تم کیسے مسیحا ہو
ہمارے ملک میں (HAI) کا شکار ہو مرجانے والے افراد کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل کام ہے
شہزاد احمد 36 سال کا ایک صحتمند نوجوان تھا۔ دسمبر 2012 میں پیٹ کے نچلے حصے میں شدید درد اسے ایک قریبی اسپتال میں لے آیا۔ سرجن نے اپنڈکس کی تشخیص کے بعد سرجری کر ڈالی اور زخم کو عجیب سے دکھائی دینے والے ٹانکوں سے بند کردیا۔ چند دن کے بعد شہزاد کو شدید درد شروع ہوگیا۔ درد اتنا شدید تھا کہ وہ بچوں کی طرح بلبلا اٹھا۔ سرجن صاحب نے دوبارہ سرجری کی اور تقریباً بالٹی بھر پیپ باہر نکالی اور زخم کو ایک ماہ تک کھلا چھوڑ دیا جس کے بعد زخم تو ٹھیک ہوگیا لیکن شہزاد کا پیٹ ایک طرف سے ہمیشہ کے لیے پھول گیا۔ اسے اب بھی اٹھتے بیٹھتے درد کا احساس رہتا ہے، اپنڈکس کی معمولی بیماری تمام عمرکا وبال بن گئی۔
وقت آگیا ہے کہ اسپتالوں سے متعلق ایک سنگین نوعیت کے مسئلے سے عوام کو ترجیحی بنیادوں پر آگاہ کیا جائے تاکہ نہ صرف صحت کا معیار بلند ہو بلکہ انسانی جانوں کے بے جا ضیاع کو بھی روکا جا سکے۔ یہ گمبھیر مسئلہ مریضوں کو اسپتالوں سے لگنے والی انتہائی مضر، مشکل اور جان لیوا بیماریاں Infection/ HAI) (Hospital Acquiredہیں، جنہیں طبی زبان میں(Noscomial Infection) اور lcoccus Aureus Infections/MRSA) (Methillin Resistant Staphy بھی کہا جاتا ہے۔
HAIوہ خطرناک بیماریاں ہیں جو مریضوں کو اسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی کے دوران لگ جاتی ہیں اور جس کے اثرات انتہائی مضر اور جان لیوا ہوتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اسپتالوں میں آنے والے ہر 10 میں 3 سے 4 افراد ان بیماریوں کا شکار بن جاتے ہیں۔ وہ دو بنیادی عوامل جو ان بیماریوں کا پیش خیمہ ہیں ان میں ایک اسپتالوں میں موثر صفائی (Infection Control) کے مضبوط نظام کا نہ ہونا اور دوسرا عوام کی ضروری معلومات اور اپنے طبی حقوق سے آگاہی کا فقدان ہے۔ دنیا بھر کے طبی حلقوں میں اب اس بات کا احساس بہت گہرا ہوچکا ہے کہ لوگوں میں غیر ضروری، اضافی اور مہلک بیماریاں پھیلانے میں اسپتالوں کا کردار بڑھ رہا ہے۔ دراصل اسپتالوں میں کسی بھی وقت لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہمیشہ موجود رہتی ہے، جو وہاں مختلف اقسام کی بیماریوں کے جراثیم کی موجودگی کا باعث بن جاتی ہے۔ ان خطرناک حالات میں اگر اسپتالوں کا صفائی کا نظام کمزور ہو اور اسپتالوں کی (Infection Control) کے بارے میں مکمل آگاہی اور منصوبہ بندی موجود نہ ہو تو اس کے نتیجے میں خطرناک بیماریوں کے جراثیموں کو ایک مریض سے دوسرے مریض تک پہنچنے، اپنی نسل بڑھانے، ہیئت بدلنے اور اپنی تعداد کو خطرناک حد تک بڑھانے سے روکنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔
میڈیکل سائنس کی ترقی کے باعث آج ہم اس بات سے مکمل طور پر آگاہ ہیں کہ بیماریوں کے ان جراثیموں میں ہزاروں اقسام کے بیکٹریا، وائرس، فنجائی اور پرئین (Prion) وغیرہ شامل ہیں۔ ان سائنسدانوں کے انقلابی تجربات نے یہ بات بھی ثابت کردی ہے کہ بیماری پیدا کرنے والے یہ جراثیم بلاکم و کاست ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، یہ نہ صرف ہمارے جسم کے اندر موجود ہیں بلکہ ہمارے جسم اور جلد پر بھی ہمہ وقت بسیرا کیے رکھتے ہیں۔ کسی چوٹ کی صورت میں اور جلد کے پھٹتے ہی یہ فوراً خون کی گردش میں شامل ہوجاتے ہیں۔ چوٹ شدید ہو، خون میں جراثیم زیادہ ہوجائیں اور بروقت ادویات میسر نہ ہوں تو یہ فوری موت کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔ ہمارے جسم کا قدرتی مدافعتی نظام (Immune System) اگرچہ ان جرثوموں کے خلاف مسلسل برسر پیکار رہتا ہے اور انھیں ایسی تعداد تک بڑھنے سے روکے رکھتا ہے جہاں بیماری پیدا ہوجائے۔ البتہ کسی شدید بیماری کی صورت میں، اور بچپن اور بڑھاپے میں ہمارا مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہے اور یوں ہم شدید بیمار ہونے کے خطرے سے دوچار ہوسکتے ہیں۔
اٹھارویں صدی کے وسط میں جوزف لسٹر (Joseph Lister) نامی ایک مشہور سرجن نے سرجیکل آپریشنز کو محفوظ بنانے کے لیے (Anti Septic) طریقے دریافت کیے اور اس بات کا ادراک کیا کہ اینٹی سیپٹک طریقوں کے بغیر سرجری کرنا کس قدر خطرناک اور جان لیوا نتائج کا باعث بنتا رہا ہے۔ یہ طریقے آج بھی رائج ہیں لیکن اکثر اسپتالوں میں ان طریقوں سے غفلت خارج از امکان نہیں۔ اسپتال ان موذی بیماریوں (HAI) کے جراثیم کے پھلنے پھولنے اور پھیلنے کے عمل کے لیے ایک نہایت موزوں جگہ ہیں۔ اسپتال کی تنگ جگہ میں بیک وقت بہت سے بیمار لوگوں کا ہر وقت موجود ہونا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ مریضوں کی ایک بڑی تعداد ایک دوسرے کے بہت قریب بیٹھنے یا لیٹنے پر مجبور ہوتی ہے۔ ڈاکٹروں یا نرسوں کا مرض کی تشخیص اور علاج یا دوا پلانے کی غرض سے مریضوں کے درمیان چلنا پھرنا، انھیں چھونا اور بغیر ہاتھ دھوئے یہی ہاتھ دوسرے مریضوں کو لگا دینا ایک فطرتی عمل ہے۔ یوں وہ مریضوں کے درمیان بیماریوں کے پھیلاؤ کا بنیادی باعث بن جاتے ہیں۔ بیماریوں اور جراثیم کے پھیلاؤ کا ایک بڑا ذریعہ ڈاکٹروں اور نرسوں کا لباس اور ان کے آلات بھی ہیں۔ اگر اسپتال کی عمارت میں ہوا کی آمدورفت کا مناسب انتظام نہ ہو، صفائی کا خاطر خواہ بندوبست نہ ہو، انفیکشن کنٹرول سسٹم موجود نہ ہو اور عملے کے باربار ہاتھ دھونے جیسے آسان اور بنیادی عمل کا شعور اور دستور رواج پذیر نہ ہو تو وہاں آنے والے مریضوں کی اکثریت کا انتہائی موذی اور جان لیوا بیماریوں کا شکار ہوجانا ایک لازمی امر ہے۔
دنیا بھر میں ڈاکٹروں اور نرسوں کے علاوہ (HAI) کی خطرناک بیماریوں کے پھیلنے کی دوسری بہت بڑی وجہ جسم میں داخل کیے جانے والے سرجیکل کے آلودہ آلات (Reusable Surgical Instruments) ہیں۔ یہ وہ آلات ہیں جو اکثر اوقات بغیر مناسب صفائی اور اسٹرلائزیشن کے ایک مریض کے بعد دوسرے مریض پر استعمال کیے جاتے ہیں اور یوں وہ سیکڑوں مریضوں پر استعمال کردیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں جہاں ہپاٹائٹس سی جیسے لاعلاج مرض کے دو کروڑ متاثرہ افراد موجود ہیں، اس بیماری کے وحشیانہ پھیلاؤ کے اندر استعمال شدہ سرجیکل آلات کے بے دریغ اور غیر قانونی استعمال کا ایک بہت بڑا ہاتھ ہے۔ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں (HAI) کا شکار ہونے والے مریضوں کی سالانہ تعداد بیس لاکھ اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں کی تعداد ایک لاکھ ہے۔ انھی مسائل کی بنا پر ترقی یافتہ ممالک میں (HAI) اور (Infection Control) اور ان کی وجہ سے صحت کے نظام پر پڑنے والے مضر اور مہنگے اثرات آج کل ایک زبردست بحث کا حصہ ہیں اور اسپتالوں پر ان انتہائی ضروری امور پر توجہ دینے کا دباؤ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ HAI کے باعث ہونے والی مضر صحت بیماریوں میں مثانے کی نالیوں کی انفیکشن، سانس کی نالیوں کی انفیکشن، جلد کی انفیکشن، خون کی انفیکشن اور نمونیا جیسی جان لیوا بیماریاں شامل ہیں۔
ہمارے ملک میں (HAI) کا شکار ہو کر سخت بیمار ہونے یا خدانخواستہ مرجانے والے افراد کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل کام ہے۔ دنیا کے باقی ترقی پذیرممالک کی طرح ہمارے اسپتالوں میں شماریاتی معلومات اور تجزیوں (Statistical Data Analysis) کا فقدان اور مریضوں کے حالات کی جانکاری (Surveillance System) کی عدم دستیابی اس کام کو مزید دشوار بنا دیتی ہے۔ البتہ ترقی یافتہ ممالک کی معلومات سے موازنہ، اسپتالوں میں صفائی کے حوالے سے مناسب انتظامات کا فقدان، ہاتھ دھونے جیسی بنیادی عادتوں کا پختہ نہ ہونا اور بیشتر لوگوں کی معمولی بیماریوں کی طوالت کے قصوں سے معاملے کی سنگینی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے بڑھتی ہوئی آبادی جیسے ملک اور اس آبادی میں خطرناک، مضر اور جان لیوا بیماریاں جیسے ٹی بی، ایڈز، ہیپاٹائٹس، ڈینگی، ملیریا اور بہت سی جلدی بیماریوں کا خطرناک پھیلاؤ، اسپتالوں میں گرتے ہوئے صفائی کے معیار، استعمال شدت سرجیکل آلات اور ڈسپوزیبل سرنجوں کا بے دریغ اور غیر قانونی استعمال، یہ سب عوامل اس بات کے فوری متقاضی ہیں کہ عوام کو انفیکشن کنٹرول کے بنیادی اصولوں پر فوری اور مکمل آگہی دی جائے تاکہ عوامی دباؤ اسپتالوں کو اپنے صفائی اور بیماری سے بچاؤ کے بنیادی انتظامات پر سختی سے عملدرآمد پر آمادہ کرسکے۔ یہ قیمتی انسانی جانوں کو بچانے اور صحت عامہ کو بڑھانے کا نہایت آسان طریقہ ہے۔