طالبان بھی 20 سالہ جنگ کے خاتمے کا سیاسی حل چاہتے ہیں روس
طالبان بھی طویل جنگ سے تھک چکے ہیں اور اب ’’ بریک‘‘ چاہتے ہیں، روسی سفیر
لاہور:
روس نے کہا ہے کہ طالبان بھی 20 سالہ جنگ سے تھک چکے ہیں اور افغانستان میں جاری خانہ جنگی کے سیاسی حل کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان میں روس کے سفیر ضمیر کابلوف نے کہا ہے کہ طالبان کے بیانات اور کارروائی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی "سیاسی تصفیے" کے لیے تیار نظر آتے ہیں. وہ بھی 20 سالہ طویل جنگ سے تھک چکے ہیں اور اب '' بریک'' چاہتے ہیں۔
ضمیر کابلوف نے مزید کہا کہ امن مذاکرات کے دوران طالبان کا رویہ انتہائی مثبت رہا ہے اور وہ مذاکرات میں شامل دیگر فریقوں کی پیش کردہ سیاسی حل پر غور کر رہے ہیں۔ طالبان اس بات کے خواہش مند نظر آتے ہیں کہ انھیں سیاسی حل مکمل وضاحت اور پورے ڈھنگ سے پیش کیا جائے۔
قبل ازیں روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اس بات کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کہ افغانستان میں عدم استحکام سے دہشت گردی کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے اور منشیات کی اسمگلنگ میں تیزی آسکتی ہے۔
افغانستان میں غیرملکی افواج کے انخلا کا عمل جاری ہے تاہم یہ عمل مکمل ہونے سے قبل ہی طالبان نے پاکستان، چین، ایران، تاجکستان اور ترکمانستان سے متصل افغان سرحدوں کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور 85 فیصد علاقے پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے۔
واضح رہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کابل حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا دوسرا دور بھی بے نتیجہ ثابت ہوا تھا تاہم فریقین نے بات چیت کو حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔
روس نے کہا ہے کہ طالبان بھی 20 سالہ جنگ سے تھک چکے ہیں اور افغانستان میں جاری خانہ جنگی کے سیاسی حل کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان میں روس کے سفیر ضمیر کابلوف نے کہا ہے کہ طالبان کے بیانات اور کارروائی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی "سیاسی تصفیے" کے لیے تیار نظر آتے ہیں. وہ بھی 20 سالہ طویل جنگ سے تھک چکے ہیں اور اب '' بریک'' چاہتے ہیں۔
ضمیر کابلوف نے مزید کہا کہ امن مذاکرات کے دوران طالبان کا رویہ انتہائی مثبت رہا ہے اور وہ مذاکرات میں شامل دیگر فریقوں کی پیش کردہ سیاسی حل پر غور کر رہے ہیں۔ طالبان اس بات کے خواہش مند نظر آتے ہیں کہ انھیں سیاسی حل مکمل وضاحت اور پورے ڈھنگ سے پیش کیا جائے۔
قبل ازیں روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اس بات کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کہ افغانستان میں عدم استحکام سے دہشت گردی کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے اور منشیات کی اسمگلنگ میں تیزی آسکتی ہے۔
افغانستان میں غیرملکی افواج کے انخلا کا عمل جاری ہے تاہم یہ عمل مکمل ہونے سے قبل ہی طالبان نے پاکستان، چین، ایران، تاجکستان اور ترکمانستان سے متصل افغان سرحدوں کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور 85 فیصد علاقے پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے۔
واضح رہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کابل حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا دوسرا دور بھی بے نتیجہ ثابت ہوا تھا تاہم فریقین نے بات چیت کو حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔