مالیاتی خسارہ ہدف سے بھی آگے
مستقبل کے خدشات کے حوالے سے ہمارا انفرادی رویہ بھی یہی ہے، جس کی عکاسی ہمارے طرز زندگی سے ہوتی ہے
مالیاتی خسارہ ہدف سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے۔ خسارہ جی ڈی پی کے 8 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ جب کہ اس کا ہدف 4.7 فیصد رکھا گیا تھا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ آیندہ تین سال تک مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 4 فیصد تک لے جائے گی۔
رواں مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے مالیاتی ہدف کی ایک حد مختص کی گئی ہے۔ لیکن حکومت کو جن ذرایع سے آمدن کی توقع تھی وہ اہداف پورے ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس امر نے حکومت کے کے لیے نئی پریشانی پیدا کر دی ہے۔ بجٹ پیش کرنے کے دو ماہ میں ہی گردشی قرضوں کی ادائیگی کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کو قسطوں کی ادائیگی بھی مسلسل کی جا رہی ہے جس کے باعث ملک پر مالیاتی دباؤ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ حال ہی میں چند ملکوں کے اعلیٰ سطح وفود کے پاکستان آنے کے باعث غیرملکی سرمایہ کاری کی آمد کی توقع کی جا رہی تھی۔ کئی معاہدے طے پاچکے تھے اور آیندہ ہونا قرار پائے تھے۔
گزشتہ 7 ماہ کے دوران اگرچہ حکومت نے اپنے اخراجات میں بھی کمی کی ہے۔ وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات میں 40 فیصد کمی لائی گئی ہے، دیگر حکومتی اداروں کے اخراجات میں 30 فیصد کمی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ خودمختار اداروں کو بھی اپنے اخراجات میں کمی لانے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ بیرون ملک سفارتخانوں کے اخراجات کو کم کیا گیا ہے۔ اس طرح بتایا جا رہا ہے کہ سالانہ 2 ارب روپے کی بچت کرلی جائے گی۔ اس طرح حکومتی اخراجات کو کم کرنے سے 135 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
حکومتی ذرایع کے مطابق 1999 تک مجموعی ملکی قرضے 2946 ارب روپے تھے، اس کے بعد ان قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہا۔ حکومتی اخراجات کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ اس کے ساتھ ہی افراط زر میں بے تحاشا اضافہ ہوتا رہا۔ اور ہر سال بجٹ کے موقع پر مالیاتی خسارہ بھی بڑھاکر تجویز کیا جاتا رہا۔ اور یوں معیشت کو پہنچنے والے ہر نقصان دہ عمل کی آبیاری کی گئی۔ آئی ایم ایف سے بھاری شرح سود اور کڑی شرائط کے ساتھ قرضے لیے گئے۔ 2008 میں جب آئی ایم ایف سے قرض لیا گیا تھا اس وقت ڈالر 79 روپے کا تھا، جو اب بڑھ کر 106 روپے تک جا پہنچا ہے۔ آئی ایم ایف کو قسطوں کی ادائیگی کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر بھی گھٹتے چلے جا رہے ہیں۔ اب قرض کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لیا جا رہا ہے۔ مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومت تجارتی بینکوں سے اور اسٹیٹ بینک سے قرض لے رہی ہے۔ اس کے علاوہ نوٹ بھی چھاپے جا رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے تک موجودہ حکومت اپنے 7 ماہ سے زائد عرصے میں 280 ارب روپے کے نوٹ چھاپ چکی ہے۔ سال 2013 کے آخر تک مجموعی ملکی قرضے پندرہ ہزار ارب روپے تک جا پہنچے ہیں۔ 2008 میں آنے والے عالمی مالیاتی بحران کے بعد کئی ممالک اس کے اثرات سے باہر نکل آئے ہیں۔ لیکن جن دنوں مختلف ممالک اس بات کو تسلیم کر رہے تھے کہ ان کا ملک عالمی مالیاتی بحران سے متاثر ہوا ہے اور وہ اس بحران سے جلد چھٹکارا پالیں گے۔ اسی دوران پاکستان کے ارباب اختیار اس بات کا دعویٰ کر رہے تھے کہ پاکستان عالمی مالیاتی بحران سے قطعی متاثر نہیں ہوا ہے۔ لیکن فوراً ہی قرضوں کے حصول کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کیا گیا۔ ملک کا مالیاتی خسارہ بڑھتا چلا گیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مالیاتی خسارے کی حد جی ڈی پی کے 8.8 فیصد تک جا پہنچی، جوکہ انتہائی خطرناک صورتحال تھی۔ زرمبادلہ کے ذخائر اتنے کم ہوگئے تھے کہ چند ہفتوں کی درآمدات کے لیے بھی ناکافی تھے۔ ان مالیاتی دباؤ سے نکلنے کے لیے حکومت کی جانب سے پھر آئی ایم ایف سے رجوع کیا گیا۔
ادھر نائن الیون کے بعد سے ملک کی معاشی صورت حال بگڑتی چلی جا رہی ہے۔ اس وقت دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مالیاتی خسارے کو جی ڈی پی کے 8 فیصد تک لے کر آچکے ہیں اور جلد ہی طے کردہ ہدف 4.7 فیصد تک پہنچانے کے بعد آیندہ تین برسوں میں مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 4 فیصد تک لے کر جائیں گے۔ اس طرح کے دعوے اس سے قبل کی حکومتیں بھی کرتی چلی آئی ہیں، لیکن عملاً اس دوران ملک کے تجارتی بینکوں اور اسٹیٹ بینک سے قرض لیا جاتا رہا ہے۔ لہٰذا یہ دعویٰ کرنا بے معنی ہے کہ مالیاتی خسارے کو کنٹرول کرلیا جائے گا۔ کیونکہ حکومت کو اپنے ہدف کے مطابق ٹیکس وصول نہیں ہوتا۔ بہت سارے اخراجات کے لیے رقوم کی کمی ہوتی ہے۔ ایک طرف حکومتی ترقیاتی اخراجات بڑھتے چلے جا رہے ہیں دوسری طرف ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنے دفاعی اخراجات کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم غیر ملکی سرمایہ کاری پر انحصار کرکے بیٹھ جائیں تو یہ توقع بھی عبث ہے۔ کیونکہ جیسے ہی کئی ممالک سے سرمایہ کاری کی بات آگے بڑھی ہے ملک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں تیزی نظر آنے لگی ہے۔
اس کے علاوہ ہم مجبور ہوکر جب بھی آئی ایم ایف سے قرض وصول کرتے ہیں تو عالمی مالیاتی ادارہ ملکی معیشت کو توانا کرنے، معاشی مضبوطی اور معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے بجائے ایسے پروگرام وضع کرکے دیتا ہے جس سے معیشت مزید نڈھال ہوکر رہ جاتی ہے۔ ہر شے کی قیمت جب بھی بڑھ جاتی ہے تو ایسے ہی حکومت کو اپنے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے زیادہ رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے باعث مالیاتی خسارے کی حد بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ باوجود کوشش کے حکومت اپنی آمدنی میں اس حد تک اضافہ نہیں کرپاتی ہے کہ اپنے اخراجات کو پورا کرسکے۔ لہٰذا وقت کے ساتھ ساتھ اخراجات بڑھتے چلے جا رہے ہیں ان حالات میں خسارے کو دور کرنے کے لیے مالیاتی خسارے کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے اور مالیاتی خسارہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔
گزشتہ حکومت نے مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے لیے آسان راستہ اختیار کرلیا تھا کہ کمرشل بینکوں سے بے تحاشا قرض حاصل کرنا شروع کردیا تھا جس کے باعث تجارتی بینکوں کی چاندی ہوگئی تھی۔ کیونکہ ان بینکوں کو نجی اداروں کو قرض کے اجرا کے معاملے میں بہت زیادہ خدشات لاحق ہوتے ہیں۔ قرض کی عدم وصولی کے خطرات موجود ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ فیکٹری کی عمارت کو رہن رکھ کر قرض حاصل کرلیا۔ قرض حاصل کرنے کے بعد صنعتکار اس رقم کو بیرون ملک لے جاکر انویسٹ کردیتے ہیں اور فیکٹری کو نقصان میں دکھا کر قرض کی رقم ہضم کرلیتے ہیں۔ ان رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے بینک نجی اداروں کو قرض کی فراہمی سے کترانے لگے، اس صورت حال میں بینکوں کے لیے یہ بات باعث اطمینان ہوتی ہے کہ حکومت قرض حاصل کر رہی ہے۔ لہٰذا حکومت کو قرض فراہم کرکے ان کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔
دوسری طرف حکومت اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے فنانشل سیکٹر کی گروتھ ریٹ کی افزائش کا بڑے زور و شور سے پرچار کرتی رہی ہے کہ ملک کے بینکنگ سیکٹر کی ترقی بہت زیادہ ہوئی ہے۔ لہٰذا پاکستان کی معیشت کی صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔ حالانکہ بینکاری سیکٹر کی ترقی کے باوجود روزگار میں اضافہ نہیں ہوا کیونکہ بینکنگ سیکٹر کی ترقی اور اصلاح کے ساتھ ہی بینکوں نے بچت پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے بہت سے لوگوں کو بیروزگار کردیا۔ لہٰذا اس طرح حکومتی قرضوں کے حصول کے باعث ملکی معیشت کو بھی شدیدنقصان پہنچنا شروع ہوگیا۔ اس کے ساتھ حکومت کو اپنے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے بڑی تعداد میں نوٹ چھاپنے شروع کردیے۔ نوٹ چھاپنے کے زیادہ نقصانات کو کم کرنے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ ہی پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔ملک میں ہر شے کی پیداوار کو بڑھایا جائے۔ ملک میں ایسی کوئی سرگرمی نظر نہیں آرہی تھی کہ ملکی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہوا نظر آئے۔ اس وقت تو حکومت یہ بتا رہی ہے کہ اسٹیل ملز کو بند سمجھیں۔ جب اتنا بڑا ادارہ جس کے باعث ملکی صنعتی سرگرمیاں تیز ہوسکتی ہیں اسی کو بند سمجھا جائے تو ملکی صنعتی پیداوار میں کس قدر ترقی ہوسکتی ہے، یہ واضح ہے۔ لہٰذا اس تمام صورت حال کے نتیجے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ملک میں بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے کو کنٹرول کرنے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
رواں مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے مالیاتی ہدف کی ایک حد مختص کی گئی ہے۔ لیکن حکومت کو جن ذرایع سے آمدن کی توقع تھی وہ اہداف پورے ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس امر نے حکومت کے کے لیے نئی پریشانی پیدا کر دی ہے۔ بجٹ پیش کرنے کے دو ماہ میں ہی گردشی قرضوں کی ادائیگی کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کو قسطوں کی ادائیگی بھی مسلسل کی جا رہی ہے جس کے باعث ملک پر مالیاتی دباؤ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ حال ہی میں چند ملکوں کے اعلیٰ سطح وفود کے پاکستان آنے کے باعث غیرملکی سرمایہ کاری کی آمد کی توقع کی جا رہی تھی۔ کئی معاہدے طے پاچکے تھے اور آیندہ ہونا قرار پائے تھے۔
گزشتہ 7 ماہ کے دوران اگرچہ حکومت نے اپنے اخراجات میں بھی کمی کی ہے۔ وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات میں 40 فیصد کمی لائی گئی ہے، دیگر حکومتی اداروں کے اخراجات میں 30 فیصد کمی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ خودمختار اداروں کو بھی اپنے اخراجات میں کمی لانے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ بیرون ملک سفارتخانوں کے اخراجات کو کم کیا گیا ہے۔ اس طرح بتایا جا رہا ہے کہ سالانہ 2 ارب روپے کی بچت کرلی جائے گی۔ اس طرح حکومتی اخراجات کو کم کرنے سے 135 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
حکومتی ذرایع کے مطابق 1999 تک مجموعی ملکی قرضے 2946 ارب روپے تھے، اس کے بعد ان قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہا۔ حکومتی اخراجات کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ اس کے ساتھ ہی افراط زر میں بے تحاشا اضافہ ہوتا رہا۔ اور ہر سال بجٹ کے موقع پر مالیاتی خسارہ بھی بڑھاکر تجویز کیا جاتا رہا۔ اور یوں معیشت کو پہنچنے والے ہر نقصان دہ عمل کی آبیاری کی گئی۔ آئی ایم ایف سے بھاری شرح سود اور کڑی شرائط کے ساتھ قرضے لیے گئے۔ 2008 میں جب آئی ایم ایف سے قرض لیا گیا تھا اس وقت ڈالر 79 روپے کا تھا، جو اب بڑھ کر 106 روپے تک جا پہنچا ہے۔ آئی ایم ایف کو قسطوں کی ادائیگی کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر بھی گھٹتے چلے جا رہے ہیں۔ اب قرض کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لیا جا رہا ہے۔ مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومت تجارتی بینکوں سے اور اسٹیٹ بینک سے قرض لے رہی ہے۔ اس کے علاوہ نوٹ بھی چھاپے جا رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے تک موجودہ حکومت اپنے 7 ماہ سے زائد عرصے میں 280 ارب روپے کے نوٹ چھاپ چکی ہے۔ سال 2013 کے آخر تک مجموعی ملکی قرضے پندرہ ہزار ارب روپے تک جا پہنچے ہیں۔ 2008 میں آنے والے عالمی مالیاتی بحران کے بعد کئی ممالک اس کے اثرات سے باہر نکل آئے ہیں۔ لیکن جن دنوں مختلف ممالک اس بات کو تسلیم کر رہے تھے کہ ان کا ملک عالمی مالیاتی بحران سے متاثر ہوا ہے اور وہ اس بحران سے جلد چھٹکارا پالیں گے۔ اسی دوران پاکستان کے ارباب اختیار اس بات کا دعویٰ کر رہے تھے کہ پاکستان عالمی مالیاتی بحران سے قطعی متاثر نہیں ہوا ہے۔ لیکن فوراً ہی قرضوں کے حصول کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کیا گیا۔ ملک کا مالیاتی خسارہ بڑھتا چلا گیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مالیاتی خسارے کی حد جی ڈی پی کے 8.8 فیصد تک جا پہنچی، جوکہ انتہائی خطرناک صورتحال تھی۔ زرمبادلہ کے ذخائر اتنے کم ہوگئے تھے کہ چند ہفتوں کی درآمدات کے لیے بھی ناکافی تھے۔ ان مالیاتی دباؤ سے نکلنے کے لیے حکومت کی جانب سے پھر آئی ایم ایف سے رجوع کیا گیا۔
ادھر نائن الیون کے بعد سے ملک کی معاشی صورت حال بگڑتی چلی جا رہی ہے۔ اس وقت دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مالیاتی خسارے کو جی ڈی پی کے 8 فیصد تک لے کر آچکے ہیں اور جلد ہی طے کردہ ہدف 4.7 فیصد تک پہنچانے کے بعد آیندہ تین برسوں میں مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 4 فیصد تک لے کر جائیں گے۔ اس طرح کے دعوے اس سے قبل کی حکومتیں بھی کرتی چلی آئی ہیں، لیکن عملاً اس دوران ملک کے تجارتی بینکوں اور اسٹیٹ بینک سے قرض لیا جاتا رہا ہے۔ لہٰذا یہ دعویٰ کرنا بے معنی ہے کہ مالیاتی خسارے کو کنٹرول کرلیا جائے گا۔ کیونکہ حکومت کو اپنے ہدف کے مطابق ٹیکس وصول نہیں ہوتا۔ بہت سارے اخراجات کے لیے رقوم کی کمی ہوتی ہے۔ ایک طرف حکومتی ترقیاتی اخراجات بڑھتے چلے جا رہے ہیں دوسری طرف ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنے دفاعی اخراجات کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم غیر ملکی سرمایہ کاری پر انحصار کرکے بیٹھ جائیں تو یہ توقع بھی عبث ہے۔ کیونکہ جیسے ہی کئی ممالک سے سرمایہ کاری کی بات آگے بڑھی ہے ملک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں تیزی نظر آنے لگی ہے۔
اس کے علاوہ ہم مجبور ہوکر جب بھی آئی ایم ایف سے قرض وصول کرتے ہیں تو عالمی مالیاتی ادارہ ملکی معیشت کو توانا کرنے، معاشی مضبوطی اور معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے بجائے ایسے پروگرام وضع کرکے دیتا ہے جس سے معیشت مزید نڈھال ہوکر رہ جاتی ہے۔ ہر شے کی قیمت جب بھی بڑھ جاتی ہے تو ایسے ہی حکومت کو اپنے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے زیادہ رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے باعث مالیاتی خسارے کی حد بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ باوجود کوشش کے حکومت اپنی آمدنی میں اس حد تک اضافہ نہیں کرپاتی ہے کہ اپنے اخراجات کو پورا کرسکے۔ لہٰذا وقت کے ساتھ ساتھ اخراجات بڑھتے چلے جا رہے ہیں ان حالات میں خسارے کو دور کرنے کے لیے مالیاتی خسارے کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے اور مالیاتی خسارہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔
گزشتہ حکومت نے مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے لیے آسان راستہ اختیار کرلیا تھا کہ کمرشل بینکوں سے بے تحاشا قرض حاصل کرنا شروع کردیا تھا جس کے باعث تجارتی بینکوں کی چاندی ہوگئی تھی۔ کیونکہ ان بینکوں کو نجی اداروں کو قرض کے اجرا کے معاملے میں بہت زیادہ خدشات لاحق ہوتے ہیں۔ قرض کی عدم وصولی کے خطرات موجود ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ فیکٹری کی عمارت کو رہن رکھ کر قرض حاصل کرلیا۔ قرض حاصل کرنے کے بعد صنعتکار اس رقم کو بیرون ملک لے جاکر انویسٹ کردیتے ہیں اور فیکٹری کو نقصان میں دکھا کر قرض کی رقم ہضم کرلیتے ہیں۔ ان رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے بینک نجی اداروں کو قرض کی فراہمی سے کترانے لگے، اس صورت حال میں بینکوں کے لیے یہ بات باعث اطمینان ہوتی ہے کہ حکومت قرض حاصل کر رہی ہے۔ لہٰذا حکومت کو قرض فراہم کرکے ان کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔
دوسری طرف حکومت اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے فنانشل سیکٹر کی گروتھ ریٹ کی افزائش کا بڑے زور و شور سے پرچار کرتی رہی ہے کہ ملک کے بینکنگ سیکٹر کی ترقی بہت زیادہ ہوئی ہے۔ لہٰذا پاکستان کی معیشت کی صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔ حالانکہ بینکاری سیکٹر کی ترقی کے باوجود روزگار میں اضافہ نہیں ہوا کیونکہ بینکنگ سیکٹر کی ترقی اور اصلاح کے ساتھ ہی بینکوں نے بچت پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے بہت سے لوگوں کو بیروزگار کردیا۔ لہٰذا اس طرح حکومتی قرضوں کے حصول کے باعث ملکی معیشت کو بھی شدیدنقصان پہنچنا شروع ہوگیا۔ اس کے ساتھ حکومت کو اپنے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے بڑی تعداد میں نوٹ چھاپنے شروع کردیے۔ نوٹ چھاپنے کے زیادہ نقصانات کو کم کرنے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ ہی پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔ملک میں ہر شے کی پیداوار کو بڑھایا جائے۔ ملک میں ایسی کوئی سرگرمی نظر نہیں آرہی تھی کہ ملکی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہوا نظر آئے۔ اس وقت تو حکومت یہ بتا رہی ہے کہ اسٹیل ملز کو بند سمجھیں۔ جب اتنا بڑا ادارہ جس کے باعث ملکی صنعتی سرگرمیاں تیز ہوسکتی ہیں اسی کو بند سمجھا جائے تو ملکی صنعتی پیداوار میں کس قدر ترقی ہوسکتی ہے، یہ واضح ہے۔ لہٰذا اس تمام صورت حال کے نتیجے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ملک میں بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے کو کنٹرول کرنے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔