بااختیار ایڈمنسٹریٹر کا ناکام تجربہ
کراچی مسائل کا شہر ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ نئے نئے مسائل پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کو کراچی کا ایڈمنسٹریٹر بنانے پر غور ہورہا ہے۔
بلدیات کے وزیر سید ناصر شاہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کو بلدیہ کراچی کا ایڈمنسٹریٹر بنانے کے لیے تیار ہے، یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ اس بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ مرتضیٰ نوجوان اور فعال ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔
ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں اورکراچی کے باسی ہیں۔ بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا تعلق ایک ترقی پسند خاندان سے ہے، ان کے والد وہاب صدیقی کا شمار 70ء کی دہائی کے این ایس ایف کے شعلہ بیان مقررین میں ہوتا تھا۔ وہاب صدیقی بنیادی طور پر صحافی تھے اور 80ء کی دہائی میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی آزادئ صحافت کی تحریک میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں مگر ابھی انھیں زندگی کی بہت سے بہاریں دیکھنی تھیں کہ اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔
ان کی والدہ فوزیہ وہاب کراچی یونیورسٹی میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم پروگریسو فرنٹ کی فعال کارکن تھیں، پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی رفیق بنیں۔ 2008 میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت میں فوزیہ وہاب نے اہم کردار ادا کیا مگر ایک معمولی آپریشن کے دوران نہ جانے کس کی غفلت سے موت کا شکار ہوگئیں۔
مرتضیٰ وہاب برطانیہ سے بیرسٹری کی سند لے کر آئے اور اپنی والدہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پیپلز پارٹی میں متحرک ہوئے مگر ان کے ممکنہ طور پر بلدیہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے کامیابی کے امکانات کو نتیجہ اخذ کرنے سے پہلے ماضی کی تاریخ کا جائزہ لینا پڑے گا۔
فہیم الزماں کراچی یونیورسٹی میں پروگریسو فرنٹ، بائیں بازو اور قوم پرست طلبہ کے ایک متحدہ محاذ (U.S.M) میں متحرک رہے، پھر وہ امریکا چلے گئے تھے جہاں انھوں نے پائلٹ کی تربیت حاصل کی۔ اس وقت این ایس ایف کے ایک سابق رہنما اور این ای ڈی یونیورسٹی کے استاد پروفیسر نعمان احمد بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے تھے ، فہیم اور پروفیسر محمد نعمان ساتھ مل کر سماجی تحریکوں میں شامل ہوئے اور ترقی کے مختلف ماڈل کے پاکستانی معاشرہ پر عملدرآمد کے بارے میں تحقیق کرتے رہے۔
پاکستان آکر پہلے ایدھی ایئر ایمبولینس کو منظم کیا۔ 1993کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی اس وقت کی شریک چیئرپرسن بے نظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم بنیں۔ بے نظیر بھٹوکراچی میں پیدا ہوئیں ، ان کا بچپن اور جوانی کراچی میں گزرا ، وہ کراچی کی ترقی کے بارے میں خاص دلچسپی رکھتی تھیں، ان کی نظر فہیم الزماں پر پڑی۔ یوں فہیم الزماں کو بلدیہ کراچی کابااختیارایڈمنسٹریٹر مقررکیاگیا۔ فہیم الزماں نے Urbanization کا گہرا مطالعہ کیا ہوا ہے۔ انھوں نے دنیا بھر کے بڑے شہروں کو دیکھا اور ان کی ترقی کے ماڈل کا مطالعہ کیا ہے۔
یوں فہیم الزماں کو ایک مکمل بااختیار ایڈمنسٹریٹر بنا دیا گیا۔ کراچی کی ترقی کے لیے کام کرنے والی دیگر ایجنسیاں (جو صوبائی حکومت کے کنٹرول میں ہیں)کے ڈی اے، کے بی سی اے اور واٹر بورڈ ان کے کنٹرول میں دے دیے گئے۔ فہیم الزماں نے مارکسٹ دانشور پروفیسر محمد نعمان کو ایڈوائزر مقررکیا۔ فہیم الزماں اور پروفیسر محمد نعمان کے سامنے کراچی کی ترقی کے لیے بہت سے منصوبے تھے۔ ان منصوبوں میں پل ، اوورہیڈ برجز کی تعمیر، پبلک ٹرانسپورٹ کا جدید اور سستا نظام کا قیام، کراچی میں صفائی کے جدید طریقوں اور ہر گھر میں پانی کی فراہمی کی اسکیمیں تھیں۔
انھوں نے شہر سے کوڑا دور دراز علاقوں میں ٹھکانے لگانے کے لیے مال گاڑی کا استعمال ، ناقص عمارتوں کی تعمیر کے لیے بین لاقوامی ضابطہ کی پابندی جیسے منصوبے شامل تھے۔ فہیم الزماں اور پروفیسر محمد نعمان سے سیاسی اختلاف کرنے والے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر کسی فرد کو فہیم الزماں اور پروفیسر محمد نعمان کی ایمانداری اور شفافیت پر کبھی شک نہیں ہوا ، یوں فہیم الزماں نے شہرکے بنیادی انفرا اسٹرکچر کو تبدیل کرنے کے لیے بہت سے منصوبے بنائے اورکچھ منصوبوں پرکام کا آغاز کیا۔
اس زمانہ میں ایم کیو ایم کے جنگجومتحرک تھے اورکراچی میں ایک آپریشن جاری تھا مگر فہیم کے کئی منصوبے آگے بڑھے گوکہ کبھی بیوروکریسی اور کبھی سیاسی قیادت کے مفادات آڑے آتے رہے۔ جب فہیم الزماں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ وہ اس عہدے پر رہنے کے لیے روزانہ سمجھوتے کریں یا مستعفی ہوجائیں تو پھر آخرکار فہیم الزماں اور پروفیسر محمد نعمان اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور بااختیار ایڈمنسٹریٹرکا تجربہ ناکام ہوا۔
کراچی مسائل کا شہر ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ نئے نئے مسائل پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔ کراچی کی آبادی میں سالانہ 2 فیصد کے قریب اضافہ ہوتا ہے مگر آبادی کے دباؤ کے باوجود وسائل میں اضافہ نہیں ہوتا۔
ایک سروے کے مطابق کراچی میں بلدیہ کے علاوہ دو درجن سے زائد ادارے بلدیاتی فرائض انجام دیتے ہیں۔ کراچی کا تناسب کے اعتبار سے زیادہ حصہ کنٹونمنٹ کے دائرے میں آتا ہے۔ کنٹونمنٹ کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں۔ پھرکہا جاتا ہے کہ گزشتہ 12 برسوں میں کراچی کے بنیادی مسائل کے حل پرکوئی کام نہیں ہوا۔ شہر کے بیشتر علاقوں کا سیوریج کا نظام ناکام ہوچکا ہے۔ شہر کی اہم شاہراہیںہوں یا چھوٹی سڑکیں یا گلیاں ہر طرف سیوریج کا پانی ہمیشہ نظر آتا ہے۔ روزانہ اخبارات میں مختلف شاہراہوں پر بہنے والے گندے پانی کی تصاویر شایع ہوتی ہیں۔
بعض علاقوں میں تو کئی مہینوں تک پانی جمع رہتا ہے۔ اس دور میں کوڑا اٹھانے کا کام ٹھپ ہوچکا ہے۔ کراچی کے بعض علاقوں میں کوڑے کے ڈھیر ٹیلوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ مرکزی شاہراہ پر کوڑا جمع ہونا معمول کی بات ہے، بیشتر آبادیوں کے مکینوں کو پانی نہیں ملتا۔ غریب لوگوں کو پانی خریدنا پڑتا ہے۔ ٹینکر مافیا کی سرپرستی مضبوط مافیازکرتی ہیں ، جن خوش نصیب خاندانوں کے نل پانی سے لبریز ہوتے ہی وہاں یہ شکایت عام ہے کہ گٹر کا پانی صاف پانی کی لائنوں میں مل جاتا ہے۔ کراچی میں بارشوں سے صرف بجلی ہی لاپتہ نہیں ہوتی بلکہ لوگوں کو گٹرکا پانی بھی استعمال کرنا پڑتا ہے۔
علاقہ مکین جب واٹر بورڈ کے عملہ سے شکایت کرتے ہیں تو واٹر بورڈ کے اراکین بتاتے ہیں کہ سیوریج اور صاف پانی کی لائن ٹوٹ پھوٹ گئی ہے۔ لائنوں کی تبدیلی کے لیے شکایات درج کرائی جاتی ہیں تو ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ فنڈز ختم ہوگئے اور دلیل مالیاتی سال کے آغاز سے مالیاتی سال کے اختتام تک دی جاتی ہے۔ یہ معاملہ ہمیشہ سے کیوں اتنا گھمبیر ہے واٹر بورڈ کے اعلیٰ حکام سے لے کر بلدیاتی عملے کے سینئر افسران حتیٰ کہ مجاز اتھارٹی سے جب یہ سوال کیا جاتا ہے تو جواب ایک ہی ہوتا ہے۔ بلدیات کے قوانین سے ادراک رکھنے والے جہاں دیدہ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک یونین کونسل کا ترقیاتی بجٹ اچانک لاپتہ ہونا سب سے بڑی کرپشن ہے۔
کراچی میں بلدیاتی امور کی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چند ماہ قبل بلدیہ ٹاؤن کے علاقے میں قومی اسمبلی کی ایک نشست کے لیے ضمنی انتخاب ہوا۔ اس انتخاب میں بحث سیاسی بیانیہ پر نہیں بلکہ پانی کی فراہمی اور سیوریج ، پانی کی نکاسی اور سڑکوں کی تعمیر سے متعلق تھی۔
بلدیہ ٹاؤن کے بارے میں جو رپورٹیں شایع ہوئیں ان کے مطالعہ سے پتہ چلا کہ چند سال قبل ایک بڑی پائپ لائن بچھائی جاچکی ہے مگر اس لائن کا پانی چوری ہوجاتا ہے اور اس لائن کے پانی سے ہائیڈرنٹ کا م کررہے ہیں جہاں سے ٹینکر پانی حاصل کرتے ہیں اور اسی علاقے میں فروخت ہوتا ہے۔ یہ دلچسپ بات بھی شایع ہوئی کہ کچھ ہائیڈرنٹ با اثر لوگوں کے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کوڑا اٹھانے کا ٹھیکہ ایک چینی فرم کو دیا ۔
یہ تجربہ ناکام ہوا تو سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ بنایا گیا۔ بورڈ کے اہلکار اشتہار کے ذریعہ یہ اطلاع دے رہے ہیں کہ شہر میں کوڑا اٹھانے کا کام جدید مشینوں پر ہو رہا ہے ، عملی طور پر کیا صورتحال ہے عید الاضحی کے تین دنوں میں ظاہر ہوجائے گی۔ دنیا کے تمام جدید شہروں کی طرح کراچی کے مسئلہ کا حل سپر بلدیہ کراچی کا قیام ہے جس کا سارے شہر پر کنٹرول ہو اور اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا جائے اور کونسلروں کو با اختیار بنایا جائے۔
پیپلز پارٹی اپنے منشور سے انحراف کرتے ہوئے نچلی سطح تک کے اختیارات پر مبنی بلدیاتی نظام سے خوفزدہ ہے یا کسی تعصب کا شکار ہے، یوں نئے نئے تجربے کر کے رائے عامہ کو گمراہ کرنا چاہتی ہے۔ مرتضیٰ وہاب کے لیے نیک خواہشات ہیں مگر ان سے کامیابی بہت دور ہوگی۔