کون سچا ہے کون غلط
موجودہ حکومت کو آج کل جن مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے ان میں سرِفہرست دہشت گردی کا خاتمہ ہے
کسی نے بالکل درست فرمایا ہے کہ اگر آپ ٹی وی پر خبریں، ٹاک شوز اور سیاسی تجزیے دیکھنا چھوڑ دیں تو شاید آپ کو نہ سر کا درد ہوگا اور نہ بلڈ پریشر اور نہ شوگر کی بیماری۔ جب سے ہمارے یہاں ٹاک شوز کی بھرمار ہوئی ہے ایسا لگتا ہے کہ زندگی عذابِ جاں بن چکی ہے اور مشرق سے ابھرنے والا ہر صبح کا سورج ہمارے لیے امن و سکون اورچین و راحت کی نوید لانے کے بجائے مصائب و مسائل کے انبار کی نوید لیے طلوع ہوتا ہے۔ ہر نیا دن ہمارے لیے پہلے سے زیادہ کٹھن اور دشوار بن کر ہمارے اعصاب پر سوار ہو جاتا ہے۔ کچھ تو ملکی حالات نے ہمیں ادھ موا کردیا ہے اور کچھ ہمارے مہرباں دوست جنھیں مختلف ٹی وی چینل والے ہر شام تجزیے اور تبصروں کے لیے اپنا مہمان بنا لیتے ہیں، ملکی حالات کی ایسی خوفناک تصویر پیش کر رہے ہوتے ہیں کہ رہی سہی ہمت اور امید بھی جاتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ کوئی اپنے فرضی اندازوں سے ملک و قوم کو تباہی سے مکمل دوچار کر رہا ہوتا ہے تو کوئی ملکی معیشت کا دیوالیہ نکال کر اپنی دلی تشفی اور تسلی کر رہا ہوتا ہے۔ کوئی بلند بانگ دعوے کے ساتھ موجودہ حکومت کو صرف چند ماہ کا مہمان قرار دے کر اس کے جانے کی خبریں دے رہا ہوتا ہے تو کوئی اسے مارچ 2014 کے خاتمے سے پہلے ہی فارغ کر دینے کی حتمی تاریخیں دے رہا ہوتا ہے۔ اس سارے کھیل تماشے میں سیاستداں تو سیاستداں ہمارے صحافی حضرات اور تجزیہ نگار بھی کسی سے پیچھے رہنا نہیں چاہتے اور وہ بھی بڑھ چڑھ کر پورے انہماک سے رائے زنی اور تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں۔
قوم اپنے ان بہی خواہوں اور مہربانوں کی داستاں سرائی کی اتنی عادی ہو چکی ہے کہ جس روز یہ دکھائی نہیں دیتے ، بے چین اور مضطرب ہوکر ان کی تلاش شروع کر دیتی ہے۔ ہمارے کچھ سیاستداں تو اپنی ساری سیاست ہی ان ٹی وی چینلز کے ذریعے پوری کرتے ہیں۔ وہ خود نہ ٹی وی کے بغیر رہ سکتے ہیں اور نہ ٹی وی والوں کو اپنے دیدار سے محروم کر سکتے ہیں۔ ہر شام بن ٹھن کر اپنے شہر کی حویلی سے نکل کر قریبی کسی چینل کے دفتر پہنچ جاتے ہیں اور عام فہم، دلچسپ اور مضحکہ خیز گفتگو کرکے سننے والوں کو مسحور اور محظوظ کرکے اور اپنے دل کا غبار ہلکا کر جاتے ہیں اور پھر رات گئے بازار کے کسی چوک پر محلے والوں کے ساتھ چائے کی گرم گرم پیالی اور سلگتے سگار کا مزہ لے لے کر سیاسی دشمنوں کا باقی ماندہ خوب تیا پانچہ کرتے ہیں۔ ان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ وزارت کے بغیر بہت مشکل سے اپنے شب و روز گزار پاتے ہیں، وہ جب سے اس نعمت خداوندی سے محروم کر دیے گئے ہیں، انتہائی کرب و الم میں بے چین و مضطرب ہوکر زندگی کے دن گزار رہے ہیں۔سابق صدر زرداری کے پانچ سالہ دورمیں وہ اسی دن کا انتظار کرتے رہے کہ حکومت اب گری کہ تب گری۔ کبھی سینیٹ کے الیکشن سے قبل ہی کوئی معجزہ ہوتا دیکھ رہے ہوتے اور کبھی حقانی اسکینڈل کے نتیجے میں کوئی کرشمہ رونما ہوتا دیکھ رہے ہوتے۔ ان کی تمام تر خواہشوں اور حسرتوں کے باوجود زرداری گورنمنٹ اپنے پانچ سال مکمل کرکے ہی رخصت ہوئی۔
نئے الیکشن کا اعلان ہوا تو انھیں اس میں بھی رکاوٹیں دکھائی دیتی ہیں اور جب نتائج حسبِ منشا برآمد نہ ہوں تو ایک بار پھر مایوسیوں اور نامرادیوں کا بوجھ لیے ایک بار پھر نئی حکومت کے جانے کے دن گننے شروع کردیتے ہیں۔ ابتدا میں وہی چھ ماہ کا عرصہ انھیں ناممکن دکھائی دیتا ہے اور وہ مکمل اعتماد اور یقین کے ساتھ اس نئی حکومت کو اس کے ہنی مون پیریڈ میں ہی جاتا ہوا تصور کر لیتے ہیں۔ یہی مشق سخن اب پھر جاری ہے اور ہر روز ایک نئی کہانی موجودہ حکومت کے زوال کا باعث بننے کے لیے اس طرح تراشی جاتی ہے کہ سننے والا بھی گومگو کی حالت یعنی یقینی اور غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہوکر کچھ دیر کے لیے نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ رات گئے اس تصوراتی خوش فہمیوںکے اثرات زائل ہونا شروع ہوتے ہیں تو نئی شام نیا ہنگامہ لیے ہمارے ذہنوں کو پھر سے مشتعل کرنے کے لیے حاضر ہو جاتی ہے۔ ان ٹاک شوز میں حکومت مخالف ناقدین اپنا سارا زور حکومت وقت کو ملک کی تاریخ کی سب سے کرپٹ اور نااہل حکومت ثابت کرنے میں صرف کرتے دکھائی دیتے ہیں تو حکومتی حمایتی سب کچھ ٹھیک ہے کی راگنی گا رہے ہوتے ہیں۔
اپوزیشن میں رہتے ہوئے دراصل حالات کی سنگینی کا احساس قطعاً نہیں ہو پاتا۔ ملک کو درپیش مالی مشکلات، اقتصاد و معاش کے پیچ و خم اور بین الاقوامی مجبوریوں کا پتا اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر ہی معلوم ہوتا ہے۔مسلم لیگ ن کے رہنما، زرداری دورِ حکومت میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے، لیکن جب سے ان کی پارٹی وفاق میں اپنی حکومت بنا پائی ہے ان کی زبان چپ ہے اور اب وہ اس طرح گرجتے اور برستے دکھائی نہیں دیتے جس طرح وہ سابقہ دور حکومت میں گلا پھاڑ مائیک توڑ خطاب فرمایا کرتے تھے۔ اب شاید انھیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو چکا ہے۔ یہی حال آج کل شیخ رشید اور عمران خان کا ہے، وہ چونکہ فی الحال اقتدار سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں، انھیں ہر شے بہت سہل اور آسان دکھائی دیتی ہے۔ لہٰذا وہ صبح و شام ہر ناکامی اور ہر بڑائی کو حکومت کے کھاتے میں ڈال کر اپنا قومی فریضہ بخوبی نبھا رہے ہوتے ہیں۔
موجودہ حکومت کو آج کل جن مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے ان میں سرِفہرست دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ ملک کے تمام مکتبہ فکر کو ایک میز پر جمع کرنے کے باوجود وہ ابھی تک اس کا مستقل جامع حل تلاش نہیں کرپائی ہے۔ دوسری جانب دہشت گردوں کی کارروائیوں میں اچانک زبردست اضافہ ہوگیا ہے۔ جس کی وجہ سے ان سے مذاکرات کا آپشن اب ناکام ہوتا معلوم ہورہا ہے۔ دوسرا آپشن انتہائی مشکل اور خوفناک بھی ہے، جس کے نتائج کے لیے قوم کو پہلے سے تیار کرنا ہوگا۔ ہمارا دشمن انتہائی چالاک اور ہوشیار فریق ہے، وہ ہماری صفوں میں گھس کر بیٹھا ہوا ہے۔ اس کا نشانہ غریب اور بے گناہ افراد سے لے کر سیکیورٹی فورسز کے اہم مراکز سبھی کچھ ہے۔ وہ کسی بھی وقت کہیں بھی حملہ آور ہو سکتا ہے۔ اس سے علی الاعلان طبلِ جنگ بجانے کا مطلب ایک خونریز گوریلا لڑائی کے لیے خود کو تیار کرنا ہے۔ اس کا فیصلہ انتہائی سوچ و بچار کے بعد کرنا ہوگا۔ حکومت کو اس فیصلے میں اپنے عوام کی مکمل حمایت اور مدد درکار ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کامیابی کے تو سبھی دعوے دار ہوں اور ناکامی کی صورت میں تمام تر ذمے داری حکمرانوں کی گردانی جائے۔ سیاستدانوں کو بیکار اور فضول باتوں میں الجھ کر اپنا وقت ضایع کرنے کے بجائے سنجیدہ انداز فکر اپناتے ہوئے اتنے اہم قومی معاملے میں یک سو اور یک ذہن ہوکر ایک فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں اپنے ملک سے دہشت گردی کا ہر صورت میں خاتمہ کرنا ہوگا، خواہ اس کے لیے کوئی بھی طریقہ اپنایا جائے۔