریکا مخالف بنا کر پیش کرتے ہیں۔
2017 سے 2018 تک امریکی مسلمانوں کی ملک سے اطمینان کی شرح صرف 27 فیصد رہ گئی۔ اس کے علاوہ متعلقہ سروے میں جواب دہندگان میں سے 44 فیصد نے کہا کہ ایئرپورٹ پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا، 33 فیصد کا کہنا تھا کہ ملازمت کےلیے درخواست دیتے وقت ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے جبکہ 31 فیصد نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تبادلے میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔
غرض یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف یک طرفہ، مسخ شدہ اور تنگ نظری کی جڑیں امریکی معاشرے میں کتنی گہری ہیں۔
20 سال سے امریکی معاشرے میں مسلم مخالف جذبات کا مطالعہ کرنے والے ایک اسکالر نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انتخابات کے دوران ری پبلکن پارٹی کی جانب سے پھیلایا جانے والا اسلاموفوبیا عروج پر ہوتا ہے اور ڈیموکریٹس اسلامی ممالک کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے کے موقع پراس خوف کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تاکہ ان جنگوں کےلیے بہانہ تلاش کیا جاسکے۔
اکیسویں صدی کے آغاز سے، امریکا میں ''اسلامو فوبیا'' وقتاً فوقتاً سامنے آ رہا ہے۔ ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی بھی مسلمانوں کو سیاسی ووٹ حاصل کرنے کے آلے کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔
نائن الیون کے بعد سے امریکیوں کی اکثریت بتدریج مسلمانوں کے خلاف خوف، عدم اعتماد، حتی کہ شدید نفرت میں مبتلا رہی ہے جس کی تصدیق ایف بی آئی کی رپورٹ سے بھی ہوتی ہے۔
2001 میں، نائن الیون کے بعد، امریکا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں 1,600 فیصد اضافہ ہوا۔
نام نہاد ''اسلامو فوبیا کی صنعت'' بھی آہستہ آہستہ امریکا میں فروغ پاتی رہی ہے۔ امریکا میں بہت سے اسلام دشمن، مسلمانوں کے خلاف کتابیں شائع کرنے، بلاگ لکھنے، اسلام مخالف انٹرویوز و تبصرے کرنے اور غلط معلومات کی تشہیر کرنے میں مصروف ہیں جو عام مسلمانوں کو غنڈہ، تشدد پسند اور امریکا مخالف بنا کر پیش کرتے ہیں۔
2017 سے 2018 تک امریکی مسلمانوں کی ملک سے اطمینان کی شرح صرف 27 فیصد رہ گئی۔ اس کے علاوہ متعلقہ سروے میں جواب دہندگان میں سے 44 فیصد نے کہا کہ ایئرپورٹ پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا، 33 فیصد کا کہنا تھا کہ ملازمت کےلیے درخواست دیتے وقت ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے جبکہ 31 فیصد نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تبادلے میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔
غرض یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف یک طرفہ، مسخ شدہ اور تنگ نظری کی جڑیں امریکی معاشرے میں کتنی گہری ہیں۔
20 سال سے امریکی معاشرے میں مسلم مخالف جذبات کا مطالعہ کرنے والے ایک اسکالر نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انتخابات کے دوران ری پبلکن پارٹی کی جانب سے پھیلایا جانے والا اسلاموفوبیا عروج پر ہوتا ہے اور ڈیموکریٹس اسلامی ممالک کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے کے موقع پراس خوف کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تاکہ ان جنگوں کےلیے بہانہ تلاش کیا جاسکے۔