وادی سون میں الیکشن
ہمارے خاندانی کلچر میں جب تک کسی بزرگ سے نجات نہیں ملتی اس کی بات ماننی پڑتی ہے
ہمارے مرحوم دوست کے صاحبزادے اور ہمارے نوجوان دوست جناب عمران خان کہا کرتے ہیں کہ وادی سون کے پہاڑوں کے تیتروں کا شکار بہت ہی مشکل ہے شاید دنیا کا مشکل ترین شکار لیکن معلوم ہوا کہ وادی سون کے ووٹروں کا شکار بھی شاید تیتر کے شکار سے کہیں مشکل ہے اس کا پتہ تازہ ترین ضمنی الیکشن سے چلا جو قومی اسمبلی کی ایک نشست پر منعقد ہوا۔ دو بڑے امیدواروں میں ایک نون لیگ کے ملک عذیر محمد خان تھے دوسرے تحریک انصاف کے عمر اسلم اعوان ۔ اس دن کے اخبار سے معلوم ہوا کہ عمران خان کی انصاف پارٹی کے کئی کارکن بمعہ بعض لیڈروں کے اس شدید سردی میں وہاں پہنچے ہیں جب کہ میرے جیسے وادی سون کے بیٹے جو وہاں کے جم پل ہیں سردی کے ڈر سے لاہور میں دبکے رہے اور گاؤں میں اور اس حلقے میں موجود نوجوانوں کو پیغام بھیج دیا کہ وہ اگر مناسب سمجھیں تو فلاں امید وار کو ووٹ دیں۔ اب وہ زمانے گزر گئے جب صرف اشارہ ہی کافی ہوتا تھا اب صاف صاف کہنا پڑتا ہے اور بعض اوقات کسی جوابی کارروائی کا جواب بھی دینا پڑتا ہے مگر ابھی تک عمر مدد کر رہی ہے۔
ہمارے خاندانی کلچر میں جب تک کسی بزرگ سے نجات نہیں ملتی اس کی بات ماننی پڑتی ہے کیونکہ دیسی سیاست کے اسرار و رموز اور حکمت عملی اب بھی ان کے پاس ہے اور باہمی تعلقات میں یہی کام آتی ہے اگرچہ قومی سیاست کے تقاضے اب بہت بدل گئے ہیں لیکن ہم جو محدود زندگی بسر کرتے ہیں مقامی ضرورتوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ بہر حال اس الیکشن میں ن لیگ کے امیدوار کامیاب ہو گئے اور تحریک انصاف ناکام رہی لیکن یہ پہلی بار ہے کہ ایک آزاد الیکشن میں (جتنے آزاد ایک دیہی معاشرے میں ہوا کرتے ہیں) عمران خان کو بہت ووٹ ملے تیتروں سے کہیں زیادہ کیونکہ انھیں پہاڑوں میں ہلکان نہیں ہونا پڑا اور جتنا شکار ان کی قسمت میں تھا وہ خود بخود حاضر ہو گیا۔ ایک شعر یاد آ رہا ہے جو شاید اتنا زیادہ بر حقیقت نہ ہو لیکن متعلقہ ضرور ہے فارسی کا ہے
ہمہ آہُوان صحرا کہ سر نہادہ برکف
باُمید آنکہ روزے بشکار خواہی آمد
صحرا کے تمام ہرن ہاتھوں میں اپنے سر اٹھائے پھرتے ہیں اس امید پر کہ ایک دن تم ان کا شکار کھیلنے آؤ گے۔ عمران کو اس بار جو ووٹ ملے ہیں وہ نہ ان کی جماعت کو ملے ہیں نہ کسی کارکن کو میرے خیال میں یہ سب ووٹ عمران خان کی ذات کو ملے ہیں جسے وادی سون کے پتھر بھی پہچانتے ہیں۔
زیادہ مدت نہیں گزری کہ وادی سون اور اس علاقے میں الیکشن برائے نام ہوتے تھے قریب کے قصبے مٹھہ ٹوانہ کے ٹوانے اور نون یہاں اپنا کوئی امید وار کھڑا کرتے تھے اور وہ گویا خود بخود ہی منتخب ہو جاتا تھا۔ سنا ہے ایک سرد وال گاؤں کے وکیل ملک شیر باز نے امید وار بننے کی کوشش کی اور دعویٰ کیا کہ علاقے کے سرکردہ لوگ میرے ساتھ ہیں۔ اس پر نواب اللہ بخش ٹوانہ نے ان کو اپنے ہاں بلایا اور دوسرے کمرے میں علاقے کے ان بڑوں کو بٹھایا جو ملک شیر باز کے حامی بتائے جا رہے تھے۔ ان سب نے ٹوانوں کے امیدوار کی حمایت کی جس کے بعد الیکشن پھر سے یک طرفہ ہو گیا۔ پھر کئی برس یا کئی الیکشن بعد ایک کاروباری اعوان ملک کرم بخش نے فیصلہ کیا کہ وہ زرکثیر صرف کر کے اور اعوان برادری کے نام پر مقابلہ کرے گا۔ ملک کرم بخش کا یہ جرات مندانہ بلکہ جارحانہ اقدام کام دکھا گیا اور وہ کامیاب ہو گئے یوں ٹوانوں کی سر داری ختم ہو گئی جس کے بعد اب تک یہاں سے اعوان ہی آ رہے ہیں اور انھیں کچھ کام بھی کرنا پڑتا ہے۔ ملک کرم بخش کا یہ الیکشن لڑنے والا کام ہی بہت تھا جس کی وجہ سے ان کی دھاک بیٹھ گئی اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے بعد ان کے خاندان سے لوگ منتخب ہونے لگے لیکن اب یہاں کے الیکشن آزاد ہیں۔ سمیرا ملک نواب کالا باغ کی پوتی ہیں ان کی ملک کرم بخش خاندان سے کوئی رشتہ داری نہیں ہے۔
ہمارے اس دیہاتی اور ان پڑھ علاقے میں سیاست کوئی خاص نہیں رہی بلکہ جیسا کہ کہا ہے ان لوگوں نے اپنی قیادت ٹوانوں کے سپرد کر دی جو انگریز دربار میں بہت اونچے مقام پر تھے یہ وقت کی مجبوری تھی کہ برطانوی دور میں انگریز حکومت کی مخالفت بہت مشکل تھی اور پھر کسی دیہاتی کے لیے تو گویا نا ممکن تھی۔ مجھے بتایا گیا کہ میرے ماموں خاں بہادر ملک نور محمد اعوان بھی ایک الیکشن میں امید وار تھے لیکن ٹوانوں کا امیدوار کوئی اور تھا اور علاقے کے انگریزوں کے ساتھیوں نے سرکاری امیدوار کی حمایت کی جو جیت گیا لیکن علاقے کے جن بڑوں نے اپنے زیر اثر لوگوں کو ووٹ پر مجبور کیا وہ روتے تھے کہ ہم اپنے بھائی کی جگہ کسی ٹوانے کو ووٹ دے رہے ہیں۔ یہی وہ احساس تھا جو برسوں بعد ملک کرم بخش اعوان کی کامیابی کا باعث بنا تھا جب تک مقامی لوگ منتخب ہوتے رہے علاقے کے کام بھی ہوتے رہے۔
اس مٹھہ ٹوانہ قصبے میں گیس بھی آ گئی جو ایک نعمت ہے اس طرح چھوٹے اسکول بڑے ہو گئے سڑکیں بن گئیں آمد و رفت میں آسانی ہوئی اور پہاڑی پگڈنڈیوں سے جان چھوٹی۔ کاروبار بڑھا اور لوگ فوج کی ملازمت کی جگہ دوسرے محکموں میں بھی ملازمت تلاش کرنے لگے۔ انگریزوں نے مشہور کر رکھا تھا کہ یہ مارشل ریس کا علاقہ ہے اور فوجی یہاں بھرتی کرنے ہیں لیکن اب صورت حال بدل چلی ہے فوج میں بھی لوگ جاتے ہیں پولیس میں بھی اور عام نوکریوں میں بھی اب پہاڑوں میں چُھپا اور لِپٹا ہوا یہ علاقہ کُھل چکا ہے اور میانوالی کے عمران خان اور لاہور کے میاں نواز شریف بھی یہاں الیکشن لڑتے ہیں۔ وادی سون جیسے پاکستان میں شامل ہو چکی ہے۔