پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
میڈیا سے وابستہ یہی صحافی اور میڈیا کے یہی کارکن ہی تو ہیں جن کے بل پر آپ لیڈرز بنے پھرتے ہیں
ایکسپریس میڈیا گروپ کی گاڑی پر حملے میں ایکسپریس کے تین ملازمین شہید ہوگئے۔ اس افسوسناک خبر کے بعد حکومتی ایوانوں سے تاسف، مذمت اور دعوؤں کا ایک سیل رواں ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ صوبائی حکومت اپنی صفائی پیش کرنے میں مگن اور وفاقی حکومت اپنی جگہ معصوم بننے میں مصروف، بے حسی اور فرائض سے غفلت کی حدیں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں؟ میڈیا سے وابستہ ہر صحافی اور ہر کارکن کی نوک زباں پر یہی سوال اس وقت رقصاں ہے۔ کیا ایکسپریس میڈیا گروپ پر یہ پہلا حملہ تھا؟ اس سے قبل بھی ایکسپریس میڈیا گروپ کو دو بار کھلم کھلا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی، مگر کیا ہوا؟ ایکسپریس میڈیا گروپ اور صحافی برادری سے چند الفاظ پر مشتمل اظہار یک جہتی کی بھونڈی سی کوشش اور اس کے بعد یہ جا وہ جا۔
اگر حکومت اور حکومتی ادارے، میڈیا اداروں اور میڈیا سے وابستہ صحافیوں اور کارکنوں سے مخلص ہوتے تو اس بڑے نشریاتی اور طباعتی ادارے کے تحفظ کے لیے جامع اقدامات کرلیے جاتے لیکن چونکہ یہ سڑکوں پر جوتے چٹخانے والے صحافی اور میڈیا کارکن تھے، سو نہ حکمرانوں اور نہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کے کانوں پر جوں تک رینگی۔ تواتر کے ساتھ ایسے واقعات ایکسپریس کے بجائے قلیل فیصد کے کسی ''سیاسی کلاس فیلو'' کے ساتھ پیش آتے، پھر دیکھتے کہ بے حسی کا عالم یہی ہوتا؟ بھئی! میڈیا سے وابستہ یہی صحافی اور میڈیا کے یہی کارکن ہی تو ہیں جن کے بل پر آپ لیڈرز بنے پھرتے ہیں۔ انھی کے ہاتھ سے آپ کی ''سپر لیڈ'' بنتی ہے، انھی کے ہاتھوں آپ کی ''گھن گرج'' سے قوم واقف ہوتی ہے۔
کیا معاشرے کے ''کان اور آنکھ'' گنے جانے والوں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جاتا ہے؟ یہی صحافی، یہی ہنر مند آدھی آدھی رات تک بے تکان آپ کے چند لفظی بیانوں کے لیے اپنی زندگیاں بے آرام کرتے ہیں۔ ان کے تحفظ کی ذمے داری آخر کس کے کندھوں پر عائد کی جائے گی؟ اگر قوم کے فرزندوں کی جان کی امان کی ذمے داری آپ کے لیے مشکل ہے پھر اقتدار کے ایوانوں میں براجمانی کیا معنی رکھتی ہے؟ ماتم صرف ماؤں کے ان تین ''لعلوں'' کا نہیں، ان سے پہلے کتنے صحافی دہشت گردوں کے ہاتھوں رزق خاک ہوئے، ان کے بارے میں آج تک کوئی تسلی بخش جواب صحافی برادری کو نہیں مل سکا۔ کیا پاکستانی میڈیا کی کوئی وقعت نہیں؟ کیا پاکستانی صحافیوں اور کارکنوں کا خوں اتنا ارزاں ہے؟ دوسری جانب دوسرے میڈیا اداروں کا طرز عمل کہ اپنے ہم عصر اور ہم نوا ادارے کے لیے ''نجی ادارے'' کے الفاظ استعمال کرنا۔ ایکسپریس اسی ملک اور اسی قوم کا ایک بڑا اور اہم ابلاغی ادارہ ہے۔ یہ گلہ صرف ''ایکسپریس'' کے واقعے پر ہی موقوف نہیں، جب کسی ہم عصر اخبار یا نشریاتی ادارے یا اس کے کسی کارکن کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آتا ہے، اس کے بارے میں دوسرے ہم عصر ادارے یہی رویہ ''پوز'' کرتے ہیں۔ جو بھی ابلاغی ادارہ اور جو بھی صحافی ہو آخر وہ ہمارے طبقے کی نمایندگی کرتے ہیں، اگر اس ابلاغی ادارے یا اس کے کارکن کا نام لکھا اور نشر کیا جائے اس سے ''آپ'' کی عظمت میں ہی اضافہ ہوگا۔
قابل ستائش امر یہ ہے کہ ایکسپریس میڈیا گروپ کے ساتھ رونما ہونے والے اس اندوہ ناک سانحے کے خلاف ذاتی ''چشمک'' کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تمام صحافی برادری سراپا احتجاج ہے۔ ان صحافی دوستوں نے بھی سڑکوں پر آکر اس صحافت کش واقعے کے خلاف احتجاج میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا ہے جن کے ماتھوں پر ''نام وری'' چمک رہی ہے۔ کیا دہشت گرد عناصر اپنی ایسی بزدلانہ کاررائیوں سے ایکسپریس اور دوسرے میڈیا اداروں کو جھکا سکیں گے؟ دھیرج رکھیے! ایکسپریس اور صحافی برادری کبھی بھی اپنے ان تین ساتھیوں کے خون کا سودا خوف کے ''سائے'' میں نہیں کرے گی۔ وہ عناصر بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بہ زور بازو اور بہ زور بندوق وہ صحافی برادری اور میڈیا اداروں کو اپنے مقاصد اور من پسندنظریات کے ابلاغ کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ میڈیا نہ پہلے ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے مرعوب ہوا اور نہ آنے والے وقتوں میںصحافت کے ''سرخیل'' اور سپاہی اپنے نظریات اور اپنے ابلاغی اصولوں پر کوئی سمجھوتہ کریں گے۔
ہاں! حکومت اور حکومتی اداروں کو دہشت گردی کے قلع قمع کرنے کے بارے میں ''اب نہیں تو کبھی نہیں'' والی پالیسی اختیار کرنی ہوگی کہ دہشت گردی نے اب ڈائن کا روپ دھار لیا ہے، جس کے خون آشام پنجوں سے نہ علما محفوظ ہیں، نہ عام شہری، نہ سیاسی کارکن اور نہ قلم کے مزدور صحافی۔ ذاتی مفادات میں جکڑے حکمرانوں کو اس ڈائن سے جان چھڑانے کے لیے مفادات سے ہاتھ جھٹک کر فیصلہ کرنا ہوگا، ورنہ دہشت گردی اس معاشرے کو چاٹ جائے گی۔ جہاں تک ایکسپریس میڈیا گروپ کا تعلق ہے تو یہ واضح ہے کہ یہ وہ چراغ نہیں جو باطل کی محض ایک پھونک سے بجھ جائے گا۔ اس یقین اور ایمان کی بنیاد اس بات پر ہے کہ فتح ہمیشہ حق کی ہوا کرتی ہے اور رسوائی کا ''بَل'' ہمیشہ باطل کے ماتھے کا مقدر بنا کرتا ہے۔
اگر حکومت اور حکومتی ادارے، میڈیا اداروں اور میڈیا سے وابستہ صحافیوں اور کارکنوں سے مخلص ہوتے تو اس بڑے نشریاتی اور طباعتی ادارے کے تحفظ کے لیے جامع اقدامات کرلیے جاتے لیکن چونکہ یہ سڑکوں پر جوتے چٹخانے والے صحافی اور میڈیا کارکن تھے، سو نہ حکمرانوں اور نہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کے کانوں پر جوں تک رینگی۔ تواتر کے ساتھ ایسے واقعات ایکسپریس کے بجائے قلیل فیصد کے کسی ''سیاسی کلاس فیلو'' کے ساتھ پیش آتے، پھر دیکھتے کہ بے حسی کا عالم یہی ہوتا؟ بھئی! میڈیا سے وابستہ یہی صحافی اور میڈیا کے یہی کارکن ہی تو ہیں جن کے بل پر آپ لیڈرز بنے پھرتے ہیں۔ انھی کے ہاتھ سے آپ کی ''سپر لیڈ'' بنتی ہے، انھی کے ہاتھوں آپ کی ''گھن گرج'' سے قوم واقف ہوتی ہے۔
کیا معاشرے کے ''کان اور آنکھ'' گنے جانے والوں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جاتا ہے؟ یہی صحافی، یہی ہنر مند آدھی آدھی رات تک بے تکان آپ کے چند لفظی بیانوں کے لیے اپنی زندگیاں بے آرام کرتے ہیں۔ ان کے تحفظ کی ذمے داری آخر کس کے کندھوں پر عائد کی جائے گی؟ اگر قوم کے فرزندوں کی جان کی امان کی ذمے داری آپ کے لیے مشکل ہے پھر اقتدار کے ایوانوں میں براجمانی کیا معنی رکھتی ہے؟ ماتم صرف ماؤں کے ان تین ''لعلوں'' کا نہیں، ان سے پہلے کتنے صحافی دہشت گردوں کے ہاتھوں رزق خاک ہوئے، ان کے بارے میں آج تک کوئی تسلی بخش جواب صحافی برادری کو نہیں مل سکا۔ کیا پاکستانی میڈیا کی کوئی وقعت نہیں؟ کیا پاکستانی صحافیوں اور کارکنوں کا خوں اتنا ارزاں ہے؟ دوسری جانب دوسرے میڈیا اداروں کا طرز عمل کہ اپنے ہم عصر اور ہم نوا ادارے کے لیے ''نجی ادارے'' کے الفاظ استعمال کرنا۔ ایکسپریس اسی ملک اور اسی قوم کا ایک بڑا اور اہم ابلاغی ادارہ ہے۔ یہ گلہ صرف ''ایکسپریس'' کے واقعے پر ہی موقوف نہیں، جب کسی ہم عصر اخبار یا نشریاتی ادارے یا اس کے کسی کارکن کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آتا ہے، اس کے بارے میں دوسرے ہم عصر ادارے یہی رویہ ''پوز'' کرتے ہیں۔ جو بھی ابلاغی ادارہ اور جو بھی صحافی ہو آخر وہ ہمارے طبقے کی نمایندگی کرتے ہیں، اگر اس ابلاغی ادارے یا اس کے کارکن کا نام لکھا اور نشر کیا جائے اس سے ''آپ'' کی عظمت میں ہی اضافہ ہوگا۔
قابل ستائش امر یہ ہے کہ ایکسپریس میڈیا گروپ کے ساتھ رونما ہونے والے اس اندوہ ناک سانحے کے خلاف ذاتی ''چشمک'' کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تمام صحافی برادری سراپا احتجاج ہے۔ ان صحافی دوستوں نے بھی سڑکوں پر آکر اس صحافت کش واقعے کے خلاف احتجاج میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا ہے جن کے ماتھوں پر ''نام وری'' چمک رہی ہے۔ کیا دہشت گرد عناصر اپنی ایسی بزدلانہ کاررائیوں سے ایکسپریس اور دوسرے میڈیا اداروں کو جھکا سکیں گے؟ دھیرج رکھیے! ایکسپریس اور صحافی برادری کبھی بھی اپنے ان تین ساتھیوں کے خون کا سودا خوف کے ''سائے'' میں نہیں کرے گی۔ وہ عناصر بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بہ زور بازو اور بہ زور بندوق وہ صحافی برادری اور میڈیا اداروں کو اپنے مقاصد اور من پسندنظریات کے ابلاغ کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ میڈیا نہ پہلے ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے مرعوب ہوا اور نہ آنے والے وقتوں میںصحافت کے ''سرخیل'' اور سپاہی اپنے نظریات اور اپنے ابلاغی اصولوں پر کوئی سمجھوتہ کریں گے۔
ہاں! حکومت اور حکومتی اداروں کو دہشت گردی کے قلع قمع کرنے کے بارے میں ''اب نہیں تو کبھی نہیں'' والی پالیسی اختیار کرنی ہوگی کہ دہشت گردی نے اب ڈائن کا روپ دھار لیا ہے، جس کے خون آشام پنجوں سے نہ علما محفوظ ہیں، نہ عام شہری، نہ سیاسی کارکن اور نہ قلم کے مزدور صحافی۔ ذاتی مفادات میں جکڑے حکمرانوں کو اس ڈائن سے جان چھڑانے کے لیے مفادات سے ہاتھ جھٹک کر فیصلہ کرنا ہوگا، ورنہ دہشت گردی اس معاشرے کو چاٹ جائے گی۔ جہاں تک ایکسپریس میڈیا گروپ کا تعلق ہے تو یہ واضح ہے کہ یہ وہ چراغ نہیں جو باطل کی محض ایک پھونک سے بجھ جائے گا۔ اس یقین اور ایمان کی بنیاد اس بات پر ہے کہ فتح ہمیشہ حق کی ہوا کرتی ہے اور رسوائی کا ''بَل'' ہمیشہ باطل کے ماتھے کا مقدر بنا کرتا ہے۔