یہ انداز گفتگو کیا ہے

ایڈیٹوریل  منگل 20 جولائی 2021
’’زباں بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا ‘‘ تک نوبت آپہنچی ہے۔ فوٹو: فائل

’’زباں بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا ‘‘ تک نوبت آپہنچی ہے۔ فوٹو: فائل

خطے میں سیاست کی آگ دہک رہی ہے، ملک کے بالغ نظر اور علم دوست حلقے اس لہر کا ابھی تک صرف تشویش ناک نظروں سے جائزہ لے رہے ہیں جو سیاسی فرسٹریشن کے باعث سیاست دانوں کو یرغمال بنانے کے کسی پراسرارکھیل کا حصہ ہے یا فکری، نظریاتی اور دانشورانہ مکالمہ سے اہل سیاست کا دل ہی اچاٹ ہوگیا ہے اور انھیں جمہوری رویوں کے مین اسٹریم سے الگ رکھنے والے عناصر اپنے انداز سیاست کی کامیابی پر جشن مرگ سیاست منا رہے ہوں گے کیونکہ ایسی سیاسی تربیت تو ملکی سیاسی تاریخ کے کسی دور میں قابل قدر نہیں سمجھی گئی۔

ہماری سیاسی تاریخ کے اوراق سیاسی اختلافات سے لبریز ہیں، یہ بنتی، ٹوٹتی اسمبلیوں کی داستانیں کوئی نئی بات نہیں، سیاست دانوں کے درمیان بقول شخصے ’’ باون گزے ‘‘ ہر دور میں رہے ہیں، سیاست کے راز داروں کا کہنا ہے کہ یہ شعلے شعوری طور پر دہکائے جارہے ہیں، لہجے کی گراوٹ، بد تہذیبی کے نئے نئے ریکارڈ قائم کیے جارہے ہیں، مرزا غالب نے گفتگو کے معیار سے گرنے پر دلی تکلیف کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ توکیا ہے؟

تمہیں کہو! کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے ؟

لیکن غالب کو ادراک تھا ، وہ اپنے دور کے حسیں تجربات ، لہجے کی کاٹ ، رد عمل میں شائستگی کے حسن سے آگاہ تھے، اس لیے انھیں میر کی موجودگی کا شعور ایک عصری حقیقت کے طور پر انھیں احساس دلاتا تھا کہ وہ اکیلے ریختہ کے استاد نہیں ہیں۔

کیونکہ میر کے شہنشاہ تغزل ہونے کی سچائی ان کے شعور میں موجزن تھی، افسوس کہ یہ دانش و حکمت ہمارے سیاست دانوں میں نظر نہیں آتی، ایک سینئر خاتون سفارت کار، صحافی نے اپنے اظہاریے میں جس دکھ کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے قائدین کی تقاریر میں لسانی گراوٹ، سوچ کے بحران، اظہار رائے کی پستیوں کا حوالہ دیا ہے اسے بلاشبہ ملکی تاریخ میں آزادی اظہار سیاست کی سیاہ دن قرار دینا غلط نہ ہوگا، کبھی کسی نے سوچا نہ ہوگا کہ جس روش، لہر، ایجنڈے کو جمہوری عمل میں آج ایک سیاسی، پارلیمانی اور فکری ضرورت کے طور پر شامل کیا گیا ہے وہ ہماری نفرت آمیز سیاسی نفسیات بنتی چلی جارہی ہے۔

’’زباں بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا ‘‘ تک نوبت آپہنچی ہے، غیر سیاسی ڈکشن کا ایک معیار تو داغ دہلوی نے پیش کیا تھا جب وہ بپھر کے کہتے ہیں کہ ’’جلا کے خاک نہ کردوں تو داغ نام نہیں‘‘ شائستگی اس ادبی دور کی پہچان تھی، بڑے قادرالکلام شعرا نے شاعروں پر پھبتیاں کسی ہیں، ادبی چشمک زنی سے ہمارا ادبی اثاثہ کسی بوم میرٹھی کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا وہ معروف و مسلمہ ادبی مجلسوں میں فحش گوئی یا لچر پن اور vulgarity کو ٹاک آف دی ٹاؤن بنائے، مگر سیاستدانوں کو آج کیا ہوگیا ہے۔

میڈیا کے فہمیدہ، شائستہ قلم کاروں نے کبھی بھی پرنٹ میڈیا کو ایسی بے لگامی کی اجازت نہیں دی، اہل صحافت نے حق بات کو اس عہد کی صحافت کی آبرو سے تعبیر کیا تو سوال یہ ہے کہ سیاسی اختلاف کو ذومعنی فقروں، گھٹیا اور پست طنز و طعنے کا اِذن کس طرح ملا، ہمارے سنجیدہ، اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاسی رہنما اس ٹریپ میں کس طرح آگئے، جن سے قوم یہ آس لگائے بیٹھے تھی کہ ہماری قومی، صوبائی اسمبلیاں اور سینیٹ سے رول ماڈل نکلیں گے، سیاست دان جب کسی ایشو پر پارلیمنٹ میں بیان دیں گے تو ان کے الفاظ انمول موتی کی دانوں کی طرح چنے جائیں گے۔

مورخ اہل سیاست کو خوب صورت ناموں سے یاد کریں گے، وہ جب قانون سازی کریں گے تو ان کی لیڈر شپ کا انداز نظر قوم کے لیے ایک نصابی مقام و مرتبہ کا حامل ہوگا، عالمی مقام کے بے شمار سیاست دان عالمی افق پر آج بھی موجود ہیں، صدر جوبائیڈن ایک طرف تھے اور ان کے مقابل ڈونلڈ ٹرمپ دوسری جانب سرگرم عمل تھے، دو اسکول آف سیاست دنیا کے سیاسی کھیل کے اہم ایکٹر تھے، لیکن آج ٹرمپ اپنی تمام تر بے منزل سیاسی گرم بازاری کے ساتھ قصہ پارینہ بن چکے، مگر جوبائیڈن نے اپنی سنجیدہ، بردبار اور علمی طرز سیاست سے امریکی قوم کے دل میں گھر کرلیا، انھوں نے عالمی سیاست دانوں سے توقعات رکھنے والوں کو مایوس نہیں کیا۔

انھوں نے انتہائی مشکل ترین وقت میں امریکا کو انتخابی مہم سے گزارا، سیاسی پنڈتوں کا کہنا تھا کہ ٹرمپ بازی جیت لے گا لیکن جوبائیڈن نے در حقیقت اپنے سیاسی تجربات، بصیرت، حکمت و تدبر۔ روشن خیالی، خرد مندی اور قومی درد کو امریکیوں کے سامنے رکھا، وہ اسی مسلک، مشن اور سیاسی روش پر کاربند رہے جو وڈرو ولسن، تھامس جیفر سن، جان ایف کینیڈی اور بارک اوباما کا سیاسی وژن تھا، تاریخ نے سبق دیا کہ کوئی کتنا زیرک، سمجھدار صدر ہو اگر اسے واٹر گیٹ کی تباہ کاریوں کا ادراک نہ ہو تو تاریخ ایسے شخص معاف نہیں کرتی چاہے وہ صدر نکسن کیوں نہ ہو، لیکن افسوس ہے کہ ہمارے اہل سیاست نے گزشتہ دو عشروں میں سیاست کو متاع کوچہ وبازار بنا دیا۔

وہ گالیاںجو لوگ گلی کوچوں، محلوں، بازاروں اور باہمی جھگڑوں میں ایک دوسرے کو دیتے تھے، وہ ٹی وی ٹاکس، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں یہ رسم ایجاد ہوئی ہے، بجٹ کی کاپیاں ایک دوسرے پر پھینکی گئیں، کسی کو بھی الزام لگا دینا اب مشکل نہیں، یہاں تک کہ ارکان اسمبلی ٹی و ی ٹاکس میں جسے کھرکھری سنانا ہوتی پہلے اسے بڑا بھائی کہتے، اس کی عزت و توقیر کا قصیدہ پڑھتے پھر جو ان کے خلاف بولتے، دیکھنے سننے والے حیران رہ جاتے، یہ ڈاکو، چور، جھوٹے، کرپٹ اور اس سے بھی سخت اور غیر پارلیمانی الفاظ آجکل چھوٹی اسکرین پر سنائی دیتے ہیں، یہ بھی وبا ہے، یہ کورونا ڈیٹا سے زیادہ تباہ کن اور دل گرفتگی میں طرز تکلم سے بہت آگے ہے، بات یہ ہے کہ گفتگو کا کلچر غیر لائسنس یافتہ نہیں ہونا چاہیے۔

کسی نے چواین لائی کو ایسی زبان استعمال کرتے دیکھا تھا، چینی صدر شی نے ایسی تقریر کی ہو تو کوئی نظیر پیش کی جائے، قائد اعظم کے ساتھیوں کے لب ولہجے کیا سیاست دانوں کو یاد نہیں آتے۔ ایسی بے لگامی کس نے ایجاد کی، ہماری سیاست کو بے آبرو کرنے والے ذرا ان غیر ملکی سیاست دانوں مدبروں کے اختلاف، طنز اور شگفتہ چوٹ کا معیار دیکھ لیں، جس میں ایک خاتون سیاست دان چرچل سے کہتی ہیں کہ اگر ’’تم میرے شوہر ہوتے تو میں تمہیں زہر دے دیتی‘‘ چرچل نے پلٹ کر جواب دیا کہ ’’اگر میں تمہارا شوہر ہوتا تو یہ زہر خوشی سے پی لیتا۔‘‘کیا ہم اب میکاولی کو اپنا استاد بنائیں گے۔

وہ کریں گے جو وہ کہہ چکے، سیاست دانوں نے جوش خطا بت میں کیا کیا نہ جفائیں سیاسی حریفوں پر کسیں، کیسے کیسے شرم ناک الزامات نہ لگائے، سیاست کے طالب علموں کے لیے تند و تیز بیانات، گالم گلوچ زہر قاتل ہے، اس سے عوام کو رائے بنانے میں زیادہ دقت نہیں ہوگی کہ ہمارے سیاست دانوں کی کھیپ اپنے علمی پس منظر کے اعتبار قابل تعریف سیاسی گھرانوں، بڑے تہذیبی، فلسفیانہ ورثہ کے حامل نہیں اور دبستانوں سے تعلق نہیں رکھتے، ان کا یہی مائنڈ سیٹ اتنا ہی محدود علمی رویہ اور جمہوری تربیت ہے، کتنا الم ناک الزام ہوگا، اس پر سیاست دانوں کو ضرور سوچنا چاہیے۔

لسانی آوارگی کے سیاسی وائرس کو بھی کسی ویکسین کی ضرورت ہے،حقیقت یہ ہے کہ آتش دہنی نے جمہوریت کے منتخب ایوان کے تقدس کو سوالیہ نشان بنالیا ہے اور علمی گفتگو کی جمالیات سیاست دانوں کے آتشیں بیانات، ہولناک ذاتی الزامات اور دل آزاری پر مبنی پریس کانفرنسیں سیاست کے تاریخی تناظر سے لاتعلقی کا درد ناک منظر نامہ پیش کررہی ہیں، سویلین بالادستی کے بیانیے بھی غیر سویلین پیرائے میں پیش کیے جاتے ہیں، جو سیاسی دیوالیہ پن ایک دردناک حوالہ ہیں۔

لمحہ فکریہ یہ بھی ہے کہ آزاد کشمیر کی انتخابی گہماگہمی میں اسلام آباد میں افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا اور تشدد کا واقعہ ہوگیا ہے۔ افغان حکومت نے سفارتی عملے کو واپس بلانے کا اعلان کردیا ہے۔ دوسری طرف پاکستان نے افغان حکومت کے اس فیصلے کو بدقسمتی اور افسوسناک قراردیا ہے۔ اتوار کو وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے حکم پر اس واقعے کی تحقیقات کی جارہی ہے۔ پاکستان میں افغان سفیر، ان کے خاندان اور سفارتی عملہ کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ سیکریٹری خارجہ نے اس حوالے سے افغان سفیر کے ساتھ ملاقات کی ہے اور انھیں حکومت کی طرف سے ان کے تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات سے آگاہ کیا ہے۔

افغان سفیر کو ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا گیا ہے۔ دفتر خارجہ کے بیان میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ افغان حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے گی۔ دوسری طرف وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اتوار کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس واقعے کو بھارتی خفیہ ایجنسی را کی سازش قراردیا۔ اس واقعے میں گنجینۂ معنی کا طلسم چھپا ہوا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔