گٹھلیوں کے بغیر آم اور ہمارا میڈیا

زراعت جیسے اہم، حساس اور ٹیکنیکل معاملے کو ہمارا میڈیا کب سمجھنا شروع کرے گا؟


میڈیا کو زرعی معاملات سے متعلق واجبی سی بھی آگاہی نہیں ہے۔ (فوٹو: فائل)

جولائی 2014 میں بھارتی اخبار میں ایک خبر شائع ہوتی ہے کہ بہار ایگری کلچر یونیورسٹی بھارت کے سائنسدانوں نے آم کی ایک ایسی ورائٹی تیار کرلی ہے جس میں گٹھلی نہیں ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر سارے بھارتی میڈیا میں پھیل جاتی ہے۔ میڈیا کے زیر اثر عوام بھی زرعی سائنسدانوں کو مبارک باد دینے میں پیش پیش ہیں۔ زیادہ تر لوگ یہی سمجھ رہے ہیں کہ گزشتہ برسوں میں زرعی سائنسدانوں کی یہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔ میڈیا بتا رہا ہے کہ بغیر گٹھلی کے آم، دنیا کا مہنگا ترین آم ہوگا جسے ٹھیک ایک سال بعد برآمد بھی کیا جاسکے گا۔

ابھی مبارک سلامت کا شوروغل تھما نہیں تھا کہ ایک اخباری دیوانہ، بہار ایگریکلچر یونیورسٹی کے شعبہ ہارٹی کلچر میں جا پہنچا تاکہ تفصیلی معلومات لے کر خبر میں مزید جان ڈال سکے۔ لیکن اخباری نمائندے کو اس وقت سخت دھچکا لگا جب شعبہ کے چیئرمین نے بتایا کہ نہ تو انہوں نے بغیر گٹھلی کے آم کی کوئی ورائٹی بنائی ہے اور نہ ہی آم کی کوئی ایسی ورائٹی موجود ہے جس میں گٹھلی نہ ہو۔ ہاں البتہ شعبہ ہارٹی کلچر نے 4 سال قبل سندھو آم کا ایک پودا ضرور لگایا تھا جس نے اسی سال پھل دینا شروع کیا ہے۔

سندھو آم، ریجنل فروٹ ریسرچ اسٹیشن مہاراشٹرا، بھارت نے 1992 میں پیش کیا تھا۔ اس ادارے کے دو زرعی سائنسدان آموں کی نسل کشی پر تجربات کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے 1981 میں مختلف قسم کے دو آموں، رتنا اور الفانوس کا ملاپ کروایا، جس کے نتیجے میں سندھو آم وجود میں آیا۔ سندھو ایک دوغلی نسل کا آم تھا جس میں گٹھلی کا سائز عام آموں کی نسبت خاصا چھوٹا تھا۔ یوں سمجھیے کہ عام آموں میں گٹھلی کا وزن 15 سے 30 فیصد تک ہوتا ہے جبکہ سندھو آم میں گٹھلی کا وزن 10 فیصد تک دیکھا گیا تھا۔ باوجود اس کے کہ سندھو آم میں گٹھلی موجود ہے، عام لوگ یہی خیال کرتے ہیں کہ اس آم میں گٹھلی نہیں ہوتی۔

واقعہ یہ ہے کہ 30 سال گزرنے کے بعد بھی گٹھلی کے بغیر والے سندھو آم کی عوامی سطح پر قبولیت نہیں ہوسکی۔ بھارتی نرسریوں میں اس آم کے پودے با آسانی دستیاب ہیں جسے زیادہ تر لوگ آرائشی مقاصد کےلیے گھروں میں لگاتے ہیں۔

آج یہ باتیں مجھے اس لیے یاد آرہی ہیں کہ ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے۔ جس میں ایک چینی یا جاپانی شخص آم کے پھل کو کاٹ کر دکھاتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اس آم میں گٹھلی نہیں ہے۔ ظاہر ہے ہمارے ہاں سوشل میڈیا صارفین اسے دھڑا دھڑ شیئر کر رہے ہیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ اگر وائرل ہونے والی یہ ویڈیو پاکستان سے متعلق ہوتی تو ضرور پاکستانی میڈیا اسے نمایاں کر رہا ہوتا۔

اس طرح کے چٹکلے صرف بھارت تک محدود نہیں ہیں، پاکستان میں بھی آج سے دو سال قبل اسی طرح کی ایک بڑی خبر اس وقت سامنے آئی تھی جب اسلام آباد کے مشہور شاپنگ مال ''سینٹارس'' میں مینگو فیسٹیول ہورہا تھا۔ فیسٹیول میں ایک سرکاری زرعی ادارے کے نمائندے نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے ہاں بغیر گٹھلی کے آم کی نئی قسم سامنے آئی ہے جسے شجاع آباد میں کسی کاشتکار کے فارم سے دریافت کیا گیا ہے۔ ہمارے پاکستانی میڈیا نے اس خبر کو خاصا نمایاں کیا تھا۔

شجاع آباد سے دریافت ہونے والے آم میں گٹھلی ہے یا نہیں ہے، یہ اس مضمون کا موضوع نہیں ہے۔ مضمون کا موضوع یہ ہے کہ زراعت جیسے اہم، حساس اور ٹیکنیکل معاملے کو ہمارا میڈیا کب سمجھنا شروع کرے گا؟

میرا پاکستانی میڈیا سے سوال ہے کہ اگر آئل سیڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ، پنجاب کے زرعی سائنسدان، رایا میں کینولا خصوصیت رکھنے والی دنیا کی سب سے پہلی ورائٹی تیار کریں تو کیا یہ خبر نہیں ہے؟

اگر رائس ریسرچ انسٹیٹیوٹ، پنجاب، پاکستان کا پہلا باسمتی ہائبرڈ تیار کرے تو کیا یہ خبر نہیں ہے؟

اگر میز اینڈ ملٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ، پنجاب، جوار اور باجرے کے تگڑے ہائبرڈ تیار کرے تو کیا یہ خبر نہیں ہے؟

اگر زرعی یونیورسٹی اور ہارٹی کلچرل ریسرچ انسٹیٹیوٹ فیصل آباد، قلموں سے امرود کے پودے تیار کرلیں تو کیا یہ خبر نہیں ہے؟

اگر شوگر کین ریسرچ انسٹیٹیوٹ اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد دوست کیڑوں کو دریافت کریں تو کیا یہ خبر نہیں ہے؟

اگر ویجیٹبل ریسرچ انسٹیٹیوٹ فیصل آباد، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ٹکر کے ہائبرڈ ٹماٹر تیار کرے تو کیا یہ خبر نہیں ہے؟

اگر یہ سب کچھ خبر کے ذیل میں آتا ہے تو پھر میڈیا اسے خبر بناتا کیوں نہیں ہے؟ میرا محتاط اندازہ یہ ہے کہ میڈیا اوپر بیان کی گئی اور اسی طرح کی دیگر خبروں کی اہمیت کا اندازہ لگانے سے قاصر ہے۔ اس کی وجہ ایک ہی ہوسکتی ہے اور وہ یہ کہ میڈیا کو زرعی معاملات سے متعلق واجبی سی بھی آگاہی نہیں ہے۔

میں نہیں چاہتا کہ میڈیا ہر وقت زرعی اداروں کے گیت گاتا رہے، البتہ یہ ضرور چاہتا ہوں کہ ہمارا میڈیا زرعی معاملات کی شدھ بدھ حاصل کرے۔ کیونکہ جب تک میڈیا زرعی معاملات سے متعلق آگاہی حاصل نہیں کرے گا تب تک اِس کا لکھا ہوا یا بولا ہوا لفظ معتبر نہیں ٹھہرے گا۔ اور جب تک میڈیا زرعی اداروں کی خوبیوں کو نہیں جانے گا وہ ان کی خامیوں کے بارے بھی درست اندازہ لگانے سے بھی قاصر رہے گا۔

میڈیا جب تک زرعی حوالے سے اپنے آپ کو ایجوکیٹ نہیں کرے گا تب تک زرعی سائنسدانوں کے بڑے سے بڑے کارنامے ایک کالمی خبر بھی نہیں بن سکیں گے، جبکہ بغیر گٹھلیوں والے آموں کی خبریں رنگین صفحات میں جگہ پاتی رہیں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں