آزاد کشمیر کے عوام آج اپنی حکومت منتخب کریں گے
عوامی سرویز میں 44 فیصد ووٹر پی ٹی آئی کے حق میں، عمران مقبول ترین لیڈر
ISLAMABAD:
آزاد جموں و کشمیر کے 32 لاکھ سے زائد لوگ آج ترپن رُکنی مجلس قانون ساز کو منتخب کرنے کے لئے ووٹ ڈالیں گے۔ ان الیکشنز میں مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 700 امیدوار 45 عام نشستوں پر مقابلے کے لئے میدان میں ہیں۔
مزید براں اسمبلی کی آٹھ مخصوص نشستوں میں 5 خواتین جبکہ ایک ایک نشست عالم دین' ٹیکنو کریٹ اور بیرون ملک کشمیریوں کے لئے مختص ہے۔ ان نشستوں کے لئے نامزدگی عام انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ہوتی ہے۔ 45 عام نشستوں میں سے 12 پاکستان میں آباد کشمیری مہاجرین کی نمائندگی کے لئے رکھی گئی ہیں جو 1947ء سے 1965ء کے دوران قابض بھارتی فوج کے ظلم و ستم سے مجبور ہو کر پاکستان چلے آئے تھے۔
پاکستان تحریک انصاف نے تمام 45 نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ تمام عوامی سرویز اور معتبر تجزیہ نگاروں کی رائے کے مطابق پاکستان تحریک انصاف انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق گو کہ، آزاد کشمیر کے انتخابات میں عمومی طور پر لوگ اُس سیاسی جماعت کی حمایت کرتے ہیں جس کے پاس پاکستان کی وفاقی حکومت ہوتی ہے لیکن ان انتخابات میں عوامی سرویز کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی مقبولیت غیر معمولی نظر آرہی ہے۔ گیلپ سروے کے نتائج کے مطابق آزاد کشمیر کے 67 فی صد لوگوں نے عمران خان کو بہترین لیڈر قرار دیا ہے۔ یاد رہے کہ 2016ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی آزاد کشمیر میں صرف دو نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو پائی تھی۔
آزاد کشمیر میں سامنے آنے والے عوامی رجحانات اور تجزیوں کی روشنی میں ظاہر ہو رہا ہے کہ آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم اور اس وقت تحریک انصاف کے مقامی سربراہ بیرسٹر سلطان محمود چودھری آزاد کشمیر کی وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالیں گے۔ وہ اپنے آبائی علاقے میرپور سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس حوالے سے عمران خان کے ایک قریبی ساتھی سردار تنویر الیاس بھی 'جو اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے مشیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھارہے ہیں' میدان میں ہیں اور ضلع باغ کی نشست سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔
اس وقت مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کی حکمران جماعت ہے۔ 2016ء کے انتخابات میں 31 نشستیں جیت کر (ن) لیگ نے حکومت بنائی تھی۔ موجودہ وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کی قیادت میں (ن) لیگ نے 44 نشستوں پر امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ راجہ فاروق حیدر مظفر آباد کے حلقے سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی 44 حلقوں میں امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے 2011 میں آزاد کشمیر میں حکومت بنائی تھی۔ آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار یعقوب خان اور سابق وزیر چودھری لطیف اکبر یہاں پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم کی نگرانی پر مامور ہیں۔ تجزیہ نگاروں کی رائے میں لطیف اکبر جو مظفر آباد کے ایک حلقے سے انتخاب لڑرہے ہیں' مضبوط پوزیشن میں ہیں جبکہ سردار یعقوب کو جو ضلع راولا کوٹ کی دو نشستوں پر کھڑے ہیں' پی ٹی آئی کے امیدواروں کے مقابل مشکلات کا سامنا ہے۔
جموں و کشمیر مسلم کانفرنس آزاد کشمیر کی سب سے پرانی سیاسی جماعت ہے۔ اسے 1931ء میں سری نگر میں قائم کیا گیا اور اب تک چار مرتبہ آزاد کشمیر میں حکومت کرچکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے عروج نے مسلم کانفرنس کو شدید نقصان پہنچایا اور 2016 کے انتخابات میں اسے صرف دو نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ۔ آج کے انتخابات میں سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر اور پارٹی کے سربراہ سردار عتیق احمد خان نے42 نشستوں پر امیدوار کھڑے کئے ہیں۔
جماعت اسلامی آزاد کشمیر میں خاصا ووٹ بنک رکھنے کے باوجود چند ایک نشستوں سے زیادہ جیتنے میں کامیاب نہیں ہو پاتی جماعت نے آزاد کشمیر کے 30 حلقوں میں امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ آزاد کشمیر اسمبلی کے موجود رُکن عبدالرشید ترابی کو جماعت کا مضبوط ترین امیدوار قرار دیا جا رہا تھا لیکن وہ پی ٹی آئی کے تنویر الیاس کے حق میں دستبردار ہوچکے ہیں۔ جماعت کے ایک اور امیدوار مشتاق شاہد موجودہ وزیر اعظم فاروق حیدر کے لئے بڑا چیلنج بنے ہوئے ہیں۔
تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) جو کہ پاکستان میں کالعدم قرار دی جاچکی ہے۔ آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ' گوکہ یہ جماعت ایک بھی نشست حاصل نہ کر پائے تاہم دائیں بازو کے ووٹ بنک کو ضرور متاثر کرے گی۔
آزاد کشمیر کے ان انتخابات میں جموں و کشمیر ڈیموکریٹک پارٹی (جے کے ڈی پی) واحد جماعت ہے جس کی قیادت ایک خاتون وکیل نبیلہ ارشاد کے ہاتھ میں ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنے پہلے انتخابات کے لئے 18 امیدوار کھڑے کئے تھے جن میں سے اکثریت پی ٹی آئی کے حق میں دستبردار ہوچکی ہے۔ اب اس جماعت کے صرف تین امیدوار میدان میں موجود ہیں۔ نبیلہ ارشاد خود ضلع سندھنوٹی سے انتخاب لڑ رہی ہیں۔
آزاد جموں کشمیر میں حکومت سازی کے عمل میں پاکستان میں مقیم مہاجرین کی نشستوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ کشمیر کے مہاجرین مقیم پاکستان کی 12 نشستیں ہیں جن میں سے 6 نشستیں جموں اور 6 وادی کے مہاجرین کے لیے مختص ہیں۔ کچھ سیاسی حلقے آزاد جموں و کشمیر اسمبلی کے غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات میں بڑی رکاوٹ پاکستان میں مقیم مہاجرین کے ان 12 انتخابی حلقوں کو سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں مقیم کشمیری مہاجرین کے انتخابی حلقوں کی تقسیم انتہائی پیچیدہ ہے۔
کئی حلقوں میں تین صوبوں کے علاقے شامل کیے گئے ہیں جہاں تک کسی بھی امیدوار کا پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔
آزاد حکومت اور آزاد جموں کشمیر الیکشن کمیشن کی عملداری نہ ہونے کے باعث وفاق سمیت صوبائی حکومتیں ان 12 نشستوں کے انتخابی عمل اور نتائج پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ایک واضح مثال یہ ہے کہ جن دنوں کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کا عروج تھا اس وقت کراچی میں موجود ان نشستوں پر ایم کیو ایم کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے۔
بعدازاں جب کراچی سے ایم کیو ایم کا زور ٹوٹا تو ان نشستوں پر پیپلزپارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اسی بنیاد پر ایک عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ آزاد جموں کشمیر میں اس سیاسی جماعت کی حکومت بنتی ہے جو وفاق میں برسرِ اقتدار ہو۔ ان نشستوں کو علامتی طور پر شامل کیا گیا تھا لیکن کشمیر کے باشندے کہیں بھی ہوں ان کی نمائندگی آزاد کشمیر کی اسمبلی میں ہر صورت یقینی بنائی جانی چاہیے۔
آزاد جموں و کشمیر کے 32 لاکھ سے زائد لوگ آج ترپن رُکنی مجلس قانون ساز کو منتخب کرنے کے لئے ووٹ ڈالیں گے۔ ان الیکشنز میں مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 700 امیدوار 45 عام نشستوں پر مقابلے کے لئے میدان میں ہیں۔
مزید براں اسمبلی کی آٹھ مخصوص نشستوں میں 5 خواتین جبکہ ایک ایک نشست عالم دین' ٹیکنو کریٹ اور بیرون ملک کشمیریوں کے لئے مختص ہے۔ ان نشستوں کے لئے نامزدگی عام انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ہوتی ہے۔ 45 عام نشستوں میں سے 12 پاکستان میں آباد کشمیری مہاجرین کی نمائندگی کے لئے رکھی گئی ہیں جو 1947ء سے 1965ء کے دوران قابض بھارتی فوج کے ظلم و ستم سے مجبور ہو کر پاکستان چلے آئے تھے۔
پاکستان تحریک انصاف نے تمام 45 نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ تمام عوامی سرویز اور معتبر تجزیہ نگاروں کی رائے کے مطابق پاکستان تحریک انصاف انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق گو کہ، آزاد کشمیر کے انتخابات میں عمومی طور پر لوگ اُس سیاسی جماعت کی حمایت کرتے ہیں جس کے پاس پاکستان کی وفاقی حکومت ہوتی ہے لیکن ان انتخابات میں عوامی سرویز کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی مقبولیت غیر معمولی نظر آرہی ہے۔ گیلپ سروے کے نتائج کے مطابق آزاد کشمیر کے 67 فی صد لوگوں نے عمران خان کو بہترین لیڈر قرار دیا ہے۔ یاد رہے کہ 2016ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی آزاد کشمیر میں صرف دو نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو پائی تھی۔
آزاد کشمیر میں سامنے آنے والے عوامی رجحانات اور تجزیوں کی روشنی میں ظاہر ہو رہا ہے کہ آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم اور اس وقت تحریک انصاف کے مقامی سربراہ بیرسٹر سلطان محمود چودھری آزاد کشمیر کی وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالیں گے۔ وہ اپنے آبائی علاقے میرپور سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس حوالے سے عمران خان کے ایک قریبی ساتھی سردار تنویر الیاس بھی 'جو اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے مشیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھارہے ہیں' میدان میں ہیں اور ضلع باغ کی نشست سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔
اس وقت مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کی حکمران جماعت ہے۔ 2016ء کے انتخابات میں 31 نشستیں جیت کر (ن) لیگ نے حکومت بنائی تھی۔ موجودہ وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کی قیادت میں (ن) لیگ نے 44 نشستوں پر امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ راجہ فاروق حیدر مظفر آباد کے حلقے سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی 44 حلقوں میں امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے 2011 میں آزاد کشمیر میں حکومت بنائی تھی۔ آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار یعقوب خان اور سابق وزیر چودھری لطیف اکبر یہاں پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم کی نگرانی پر مامور ہیں۔ تجزیہ نگاروں کی رائے میں لطیف اکبر جو مظفر آباد کے ایک حلقے سے انتخاب لڑرہے ہیں' مضبوط پوزیشن میں ہیں جبکہ سردار یعقوب کو جو ضلع راولا کوٹ کی دو نشستوں پر کھڑے ہیں' پی ٹی آئی کے امیدواروں کے مقابل مشکلات کا سامنا ہے۔
جموں و کشمیر مسلم کانفرنس آزاد کشمیر کی سب سے پرانی سیاسی جماعت ہے۔ اسے 1931ء میں سری نگر میں قائم کیا گیا اور اب تک چار مرتبہ آزاد کشمیر میں حکومت کرچکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے عروج نے مسلم کانفرنس کو شدید نقصان پہنچایا اور 2016 کے انتخابات میں اسے صرف دو نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ۔ آج کے انتخابات میں سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر اور پارٹی کے سربراہ سردار عتیق احمد خان نے42 نشستوں پر امیدوار کھڑے کئے ہیں۔
جماعت اسلامی آزاد کشمیر میں خاصا ووٹ بنک رکھنے کے باوجود چند ایک نشستوں سے زیادہ جیتنے میں کامیاب نہیں ہو پاتی جماعت نے آزاد کشمیر کے 30 حلقوں میں امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ آزاد کشمیر اسمبلی کے موجود رُکن عبدالرشید ترابی کو جماعت کا مضبوط ترین امیدوار قرار دیا جا رہا تھا لیکن وہ پی ٹی آئی کے تنویر الیاس کے حق میں دستبردار ہوچکے ہیں۔ جماعت کے ایک اور امیدوار مشتاق شاہد موجودہ وزیر اعظم فاروق حیدر کے لئے بڑا چیلنج بنے ہوئے ہیں۔
تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) جو کہ پاکستان میں کالعدم قرار دی جاچکی ہے۔ آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ' گوکہ یہ جماعت ایک بھی نشست حاصل نہ کر پائے تاہم دائیں بازو کے ووٹ بنک کو ضرور متاثر کرے گی۔
آزاد کشمیر کے ان انتخابات میں جموں و کشمیر ڈیموکریٹک پارٹی (جے کے ڈی پی) واحد جماعت ہے جس کی قیادت ایک خاتون وکیل نبیلہ ارشاد کے ہاتھ میں ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنے پہلے انتخابات کے لئے 18 امیدوار کھڑے کئے تھے جن میں سے اکثریت پی ٹی آئی کے حق میں دستبردار ہوچکی ہے۔ اب اس جماعت کے صرف تین امیدوار میدان میں موجود ہیں۔ نبیلہ ارشاد خود ضلع سندھنوٹی سے انتخاب لڑ رہی ہیں۔
آزاد جموں کشمیر میں حکومت سازی کے عمل میں پاکستان میں مقیم مہاجرین کی نشستوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ کشمیر کے مہاجرین مقیم پاکستان کی 12 نشستیں ہیں جن میں سے 6 نشستیں جموں اور 6 وادی کے مہاجرین کے لیے مختص ہیں۔ کچھ سیاسی حلقے آزاد جموں و کشمیر اسمبلی کے غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات میں بڑی رکاوٹ پاکستان میں مقیم مہاجرین کے ان 12 انتخابی حلقوں کو سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں مقیم کشمیری مہاجرین کے انتخابی حلقوں کی تقسیم انتہائی پیچیدہ ہے۔
کئی حلقوں میں تین صوبوں کے علاقے شامل کیے گئے ہیں جہاں تک کسی بھی امیدوار کا پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔
آزاد حکومت اور آزاد جموں کشمیر الیکشن کمیشن کی عملداری نہ ہونے کے باعث وفاق سمیت صوبائی حکومتیں ان 12 نشستوں کے انتخابی عمل اور نتائج پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ایک واضح مثال یہ ہے کہ جن دنوں کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کا عروج تھا اس وقت کراچی میں موجود ان نشستوں پر ایم کیو ایم کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے۔
بعدازاں جب کراچی سے ایم کیو ایم کا زور ٹوٹا تو ان نشستوں پر پیپلزپارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اسی بنیاد پر ایک عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ آزاد جموں کشمیر میں اس سیاسی جماعت کی حکومت بنتی ہے جو وفاق میں برسرِ اقتدار ہو۔ ان نشستوں کو علامتی طور پر شامل کیا گیا تھا لیکن کشمیر کے باشندے کہیں بھی ہوں ان کی نمائندگی آزاد کشمیر کی اسمبلی میں ہر صورت یقینی بنائی جانی چاہیے۔