ممنون حسیندرویش قصرِ شاہی دوسرا اور آخری حصہ
ممنون صاحب کے سامنے جب یہ معاملہ آیا تو انھوں نے حکومت کی خواہش کے برعکس فیصلہ دیا۔
ممنون صاحب کے زمانے کا ایوان صدر قومی تاریخ کا منفرد ایوان صدر تھا۔ پاکستان کے سب سے بڑے دفتر میں کام کرنے والے اہل کار، افسر اور کارکنان بتاتے ہیں کہ اس ایوان کی تین چار دہائیوں کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ اس کے کارکنوں نے خود کو ایک خاندان کا حصہ محسوس کیا جس کے سربراہ خودصدر مملکت تھے ۔ رشتے کا یہ احساس ان لوگوں کے اہل خانہ اور بچوں تک پھیلا ہوا تھا۔
ہمارے سیاسی ماحول میں بدگمانی کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ صدارت کے لیے ممنون صاحب کے انتخاب کو کسی اور نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں۔یہ درست ہے ممنون صاحب کے زمانے میں ایوان صدر ماضی کی طرح سازشوں کا گڑھ نہیں بنا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے فیصلے ہمیشہ اپنے ضمیر اور قانون کے مطابق کیے جس کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جن میں ایک پارلیمنٹیرینز کی ایوان میں حاضری کا معاملہ بھی تھا جسے ہمیشہ خفیہ رکھا جاتا تھا اور کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ کون سا پارلیمنٹیرین سال میں کتنے دن ایوان میں حاضر ہوا۔
یہ معاملہ طویل عرصے سے زیر بحث تھا لیکن اس پر فیصلہ کوئی نہیں ہوتا تھا۔ ممنون صاحب کے سامنے جب یہ معاملہ آیا تو انھوں نے حکومت کی خواہش کے برعکس فیصلہ دیا۔ یوں دہائیوں سے راز میں رہنے والا یہ معاملہ اب عوام کی دسترس میں آچکا ہے اور وہ اپنے نمایندوں کی کارکردگی کا جائزہ لے سکتے ہیں۔
یہ ممنون صاحب ہی کا زمانہ تھا جب صدر مملکت کا صواب دیدی بجٹ ذاتی اور سیاسی مدات پر خرچ ہونے کے بجائے قومی مقاصد پر خرچ کیا جانے لگا جیسے کراچی میں انجمن ترقی اردو کی عمارت کی تعمیر جس کا خواب گزشتہ پون صدی سے شرمندہ تعبیر نہیں ہو رہا تھا۔ اسی طرح شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی میں ٹیلی ویژن لیبارٹری کا قیام جس کے لیے حکومت سندھ سے کئی دہائیوں سے وعدوں کے باوجود امداد نہیں مل رہی تھی، میری درخواست پر ممنون صاحب نے اپنے صوابدیدی فنڈ سے اس کے لیے رقم مہیا کر دی، آج جامعہ کراچی کے بچے الیکٹرانک میڈیا کی عملی تربیت اس لیبارٹری میں حاصل کر تے ہیں جس کا کریڈٹ صرف انھیں کو جاتا ہے۔
سپریم کورٹ نے اردو کو دفتری زبان بنانے کا فیصلہ کیا تو یہ ایوان صدر ہی تھا جس میں سب سے پہلے اس پر عمل درآمد ہوا۔ سربراہان مملکت کی سطح کے بیرونی وفود سے مذاکرات اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں اردو تقریروں کا سلسلہ وہ میری درخواست پر بہت پہلے شروع کر چکے تھے۔ اسی طرح یہ بھی ان ہی کے دور میں ہوا کہ ایوان صدر کے مختلف ہال اور اہم کمرے قومی مشاہیر سے موسوم کردیے گئے۔اس سے پہلے کسی کمرے کو پنک روم کے نام سے پکارا جاتا تھا اورکسی کو بلیو روم اور کسی کوکچھ اور سے۔
یہ بھی ممنون صاحب ہی کا انی شی ایٹو تھا کہ فن کاروں کے لیے وفاقی حکومت کے فنڈ سے معذور اور مستحق فن کاروں کے علاج اور دیگر ضروریات پوری کرنے کے سلسلے میں باقاعدگی پیدا ہوئی اور اس فنڈ کو ایک مستقل صورت دی گئی۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے بڑے پیمانے پر عطیات جمع کر کے بھی اس فنڈ کو مضبوط بنایا۔
یہ کارنامہ بھی ان ہی کے زمانے میں ہوا کہ اخراجات میں ایک چوتھائی کے قریب بچت شروع ہوئی اور ایوان صدر کے بجٹ میں کمی کی گئی۔ یہاں تک کہ اپنی ذات پر اٹھنے والے اخراجات کی بھی انھوں نے کڑی نگرانی کی۔ ایک بار میڈیا اور سوشل میڈیا میں اس طرح کی خبریں اور تصویریں شایع ہوئیں کہ ان کا لباس ان کے منصب کے شایان شان نہیں۔ میں نے ان کی توجہ اس جانب دلائی تو ہنس کر کہنے لگے کہ لوگوں سے کہہ دو کہ وہ چوہتر برس کا بڈھا ہے، اس کے کپڑے ایسے ہی رہیں گے۔
نائیجریا سے واپسی پر استنبول میں قیام کے دوران ان کے سیکریٹری جناب احمد فاروق انھیں ایک بڑے مال میں لے گئے جہاں سیل چل رہی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے لیے چند اچھے سوٹ خرید لیے جائیں۔ احمد فاروق صاحب کی خواہش پر وہ مال میں چلے تو گئے لیکن کپڑے خریدنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ان کا ضمیر اجازت نہیں دیتا کہ سرکاری خزانے سے وہ اپنی تراش خراش کو بہتر بنانے کے لیے بیرون ملک سے خریداری کریں۔
زیادہ اصرار پر یہ کہہ کر انھوں نے بات ختم کر دی کہ گھر میں کچھ کپڑا پڑا ہے، میں اسی سے ایک دو نئے سوٹ سلوا لوں گا۔ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے،ذاتی زندگی میں ان کی یہی سادگی اورقومی خزانے میں کفایت مالک حقیقی کی بارگاہ میں ان کے لیے آسانیاں پیدا کر رہی ہوگی ۔