آزاد کشمیر کی سیاسی تاریخ کی کچھ جھلکیاں
ایکٹ 74ء کے تحت دو ایوانوں کا قیام عمل میں آیا جن کوقانون ساز اسمبلی اورآزاد جموں کشمیر کونسل کے نام سے جانا جاتاہے۔
آزاد کشمیر میں آج قانون ساز اسمبلی کے گیارہویں عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ یہ اسمبلی 1975 میں ایک عبوری آئین (ایکٹ 1974) کے تحت وجود میں آئی اورپارلیمانی نظام حکومت کا آغاز ہوا۔
ایکٹ 74ء کے تحت دو ایوانوں کا قیام عمل میں آیا جن کو قانون ساز اسمبلی اور آزاد جموں کشمیر کونسل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قانون ساز اسمبلی کو قانون کے محدود اختیارات جبکہ کونسل کو قانون سازی اور مالیاتی اختیارات حاصل رہے۔ 2018 ء میں ایکٹ 74 ء میں 13 ویں ترمیم ہوئی جس کے بعد محدود قانون سازی اور مالیاتی اختیارات آزادکشمیر حکومت کو منتقل ہوئے۔
تاہم ایکٹ میں پوری ریاست جموں وکشمیر کی نمائندگی کی بجائے اس کادائرہ کار آزاد کشمیر تک محدود کر دیا۔ قبل ازیں 1970 سے 1975 تک آزادکشمیر میں پانچ سال تک صدارتی نظام حکومت رائج رہا جبکہ اس سے پہلے ایک مرتبہ جنرل ایوب خان کی 'بنیادی جمہوریت'کے ذریعے ' صدر ریاست ' کا انتخاب کیا گیا اورباقی ادوار میں صدر ریاست واحد سیاسی جماعت مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ پاکستان کی وزارت امور کشمیر کی مشاورت سے نامزد کرتی رہی۔
آزاد جموں و کشمیر کی سیاسی تاریخ واقعات سے بھرپور رہی ہے۔ 1947ء میں اعلان آزادی کے بعد انقلابی حکومت کا قیام عمل میں آیا تو اس کا مقصد کچھ یوں تھا:
'' عارضی حکومت جو ریاست کا نظام اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے ایک فرقہ وارانہ حکومت نہیں ہے۔اس حکومت کی عارضی کابینہ میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی شریک ہوںگے۔ حکومت کا مقصد سردست ریاست میں نظم و نسق کی بحالی ہے کہ عوام اپنی رائے سے ایک جمہوری آئین ساز اور ایک نمائندہ حکومت چن لیں۔ عارضی حکومت ریاست کی جغرافیائی سالمیت اور سیاسی انفرادیت برقرار رکھنے کی متمنی ہے۔ پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ ریاست کے الحاق کا سوال یہاں کے عوام کی آزادانہ رائے شماری سے کیا جائے گا''۔
انقلابی حکومت کے پہلے صدر سردار ابراہیم مقرر ہوئے۔ نئی حکومت کے تمام امور پاکستان کی وزارت بے محکمہ کی نگرانی میں چلتے تھے،جس کے وزیر مشتاق احمد گورمانی تھے۔ مسئلہ کشمیر اقوم متحدہ میں پیش ہونے کے بعد یہی وزارت پاکستان اور آزاد حکومت کے درمیان رابطہ کار تھی۔
آزاد حکومت کو اپنے آغاز میں ایک مذاق ہی سمجھا گیا اور کوئی نامور شخصیت اس عارضی نظام کا حصہ بننے کو تیار نہیں ہوئی، تاہم یہ ایک حقیقت بن کر سامنے آگئی تو اس کی وزارتیں اور عہدے پُرکشش بننے لگے اور اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی۔
اقتدار میں شراکت داری کیلئے مسلم کانفرنس کی قیادت اور سردار ابراہیم کی حکومت میں اختلافات بڑھنا شروع ہوگئے۔ 1948ء میں چوہدری غلام عباس جموں (مقبوضہ کشمیر) سے رہا ہو کر پاکستان آئے تو انہیں آزاد حکومت کا نگران اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ انہیںآزاد حکومت اور کابینہ میں مکمل رد وبدل کا اختیار حاصل تھا۔
چوہدری غلام عباس کو نگران اعلی بنانے کا مسئلہ بحث طلب رہا ۔ کئی مورخین بالخصوص یوسف صراف اور پنڈت پریم ناتھ بزاز نے اس اقدام کو غیر جمہوری اور غیر قانونی رویہ قرار دیا۔ اسی دوران آزاد کشمیر میں درجن کے قریب سیاسی کارکنوں کیلئے ایک لاکھ روپے کا وظیفہ مقرر کیا گیا جو چوہدری غلام عباس کے ذریعے دیا جاتا۔
عام انتخابات کی بجائے مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کو ہی ' انتخابی کالج ' کا درجہ دیا گیا اور 2 مارچ 1949 کو مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ نے ' آزاد حکومت ' کی تنظیم نو کے بارے میں ایک قرارداد منظور کی، جس کے بعد وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کے احکامات پر سردار ابراہیم نے دوبارہ صدر منتخب ہونے کی یقین دہانی پر استعفیٰ دیا، جسے چوہدری غلام عباس نے بطور صدر مجلس عاملہ قبول کیا۔ پھر یکم اپریل 1949 کو نئی کابینہ کا اعلان ہوا اور سردار ابراہیم ہی کو صدر مقرر کیا گیا۔
دونوں بڑے سیاسی دھڑوں کے درمیان بے اعتباری کو ختم کرنے کیلئے اختیارات کی تقسیم کا ایک تحریری معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس معاہدے پر سردار ابراہیم نے بحیثیت صدر آزاد کشمیر، چوہدری غلام عباس نے بحیثیت صدر مسلم کانفرنس اور نواب مشتاق احمد گورمانی نے پاکستان کے نمائندے کی حیثیت سے دستخط کئے۔ اس معاہدے کے تحت گلگت اور لداخ کے علاقوں کے تمام امور حکومت پاکستان کے سپرد کر دیے گئے اور آزاد حکومت کو چند امور پر حکومت پاکستان کو مشورہ دینے کے اختیارات ملے۔ آزاد حکومت جموں کشمیر اور ریاست پاکستان کے درمیان یہ پہلا تحریری معاہدہ تھا۔
26 مئی 1949ء کو سردار ابراہیم اور چوہدری غلام عباس کو کراچی بلا کر ان کی مشاورت سے وزارت بے محکمہ کا نام تبدیل کر کے وزارت امور کشمیر رکھا گیا۔
اسی دوران چوہدری غلام عباس کی طبیعت ناساز ہو گئی اور انہوں نے اللہ رکھا ساغر کو پارٹی کا صدر نامزد کیا جس پر کئی اختلافات سامنے آئے اور ردعمل کے طور پر میر واعظ یوسف شاہ نے 200 کارکنوں کا اجلاس بلا کر مسلم کانفرنس کے متوازی کابینہ کا اعلان کر دیا۔ تقریباً آٹھ ماہ بعد غلام عباس نے دوبارہ مسلم کانفرنس کی قیادت سنبھال لی۔ سیاسی کشمکش کی اسی فضا میں سردار ابراہیم اقوام متحدہ کے اجلاس کیلئے امریکہ روانہ ہوئے، واپسی پر انہیں کراچی روکا گیا۔
ادھر مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کا اجلاس بلا کر انہیں اقتدار سے الگ کر کے سید علی احمد شاہ کو صدر آزاد کشمیر نامزد کیا گیا۔ اس وقت سردار ابراہیم نے جاری کردہ بیان میں اپنے اور چوہدری غلام عباس کے اختلافات کا ذکر کیا اور انہوں نے بالغ رائے دہی پر حکومت بنانے کا مطالبہ کیا۔
اختلافات اور اقتدار کی اس کشمکش نے بغاوت کی شکل اختیار کر لی اور پونچھ میں سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز ہوا۔ اس بغاوت کو روکنے کیلئے پولیس کی مدد کو فوج بلائی گئی۔ مرزا شفیق حسین لکھتے ہیں کہ''سیاسی بحران جاری تھا کہ چوہدری غلام عباس نے آزاد کشمیر حکومت کے ضوابط کار اور نگران اعلیٰ کے اختیارات کا اعلان کیا جس میں صدر آزاد کشمیر اور ان کی کابینہ کی نامزدگی، ججز کی تقرری اور برطرفی کے اختیارات اور قانونی سازی کاحتمی اختیار نگران اعلیٰ کو تفویض کر دیا گیا۔
یوں چوہدری غلام عباس مطلق العنان بن گئے، جس کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا اور دوسری مرتبہ مسلم کانفرنس کی نمائندہ حیثیت کو چیلنج کیا گیا۔ کرنل شیر احمد خان نے مسلم کانفرنس کا متوازی گروپ تشکیل دے دیا۔ باغی گروپ نے وزیر امور کشمیر مشتاق گورمانی سے حالات درست کرنے کی درخواست کی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا،جس پر متوازی حکومت قائم کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس پر مرکز کو تشویش ہوئی اور میر واعظ یوسف شاہ کو نگران صدر بنانے کی تجویز دیدی۔
یہ تجویز دونوں گروپوں نے ماننے سے انکار کر دیا اور ریاست کے حالات مزید خراب ہوتے چلے گئے۔ اس بحران کو ختم کرنے کیلئے لیاقت علی خان نے ٹھوس اقدام کرنے کی کوشش کی اور مسلم کانفرنس کے دونوں دھڑوں کو مذاکرات کی پیشکش کی،جس پر دونوں دھڑوں نے وزارت امور کشمیر ختم کرنے یا کم از کم وزیر امور کشمیر کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ اسی دوران لیاقت علی خان کو قتل کر دیا گیا ، جس کی وجہ سے ان مذاکرات میں پیش رفت نہ ہو سکی۔
چوہدری غلام عباس اور سردار ابراہیم کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد آزاد حکومت مستعفی ہو گئی اور میر واعظ کو نگران صدر مقرر کیا گیا۔ یہ حکومت چھ ماہ تک رہی جس کے بعد کرنل شیر احمد خان کو صدر نامزد کر دیا گیا۔ اس نامزدگی کو سردار ابراہیم نے وزیر امور کشمیر کی سازش قرار دیا جبکہ چوہدری غلام عباس نے خاموشی اختیار کئے رکھی۔
اس دوران سردار ابراہیم گروپ کی جمہوریت بحالی کی جدوجہد جاری رہی اورفروری 1955ء میں اس تحریک میں نیا تب موڑ آیا جب کرنل شیر احمد پر فائرنگ ہوئی اور ایک شخص کو گرفتار کرنے کے لئے پولیس نے پلندری مسجد پر چھاپہ مارا ، اس پر عوامی ردعمل سامنے آیا،تصادم ہوا اور پھر لوگوں نے تمام سرکاری دفاتر پر قبضہ کر لیا۔ ان حالات میں پونچھ میں مارشل لاء لگا کر پنجاب کانسٹیبلری کو بلایا گیا۔ سردار ابراہیم کی جانب سے بالغ رائے دہی کے مطالبے پر یہ تحریک شروع ہوئی تھی، تاہم کچھ عرصہ بعد سردار ابراہیم نے اس تحریک کو انجام تک پہنچنے سے قبل چھوڑ کر راولپنڈی میں وکالت شروع کر دی۔
اسی دوران کراچی میں ایک ' کشمیر کانفرنس ' ہوئی جس میں قانون ساز اسمبلی قائم کرنے اور بالغ رائے دہی پر انتخابات کروانے کا فیصلہ ہوا لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ امن قائم ہونے کے بعد حکومت پاکستان اور مسلم کانفرنس کے اتفاق رائے سے نگران حکومت کا قیام عمل میں آیا تاہم یہ حکومت صرف سات ماہ تک چل سکی جس کی بڑی وجہ سیاسی ناتجربہ کاری بتائی جاتی ہے۔ اس کے بعد صدر پاکستان سکندر مرزا نے سردار ابراہیم کو صدر بننے کی پیشکش کی جس پر مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کا اجلاس بلا کر سردار ابراہیم کو صدر نامزد کر دیا گیا۔
پاکستان میں مارشل لاء لگا تو فوجی حکومت نے گرفتار رہنماؤں کو رہا کر دیا، جس سے سردار ابراہیم کی حکومت کو مزید مشکلات کا سامنا رہا۔بالآخر اپریل1959 ء میں سردار ابراہیم سے استعفیٰ لئے جانے کے بعد کے ایچ خورشید کو آزاد کشمیر کا صدر نامزد کیا گیا۔کے ایچ خورشید نے صدارت سنبھالتے ہی آزاد حکومت کو ریاست جموں کشمیر کی نمائندہ حکومت تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔کے ایچ خورشید کی حکومت کو چند ماہ ہی گزرے تھے کہ پاکستان میں ایوب خان کے ' بنیادی جمہوری نظام ' کے تحت آزاد کشمیر میں بھی انتخابات کروائے گئے اور آزادکشمیر کے امورچلانے کیلئے ایکٹ1961نافذ کیا گیا۔ ایکٹ کے تحت 2400 منتخب ممبران نے صدر ریاست کا انتخاب کرنا تھا۔ ان انتخابات میں کے ایچ خورشید کو کامیابی حاصل ہوئی۔
آزادکشمیر کو نمائندہ حکومت تسلیم کرنے کی جدوجہد ایسے وقت میں تھی جب چین بھارت سرحدی تنازعہ عروج پر تھا۔ 1963ء میں کے ایچ خورشید نے انکشاف کیا کہ '' الجیریا ، ایران، ترکی، سعودی عرب ، پرتگال اور دیگر کئی ممالک نے یقین دہانی کروائی ہے کہ جیسے ہی پاکستان آزاد کشمیر حکومت کو نمائندہ حکومت تسلیم کرے گا،یہ ممالک بھی آزاد کشمیر حکومت کو تسلیم کرنے میں دیر نہیں کریں گے۔'' تاہم مسلم کانفرنس کی قیادت نے آزاد کشمیر حکومت کو خود مختار یا نمائندہ حکومت تسلیم کرنے کو شہدا کے خون سے غداری قرار دے دیا۔ جس کے بعد کے ایچ خورشید نے نئی سیاسی جماعت جموں کشمیر لبریشن لیگ کی بنیاد رکھی۔
مہاجرین کی نمائندگی ختم کئے جانے کے مسلے پر کے ایچ خورشید ، سردار ابراہیم اور سردار عبدالقیوم نے جدوجہد کا آغاز کیا۔ان کا مطالبہ تھا کہ صدر آزاد کشمیر کا انتخاب آزاد کشمیر کے عوام ،کشمیری مہاجرین مقیم پاکستان اور گلگت بلتستان کے عوام کے براہ راست ووٹوں سے کیا جائے اور قانون ساز اسمبلی بنائی جائے۔ ایکٹ 1968 کے تحت انتخابات ہوئے تو کے ایچ خورشید کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے۔ سردار ابراہیم اور سردار عبدالقیوم نے مشترکہ بیان میں کہا ''حیرت ہے جو شخص پانچ سال ریاست کا صدر رہا اسے انتخابات میں حصہ لینے کا اہل قرار نہیں دیا جا رہا کہ اس کا نام ووٹر لسٹ میں شامل نہیں۔''
ان حالات میں آزاد کشمیر میں احتجاجی تحریک شروع ہوئی اور ہنگامے ہوئے۔ اسی دوران پاکستان میں ایوب خان نے اقتدار سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر الیکشن کروانے کا اعلان کیا۔ صدر پاکستان یحییٰ خان نے سردار ابراہیم ، کے ایچ خورشید اور سردار عبدالقیوم سے الگ الگ ملاقاتیں کیں، عبوری حکومت قائم کی گئی تاکہ آئین سازی کا کام ہو سکے۔ ستمبر 1970ء میں ایکٹ نافذ کیا جس میںگلگت بلتستان کو شامل کرنے کے علاوہ آزاد کشمیر کے عوام کے تمام مطالبے تسلیم کئے گئے تھے۔
ایکٹ 1970 ء کی عمر محض 5 سال رہی اور عوامی خواہشات کے مطابق مرتب نظام آگے نہ چل سکا۔
ایکٹ 74 کے تحت قائم ہونے والے پارلیمانی نظام سے پہلے منتخب وزیر اعظم خان عبد الحمید خان تھے جن کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا۔۔ اس کے بعد 1985 ء تک مارشل لا رہا۔ 1985 ء کے انتخابات میں مسلم کانفرنس کے سردار سکندر حیات وزیر اعظم رہے، 1990 ء میں ممتاز حسین راٹھور وزیر اعظم بنے تاہم ایک سال کے اندر ہی انہوں نے اسمبلی توڑ دی اور1991 ء میں نئے انتخابات ہوئے جس کے بعد سردار عبدالقیوم خان وزیر اعظم بنے۔
1996ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری جبکہ 2001 میں پھر سے مسلم کانفرنس جیتی اور سردار سکندر حیات وزیر اعظم بنے۔ 2006 میں مسلم کانفرنس کی حکومت دوبارہ بنی لیکن اندرونی اختلافات کے باعث مسلم کانفرنس ہی کے راجا فاروق حیدر نے ان پر عدم اعتماد کیا اور راجا فاروق حیدر وزیر اعظم بن گئے۔ کچھ عرصہ بعد سردار محمد یعقوب نے عدم اعتماد کر کے فاروق حیدر کو ہٹا کر خود وزارت عظمی حاصل کر لی اور اسی اسمبلی میں تیسرا عدم اعتماد ہوا اور سردار عتیق خان پھر سے وزیراعظم بن گئے۔
2011 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی اور چوہدری عبدالمجید وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ اسی دوران پہلی مرتبہ آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن نے بھی انتخابات میں حصہ لیا۔ مسلم کانفرنس سے اختلافات کے باعث راجہ فاروق حیدر نے مسلم کانفرنس کے ناراض دھڑے کو لیکر مسلم لیگ ن بنائی اور پھر 2016 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن نے دوتہائی اکثریت حاصل کی اور راجا فاروق حیدر وزیر اعظم بنے۔
ایکٹ 74ء کے تحت دو ایوانوں کا قیام عمل میں آیا جن کو قانون ساز اسمبلی اور آزاد جموں کشمیر کونسل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قانون ساز اسمبلی کو قانون کے محدود اختیارات جبکہ کونسل کو قانون سازی اور مالیاتی اختیارات حاصل رہے۔ 2018 ء میں ایکٹ 74 ء میں 13 ویں ترمیم ہوئی جس کے بعد محدود قانون سازی اور مالیاتی اختیارات آزادکشمیر حکومت کو منتقل ہوئے۔
تاہم ایکٹ میں پوری ریاست جموں وکشمیر کی نمائندگی کی بجائے اس کادائرہ کار آزاد کشمیر تک محدود کر دیا۔ قبل ازیں 1970 سے 1975 تک آزادکشمیر میں پانچ سال تک صدارتی نظام حکومت رائج رہا جبکہ اس سے پہلے ایک مرتبہ جنرل ایوب خان کی 'بنیادی جمہوریت'کے ذریعے ' صدر ریاست ' کا انتخاب کیا گیا اورباقی ادوار میں صدر ریاست واحد سیاسی جماعت مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ پاکستان کی وزارت امور کشمیر کی مشاورت سے نامزد کرتی رہی۔
آزاد جموں و کشمیر کی سیاسی تاریخ واقعات سے بھرپور رہی ہے۔ 1947ء میں اعلان آزادی کے بعد انقلابی حکومت کا قیام عمل میں آیا تو اس کا مقصد کچھ یوں تھا:
'' عارضی حکومت جو ریاست کا نظام اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے ایک فرقہ وارانہ حکومت نہیں ہے۔اس حکومت کی عارضی کابینہ میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی شریک ہوںگے۔ حکومت کا مقصد سردست ریاست میں نظم و نسق کی بحالی ہے کہ عوام اپنی رائے سے ایک جمہوری آئین ساز اور ایک نمائندہ حکومت چن لیں۔ عارضی حکومت ریاست کی جغرافیائی سالمیت اور سیاسی انفرادیت برقرار رکھنے کی متمنی ہے۔ پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ ریاست کے الحاق کا سوال یہاں کے عوام کی آزادانہ رائے شماری سے کیا جائے گا''۔
انقلابی حکومت کے پہلے صدر سردار ابراہیم مقرر ہوئے۔ نئی حکومت کے تمام امور پاکستان کی وزارت بے محکمہ کی نگرانی میں چلتے تھے،جس کے وزیر مشتاق احمد گورمانی تھے۔ مسئلہ کشمیر اقوم متحدہ میں پیش ہونے کے بعد یہی وزارت پاکستان اور آزاد حکومت کے درمیان رابطہ کار تھی۔
آزاد حکومت کو اپنے آغاز میں ایک مذاق ہی سمجھا گیا اور کوئی نامور شخصیت اس عارضی نظام کا حصہ بننے کو تیار نہیں ہوئی، تاہم یہ ایک حقیقت بن کر سامنے آگئی تو اس کی وزارتیں اور عہدے پُرکشش بننے لگے اور اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی۔
اقتدار میں شراکت داری کیلئے مسلم کانفرنس کی قیادت اور سردار ابراہیم کی حکومت میں اختلافات بڑھنا شروع ہوگئے۔ 1948ء میں چوہدری غلام عباس جموں (مقبوضہ کشمیر) سے رہا ہو کر پاکستان آئے تو انہیں آزاد حکومت کا نگران اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ انہیںآزاد حکومت اور کابینہ میں مکمل رد وبدل کا اختیار حاصل تھا۔
چوہدری غلام عباس کو نگران اعلی بنانے کا مسئلہ بحث طلب رہا ۔ کئی مورخین بالخصوص یوسف صراف اور پنڈت پریم ناتھ بزاز نے اس اقدام کو غیر جمہوری اور غیر قانونی رویہ قرار دیا۔ اسی دوران آزاد کشمیر میں درجن کے قریب سیاسی کارکنوں کیلئے ایک لاکھ روپے کا وظیفہ مقرر کیا گیا جو چوہدری غلام عباس کے ذریعے دیا جاتا۔
عام انتخابات کی بجائے مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کو ہی ' انتخابی کالج ' کا درجہ دیا گیا اور 2 مارچ 1949 کو مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ نے ' آزاد حکومت ' کی تنظیم نو کے بارے میں ایک قرارداد منظور کی، جس کے بعد وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کے احکامات پر سردار ابراہیم نے دوبارہ صدر منتخب ہونے کی یقین دہانی پر استعفیٰ دیا، جسے چوہدری غلام عباس نے بطور صدر مجلس عاملہ قبول کیا۔ پھر یکم اپریل 1949 کو نئی کابینہ کا اعلان ہوا اور سردار ابراہیم ہی کو صدر مقرر کیا گیا۔
دونوں بڑے سیاسی دھڑوں کے درمیان بے اعتباری کو ختم کرنے کیلئے اختیارات کی تقسیم کا ایک تحریری معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس معاہدے پر سردار ابراہیم نے بحیثیت صدر آزاد کشمیر، چوہدری غلام عباس نے بحیثیت صدر مسلم کانفرنس اور نواب مشتاق احمد گورمانی نے پاکستان کے نمائندے کی حیثیت سے دستخط کئے۔ اس معاہدے کے تحت گلگت اور لداخ کے علاقوں کے تمام امور حکومت پاکستان کے سپرد کر دیے گئے اور آزاد حکومت کو چند امور پر حکومت پاکستان کو مشورہ دینے کے اختیارات ملے۔ آزاد حکومت جموں کشمیر اور ریاست پاکستان کے درمیان یہ پہلا تحریری معاہدہ تھا۔
26 مئی 1949ء کو سردار ابراہیم اور چوہدری غلام عباس کو کراچی بلا کر ان کی مشاورت سے وزارت بے محکمہ کا نام تبدیل کر کے وزارت امور کشمیر رکھا گیا۔
اسی دوران چوہدری غلام عباس کی طبیعت ناساز ہو گئی اور انہوں نے اللہ رکھا ساغر کو پارٹی کا صدر نامزد کیا جس پر کئی اختلافات سامنے آئے اور ردعمل کے طور پر میر واعظ یوسف شاہ نے 200 کارکنوں کا اجلاس بلا کر مسلم کانفرنس کے متوازی کابینہ کا اعلان کر دیا۔ تقریباً آٹھ ماہ بعد غلام عباس نے دوبارہ مسلم کانفرنس کی قیادت سنبھال لی۔ سیاسی کشمکش کی اسی فضا میں سردار ابراہیم اقوام متحدہ کے اجلاس کیلئے امریکہ روانہ ہوئے، واپسی پر انہیں کراچی روکا گیا۔
ادھر مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کا اجلاس بلا کر انہیں اقتدار سے الگ کر کے سید علی احمد شاہ کو صدر آزاد کشمیر نامزد کیا گیا۔ اس وقت سردار ابراہیم نے جاری کردہ بیان میں اپنے اور چوہدری غلام عباس کے اختلافات کا ذکر کیا اور انہوں نے بالغ رائے دہی پر حکومت بنانے کا مطالبہ کیا۔
اختلافات اور اقتدار کی اس کشمکش نے بغاوت کی شکل اختیار کر لی اور پونچھ میں سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز ہوا۔ اس بغاوت کو روکنے کیلئے پولیس کی مدد کو فوج بلائی گئی۔ مرزا شفیق حسین لکھتے ہیں کہ''سیاسی بحران جاری تھا کہ چوہدری غلام عباس نے آزاد کشمیر حکومت کے ضوابط کار اور نگران اعلیٰ کے اختیارات کا اعلان کیا جس میں صدر آزاد کشمیر اور ان کی کابینہ کی نامزدگی، ججز کی تقرری اور برطرفی کے اختیارات اور قانونی سازی کاحتمی اختیار نگران اعلیٰ کو تفویض کر دیا گیا۔
یوں چوہدری غلام عباس مطلق العنان بن گئے، جس کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا اور دوسری مرتبہ مسلم کانفرنس کی نمائندہ حیثیت کو چیلنج کیا گیا۔ کرنل شیر احمد خان نے مسلم کانفرنس کا متوازی گروپ تشکیل دے دیا۔ باغی گروپ نے وزیر امور کشمیر مشتاق گورمانی سے حالات درست کرنے کی درخواست کی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا،جس پر متوازی حکومت قائم کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس پر مرکز کو تشویش ہوئی اور میر واعظ یوسف شاہ کو نگران صدر بنانے کی تجویز دیدی۔
یہ تجویز دونوں گروپوں نے ماننے سے انکار کر دیا اور ریاست کے حالات مزید خراب ہوتے چلے گئے۔ اس بحران کو ختم کرنے کیلئے لیاقت علی خان نے ٹھوس اقدام کرنے کی کوشش کی اور مسلم کانفرنس کے دونوں دھڑوں کو مذاکرات کی پیشکش کی،جس پر دونوں دھڑوں نے وزارت امور کشمیر ختم کرنے یا کم از کم وزیر امور کشمیر کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ اسی دوران لیاقت علی خان کو قتل کر دیا گیا ، جس کی وجہ سے ان مذاکرات میں پیش رفت نہ ہو سکی۔
چوہدری غلام عباس اور سردار ابراہیم کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد آزاد حکومت مستعفی ہو گئی اور میر واعظ کو نگران صدر مقرر کیا گیا۔ یہ حکومت چھ ماہ تک رہی جس کے بعد کرنل شیر احمد خان کو صدر نامزد کر دیا گیا۔ اس نامزدگی کو سردار ابراہیم نے وزیر امور کشمیر کی سازش قرار دیا جبکہ چوہدری غلام عباس نے خاموشی اختیار کئے رکھی۔
اس دوران سردار ابراہیم گروپ کی جمہوریت بحالی کی جدوجہد جاری رہی اورفروری 1955ء میں اس تحریک میں نیا تب موڑ آیا جب کرنل شیر احمد پر فائرنگ ہوئی اور ایک شخص کو گرفتار کرنے کے لئے پولیس نے پلندری مسجد پر چھاپہ مارا ، اس پر عوامی ردعمل سامنے آیا،تصادم ہوا اور پھر لوگوں نے تمام سرکاری دفاتر پر قبضہ کر لیا۔ ان حالات میں پونچھ میں مارشل لاء لگا کر پنجاب کانسٹیبلری کو بلایا گیا۔ سردار ابراہیم کی جانب سے بالغ رائے دہی کے مطالبے پر یہ تحریک شروع ہوئی تھی، تاہم کچھ عرصہ بعد سردار ابراہیم نے اس تحریک کو انجام تک پہنچنے سے قبل چھوڑ کر راولپنڈی میں وکالت شروع کر دی۔
اسی دوران کراچی میں ایک ' کشمیر کانفرنس ' ہوئی جس میں قانون ساز اسمبلی قائم کرنے اور بالغ رائے دہی پر انتخابات کروانے کا فیصلہ ہوا لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ امن قائم ہونے کے بعد حکومت پاکستان اور مسلم کانفرنس کے اتفاق رائے سے نگران حکومت کا قیام عمل میں آیا تاہم یہ حکومت صرف سات ماہ تک چل سکی جس کی بڑی وجہ سیاسی ناتجربہ کاری بتائی جاتی ہے۔ اس کے بعد صدر پاکستان سکندر مرزا نے سردار ابراہیم کو صدر بننے کی پیشکش کی جس پر مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کا اجلاس بلا کر سردار ابراہیم کو صدر نامزد کر دیا گیا۔
پاکستان میں مارشل لاء لگا تو فوجی حکومت نے گرفتار رہنماؤں کو رہا کر دیا، جس سے سردار ابراہیم کی حکومت کو مزید مشکلات کا سامنا رہا۔بالآخر اپریل1959 ء میں سردار ابراہیم سے استعفیٰ لئے جانے کے بعد کے ایچ خورشید کو آزاد کشمیر کا صدر نامزد کیا گیا۔کے ایچ خورشید نے صدارت سنبھالتے ہی آزاد حکومت کو ریاست جموں کشمیر کی نمائندہ حکومت تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔کے ایچ خورشید کی حکومت کو چند ماہ ہی گزرے تھے کہ پاکستان میں ایوب خان کے ' بنیادی جمہوری نظام ' کے تحت آزاد کشمیر میں بھی انتخابات کروائے گئے اور آزادکشمیر کے امورچلانے کیلئے ایکٹ1961نافذ کیا گیا۔ ایکٹ کے تحت 2400 منتخب ممبران نے صدر ریاست کا انتخاب کرنا تھا۔ ان انتخابات میں کے ایچ خورشید کو کامیابی حاصل ہوئی۔
آزادکشمیر کو نمائندہ حکومت تسلیم کرنے کی جدوجہد ایسے وقت میں تھی جب چین بھارت سرحدی تنازعہ عروج پر تھا۔ 1963ء میں کے ایچ خورشید نے انکشاف کیا کہ '' الجیریا ، ایران، ترکی، سعودی عرب ، پرتگال اور دیگر کئی ممالک نے یقین دہانی کروائی ہے کہ جیسے ہی پاکستان آزاد کشمیر حکومت کو نمائندہ حکومت تسلیم کرے گا،یہ ممالک بھی آزاد کشمیر حکومت کو تسلیم کرنے میں دیر نہیں کریں گے۔'' تاہم مسلم کانفرنس کی قیادت نے آزاد کشمیر حکومت کو خود مختار یا نمائندہ حکومت تسلیم کرنے کو شہدا کے خون سے غداری قرار دے دیا۔ جس کے بعد کے ایچ خورشید نے نئی سیاسی جماعت جموں کشمیر لبریشن لیگ کی بنیاد رکھی۔
مہاجرین کی نمائندگی ختم کئے جانے کے مسلے پر کے ایچ خورشید ، سردار ابراہیم اور سردار عبدالقیوم نے جدوجہد کا آغاز کیا۔ان کا مطالبہ تھا کہ صدر آزاد کشمیر کا انتخاب آزاد کشمیر کے عوام ،کشمیری مہاجرین مقیم پاکستان اور گلگت بلتستان کے عوام کے براہ راست ووٹوں سے کیا جائے اور قانون ساز اسمبلی بنائی جائے۔ ایکٹ 1968 کے تحت انتخابات ہوئے تو کے ایچ خورشید کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے۔ سردار ابراہیم اور سردار عبدالقیوم نے مشترکہ بیان میں کہا ''حیرت ہے جو شخص پانچ سال ریاست کا صدر رہا اسے انتخابات میں حصہ لینے کا اہل قرار نہیں دیا جا رہا کہ اس کا نام ووٹر لسٹ میں شامل نہیں۔''
ان حالات میں آزاد کشمیر میں احتجاجی تحریک شروع ہوئی اور ہنگامے ہوئے۔ اسی دوران پاکستان میں ایوب خان نے اقتدار سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر الیکشن کروانے کا اعلان کیا۔ صدر پاکستان یحییٰ خان نے سردار ابراہیم ، کے ایچ خورشید اور سردار عبدالقیوم سے الگ الگ ملاقاتیں کیں، عبوری حکومت قائم کی گئی تاکہ آئین سازی کا کام ہو سکے۔ ستمبر 1970ء میں ایکٹ نافذ کیا جس میںگلگت بلتستان کو شامل کرنے کے علاوہ آزاد کشمیر کے عوام کے تمام مطالبے تسلیم کئے گئے تھے۔
ایکٹ 1970 ء کی عمر محض 5 سال رہی اور عوامی خواہشات کے مطابق مرتب نظام آگے نہ چل سکا۔
ایکٹ 74 کے تحت قائم ہونے والے پارلیمانی نظام سے پہلے منتخب وزیر اعظم خان عبد الحمید خان تھے جن کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا۔۔ اس کے بعد 1985 ء تک مارشل لا رہا۔ 1985 ء کے انتخابات میں مسلم کانفرنس کے سردار سکندر حیات وزیر اعظم رہے، 1990 ء میں ممتاز حسین راٹھور وزیر اعظم بنے تاہم ایک سال کے اندر ہی انہوں نے اسمبلی توڑ دی اور1991 ء میں نئے انتخابات ہوئے جس کے بعد سردار عبدالقیوم خان وزیر اعظم بنے۔
1996ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری جبکہ 2001 میں پھر سے مسلم کانفرنس جیتی اور سردار سکندر حیات وزیر اعظم بنے۔ 2006 میں مسلم کانفرنس کی حکومت دوبارہ بنی لیکن اندرونی اختلافات کے باعث مسلم کانفرنس ہی کے راجا فاروق حیدر نے ان پر عدم اعتماد کیا اور راجا فاروق حیدر وزیر اعظم بن گئے۔ کچھ عرصہ بعد سردار محمد یعقوب نے عدم اعتماد کر کے فاروق حیدر کو ہٹا کر خود وزارت عظمی حاصل کر لی اور اسی اسمبلی میں تیسرا عدم اعتماد ہوا اور سردار عتیق خان پھر سے وزیراعظم بن گئے۔
2011 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی اور چوہدری عبدالمجید وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ اسی دوران پہلی مرتبہ آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن نے بھی انتخابات میں حصہ لیا۔ مسلم کانفرنس سے اختلافات کے باعث راجہ فاروق حیدر نے مسلم کانفرنس کے ناراض دھڑے کو لیکر مسلم لیگ ن بنائی اور پھر 2016 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن نے دوتہائی اکثریت حاصل کی اور راجا فاروق حیدر وزیر اعظم بنے۔