وقت دعا ہے
کراچی سے خیبرتک ہم فرقوں، ذاتوں، عقائد اورلسانی بنیادوں پرایک قوم ہونے کے بجائے مختلف قومیتوں کی صورت میں بٹے ہوئے ہیں
یہ ربیع الاول کا مبارک مہینہ ہے اور ہم سب اپنے قلوب کی گہرائیوں سے اس محبوب خدا اور حبیب کبریا کا جشن ولادت انتہائی عقیدت و احترام سے منارہے ہیں جس کے بارے میں شاعر کا کہنا ہے کہ:
بعداز خدا بزرگ تو ہی قصہ مختصر
بے شک نبی کریمؐ کی ذات والا صفات ایسی ہے کہ جس کی عظمت اور ختم نبوت کو تسلیم کیے بغیر ہمارا ایمان کامل و مکمل نہیں ہوسکتا۔ کلمۂ طیبہ میں ہم اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے محبوب کے نبیؐ ہونے کا واضح اور برملا اقرار کرتے ہیں۔
ترجمہ: ''نہیں ہے کوئی معبود سوائے اﷲ کے اور محمدؐ اس کے رسول ہیں'' ایمان کے دائرے میں داخل ہونے کے لیے یہ کلمہ کسی بھی انسان کے لیے سب سے پہلی اور لازمی شرط ہے۔
حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ''تمہارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک میں تمہیں تمہارے ماں باپ اور اولاد سے بڑھ کر عزیز نہ ہوجاؤں''۔
اپنے ماں باپ سے سب سے زیادہ محبت ہر انسان کا فطری تقاضا ہے۔ جب وہ بچہ ہوتا ہے تو وہ سب سے زیادہ ان ہی کو جانتا اور مانتا ہے اور اپنی تمام تر ضروریات کا طلب گار اور مدد کا خواستگار بھی بس ان ہی سے ہوتا ہے۔ فطرت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ انسان کو اپنی اولاد، اپنی ہر شے حتیٰ کہ اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ چنانچہ امیر سے امیر اور غریب سے غریب والدین کو بھی اپنی اولاد ہی ہر چیز سے زیادہ عزیز ہوتی ہے اور وہ اس کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے بخوشی تیار رہتے ہیں اور اس پر ذرا سی بھی آنچ نہیں آنے دیتے۔ لیکن حب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا سب سے پہلا اور لازمی تقاضا یہی ہے کہ وہ اﷲ کے حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنے ماں باپ اور اپنی اولاد سے بھی زیادہ عزیز کہیں۔ چنانچہ صحابہ کرامؓ آغاز کلام سے قبل یہی فرمایا کرتے تھے کہ ''یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! ہمارے ماں باپ آپؐ پر قربان''۔
سچی بات یہ ہے کہ اگر کسی گنہگار سے گنہگار مسلمان میں ایمان کی ذرا سی بھی رمق اور حرارت موجود ہے تو وہ اپنے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں ہرگز گستاخی گورا نہیں کرسکتا۔ غازی علم دین کا عظیم واقعہ تو آپ سب کے علم میں ہے لیکن ہمیں اس وقت ایک طوائف کا واقعہ یاد آرہا ہے جو دلی کے ایک مشہور بازار حسن جی بی روڈ پر اپنے کوٹھے پر محفلیں سجایا کرتی تھی۔ یہ 1947 کا پرآشوب زمانہ تھا جب قیام پاکستان کے سلسلے میں ہندو مسلم فسادات اپنے نکتہ عروج پر تھے اور شہر میں ہندو سکھ بلوائی نہایت سفاکی اور درندگی کے ساتھ مظلوم مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے تھے۔ شامت اعمال ایک رات اس طوائف کے دیرینہ عاشق نے جو ہندو تھا اور غالباً نشے کی حالت میں تھا نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کردی۔ اس کی اس مذموم ترین حرکت پر وہ طوائف اس قدر دل برداشتہ ہوگئی کہ اس نے باورچی خانے سے چھری لاکر اس بد بخت گستاخ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو جہنم واصل کردیا۔ وکلاء نے اسے سزا سے بچانے کے لیے بہت منت سماجت کی لیکن اس کا اصرار تھا کہ اقبال جرم ہی اس کا حاصل زندگی اور ذریعہ نجات ہے۔
حضور سرور کائناتؐ کی ذات یا صفات کی عقیدت صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ بے شمار اور بڑے بڑے غیر مسلم بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بے مثال عظمت کے معترف ہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ دلی میں سیرت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظیم الشان محفلوں اور جلسوں میں نہ صرف غیر مسلم اکابرین اور عمائدین شریک ہوا کرتے تھے بلکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے حضور نذرانہ عقیدت بھی پیش کیا کرتے تھے۔ گوپی ناتھ، امن لکھنوی صاحب اور کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کو ہم نے ان پر نور محافل میں ہمیشہ پیش پیش پایا، جن کی اثر انگیز نعمتوں سے تمام سامعین پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ بے شک حضور سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات اقدس کی رحمت صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے کیوںکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم تو بلاشبہ محسن انسانیت ہیں۔ چنانچہ اسی حوالے سے کنور مہندر سنگھ بیدی نے جو مذہباً سکھ تھے اور سحر تخلص کرتے تھے بے پناہ تڑپ اور عقیدت مندی کے ساتھ یہ کہا ہے کہ:
عشق ہوجائے کسی سے کوئی یارا تو نہیں
صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں
حضور نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ ''سب سے بڑا بخیل وہ ہے جس کے سامنے میرا نام آئے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے''۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سراپا رحمت اور سرچشمہ ہدایت و اخوت ہیں، آپؐ نے اگر عرب کے باہم دست و گریباں جنگجو قبائل کو شیر و شکر کردیا اور اسلام کے رشتے کی مالا میں موتیوں کی طرح پرو کر یک جان دو قالب کردیا مگر افسوس کہ ہم آج محض سرکار دو عالم کے نام لیوا رہ گئے ہیں۔ اور آپؐ کی ہدایات اور آپؐ کے ابدی پیغام کو ہم سب نے فراموش کردیا۔ ہم چراغاں بھی کررہے ہیں اور خصوصی محفلوں کا انعقاد بھی کررہے ہیں لیکن من حیث القوم ہماری حالت یہ ہے کہ بہ قول اقبالؒ:
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
کراچی سے لے کر خیبر تک ہم فرقوں، ذاتوں، عقائد اور لسانی بنیادوں پر ایک قوم ہونے کے بجائے مختلف قومیتوں کی صورت میں بٹے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے حلیف ہونے کے بجائے ایک دوسرے کے حریف بنے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر بھی مسلمانوں کے معاملات کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ سیاسی مفادات اور مصلحتوں نے مسلم ممالک کے درمیان اصلوں کی خلیجیں حائل کی ہوئی ہیں جنھیں پاٹے جانے کے دور پرے تک کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ ملت اسلامیہ کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے اور ہمارے دشمن ''لڑاؤ اور حکومت کرو'' کی اپنی روایتی پالیسی اور سازش پر عمل پیرا ہوکر ہماری تباہی و بربادی کا سامان جمع کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ تشویشناک صورت حال ہم سب کے لیے ایک انتہائی نازک لمحہ فکریہ ہے۔
ایسے سنگین حالات میں جب ہم شعائر اسلامی کا مذاق اڑاتے ہوئے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرنے کے بجائے اس کی سراسر خلاف ورزی کرنے میں مصروف ہیں کہیں دور سے یہ آواز آتی ہوئی سنائی دے رہی ہے:
اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے