مسلم ملکوں کی حالت زار
مسلم ملکوں میں آمریت رہی ہو یا جمہوریت ہر حکومت کی اولین ترجیح قومی دولت کی لوٹ مار رہی ہے
دنیا میں مسلم ملکوں کی تعداد 57 بتائی جاتی ہے اور آبادی دنیا کی کل آبادی کا ایک تہائی کے لگ بھگ ہے۔ مسلم ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں، افرادی طاقت کی فراوانی اور قدرتی وسائل کی بھرمار کے تناظر میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ ممالک ترقی یافتہ ملکوں کی صف اول میں کھڑے ہوتے، لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ ملک پسماندگی کے پاتال میں کھڑے ہوئے ہیں۔ ہر اہل عقل کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہونا ایک فطری بات ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ ترقی کے لیے افرادی قوت اور قدرتی وسائل دو بنیادی ضرورتیں ہوتی ہیں، ان عوامل کی موجودگی کے باوجود اگر کوئی ملک ترقی نہیں کرتا تو اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک ان دو عناصر یعنی آبادی اور وسائل کا غلط استعمال، دوسرے حکمران طبقات کی نا اہلی۔ اس تناظر میں اگر ہم مسلم ملکوں پر نظر ڈالیں تو یہی افسوسناک حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ ان ملکوں کے حکمران طبقات انتہائی نااہل ہیں اور نااہلی کی وجہ یہ ہے کہ انھیں ملک و قوم کی ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، یہ طبقات صرف اور صرف اپنی ترقی کی دھن میں لگے ہوئے ہیں اور اس ترقی کی حدیں ان کی آنے والی دس بیس نسلوں تک پھیلی ہوئی ہیں اور اس ترقی کا راستہ کرپشن ہے، کرپشن بھی چھوٹی موٹی نہیں بلکہ اتنی بڑی کرپشن کہ اگر اس کرپشن کی بھاری رقوم کو جو اربوں نہیں کھربوں ڈالر تک پہنچی ہوئی ہے عوام کی اجتماعی ترقی کے لیے استعمال کیا جائے تو ان ملکوں میں غربت، جہالت کا نام و نشان مٹ جائے گا۔
حالیہ تاریخ میں ترکی کو مسلم دنیا کا ایک رول ماڈل اسلامی ملک مانا جاتا رہا ہے اور پاکستان کا موجودہ حکمران طبقہ تو ترکی کو اپنا آئیڈیل مانتا ہے۔ ترکی میں ایک مذہبی جماعت کی حکومت ہے لیکن یہ مذہبی جماعت ہماری روایتی مذہبی جماعت نہیں بلکہ جدید دنیا کے تقاضوں کو سمجھنے اور اپنے آپ کو ان تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی خواہش مند جماعت ہے۔ اس طرز فکر کی وجہ سے وہاں اقتصادی ترقی کی رفتار دیگر مسلم ملکوں سے زیادہ ہے۔ وہ اسرائیل اور بھارت سے مستقل قطع تعلق کو نہ اپنی سیاست کا خشت اول سمجھتا ہے، نہ وہ مذہبی دشمنیوں اور دوستیوں کو قومی مفادات کے تابع رکھتا ہے، نہ قومی مفادات پر حاوی ہونے دیتا ہے۔ اس سیاست کے نتیجے میں وہ دنیا سے کٹا ہوا اور تنہائی کا شکار ملک نہیں، اسرائیل اور بھارت کے ساتھ اس کے وسیع تعلقات بھی ہیں اور ان ملکوں کی مسلم مخالف پالیسیوں کا وہ مخالف بھی ہے۔
ترکی کی اس سیاست کی وجہ یہ ہے کہ اتاترک اور نئے ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال پاشا نے اس ملک میں ایک لبرل سوچ کی بنیادیں اتنی مضبوط کر دی ہیں کہ مذہبی جماعتیں بھی اس راہ سے ہٹنے کے انجام سے واقف ہیں، لیکن یہ ترکی کی بد قسمتی ہے کہ مسلم ملکوں میں حکمران طبقات کے پھیلائے ہوئے کرپشن کی زد سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ ترکی کی حکمران جماعت پر کرپشن کے الزامات کی شدت کا عالم یہ ہے کہ اس کے تین سرکاری ستون اس طوفان کی زد میں آ گئے ہیں اور ترکی کے دارالحکومت سمیت کئی شہروں میں سرکار کی کرپشن کے خلاف شدید ہنگامے جاری ہیں اور حکومتی پارٹی سمیت عوام ترک وزیر اعظم طیب اردگان سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
بنگلہ دیش انتخابات کے میدان کار زار سے ابھی ابھی خون میں نہا کر نکلا ہے۔ 21 افراد انتخابات کے دن ہلاک ہو چکے ہیں اور سیکڑوں زخمی ہیں۔ اپوزیشن کی رہنما خالدہ ضیاء نے دوسری 18 سیاسی جماعتوں کے ساتھ الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا لیکن حکمران جماعت نے اس کی پرواہ کیے بغیر الیکشن کرا دیے۔ کہا جا رہا ہے کہ بائیکاٹ کی وجہ سے اپوزیشن کے امیدوار الیکشن سے باہر رہے اور حکمران جماعت کے آدھے سے زیادہ امیدوار ''بلا مقابلہ'' منتخب ہو گئے۔ اپوزیشن ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن کے ذریعے دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کر رہی ہے۔ امریکا الیکشن کو ماننے کے لیے تیار نہیں، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بھی اس الیکشن سے مطمئن نہیں، عوام سڑکوں پر ہیں لیکن شیخ حسینہ واجد نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا لیا ہے۔
لیبیا میں خونریزی کا سلسلہ جاری ہے، تازہ اطلاعات کے مطابق لیبیا میں متحارب گروہوں کے درمیان خونریز تصادم میں ایک نائب وزیر سمیت 19 افراد ایک ہی دن میں ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔ 2012ء کے بعد اس تصادم کو سب سے بڑا خون ریز تصادم کہا جا رہا ہے جو لیبیا کے دو قبیلوں ''اولاد سلیمان'' اور ''توبو'' قبیلے کے درمیان ہوا ہے۔ ہلاک ہونے والے نائب وزیر صنعت حسن الدروعی 2011ء کے انقلاب کے بعد عبوری کونسل کے رکن بھی تھے۔ مارچ 2012ء کی خونریز جنگ میں 150 افراد ہلاک اور 400 افراد زخمی ہوئے تھے۔ تشدد کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ شام میں تازہ جھڑپوں کے دوران ہونے والے 10 خودکش حملوں میں 400 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو گئے ہیں۔ پچھلے چند دنوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 700 سے زیادہ ہو گئی ہے، ان میں 351 باغی اور القاعدہ کے 246 ارکان شامل ہیں۔
ان تباہ کاریوں کا ذرا گہری نظر سے جائزہ لیں تو اس کی دو بنیادی وجوہات ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ایک ''ہر قیمت'' پر اقتدار حاصل کرنے اور اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنے کی خواہش، دوسرے حصول اقتدار کے بعد قومی دولت کی لوٹ مار کا کلچر۔ ان دو بیماریوں نے مسلم ملکوں کو شدید بے چینی اور انتشار میں مبتلا کر دیا ہے اور یہ دونوں بیماریاں موروثی ہیں جن کے ڈانڈے ہزاروں برس کی تاریخ سے جا ملتے ہیں۔ ملائشیا، انڈونیشیا دونوں ملکوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں ملک تیزی سے ترقی کر رہے ہیں لیکن بوجوہ ان کی ترقی بھی جامد ہو رہی ہے اور اس کی وجہ بھی ان ملکوں میں پائی جانے والی نظریاتی کشمکش ہے۔
ہماری تاریخ نظریاتی کجروی کی تاریخ ہے اور یہ نظریاتی کجروی اب بڑھتے بڑھتے مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی تک آ گئی ہے جو صرف پاکستان یا مسلم ملکوں کے مستقبل ہی کے لیے خطرہ نہیں رہی ہزاروں سالہ تہذیب ارتقائی سفر کے لیے بھی خطرہ بن گئی ہے اور اس فروغ کی وجہ بھی وہ مایوس کن صورت حال ہے جس میں اقتدار اور کرپشن دو بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اقتدار حاصل کرنے اور اس پر قابض رہنے کی اندھی خواہش اور حصول اقتدار کے بعد عوامی مسائل کے حل اور ملک و قوم کی ترقی کے بجائے اپنی آنے والی دس بیس نسلوں کی ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنانے کی مجنونانہ خواہش نے مسلم ملکوں کے عوام میں ایسی مایوسی، بے چینی اور اشتعال پیدا کر دیا کہ مشرق وسطیٰ اس اشتعال کی زد میں آ گیا۔ تیونس، مصر اور لیبیا اسی اشتعال کی زد میں آ کر خون کے دریا پار کر چکے ہیں۔ شام اب بھی خون میں نہائے کھڑا ہے۔
لیبیا سمیت کئی مسلم ملک بھی خونریزیوں کا شکار ہیں ۔ مسلم ملکوں میں آمریت رہی ہو یا جمہوریت ہر حکومت کی اولین ترجیح قومی دولت کی لوٹ مار رہی ہے۔ حکومتوں کی نااہلیوں اور کرپشن کی وجہ سے جو عوامی بے چینی بڑھی اس کو صحیح سمت میں لے جانے والی طاقتوں کو امریکی سامراج نے ہمیشہ پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی۔ اس حماقت کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوامی اشتعال ایک بے سمت انقلاب میں بدل گیا اور ان انقلابات کا فائدہ اٹھانے کے لیے وہ منظم طاقتیں آگے بڑھیں جو معاشروں کو آگے کی سمت لے جانے کے بجائے پیچھے دھکیلنے کو اپنی نظریاتی ذمے داری بلکہ فرض سمجھتی ہیں۔ اسی صورت حال کی وجہ سے تمام مسلم ملک ایک غیر یقینی کیفیت سے دوچار ہیں اور ہر ملک افرا تفری کا شکار ہے۔ اس غیر یقینیت ہی کی وجہ سے منظم مذہبی انتہا پسند طاقتیں ہر جگہ پیش رفت کرتی نظر آ رہی ہیں۔
سیاسی اور غیر سیاسی مسلم حکومتوں نے افرادی طاقت اور بے بہا قدرتی وسائل کو اپنے اپنے ملکوں کی ترقی کے لیے استعمال نہ کرنے کے جس قومی جرم کا ارتکاب کیا ہے اگر اس کی جگہ ان دونوں عوامل کو مسلم ملک اقتصادی ترقی کے لیے استحصال کر کے اور جدید علوم تحقیق ایجادات سائنس اور ٹیکنالوجی کا راستہ اپناتے ہوئے آگے بڑھتے تو آج مسلم ملک ترقی یافتہ دنیا کی پہلی صف میں کھڑے نظر آتے۔ اس حوالے سے سب سے بڑی بدقسمتی یا المیہ یہ ہے کہ ان طاقتوں، ان نظریات کو ملک اور مذہب دشمن قرار دے کر انھیں تباہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو افرادی طاقت اور قدرتی وسائل کو ملک و ملت کی ترقی کے لیے استعمال کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ کیا ہم اس نظریاتی خلفشار سے باہر نکل سکیں گے؟
حالیہ تاریخ میں ترکی کو مسلم دنیا کا ایک رول ماڈل اسلامی ملک مانا جاتا رہا ہے اور پاکستان کا موجودہ حکمران طبقہ تو ترکی کو اپنا آئیڈیل مانتا ہے۔ ترکی میں ایک مذہبی جماعت کی حکومت ہے لیکن یہ مذہبی جماعت ہماری روایتی مذہبی جماعت نہیں بلکہ جدید دنیا کے تقاضوں کو سمجھنے اور اپنے آپ کو ان تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی خواہش مند جماعت ہے۔ اس طرز فکر کی وجہ سے وہاں اقتصادی ترقی کی رفتار دیگر مسلم ملکوں سے زیادہ ہے۔ وہ اسرائیل اور بھارت سے مستقل قطع تعلق کو نہ اپنی سیاست کا خشت اول سمجھتا ہے، نہ وہ مذہبی دشمنیوں اور دوستیوں کو قومی مفادات کے تابع رکھتا ہے، نہ قومی مفادات پر حاوی ہونے دیتا ہے۔ اس سیاست کے نتیجے میں وہ دنیا سے کٹا ہوا اور تنہائی کا شکار ملک نہیں، اسرائیل اور بھارت کے ساتھ اس کے وسیع تعلقات بھی ہیں اور ان ملکوں کی مسلم مخالف پالیسیوں کا وہ مخالف بھی ہے۔
ترکی کی اس سیاست کی وجہ یہ ہے کہ اتاترک اور نئے ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال پاشا نے اس ملک میں ایک لبرل سوچ کی بنیادیں اتنی مضبوط کر دی ہیں کہ مذہبی جماعتیں بھی اس راہ سے ہٹنے کے انجام سے واقف ہیں، لیکن یہ ترکی کی بد قسمتی ہے کہ مسلم ملکوں میں حکمران طبقات کے پھیلائے ہوئے کرپشن کی زد سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ ترکی کی حکمران جماعت پر کرپشن کے الزامات کی شدت کا عالم یہ ہے کہ اس کے تین سرکاری ستون اس طوفان کی زد میں آ گئے ہیں اور ترکی کے دارالحکومت سمیت کئی شہروں میں سرکار کی کرپشن کے خلاف شدید ہنگامے جاری ہیں اور حکومتی پارٹی سمیت عوام ترک وزیر اعظم طیب اردگان سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
بنگلہ دیش انتخابات کے میدان کار زار سے ابھی ابھی خون میں نہا کر نکلا ہے۔ 21 افراد انتخابات کے دن ہلاک ہو چکے ہیں اور سیکڑوں زخمی ہیں۔ اپوزیشن کی رہنما خالدہ ضیاء نے دوسری 18 سیاسی جماعتوں کے ساتھ الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا لیکن حکمران جماعت نے اس کی پرواہ کیے بغیر الیکشن کرا دیے۔ کہا جا رہا ہے کہ بائیکاٹ کی وجہ سے اپوزیشن کے امیدوار الیکشن سے باہر رہے اور حکمران جماعت کے آدھے سے زیادہ امیدوار ''بلا مقابلہ'' منتخب ہو گئے۔ اپوزیشن ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن کے ذریعے دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کر رہی ہے۔ امریکا الیکشن کو ماننے کے لیے تیار نہیں، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بھی اس الیکشن سے مطمئن نہیں، عوام سڑکوں پر ہیں لیکن شیخ حسینہ واجد نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا لیا ہے۔
لیبیا میں خونریزی کا سلسلہ جاری ہے، تازہ اطلاعات کے مطابق لیبیا میں متحارب گروہوں کے درمیان خونریز تصادم میں ایک نائب وزیر سمیت 19 افراد ایک ہی دن میں ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔ 2012ء کے بعد اس تصادم کو سب سے بڑا خون ریز تصادم کہا جا رہا ہے جو لیبیا کے دو قبیلوں ''اولاد سلیمان'' اور ''توبو'' قبیلے کے درمیان ہوا ہے۔ ہلاک ہونے والے نائب وزیر صنعت حسن الدروعی 2011ء کے انقلاب کے بعد عبوری کونسل کے رکن بھی تھے۔ مارچ 2012ء کی خونریز جنگ میں 150 افراد ہلاک اور 400 افراد زخمی ہوئے تھے۔ تشدد کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ شام میں تازہ جھڑپوں کے دوران ہونے والے 10 خودکش حملوں میں 400 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو گئے ہیں۔ پچھلے چند دنوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 700 سے زیادہ ہو گئی ہے، ان میں 351 باغی اور القاعدہ کے 246 ارکان شامل ہیں۔
ان تباہ کاریوں کا ذرا گہری نظر سے جائزہ لیں تو اس کی دو بنیادی وجوہات ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ایک ''ہر قیمت'' پر اقتدار حاصل کرنے اور اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنے کی خواہش، دوسرے حصول اقتدار کے بعد قومی دولت کی لوٹ مار کا کلچر۔ ان دو بیماریوں نے مسلم ملکوں کو شدید بے چینی اور انتشار میں مبتلا کر دیا ہے اور یہ دونوں بیماریاں موروثی ہیں جن کے ڈانڈے ہزاروں برس کی تاریخ سے جا ملتے ہیں۔ ملائشیا، انڈونیشیا دونوں ملکوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں ملک تیزی سے ترقی کر رہے ہیں لیکن بوجوہ ان کی ترقی بھی جامد ہو رہی ہے اور اس کی وجہ بھی ان ملکوں میں پائی جانے والی نظریاتی کشمکش ہے۔
ہماری تاریخ نظریاتی کجروی کی تاریخ ہے اور یہ نظریاتی کجروی اب بڑھتے بڑھتے مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی تک آ گئی ہے جو صرف پاکستان یا مسلم ملکوں کے مستقبل ہی کے لیے خطرہ نہیں رہی ہزاروں سالہ تہذیب ارتقائی سفر کے لیے بھی خطرہ بن گئی ہے اور اس فروغ کی وجہ بھی وہ مایوس کن صورت حال ہے جس میں اقتدار اور کرپشن دو بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اقتدار حاصل کرنے اور اس پر قابض رہنے کی اندھی خواہش اور حصول اقتدار کے بعد عوامی مسائل کے حل اور ملک و قوم کی ترقی کے بجائے اپنی آنے والی دس بیس نسلوں کی ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنانے کی مجنونانہ خواہش نے مسلم ملکوں کے عوام میں ایسی مایوسی، بے چینی اور اشتعال پیدا کر دیا کہ مشرق وسطیٰ اس اشتعال کی زد میں آ گیا۔ تیونس، مصر اور لیبیا اسی اشتعال کی زد میں آ کر خون کے دریا پار کر چکے ہیں۔ شام اب بھی خون میں نہائے کھڑا ہے۔
لیبیا سمیت کئی مسلم ملک بھی خونریزیوں کا شکار ہیں ۔ مسلم ملکوں میں آمریت رہی ہو یا جمہوریت ہر حکومت کی اولین ترجیح قومی دولت کی لوٹ مار رہی ہے۔ حکومتوں کی نااہلیوں اور کرپشن کی وجہ سے جو عوامی بے چینی بڑھی اس کو صحیح سمت میں لے جانے والی طاقتوں کو امریکی سامراج نے ہمیشہ پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی۔ اس حماقت کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوامی اشتعال ایک بے سمت انقلاب میں بدل گیا اور ان انقلابات کا فائدہ اٹھانے کے لیے وہ منظم طاقتیں آگے بڑھیں جو معاشروں کو آگے کی سمت لے جانے کے بجائے پیچھے دھکیلنے کو اپنی نظریاتی ذمے داری بلکہ فرض سمجھتی ہیں۔ اسی صورت حال کی وجہ سے تمام مسلم ملک ایک غیر یقینی کیفیت سے دوچار ہیں اور ہر ملک افرا تفری کا شکار ہے۔ اس غیر یقینیت ہی کی وجہ سے منظم مذہبی انتہا پسند طاقتیں ہر جگہ پیش رفت کرتی نظر آ رہی ہیں۔
سیاسی اور غیر سیاسی مسلم حکومتوں نے افرادی طاقت اور بے بہا قدرتی وسائل کو اپنے اپنے ملکوں کی ترقی کے لیے استعمال نہ کرنے کے جس قومی جرم کا ارتکاب کیا ہے اگر اس کی جگہ ان دونوں عوامل کو مسلم ملک اقتصادی ترقی کے لیے استحصال کر کے اور جدید علوم تحقیق ایجادات سائنس اور ٹیکنالوجی کا راستہ اپناتے ہوئے آگے بڑھتے تو آج مسلم ملک ترقی یافتہ دنیا کی پہلی صف میں کھڑے نظر آتے۔ اس حوالے سے سب سے بڑی بدقسمتی یا المیہ یہ ہے کہ ان طاقتوں، ان نظریات کو ملک اور مذہب دشمن قرار دے کر انھیں تباہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو افرادی طاقت اور قدرتی وسائل کو ملک و ملت کی ترقی کے لیے استعمال کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ کیا ہم اس نظریاتی خلفشار سے باہر نکل سکیں گے؟