بات چیت اور آپریشن …چند حقائق
بات چیت کے عمل کے ساتھ جو ہوا سو ہوا اب حکومت ایک ایسی فوجی کارروائی کو سنبھالنے لگے ہیں جو طویل بھی ہو سکتی ہے
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12
عجیب جگہ ہے یہ، جو کام ہو نہیں رہا تھا اس کے بارے میں ہر کسی نے ایسا انداز اپنایا ہوا تھا کہ جیسے وہ کام ہو رہا ہے اور جو کام اصل میں ہو رہا ہے، اس کے بارے میں خواہ مخواہ کی خاموشی اور سنسنی پھیلائی جا رہی ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بات چیت نہ آگے بڑھ رہی تھی اور نہ اس نے بڑھنا تھا۔ ٹھیک ہے! سیاسی مقصد کے لیے یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اچھا بھلا صحت مند عمل حکیم اللہ محسود کے خلاف ڈرون حملے کی نذر ہو گیا۔ مگر حقیقت میں ڈرون حملے کا ہونا یا نہ ہونا بے معنی عنصر ہے۔ تحریک طالبان پاکستان بات چیت کے لیے اس ملک میں لڑائی نہیں لڑ رہی اور نہ ہی اس کو آئین کی اطاعت کا شوق ہے۔ سیاستدان بھی اس کو وہی بھاتے ہیں جو اس کے حق میں بیانات دیتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کا مقصد ملک میں جمہوریت کا فروغ نہیں ہے اور نہ ہی امریکا کی افغانستان میں موجودگی یا غیر موجودگی سے ان کے اہداف متاثر ہوتے ہیں۔ یہ میں نہیں کہہ رہا ان کا چھاپا ہوا مواد کہہ رہا ہے لہذا دل کی تسلی یا سیاست چمکانے کے لیے بات چیت کے عمل کو جوش و خروش کے ساتھ آگے بڑھانے کی حمایت ہر کسی نے کی۔ اگرچہ سب کو حقیقت کا ادراک تھا۔
عمران خان شاید ان سب میں شامل نہیں ہوتے کیوں کہ وہ دنیا کو ایک انتہائی سادہ عینک سے دیکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں کسی حقیقت کے وجود کے لیے حقائق کا ہونا ضروری نہیں، صرف ان کا کہنا کافی ہے۔ چونکہ ان کے ارد گرد موجود درباری اور خوشامدی (جو کسی زمانے میں قاف لیگ میں تھے اور آج بھی نجی محفلوں میں بیٹھے اپنے لیڈر کی سادہ لوحی پر خوب ہنستے ہیں) ان کو بار بار یہی باور کراتے ہیں کہ وہ راہ حق کے مجاہد ہیں۔ لہذا عمران خان اپنی سادہ لوحی کو قوم کی قسمت بدلنے کا فارمولہ سمجھتے ہیں۔ مگر بات چیت کے پیدائشی طور پر معذور عمل کو اتنی تشہیر دینے میں سب سے زیادہ حصہ وفاقی حکومت نے ڈالا ہے۔ اس تمام عمل کے اصل حقائق مندرجہ ذیل ہیں۔
حکومت بننے کے بعد آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور وزیر اعظم کے نمایندگان نے بارہا طالبان کے بارے میں پالیسی مرتب کرنے اور اس کی حدود کا تعین کرنے کے لیے میٹنگز کیں۔ ان میٹنگز کے نتیجے میں یہ طے پایا کہ وزیر اعظم کل جماعتی کانفرنس طلب کریں گے۔ تمام جماعتوں کو اس کے بارے میں اعتماد میں لیا جائے گا۔ مختلف گروپوں سے بات چیت کے لیے آئی ایس آئی کے تعاون سے افراد یا نمایندگان نامزد ہوں گے جو ڈیڑھ سے دو ماہ میں اپنی کارکردگی کی رپورٹ ایک اور کُل جماعتی کانفرنس میں پیش کریں گے۔ اگر رپورٹ مثبت ہوئی (جو اس وقت کی آرمی قیادت اور موجودہ حکومت کے نمایندگان کے اندازے میں نہیں ہو سکتی تھی) تو اس عمل کو جاری رکھا جائے گا۔ اگر یہ عمل ناکام ہوتا (جو اس وقت کی عسکری قیادت اور موجودہ حکومتی نمایندگان کی قیادت کے انداز ے میں ہونا ہی تھا) تو پھر شمالی وزیرستان میں حتمی کارروائی کی جانی تھی۔ محدود پیمانے پر بات چیت کے عمل کو میڈیا میں زیر بحث لایا جانا تھا۔ جس کے بعد عوامی رائے کو تراشنا شاید آسان ہو جاتا۔ نواز لیگ کے لیے یہ اہتمام پاکستان تحریک انصاف کی سیاست کے راستے بند کرنے کے لیے ضروری تھا۔
اگر کل جماعتی کانفرنس نہ بلائی جاتی تو نواز لیگ کی رائے میں عمران خان تنقید کے انبار پر کھڑے ہو کر اپنا قد اتنا بلند کر لیتے کہ وفاقی حکومت بالشت بھر کی بھی نہ رہتی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور خفیہ ایجنسی کے سربراہ اس عمل کے حق میں اس لیے تھے کہ کہیں شمالی وزیرستان کے آپریشن پر امریکی دباؤ کی مہر نہ لگ جائے۔ اس سے پہلے آپریشن کم از کم دو مرتبہ شروع ہوتے ہوتے رک گیا۔ اسامہ بن لادن کے آپریشن کی وجہ سے اس کو سب سے بڑا دھچکا لگا۔ عسکری حلقوں میں امریکا کی اس در اندازی پر اتنا شدید غصہ پایا جاتا تھا کہ اس وقت کی قیادت شمالی وزیرستان کی طرف دیکھنے سے پہلے درجنوں مرتبہ سوچنے پر مجبور ہو گئی تھی۔ نئی حکومت کے بننے کے بعد اگر عوامی قیادت فوج کو یہ آپریشن کرنے کا مینڈیٹ دے دیتی ہے تو اس کارروائی کا امریکا کی پالیسی سے تعلق عوام کی نظر میں توڑا جا سکتا تھا۔
دیکھنے میں یہ سب منصوبہ بندی جامع اور بہترین تھی مگر وفاقی حکومت نے اپنے اعمال کی وجہ سے اس کو ٹیڑھی کھیر میں تبدیل کر دیا۔ اس منصوبے کے مطابق دو چیزیں نہیں ہونی تھیں جو ہوئیں۔
1 ۔ بات چیت کا عمل مکمل طور پر شفاف اور نظر آنیوالا ہونا چاہیے تھا۔ وفاقی حکومت نے اس کو ایک قومی معمہ میں تبدیل کر دیا۔ جس کا سرا کسی کے پاس موجود نہیں تھا اور نہ ہی کوئی اس کے سر پیر تلا ش کر سکتا تھا۔ حکومت کی بات چیت کی کوشش کو سنجیدہ ثابت کرنے کے لیے جن شواہد کی ضرورت تھی وہ نکمے پن کی وجہ سے پیدا نہ کیے جا سکے۔ نہ کوئی رپورٹ مرتب کی گئی اور نہ کسی کو طالبان سے بات چیت کے لیے نامزد نمایندگان کی کارکردگی کے بارے میں علم ہو سکا۔ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بنا دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس عمل کو ایک خاص وقت کے اندر مکمل کرانے کی ذمے داری بھی وفاقی حکومت کی تھی۔ اس ذمے داری کا بھی نہ جانے کیا سے کیا بن گیا۔ بیان کے مطابق یہ کام ہفتوں میں ہونا تھا۔ حقیقت میں اس کو مہینوں لگ گئے۔
2۔ منصوبے کے مطابق وفاقی حکومت کو بات چیت کے اس عمل میں مذہبی جماعتوں کو کسی قسم کا مرکزی کردار دینے سے اجتناب کرنا تھا۔ اس وقت کی عسکری قیادت اور نواز لیگ کے نمایندگان اس عمل پر متفق تھے کہ چونکہ مذہبی جماعتیں اس عمل سے خود کو سیاسی طور پر مستحکم کریں گی، لہذا وفاقی حکومت کو مرکزی کردار کے طور پر سامنے آنا ہو گا۔ بات چیت کے عمل کے ساتھ ہی وفاقی حکومت نے گھوڑا، ٹانگے کے پیچھے ہی کس دیا۔ کبھی مولانا فضل الرحمان کو آگے کرنے لگے اور کبھی مولانا سمیع الحق کو۔ اس کے علاوہ جس کسی نے بھی تحریک طالبان پاکستان کو دور سے پہچاننے کا دعویٰ کیا تو وفاقی حکومت نے اس کو بھی عمل میں شامل کر دیا۔ محترم وزیر اعظم خود غیر ملکی دوروں پر تشریف لے گئے۔ جب کہ ان کی وفاقی کابینہ کے ممبران دوسرے کاموں میں جُت گئے۔ مہینوں بات چیت کے نام پر مذہبی جماعتوں کی سیاست کا کھیل چلتا رہا۔
تحریک انصاف نے بیانات داغ کر وفاقی حکومت کو چھلنی کر دیا۔ پریشانی میں حکومت نے ہر کسی کا مشورہ شامل حال کرنا شروع کر دیا۔ تجزیہ نگار کیا اور درویش کیا ہر کوئی تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کو کامیاب بنانے کے فارمولے اپنی جیب میں سے نکال کر حکومت کو پیش کرنے لگا۔ جو اس کو ایسے قبول کرتی تھی کہ جیسے تبرک ہو۔ ایک انتہائی حساس اور سنجیدہ قدم بندر کا تماشا بن گیا۔ ظاہر ہے تحریک طالبان پاکستان نے اس ہڑبونگ کا فائدہ اٹھانا تھا جو انھوں نے اٹھایا۔ کھل کر کارروائیاں کیں۔ ببانگِ دُہل ذمے داری قبول کی اور ایک دبکی اور چپکی حکومت کو ہر طرح سے شرمندہ کیا۔ اگر وفاقی حکومت اصل منصوبے کے مطابق کام کرتی تو شاید اس وقت دہشت گردی کی نذر ہونے والے سیکڑوں پاکستانی ہم میں موجود ہوتے۔ یا بات چیت کامیاب ہو چکی ہوتی یا آپریشن اختتام پزیر ہوتا۔ یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھ چکا ہوتا۔ ایسا نہ ہوتا کہ جیسا اب ہے۔ آپریشن بھی جاری ہے اور ہم ماننے کو بھی تیار نہیں ہیں۔
وزیر اعظم کی تقریر جس میں انھوں نے ممکنہ طور پر آپریشن کی اجازت دینی ہے آپریشن سے پہلے ہوتی نہ کہ بعد میں۔ اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوتا تو پھر وہ ہمارا نظام نہ ہوتا۔ اس نظام کی خاصیت صحیح کام کو بگاڑنے کی ہے۔ اپنی منصوبہ بندی کو تباہ کرنے کی صفت بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ چاہے قیمت کچھ بھی اٹھانی پڑے۔ وقت پر صحیح کام اس نظام کے ہاتھوں کبھی ہوتا ہوا نظر نہیں آیا۔ بات چیت کے عمل کے ساتھ جو ہوا سو ہوا۔ اب یہ حکومت اور ہمارے دوسرے منتخب نمایندگان ایک ایسی فوجی کارروائی کو سنبھالنے لگے ہیں جو طویل بھی ہو سکتی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ وہ اس قدم کو کیسے اٹھاتے ہیں۔ ملک کو سنبھالتے ہیں یا گڑھے میں دھکیلتے ہیں۔ ریکارڈ جو ان کا ہے وہ ہے۔ اگرچہ نا امیدی پھر بھی گناہ ہے۔