اسٹریٹ اور بک اسمارٹ
کوشش کی گئی کہ طاقت کے بل بوتے پر اس ملک کے محکموں اور تازہ ذہن کو سیاسی بانجھ کیا جائے۔
قصہ اہل جنوں کوئی نہیں لکھے گا
جیسے ہم لکھتے ہیں،کوئی نہیں لکھے گا
زمانے کے لیے افتخار عارف اور میرے(بھائی افتخار) کے تازہ مجموعہ کلام ''باغ گل سرخ''کی غزل کا یہ مطلع دراصل میرے آج کے کالم کی ابتدا اس وجہ سے ٹہرا کہ جہاں کہیں میری بیٹیوں کی بات آتی ہے تو بھائی افتخار کی میری بیٹیوں سے عقیدت،احترام اور برتاؤ کی ایسی خوشبو ذہن میں بس جاتی ہے کہ میرے گھر کا باغ ان کے سرخ گل سے مہک جاتا ہے،اور ان کے پیار کی چاشنی میں ڈوب کر میرا قلم بس اہل جنوں کے قصے اور سماجی مسائل کی تحقیق میں جت جاتا ہے،گو میں ابھی''باغ گل سرخ''پہ تبصرے کا قرض دار ہوں جو کسی اور نشست میں ادا کیا جائے گا۔
بھائی افتخار کے اسی اہل جنوں کے قصے کے ایک گوشے کا ذکر دوچار روز قبل میری سیاسی تحریکی بیٹی لیلی رضا نے مجھ سے کیا،ہمارے درمیان سماجی پرت کے مختلف سیاسی اور معاشرتی پہلوؤں پر گفتگو ہو رہی تھی، لیلی نے اپنے تجربے شیئر کرتے ہوئے میرے سامنے سرمایہ داروں کے پرانے ظالمانہ اور محنت و قابلیت دشمن سوچ کو نئی اصطلاح دی اور کہا کہ''پاپا اب یہ سماج اسقدر زوال پذیر ہو چکا ہے کہ اب یہاں بدعنوانی کرنے سے زیادہ اس فرد یا سرمایہ کار کے ہرکارے کی قدر کی جاتی ہے جو سرمایہ دار کی ہر قسم کی بدعنوانی کو مختلف محکمانہ کرپشن کے دائرے میں طے کرکے سرمایہ دار کے سرمائے کو ہر ممکن طریقے سے مکمل محفوظ کردے۔
اس ضمن میں لیلی رضا کا استدلال تھا کہ اب یہ سماج بک اسمارٹ کے مقابل اسٹریٹ اسمارٹ کو ترجیح دینے پر لگ گیا ہے جس کا نقصان سماجی قدروں کے علاوہ ان ذہین اور سیاسی شعور رکھنے والوں کو ہو رہا ہے جو سماج کی قدروں اور تہذیب و شائستگی کو برقرار رکھنے میں کوشاں ہیں یا سماج میں قاعدے و قوانین چاہتے ہیں چاپلوسی نہیں۔''
لیلی کی یہ گفتگو اور سوچ بغیر سیاسی ادراک کے پیدا ہونا نا ممکن ہے،یہی ہمارے قابل ذہین اور سیاسی شعور رکھنے والی نوجوان نسل کا وہ نوحہ یا سماجی خرابیوں کو نہ تسلیم کرنے کا وہ رویہ ہے جو جلد یا بدیر تمام ریاستی حربوں کے باوجود ایک روز ضرور اس سماج کا انصاف بر مبنی بیانیہ اور قاعدے و ترتیب کی روشن خیال سوچ بنے گا۔
تمام تر جبر اور طاقت کے خداؤں نے اس سماج کو غیر سیاسی،غیر اخلاقی،تہذیب سے دور کرکے لاقانونیت کو معاشرے اور فرد کی ذات کا حصہ بنانے میں بہتر برس لگا دیے مگر نتیجہ سماج کی ابتری کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا،کوشش کی گئی کہ طاقت کے بل بوتے پر اس ملک کے محکموں اور تازہ ذہن کو سیاسی بانجھ کیا جائے اور ففتھ جنریشن کے خوف میں مبتلا کرکے روبوٹ بنا کر نئی نسل کو روایتی چوغا پہنا کر صمم بکم کی مانند بنا دیا جائے۔
عوام کی جمہوری آزادی کو ان طاقتوں نے جی بھر کر نہ صرف عوامی محکموں کو لوٹا اور کھسوٹا بلکہ عوامی سطح پر کرپشن میں سول انتظامیہ کی حوصلہ مندی اور مدد کی،جس کی مثال کے الیکٹرک،اسٹیل مل،مشین ٹول فیکٹری،بلدیاتی ادارے اور بلڈنگز اتھارٹی میں مشرف زدہ افسران تعینات کیے گئے بلکہ مذکورہ اداروں کی کارکردگی کو مارشلائی افسروں نے کمائی کا دھندا بنایا اور مذکورہ اداروں میں ''کرپشن''کرکے انھیں ریاستی بوجھ قرار دلوایا۔
یہ بھی ہماری ریاستی تاریخ کی انمول مثال ہے کہ مارشل لاء حمایت اور جمہور دشمن اشرافیہ نے طاقت کے آگے سر نگوں کرنے کے بیانیے کا بکے ہوئے ریاستی قلم سے خوب پرچارک کروایا اور اپنی مرضی کا بیانیہ ریاست کی قومی سلامتی سے مشروط کرکے اسے ملک کی مقدس ترین شے بنا کر عوامی اداروں کو تباہ کیا۔
جنرل ایوب،جنرل ضیا اور جنرل مشرف نے جمہوری نظام کو دریدہ کرکے آئین کو ذلیل و رسوا کیا۔دوسری جانب مار شل لا کی گود میں پلنے والی قوتوں کو عوام کا نجات دہندہ ثابت کرکے ان سے اپنی مرضی کی سیاسی ڈگڈگی بجوا کر عوام کے بنیادی جمہوری حق کو غصب کیا اور اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے افسران کی کرپشن کا احتساب منتخب پارلیمان کے ذریعے اپنے سیاسی چاپلوس ہرکاروں ذریعے اب تک روکے رکھا ہے۔
تمام تر جمہور دشمن کوششوں کے باوجود نئی نسل میں پھوٹنے والے سیاسی و شعوری امنگ کو یہ اشرافیہ اپنے عوام دشمن حربوں کے باوجود اب تک قابو نہ کر سکی ہے،مگر یہ طاقت اس کے مقابلے میں جدید قسم کے اسٹریٹ اسمارٹ کی افزائش میں جتی ہوئی ہے،جو بک اسمارٹ کے سیاسی اور علمی شعور کے آگے مسلسل شکست ہی کھا رہے ہیں،مگر اس کے باوجود غیر جمہوری سماج کی تمام پرتوں میں ''اسٹریٹ اسمارٹ''افراد کی حوصلہ افزائی کرتی ملتی ہے،جو کہ اپنی بدعنوان سوچ اور قابلیت کے مقابلے میں چاپلوسی سے سرمایہ دار اور غیر جمہوری ریاست کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہیں،جو عوامی اداروں سمیت سماجی ڈھانچے کو قدر کے بجائے چمچہ گیری اور ذہانت کے مقابلے میں ''یس سر'' بنانے کی کوششوں میں اخلاقی اور سماجی طور سے بانجھ کر رہے ہیں،جو سماج کے لیے مجموعی طور سے مسلسل نقصان کا باعث ہیں۔
اسٹریٹ اسمارٹ کی اصطلاح کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ سرمایہ داروں کے سہولت کار جو سماج کی نچلی پرت سے نکالے جائیں اور انھیں سرمایہ داروں کے ٹھیکیائی نظام کا اہم پرزہ بنا کر ان کم پڑھے لکھے مگر سماجی طور سے سرگرم افراد کو ذہین اور باصلاحیت سیاسی شعور رکھنے والے نوجوانوں پر مسلط کیا جائے اور پڑھے لکھے باصلاحیت افراد میں ''اسٹریٹ اسمارٹ''کو سیٹھیائی نظام کا اہم پرزہ بتا کر ان کم پڑھے لکھے مگر تمام تر کرپشن کے باوجود سیٹھ کا قابل اعتماد فرد بنا کر قابل اور ذہین افراد پر مسلط رکھا جائے جب کہ تمام منصوبہ بندی اور دفتری کام ''بک اسمارٹ''سیٹھ کے با اعتماد اور بے کار ''اسٹریٹ اسمارٹ ''کے کہنے پر نوکری کی سلامتی میں محض روزگار کے حصول میں کرتے جاتے ہیں،جو سماج کی اخلاقی قدروں کے لیے استحصال کا مہلک طریقہ ہے۔
سرمایہ داری اور سیٹھیائی نظام کے یہ ''اسٹریٹ اسمارٹ'' قابل اعتماد نوکر بن کر جدید سرمایہ داری میں با صلاحیت اور سیاسی شعور کے افراد کے لیے وہ جونک ثابت ہورہے ہیں جو سماج کے تازہ اور سیاسی شعور کے ذہنوں کو چوس رہے ہیں۔جدید سرمایہ داری نظام میں بیک وقت سیٹھیائی اور سرمایہ داری کی آمیزش کتاب اور علم کی مدد سے سماج میں قانون اور اخلاقیات کی سرخروئی چاہنے والے ''بک اسمارٹ'' کی صلاحیتیں چاپلوس اور سماج میں غیر قانونی و غیر اخلاقی کام کرنے والے ''اسٹریٹ اسمارٹ'' کے ذریعے کھائی جا رہی ہیں جو کسی طور انصاف بر مبنی اور روشن خیال سماج کے لیے نیک شگون نہیں، لہٰذا ''بک اسمارٹ''کو چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی بالیدگی کو یکجاکر کے چاپلوس ''اسٹریٹ اسمارٹ'' سے جلد چھٹکارہ پائیں وگرنہ ہم مجوعی طور سے سیاسی اور نظریاتی شعور کے سوتے آگے نہ بڑھا پائیں گے۔
جیسے ہم لکھتے ہیں،کوئی نہیں لکھے گا
زمانے کے لیے افتخار عارف اور میرے(بھائی افتخار) کے تازہ مجموعہ کلام ''باغ گل سرخ''کی غزل کا یہ مطلع دراصل میرے آج کے کالم کی ابتدا اس وجہ سے ٹہرا کہ جہاں کہیں میری بیٹیوں کی بات آتی ہے تو بھائی افتخار کی میری بیٹیوں سے عقیدت،احترام اور برتاؤ کی ایسی خوشبو ذہن میں بس جاتی ہے کہ میرے گھر کا باغ ان کے سرخ گل سے مہک جاتا ہے،اور ان کے پیار کی چاشنی میں ڈوب کر میرا قلم بس اہل جنوں کے قصے اور سماجی مسائل کی تحقیق میں جت جاتا ہے،گو میں ابھی''باغ گل سرخ''پہ تبصرے کا قرض دار ہوں جو کسی اور نشست میں ادا کیا جائے گا۔
بھائی افتخار کے اسی اہل جنوں کے قصے کے ایک گوشے کا ذکر دوچار روز قبل میری سیاسی تحریکی بیٹی لیلی رضا نے مجھ سے کیا،ہمارے درمیان سماجی پرت کے مختلف سیاسی اور معاشرتی پہلوؤں پر گفتگو ہو رہی تھی، لیلی نے اپنے تجربے شیئر کرتے ہوئے میرے سامنے سرمایہ داروں کے پرانے ظالمانہ اور محنت و قابلیت دشمن سوچ کو نئی اصطلاح دی اور کہا کہ''پاپا اب یہ سماج اسقدر زوال پذیر ہو چکا ہے کہ اب یہاں بدعنوانی کرنے سے زیادہ اس فرد یا سرمایہ کار کے ہرکارے کی قدر کی جاتی ہے جو سرمایہ دار کی ہر قسم کی بدعنوانی کو مختلف محکمانہ کرپشن کے دائرے میں طے کرکے سرمایہ دار کے سرمائے کو ہر ممکن طریقے سے مکمل محفوظ کردے۔
اس ضمن میں لیلی رضا کا استدلال تھا کہ اب یہ سماج بک اسمارٹ کے مقابل اسٹریٹ اسمارٹ کو ترجیح دینے پر لگ گیا ہے جس کا نقصان سماجی قدروں کے علاوہ ان ذہین اور سیاسی شعور رکھنے والوں کو ہو رہا ہے جو سماج کی قدروں اور تہذیب و شائستگی کو برقرار رکھنے میں کوشاں ہیں یا سماج میں قاعدے و قوانین چاہتے ہیں چاپلوسی نہیں۔''
لیلی کی یہ گفتگو اور سوچ بغیر سیاسی ادراک کے پیدا ہونا نا ممکن ہے،یہی ہمارے قابل ذہین اور سیاسی شعور رکھنے والی نوجوان نسل کا وہ نوحہ یا سماجی خرابیوں کو نہ تسلیم کرنے کا وہ رویہ ہے جو جلد یا بدیر تمام ریاستی حربوں کے باوجود ایک روز ضرور اس سماج کا انصاف بر مبنی بیانیہ اور قاعدے و ترتیب کی روشن خیال سوچ بنے گا۔
تمام تر جبر اور طاقت کے خداؤں نے اس سماج کو غیر سیاسی،غیر اخلاقی،تہذیب سے دور کرکے لاقانونیت کو معاشرے اور فرد کی ذات کا حصہ بنانے میں بہتر برس لگا دیے مگر نتیجہ سماج کی ابتری کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا،کوشش کی گئی کہ طاقت کے بل بوتے پر اس ملک کے محکموں اور تازہ ذہن کو سیاسی بانجھ کیا جائے اور ففتھ جنریشن کے خوف میں مبتلا کرکے روبوٹ بنا کر نئی نسل کو روایتی چوغا پہنا کر صمم بکم کی مانند بنا دیا جائے۔
عوام کی جمہوری آزادی کو ان طاقتوں نے جی بھر کر نہ صرف عوامی محکموں کو لوٹا اور کھسوٹا بلکہ عوامی سطح پر کرپشن میں سول انتظامیہ کی حوصلہ مندی اور مدد کی،جس کی مثال کے الیکٹرک،اسٹیل مل،مشین ٹول فیکٹری،بلدیاتی ادارے اور بلڈنگز اتھارٹی میں مشرف زدہ افسران تعینات کیے گئے بلکہ مذکورہ اداروں کی کارکردگی کو مارشلائی افسروں نے کمائی کا دھندا بنایا اور مذکورہ اداروں میں ''کرپشن''کرکے انھیں ریاستی بوجھ قرار دلوایا۔
یہ بھی ہماری ریاستی تاریخ کی انمول مثال ہے کہ مارشل لاء حمایت اور جمہور دشمن اشرافیہ نے طاقت کے آگے سر نگوں کرنے کے بیانیے کا بکے ہوئے ریاستی قلم سے خوب پرچارک کروایا اور اپنی مرضی کا بیانیہ ریاست کی قومی سلامتی سے مشروط کرکے اسے ملک کی مقدس ترین شے بنا کر عوامی اداروں کو تباہ کیا۔
جنرل ایوب،جنرل ضیا اور جنرل مشرف نے جمہوری نظام کو دریدہ کرکے آئین کو ذلیل و رسوا کیا۔دوسری جانب مار شل لا کی گود میں پلنے والی قوتوں کو عوام کا نجات دہندہ ثابت کرکے ان سے اپنی مرضی کی سیاسی ڈگڈگی بجوا کر عوام کے بنیادی جمہوری حق کو غصب کیا اور اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے افسران کی کرپشن کا احتساب منتخب پارلیمان کے ذریعے اپنے سیاسی چاپلوس ہرکاروں ذریعے اب تک روکے رکھا ہے۔
تمام تر جمہور دشمن کوششوں کے باوجود نئی نسل میں پھوٹنے والے سیاسی و شعوری امنگ کو یہ اشرافیہ اپنے عوام دشمن حربوں کے باوجود اب تک قابو نہ کر سکی ہے،مگر یہ طاقت اس کے مقابلے میں جدید قسم کے اسٹریٹ اسمارٹ کی افزائش میں جتی ہوئی ہے،جو بک اسمارٹ کے سیاسی اور علمی شعور کے آگے مسلسل شکست ہی کھا رہے ہیں،مگر اس کے باوجود غیر جمہوری سماج کی تمام پرتوں میں ''اسٹریٹ اسمارٹ''افراد کی حوصلہ افزائی کرتی ملتی ہے،جو کہ اپنی بدعنوان سوچ اور قابلیت کے مقابلے میں چاپلوسی سے سرمایہ دار اور غیر جمہوری ریاست کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہیں،جو عوامی اداروں سمیت سماجی ڈھانچے کو قدر کے بجائے چمچہ گیری اور ذہانت کے مقابلے میں ''یس سر'' بنانے کی کوششوں میں اخلاقی اور سماجی طور سے بانجھ کر رہے ہیں،جو سماج کے لیے مجموعی طور سے مسلسل نقصان کا باعث ہیں۔
اسٹریٹ اسمارٹ کی اصطلاح کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ سرمایہ داروں کے سہولت کار جو سماج کی نچلی پرت سے نکالے جائیں اور انھیں سرمایہ داروں کے ٹھیکیائی نظام کا اہم پرزہ بنا کر ان کم پڑھے لکھے مگر سماجی طور سے سرگرم افراد کو ذہین اور باصلاحیت سیاسی شعور رکھنے والے نوجوانوں پر مسلط کیا جائے اور پڑھے لکھے باصلاحیت افراد میں ''اسٹریٹ اسمارٹ''کو سیٹھیائی نظام کا اہم پرزہ بتا کر ان کم پڑھے لکھے مگر تمام تر کرپشن کے باوجود سیٹھ کا قابل اعتماد فرد بنا کر قابل اور ذہین افراد پر مسلط رکھا جائے جب کہ تمام منصوبہ بندی اور دفتری کام ''بک اسمارٹ''سیٹھ کے با اعتماد اور بے کار ''اسٹریٹ اسمارٹ ''کے کہنے پر نوکری کی سلامتی میں محض روزگار کے حصول میں کرتے جاتے ہیں،جو سماج کی اخلاقی قدروں کے لیے استحصال کا مہلک طریقہ ہے۔
سرمایہ داری اور سیٹھیائی نظام کے یہ ''اسٹریٹ اسمارٹ'' قابل اعتماد نوکر بن کر جدید سرمایہ داری میں با صلاحیت اور سیاسی شعور کے افراد کے لیے وہ جونک ثابت ہورہے ہیں جو سماج کے تازہ اور سیاسی شعور کے ذہنوں کو چوس رہے ہیں۔جدید سرمایہ داری نظام میں بیک وقت سیٹھیائی اور سرمایہ داری کی آمیزش کتاب اور علم کی مدد سے سماج میں قانون اور اخلاقیات کی سرخروئی چاہنے والے ''بک اسمارٹ'' کی صلاحیتیں چاپلوس اور سماج میں غیر قانونی و غیر اخلاقی کام کرنے والے ''اسٹریٹ اسمارٹ'' کے ذریعے کھائی جا رہی ہیں جو کسی طور انصاف بر مبنی اور روشن خیال سماج کے لیے نیک شگون نہیں، لہٰذا ''بک اسمارٹ''کو چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی بالیدگی کو یکجاکر کے چاپلوس ''اسٹریٹ اسمارٹ'' سے جلد چھٹکارہ پائیں وگرنہ ہم مجوعی طور سے سیاسی اور نظریاتی شعور کے سوتے آگے نہ بڑھا پائیں گے۔