صرف سات سو سال

سیاست اور دین معاشرے کے سب سے ذہین، پڑھے لکھے اور مدبر عنصر کے حوالے سے پہچانا جانا چاہیے


راؤ منظر حیات January 24, 2014
[email protected]

سیاست اور دین معاشرے کے سب سے ذہین، پڑھے لکھے اور مدبر عنصر کے حوالے سے پہچانا جانا چاہیے۔ آپ کسی ترقی یافتہ ملک کے اہل اقتدار پر نظر ڈالیں آپ کو ایک قدر مشترک نظر آئے گی۔ یہ کہ اکثریت اپنے ملک یا غیر ممالک کی اعلیٰ ترین تعلیمی درسگاہوں کے خوشہ چیں ہونگے۔ آپ امریکا کی مثال لے لیجیے۔ ان کی سیاسی قیادت کی اکثریت ہارورڈ یونیورسٹی یا اُس کے برابر کی تعلیم گاہوں سے فیضیاب ہے۔ ان کے درمیانے درجہ کے اہل مسند بھی بہت اعلیٰ یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل ہیں۔ انگلینڈ کے وزرا ء اعظم میں سے اکثر ایٹن اور ہیرو کے بے مثال پبلک اسکولوں کے پڑھے ہوئے ہیں۔ دین کی تعلیم کا بھی یہی حال ہے۔ اس ٹھوس تعلیمی بیک گراؤنڈ کا کیا فائدہ ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو فطری ہے اور جو ہر ذہن میں آنا چاہیے۔

جب جدید تعلیم کی اعلیٰ اقدار سے لیس ہو کر آپ سیاست یا عملی زندگی کا حصہ بنیں گے تو آپ اُس میدان میں وہ اعلیٰ اقدار خود بخود لانے پر ذہنی طور پر مجبور ہونگے جو آپ نے اپنی تعلیمی زندگی میں حاصل کی ہیں۔ دوسرا یہ کہ آپ فطری طور پر علم دوست ہو جائینگے۔ آپ دنیا کو جدید تقابلی انداز میں دیکھے گے اور پھر آپ اپنے ملک کی بیشتر پالیسیوں کو بھی جدت کے رنگ میں رنگ دینگے۔ آپ جدید علوم سے گھبرائیں گے نہیں بلکہ آپ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی قوم کو تیزی سے آگے لے جانے کی کوشش کرینگے۔ کئی بار بہت اچھی تعلیمی درسگاہیں بھی انسان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں اور ان کے طالبعلم زندگی میں ان اداروں کی اقدار کو ساتھ لے کر نہیں چلتے مگر بحیثیت مجموعی آپ کی عملی زندگی کا بہت بڑا حصہ اپنی درسگاہوں کا مرہون منت ہوتا ہے۔

میں سیاست اور دین پر قصدًا نہیں لکھتا حالانکہ میں ان دونوں علوم کا انتہائی ادنیٰ طالبعلم ہوں۔ آپ شہتوت کے درخت سے سیب حاصل نہیں کر سکتے۔ آپ جنگلی جھاڑی سے انگور نہیں چُن سکتے۔ جیسی فصل بوئی جائے گی، اس کا پھل ویسا ہی ہو گا۔ عملی زندگی میں بھی بالکل یہی ہے۔ کئی دہائیوں بلکہ کئی صدیوں سے آپ ان لوگوں کو غور سے دیکھیں، جو ہمارے مقدر پر حکومت کرتے رہے ہیں یا کر رہے ہیں۔ ان میں سے غالب اکثریت آپکو سائنس کے میدان سے بہت دور دکھائی دے گی۔ بلکہ اگر میں یہ عرض کروں کہ وہ کافی حد تک جدید ایجادات سے گھبراتے ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔

آپ برصغیر کو دیکھ لیں۔ سلاطین دہلی سے شروع کریں اور مغلیہ خاندان کے آخری بد نصیب بادشاہ تک آئیں۔ آپ کو ایک کلیہ مشترک نظر آئے گا۔ سرکاری سطح پر اکثر مسلمان حکمرانوں نے وہ رویہ نہیں رکھا جس سے سائنسی علوم ہماری درسگاہوں میں پنپ سکتے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ سیکڑوں سال کے مسلسل جبری حاکم جو اصل میں وسطی ایشیاء سے آئے ہوئے لوگ تھے۔ ہم پر حکومت کرتے رہے لیکن برصغیر میں ایک بھی نئی ایجاد نہ ہو سکی۔ ان علم دشمن حکمرانوں نے اپنے معاشرہ میں دلیل کو سرکاری سطح پر قصدًا کمزور کرنا شروع کر دیا۔ یہ جرم آج بھی جاری ہے۔ لے دے کے، ایک عطر اور پھر شاید چرمی موزا، سیکڑوں سال کے یہ وہ دو تحفے ہیں جو ترک حکمرانوں نے ہمیں بخشے۔ اسی عرصے میں مغرب جدید علوم کا مرکز بن چکا تھا۔ اور پھر ایجادات کی ایک انتہائی طویل فہرست ہے جو مغرب نے پوری دنیا میں پھیلا دیں۔ آپ اپنے روز مرہ کی کوئی شے اٹھا لیں اس کی بنیاد آپ کو اُس عہد میں ملے گی جس میں مغرب سائنس کے دریا سے فیضیاب ہو رہا تھا۔ انھی صدیوں میں مسلمان دنیا اور بالخصوص ہمارے مسلمان بادشاہ اپنے رہنے کے لیے مضبوط قلعے اور عشرت گاہیں بنانے میں مصروف تھے۔

کئی صدیوں میں ایک یونیورسٹی یا ایک تعلیمی درسگاہ نہ بنائی گئی جس سے ایجادات کا ایک سلسلہ چل نکلتا۔ ولیم ڈیرمپل نے اپنی کتاب میں بہادر شاہ ظفر کے متعلق لکھا ہے کہ جب اسے قید کر کے رنگون لے جایا جا رہا تھا تو ایک جگہ بادشاہ بلکہ شہنشاہ کو انگریزوں نے اسٹیمر میں بٹھا دیا۔ دریا کو مشینی کشتی کے ذریعے عبور کرنے کا تجربہ بادشاہ کے لیے بالکل انوکھا تھا۔ وہ، اس کشتی سے اتنا متاثر ہوا کہ تالیاں بجانے لگا اور بچوں کی طرح خوشی کا اظہار کرنے لگ گیا۔ جدت کے متعلق یہ مسلمان حکمرانوں کا عمومی مائنڈ سیٹ تھا اور اب بھی قائم ہے۔ بلکہ مجھے اپنے ملک میں کئی دہائیوں سے اس ذہنیت میں مزید سختی نظر آ رہی ہے۔ ہمارے ملک میں فکری آزادی اور دلیل کی قوت اب انتہائی ضعف میں ہے۔ لیکن صاحبان علم و فہم! یہ حالت ہمیشہ ایسی نہیں تھی مغرب نے صنعتی انقلاب اور Renaissance میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ اس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ حقیقت میں ان لوگوں نے پوری دنیا کو تبدیل کر دیا۔ غور فرمائیے، ٹرین، کاریں، سائیکل، دوائیاں، موبائل فون، ٹی وی، کیبل اور اس طرح سیکڑوں چیزیں کہاں سے آئیں ہیں؟ یہ تمام مغربی تحقیق کی فصل ہے۔

میری ناقص رائے میں اسلامی امت کا کوئی وجود نہیں رہا ہے۔ اس کی جگہ ممالک نے لے لی ہے جو کہ اب ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ کیا یہ فکر کی بات نہیں! کہ مسلمان ممالک میں ایک ہزار لوگوں میں سے صرف 9 سائنس سے تعلق رکھنے والے اشخاص ہیں جب کہ مغرب میں ان کی تعداد 41 ہے۔ مسلم ممالک میں 1800 یونیورسٹیاں ہیں مگر صرف 312 میں، ایسے لوگ ہیں جنہوں نے معیاری تحقیقی مضامین تصنیف کیے ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب سے اوپر ہے مگر آج تک صرف دو اشخاص کو سائنس میں نوبل پرائز مل سکا ہے۔ تمام مسلم ممالک دنیا کی سائنسی تصنیفات کا صرف ایک فیصد پیدا کرتے ہیں۔ 46 مسلم ممالک کی اجتماعی سائنسی تصنیفات اسپین اور انڈیا سے بھی کم ہیں۔ اسپین جو کہ کسی طور پر سائنسی سُپر پاور نہیں ہے تمام مسلم ممالک سے زیادہ سائنسی کتب کا ترجمہ کرتا ہے۔ ہماری فکری موت تیرویں صدی عیسوی میں واقع ہوئی تھی اور آج تک ہم کسی طور پر اس جمود سے باہر نہیں آ سکے۔ آپ ملاحظہ فرمائیے! سات سو سال پہلے مسلمانوں میں ہر وہ علم دوست عادت موجود تھی جو کہ ہمیں اُس وقت کی دنیا میں ایک انتہائی اہم طاقت کا درجہ عطا کرتی تھی۔

آپ بغداد اور بصرہ کی مثال لے لیجیے۔ یونانی سائنسی کتب کو عربی میں ترجمہ کرنے کی ایک بے مثال مہم تھی۔ اس فکری سوچ میں خلفاء سے لے کر تمام اہل اقتدار شامل تھے۔ بغداد میں آٹھویں صدی عیسوی میں ترجمہ کرنے کی ایک علمی لہر تھی جس میں زور صرف اس بات پر تھا کہ مسلمانوں نے ٹیکنالوجی میں ترقی کرنی ہے تا کہ عام آدمی کی زندگی بہتر ہو سکے۔ حیران کن نقطہ یہ ہے کہ شاعری، ڈرامہ اور تاریخ کے موضوعات کی کتب کو دانستہ ترجمہ نہیں کیا گیا۔ عظیم مسلمان بادشاہ مامون کا کردار اس مہم میں بہت موثر تھا۔ مثال کے طور پر یونانی زبان سے حساب کی کتب کو ترجمہ کرنے کے بعد آبپاشی کا نیا نظام بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ فلکیات اور علم الاشکال سے قبلہ کی سمت معلوم کی ہے۔ نمازوں کے اوقات کار کو مستند کیا گیا۔

سائنس میں حیران کن ترقی کی کئی وجوہات تھیں۔ آزاد سوچ اور عقل کی کسوٹی پر اصولوں کو متعین کرنا وہ بنیاد تھی جس کی بدولت مسلمانوں نے بہت تھوڑے عرصے میں سب قوموں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ آپ کسی شعبے کا نام لیجیے آپ کو اس میں جگمگاتے ہوئے سائنسدان نظر آئینگے۔ حیاتیات اور نفسیات میں ابنِ سیرن سے ابن ظہر، کیمیا میں ابنِ فرناس سے لے کر اَل خزینی، معاشیات میں ابنِ سینا سے لے کر اَل مقریزی، جغرافیہ میں اَل موسوی سے لے کر اَل تمیمی، حساب میں اَل خوارزمی سے لے کر اِبنِ اَل بانہ، انجینئرنگ میں بن موسیٰ سے لے کر ابنِ اَل شاتر، ستاروں کے علوم میں ابراہم اَل فزاری سے لے کر ابنِ باجہ۔ یقین فرمائیے اس طرح کے سیکڑوں ستاروں کے نام میرے سامنے موجود ہیں۔ کوئی ایسا موضوع نہیں جس پر مسلمان سائنس دانوں نے تحقیق نہ کی ہو۔ ان لوگوں میں نئی بات کہنے، سننے اور سمجھنے کی ہمت تھی۔ یہ لوگ ہر وقت سیکھنے کے عمل میں مصروف کار رہتے تھے۔ یہ قابل رشک ترقی صرف چند مضامین تک محدود نہیں تھی بلکہ یہ لوگ زندگی اور دنیا کی ہر چیز کا احاطہ کرنا چاہتے تھے۔ یہ تمام عمل کی دنیا کے لوگ تھے۔ یہ جو بات کہتے تھے یا جس نظریہ پر یقین رکھتے تھے، یہ سو فیصد اس پر عمل کرتے تھے۔ مگر سات سو سال پہلے مسلم دنیا تقلید کا شکار ہو گئی۔ درباری مصاحب اور تنگ نظر علماء دین پر قبضہ کر گئے۔ مسلمان بادشاہ دلیل سے خوف زدہ ہو گئے۔ اجتہاد کے دروازے عملی طور پر بند کر دیے گئے۔ اسلام کے شعار کو اس کی عملی حیثیت سے تبدیل کر کے صرف زبانی جمع خرچ تک محدود کر دیا گیا۔ دربار اور حکومت کے عمال چرب زبانی اور خوشامد کے فن میں کمال حاصل کرنے لگ گئے۔

سائنس اور تحقیق جو کہ مسلمانوں کا اوڑھنا بچھونا تھا، وہ مکمل طور پر ان سے دور ہو گئے۔ یہی وہ وقت تھا جس میں مغرب میں علمی تحریک جڑ پکڑ رہی تھی۔ پھر وہی ہوا جو قانون فطرت ہے۔ عربی کے بیش قیمت علمی نسخے انگریزی زبان میں ترجمہ کیے گئے۔ مغرب نے تحقیق کی قندیل کو مسلمانوں سے لے کر اپنی درسگاہوں میں روشنی پھیلا دی۔ مسلمان سات سو سالوں سے مکمل خاموش ہیں۔ اب تو شائد علمی جمود سے بھی معاملہ بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ جو بھی دلیل اور فکر کی عملی شکل پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے، اسے مکمل خاموش کر دیا جاتا ہے۔ یہ سات صدیوں کی خاموشی پتہ نہیں کب تک رہے گی؟ ہے تو یہ موت کا سناٹا؟ مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ خاموشی مستقل نہ ہو جائے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں