وائرس کو جکڑنے کیلیے ’ڈی این اے پھندا‘ تیار
اوریگامی انداز میں ڈی این اے شکنجوں کو کیپسول میں رکھا جاسکتا ہے اور وہ جسم میں جاکر وائرس پکڑ کر تلف کرسکتے ہیں۔
امراض کے وائرس نے ہماری زندگی اجیرن کررکھی ہے جس کی تازہ مثال کورونا وائرس کی ہے۔ اب ماہرین نے وائرس پکڑنے کے لیے ڈی این اے کے پھندے تیار کئے ہیں جس میں وائرس پھنس جاتا ہے اور اندر جاکر تلف ہوجاتا ہے۔
ٹیکنکل یونیورسٹی آف میونخ (ٹی یو ایم) کے ماہرین نے اوریگامی انداز میں ڈی این اے فولڈنگ کی بدولت پھندے بنائے گئے ہیں اور انہیں نینوکیسپول میں بھرا جاسکتا ہے۔ ایک شکنجے میں کئی مقامات پروائرس پھانسے جاسکتےہیں۔
اس اہم تحقیق پر برسوں کی محنت جاری ہے اور ڈی این اے کی پروگرامنگ سے انہیں ایک بلاک اور پلیٹوں میں ڈھالا جاتا ہے۔ یوں ان کے اندر ایک جوف پیدا ہوجاتا ہے جس میں وائرس سماجاتا ہے۔ اس طرح وائرس مزید پھیلنے سے رک جاتا ہے۔ اس کے لیے سائنسدانوں نے 20 مستطیلوں والی ایک شکل بنائی جسے جیومیٹری کی زبان میں 'آئکوساہیڈرون'کہاجاتا ہے۔ ڈی این اے اوریگامی سے 180 حصوں پر مشتمل نصف خول تیار کیا جس کے درمیان کی جگہ خالی ہے جہاں وائرس بیٹھ جاتا ہے۔ جب اس کے بیرونی خول پرالٹراوائلٹ (یووی) روشنی ڈال کر اس میں پولی ایتھائلین گلائکول اور اولائگولائسین ڈالا جاتا ہے تو یہ شکنجہ جسم میں گھلنے سے محفوظ ہوجاتا ہے۔
مختلف تجربات میں اس میں وائرس اور انسانی خلیات کو کامیابی سے جکڑاگیا۔ اسی طرح 24 گھنٹے تک ہیپاٹائٹس بی اور ایڈینو سے وابستہ (اے اے ویز) وائرس کو بھی گرفتار کیا گیا۔ ڈی این اے کی سلاخوں میں بند وائرس کسی کام کے نہ رہے اور نہ ہی ان کی تعداد بڑھی۔
تحقیق سے وابستہ سائنسداں، ہینڈرک ڈائز نے کہا کہ اپنی جسامت کی بنا پر یہ وائرس کی تباہی کو روک سکتا ہے۔ ایک شکنجے میں پانچ مقامات ہیں جو وائرس کو گرفتار کرلیتے ہیں۔ اس طرح کئی کیس میں 80 فیصد کامیابی حاصل کی گئی ہے۔
اگلے مرحلے میں اسے چوہے جیسے زندہ جانور پر آزمایا جائے گا جس سے ڈی ای این سے بنی نینوساخت کی اہمیت مزید واضح ہوسکے گی۔ ڈی این اے شکنجے کو جسم میں دوا پہنچانے اور جین تھراپی کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح یہ دواؤں کی سواری بھی بن سکتا ہے۔
ٹیکنکل یونیورسٹی آف میونخ (ٹی یو ایم) کے ماہرین نے اوریگامی انداز میں ڈی این اے فولڈنگ کی بدولت پھندے بنائے گئے ہیں اور انہیں نینوکیسپول میں بھرا جاسکتا ہے۔ ایک شکنجے میں کئی مقامات پروائرس پھانسے جاسکتےہیں۔
اس اہم تحقیق پر برسوں کی محنت جاری ہے اور ڈی این اے کی پروگرامنگ سے انہیں ایک بلاک اور پلیٹوں میں ڈھالا جاتا ہے۔ یوں ان کے اندر ایک جوف پیدا ہوجاتا ہے جس میں وائرس سماجاتا ہے۔ اس طرح وائرس مزید پھیلنے سے رک جاتا ہے۔ اس کے لیے سائنسدانوں نے 20 مستطیلوں والی ایک شکل بنائی جسے جیومیٹری کی زبان میں 'آئکوساہیڈرون'کہاجاتا ہے۔ ڈی این اے اوریگامی سے 180 حصوں پر مشتمل نصف خول تیار کیا جس کے درمیان کی جگہ خالی ہے جہاں وائرس بیٹھ جاتا ہے۔ جب اس کے بیرونی خول پرالٹراوائلٹ (یووی) روشنی ڈال کر اس میں پولی ایتھائلین گلائکول اور اولائگولائسین ڈالا جاتا ہے تو یہ شکنجہ جسم میں گھلنے سے محفوظ ہوجاتا ہے۔
مختلف تجربات میں اس میں وائرس اور انسانی خلیات کو کامیابی سے جکڑاگیا۔ اسی طرح 24 گھنٹے تک ہیپاٹائٹس بی اور ایڈینو سے وابستہ (اے اے ویز) وائرس کو بھی گرفتار کیا گیا۔ ڈی این اے کی سلاخوں میں بند وائرس کسی کام کے نہ رہے اور نہ ہی ان کی تعداد بڑھی۔
تحقیق سے وابستہ سائنسداں، ہینڈرک ڈائز نے کہا کہ اپنی جسامت کی بنا پر یہ وائرس کی تباہی کو روک سکتا ہے۔ ایک شکنجے میں پانچ مقامات ہیں جو وائرس کو گرفتار کرلیتے ہیں۔ اس طرح کئی کیس میں 80 فیصد کامیابی حاصل کی گئی ہے۔
اگلے مرحلے میں اسے چوہے جیسے زندہ جانور پر آزمایا جائے گا جس سے ڈی ای این سے بنی نینوساخت کی اہمیت مزید واضح ہوسکے گی۔ ڈی این اے شکنجے کو جسم میں دوا پہنچانے اور جین تھراپی کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح یہ دواؤں کی سواری بھی بن سکتا ہے۔