آزاد کشمیر انتخابات لیکن کشمیر کہاں ہے

تینوں بڑی سیاسی جماعتیں کشمیر کے مسائل کے بجائے ایک دوسرے پر الزامات پر زیادہ فوکس کررہی ہیں

یہ سیاسی جماعتیں کشمیر کے حوالے سے کوئی روڈ میپ ہی نہیں رکھتیں۔ (فوٹو: فائل)

جلسے کےلیے پنڈال سج چکا ہے۔ سیاسی مخالفین خالی حصے جبکہ پارٹی کارکنان بھرے پنڈال کی ویڈیوز بنانے میں مصروف ہیں۔ پنڈال سے تھوڑی دور نوے برس سے زائد کے ایک بزرگ بیٹھے ہیں، جن کی کمر جھکی ہے، چہرے پر موجود جھریوں میں ایک تاریخ دکھائی دے رہی ہے۔ وہ بار بار لاٹھی زمین پر مار رہے ہیں۔ الیکشن تو ہورہے ہیں مگر کشمیر کہاں ہے؟ نعرے اور الزامات عائد کیے جارہے ہیں، مگر کسی کے پاس کشمیر کے حل کا روڈ میپ نہیں ہے۔ سبھی ایک دوسرے پر کشمیر فروشی کا الزام عائد کررہے ہیں مگر کشمیر کی آزادی کی بات کوئی کیوں نہیں کررہا؟ ان کے جملے میرے دل کو چھو گئے۔ میں بھی سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ الیکشن میں میرا کشمیر غائب کہاں ہوگیا؟

آزاد کشمیر انتخابات میں گہماگہمی عروج پر ہے۔ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بڑے عوامی جلسے منعقد کررہی ہیں۔ قانون سازی اسمبلی کے الیکشن میں تینوں بڑی سیاسی جماعتیں کشمیر کے مسائل کے بجائے ایک دوسرے پر الزامات پر زیادہ فوکس کررہی ہیں۔ آزاد کشمیر انتخابات میں الیکشن کمپین کبھی بھی ایسے نہیں چلائی گئی۔ خطے میں اس سے قبل ایسی گہماگہمی نہیں دیکھی گئی۔ قبل ازیں اس انداز میں کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنی مہم نہیں چلائی۔ کشمیر میں اس سے قبل الیکٹیبلز کے نام پر سیاست ہوتی رہی ہے۔ وفاق میں موجود سیاسی جماعت اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے الیکٹیبلز کے ذریعے اپنی حکومت بنا لیتی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اس بار کشمیر انتخابات میں گہماگہمی کیوں ہے؟ تمام سیاسی جماعتوں کےلیے آزاد کشمیر انتخابات اہم کیوں ہیں؟ کیا قانون ساز اسمبلی کے نتائج اس بار تاریخ بدل پائیں گے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ کشمیر انتخابات کا ملکی سیاست پر کیا اثر ہوسکتا ہے؟ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنے بیانیے کو کتنا مقبول بناسکتی ہیں؟

آزاد کشمیر الیکشن مہم کے دوران سیاسی قیادت کے بیانات میں سختی اور انتخابی مہم میں شدت گزشتہ ایک برس کے دوران ملکی سیاست میں پیش آنے والے واقعات کے باعث انتہائی اہم ہے۔ پی ڈی ایم کی لڑائی ہو یا حکومت کو گھر بھیجنے کے دعوے، قبل از وقت انتخابات کے دعوے ہوں یا ڈیل اور ڈھیل کے بیانیے، تمام سیاسی جماعتیں کشمیر انتخابات کی بنیاد پر پاکستان میں رائے عامہ ہموار کرسکتی ہیں۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے مریم نواز شریف انتخابی مہم چلا رہی ہیں جبکہ وزیراعظم پاکستان بنفس نفیس اپنے امیدواروں کی انتخابی مہم میں شریک ہیں۔ باغ، بھمبر اور میرپور کے بعد مظفرآباد میں وزیراعظم جلسے کر رہے ہیں، جنہیں آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں قبل از انتخابات دھاندلی قرار دے رہی ہیں۔

بیان بازی کے داؤ پیچ کے ذریعے سیاسی حریفوں کو پچھاڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن قانون ساز اسمبلی کی تاریخ میں پہلی بار الزامات کے دوران اخلاقیات کی دھجیاں بکھیری گئیں۔ دلیل کا جواب انڈے، جوتے، ٹماٹر، پتھر اور ہوائی فائرنگ کے ذریعے دیا گیا۔ یہ سلسلہ وفاقی وزیر امور کشمیر علی امین گنڈہ پور کے میرے ہی علاقے فاروڈ کہوٹہ میں کیے گئے خطاب کے ساتھ شروع ہوا۔ کشمیر کی تاریخ میں محبت کے پھولوں کی جگہ نفرت کے کانٹے بو دیے گئے۔ وزیر موصوف کی آڈیوز لیک ہوئیں جسے سن کر ریاست بھر میں نفرت کا آتش فشاں ابلنے لگا۔ وفاقی وزیر پر جوتے پھینکے گئے، انڈوں اور ٹماٹروں سے قافلے کو نشانہ بنایا گیا۔ اسی دوران وزیر موصوف کے گارڈز اور کزن نے نہتے شہریوں پر فائرنگ کردی، جس کے بعد پی ٹی آئی کے قافلے پر پتھراؤ کیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے چیف سیکریٹری کو ہدایت جاری کی کہ علی امین گنڈہ پور کو آزاد کشمیر سے نکال دیا جائے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ موصوف کا جمعے کو آخری جلسہ تھا، اس سے پہلے الیکشن کمیشن کو نقص امن کا خیال کیوں نہ آیا؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ جلسوں میں نوٹ تقسیم کرنے پر الیکشن کمیشن خاموش تماشائی کیوں بنا رہا؟ سوال یہ ہے کہ کشمیر انتخابات میں خرید و فروخت کے مقاصد کیا ہیں؟


محترم وزیر امور کشمیر! آپ نے کشمیری عوام کو پاکستانی اپوزیشن سمجھا، جنہیں احتساب کے ذریعے انتقام کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ جن کی ہمدردیاں ہیلی کاپٹرز کی سواری کے ذریعے خریدی جاسکتی ہیں۔ جنہیں مفادات کا لالچ دے کر اپنے بس میں کیا جاسکتا ہے۔ حضور والا! آپ کا انتخابی حلقہ بھی پختون بیلٹ سے ہے۔ آپ کو تو علم ہونا چاہیے کہ کوہستان نشین کا غرور پہاڑ سے بلند ہوتا ہے۔ یہ لڑنے میں تاخیر کرتے ہیں مگر جب انہیں للکارا جاتا ہے تو یہ تباہی برپا کردیتے ہیں۔ انہیں اپنی ثقافت، اپنا وقار اور عزت سب سے زیادہ عزیز ہے۔ اگر آپ اپنے سیاسی مفادات کےلیے ان تین چیزوں پر حملہ کریں گے تو یہ لوگ تہذیب کی بندشوں سے خود کو آزاد سمجھتے ہیں۔ اقدار کی بیڑیاں ان کی راہ نہیں روک سکتیں، مصلحتیں ان کے جذبات کے آگے بند باندھنے میں ناکام ہوجاتی ہیں۔

کشمیر میں انتخابات تو ہر پانچ سال بعد ہوتے ہیں، پاکستان میں جمہوریت ہو یا آمریت، کشمیر میں حکومت نے مدت پورا کرنا ہی ہوتی ہے۔ ایک دور تھا کشمیر میں لبریشن لیگ اور مسلم کانفرنس کا طوطی بولتا تھا۔ قائداعظم کے پرسنل سیکریٹری اور دیانت دار خورشید حسن خورشید قانون ساز اسمبلی میں قائد ایوان ہوا کرتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد سردار ابراہیم، چوہدری غلام عباس اور سردار عبدالقیوم کے درمیان رسی کشی شروع ہوگئی۔ اسی دوران پاکستان پیپلز پارٹی نے آزاد کشمیر میں انتخابات میں مداخلت کی ابتدا کی، جس کے بعد آزاد کشمیر میں انتخابی دھاندلی، الیکٹیبلز سیاست اور مفاد پرستی کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، جسے روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔

علی امین گنڈہ پور کے متنازعہ بیانات ہوں یا وزیراعظم پاکستان کی پرانی تقاریر کی رپیٹ ٹیلی کاسٹ، مریم نواز کا کشمیر کی بیٹی کا منجن ہو یا بلاول کے بعد فریال تالپور اور آصفہ کی انٹری، کشمیری عوام کی تقدیر پہلے بدلی ہے اورنہ ہی آئندہ اس میں تبدیلی کے کوئی امکانات ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کشمیر کے سیاسی میدان میں پنجہ آزمائی 2023 کے انتخابات کی مشق ہے۔ 'جو جیتا وہی سکندر' کے مصداق کشمیریوں سے زیادہ تمام سیاسی جماعتوں کو اسلام آباد اہم ہے۔

الیکشن کے نتائج جو بھی ہوں، کشمیر میں تبدیلی آئے یا قانون ساز اسمبلی انتخابی نتائج میں کوئی بڑا اپ سیٹ ہو۔ کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے، کیونکہ جو سیاسی جماعتیں کشمیر کے حوالے سے کوئی روڈ میپ ہی نہیں رکھتیں، جن کا کوئی نصب العین ہی نہیں ہے، وہ کشمیریوں کی تقدیر کیسے بدلیں گی؟

آزاد کشمیر انتخابات تو بس وارم اپ میچ ہے۔ جہاں امپائر پاکستانی عوام ہیں اور تماشائی سیاسی جماعتیں۔ 25 جولائی کو رسمی کارروائی ہوگی، کشمیریوں کے چہرے پر جھریاں بنتی جائیں گی، کمر جھکتی جائے گی اور کشمیر ایسا ہی رہے گا اور کشمیر کو شِیر سمجھ کر یونہی نچوڑا جاتا رہے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story