عارف نظامی کی رحلت
صحافت کے شعبے میں عارف نظامی ایک ادارے کی حیثیت رکھتے تھے۔
عارف نظامی، داغ مفارقت دے گئے، صحافت کا ایک روشن باب اور عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ صحافت وراثت میں ملی تھی لیکن انھوں نے اپنی محنت ، لگن اور ہمت سے اس شعبے میں ایک با وقار مقام بنایا۔
انھوں نے ایک جونیئر رپورٹرکے طور پر عملی صحافت میں کام شروع کیا اور پھر ترقی کرتے کرتے ایگزیکٹو ایڈیٹر نوائے وقت کے عہدے تک پہنچے، بعد ازاں وہ اسی ادارے کے انگریزی اخبار '' دی نیشن'' کے بھی ایڈیٹر رہے، اور اس کو ملک کا معتبر انگریزی روزنامہ بنایا۔ ایک صحافتی ادارے کا مالک ہوتے ہوئے بھی بنیادی طور پر سراپا صحافی تھے۔
انھوں نے جس وضع داری ، رکھ رکھاؤ اور سلیقے سے پاکستان میں صحافت کی ہے وہ اپنی جگہ پر ایک مثال ہے۔ ہر طبقہ فکر میں ان کے لیے عزت اور احترام پایا جاتا تھا ، بلاشبہ یہ ان کی اعلیٰ درجے کی صحافت کی وجہ سے ہی تھا۔ 2010 میں وہ انگریزی اخبار دی نیشن کی ادارت سے الگ ہوگئے۔ بعد ازاں ایک انگریزی اخبار '' پاکستان ٹو ڈے'' کی بنیاد رکھی۔ عارف نظامی کئی ٹی وی چینلز سے بھی وابستہ رہے۔
پاکستان میں اخبارات کے مدیروں کی ایک تنظیم کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای) اور آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کے بھی صدر رہے۔ عارف نظامی نگران وفاقی وزیر کے عہدے پر بھی تعینات رہے۔ انھیں سال 2013 میں نگراں وفاقی وزیر برائے اطلاعات و پوسٹل سروسز بنایا گیا تھا، مرحوم ایک باوقار، ذمے دار اور باخبر صحافی تھے، وہ ایک ورکنگ ایڈیٹر تھے۔
ان کے پاس اخبار کے کارکن اور مالک کے طور پر کام کرنے کا تجربہ تھا، وہ ساتھی کارکنوں کے لیے ہمدردی اور قربت کا تعلق رکھتے تھے لیکن طاقتوروں کے سامنے ان کا رویہ سخت ہوتا تھا۔
عارف نظامی خبروں کا سراغ لگانے کی مؤثر صلاحیت رکھتے تھے۔ انھوں نے بینظیر حکومت کے خاتمے کی خبر دی تو اس پر خود بے نظیر بھٹو حیران رہ گئیں۔ انھوں نے عمران خان کی شادی اور طلاق کے حوالے سے بھی خبریں بریک کیں۔
صحافت کے شعبے میں عارف نظامی ایک ادارے کی حیثیت رکھتے تھے، صحافتی میدان میں مرحوم کی خدمات عرصہ دراز تک یاد رکھی جائیں گی۔ ان کی وفات پر پاکستان کے صدر اور وزیراعظم سمیت ملک کی تمام بڑی صحافتی اور سیاسی شخصیات نے دکھ اور افسوس کا اظہارکیا ہے۔
انھوں نے ایک جونیئر رپورٹرکے طور پر عملی صحافت میں کام شروع کیا اور پھر ترقی کرتے کرتے ایگزیکٹو ایڈیٹر نوائے وقت کے عہدے تک پہنچے، بعد ازاں وہ اسی ادارے کے انگریزی اخبار '' دی نیشن'' کے بھی ایڈیٹر رہے، اور اس کو ملک کا معتبر انگریزی روزنامہ بنایا۔ ایک صحافتی ادارے کا مالک ہوتے ہوئے بھی بنیادی طور پر سراپا صحافی تھے۔
انھوں نے جس وضع داری ، رکھ رکھاؤ اور سلیقے سے پاکستان میں صحافت کی ہے وہ اپنی جگہ پر ایک مثال ہے۔ ہر طبقہ فکر میں ان کے لیے عزت اور احترام پایا جاتا تھا ، بلاشبہ یہ ان کی اعلیٰ درجے کی صحافت کی وجہ سے ہی تھا۔ 2010 میں وہ انگریزی اخبار دی نیشن کی ادارت سے الگ ہوگئے۔ بعد ازاں ایک انگریزی اخبار '' پاکستان ٹو ڈے'' کی بنیاد رکھی۔ عارف نظامی کئی ٹی وی چینلز سے بھی وابستہ رہے۔
پاکستان میں اخبارات کے مدیروں کی ایک تنظیم کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای) اور آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کے بھی صدر رہے۔ عارف نظامی نگران وفاقی وزیر کے عہدے پر بھی تعینات رہے۔ انھیں سال 2013 میں نگراں وفاقی وزیر برائے اطلاعات و پوسٹل سروسز بنایا گیا تھا، مرحوم ایک باوقار، ذمے دار اور باخبر صحافی تھے، وہ ایک ورکنگ ایڈیٹر تھے۔
ان کے پاس اخبار کے کارکن اور مالک کے طور پر کام کرنے کا تجربہ تھا، وہ ساتھی کارکنوں کے لیے ہمدردی اور قربت کا تعلق رکھتے تھے لیکن طاقتوروں کے سامنے ان کا رویہ سخت ہوتا تھا۔
عارف نظامی خبروں کا سراغ لگانے کی مؤثر صلاحیت رکھتے تھے۔ انھوں نے بینظیر حکومت کے خاتمے کی خبر دی تو اس پر خود بے نظیر بھٹو حیران رہ گئیں۔ انھوں نے عمران خان کی شادی اور طلاق کے حوالے سے بھی خبریں بریک کیں۔
صحافت کے شعبے میں عارف نظامی ایک ادارے کی حیثیت رکھتے تھے، صحافتی میدان میں مرحوم کی خدمات عرصہ دراز تک یاد رکھی جائیں گی۔ ان کی وفات پر پاکستان کے صدر اور وزیراعظم سمیت ملک کی تمام بڑی صحافتی اور سیاسی شخصیات نے دکھ اور افسوس کا اظہارکیا ہے۔