محمد اسلام کی ’’شرگوشیاں‘‘ پر ایک نظر
آج کا دور بڑا مصروفیت کا ہے کسی کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہے کہ دوست احباب کی خیریت بذریعہ فون معلوم کرلیں۔
سب سے پہلے تو میں محمد اسلام کی ''شرگوشیاں'' کی اشاعت پر دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں وہ چھ کتابوں کے مصنف ہیں، ان کی تحریریں طنز و مزاح پر مبنی ہوتی ہیں۔ پہلے کتابوں کے قارئین اور پھر تقریب رونمائی کے مواقعے پر حاضرین لطف اندوز ہوتے ہیں گویا یہ کتابیں ڈبل ایکشن کا کام کرتی ہیں۔
محمد اسلام ممتاز صحافی ہیں۔ اس کے ساتھ لکھنے، پڑھنے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے وہ مجلسی آدمی ہیں بہت بااخلاق اور مہذب آشنا ہیں جو ان سے ایک بار ملتا ہے وہ ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے، تعصب، نفرت اور اقربا پروری کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتے ہیں، عزت کرتے ہیں اور عزت کرواتے ہیں، اپنے اور بیگانوں میں ہر دلعزیز ہونے کا یہ بہترین اصول ہے۔
''شرگوشیاں'' کی خوبی یہ ہے کہ اس کتاب میں سو لفظی کہانیاں شامل ہیں ، ایک لفظ آگے نہ پیچھے، گن کر دیکھ سکتے ہیں اگر آپ کے پاس وقت ہے تو۔ کمال کی بات یہ ہے کہ یہ مکمل کہانیاں ہیں۔ سو لفظی کہانیاں پڑھنے کا لطف اس وقت دوبالا ہوتا ہے جب قاری پنچ لائن پر پہنچ کر ہنسنے اور قہقہہ لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
آج کا دور بڑا مصروفیت کا ہے کسی کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہے کہ دوست احباب کی خیریت بذریعہ فون معلوم کرلیں۔ اب تو ساری ضرورتیں سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک کے ذریعے پوری ہو جاتی ہیں، تو ان حالات میں مختصر کہانیاں بہت کم وقت میں پڑھ لی جاتی ہیں۔
مصنف نے معاشی تلخیاں، سماجی مسائل اور روز مرہ زندگی میں ہونے والے واقعات کو بڑے سلیقے اور فنی لوازمات کے ساتھ تخلیق کے پیکر میں ڈھالا ہے، قارئین و سامعین کو ان کا لکھا ہوا ایک لفظ بھی گراں نہیں گزرتا ہے اور باعث آزار تو ان کے لیے بھی نہیں ہوتا جن کی وجہ سے معاشرتی برائیاں اور ناانصافیاں پروان چڑھی ہیں۔
مصنف کی تحریر کا یہی کمال ہے مسکرا مسکرا کر اور تاک تاک کر نشانے لگاتے ہیں، گویا نشانہ بازی میں بھی ماہر ہیں۔سو لفظی کہانیوں کا یہ ان کا پہلا تجربہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل ''مزاح صغیرہ و کبیرہ'' میں اسی طرز کی تحریریں قلم بند کرچکے ہیں جس کی انھوں نے داد بھی وصول کی اور کتاب اور صاحب کتاب کے خوب چرچے ہوئے اور یہ چرچے یا شہرت دور دور تک پہنچی اور اس طویل سفر کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی بہترین کتابوں پر ایم فل کی ڈگری شاہد فرید نے بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان سے حاصل کی۔
مزاح کی مختلف صورتیں ہیں جن سے مصنف نے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے، واقعاتی مزاح، مزاحیہ کردار، لفظی مزاح، مزاح نگاری کے کامیاب ترین عمل میں تینوں صورتوں کی اہمیت مسلم ہے اس انداز میں رعایت لفظی سے بھی کام لیا جاتا ہے اکبر الٰہ آبادی کا یہ شعر بہترین مثال کے طور پر سامنے آیا ہے:
عاشقی کا ہوا برا اس نے بگاڑے سارے کام
ہم تو اے بی میں رہے، اغیار بی اے ہوگئے
بات شاعری کی آگئی تو مزاح کے حوالے سے مختصراً شاعری کا ذکر کرتے چلیں۔ جعفر زٹلی اردو کا پہلا ظریف شاعر تھا ، انشا، مصحفی اور نظیر اکبر آبادی کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری بھی سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، مزاحیہ شاعری میں غالب کا نام نمایاں ہے فرماتے ہیں:
وفا کیسی کہاں کا عشق' جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگدل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
اگر نثر کے حوالے سے موجودہ دور کی بات کریں تو مشتاق احمد یوسفی کا ثانی مشکل سے ہی نظر آتا ہے اسی لیے مزاح کے اعتبار سے ان کے دور کو دورِ یوسفی کا نام دیا گیا۔ مزاح نگاروں میں شفیق الرحمن، ایس ایم معین قریشی، انور علوی کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، محمد اسلام بھی ان ہی کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اور سو لفظی کہانیوں کے موجد یا پہلے قلم کار ہونے کا سہرا بھی ان کے سر جاتا ہے اور یہ بات یقینا ان کے لیے اعزاز کی ہے۔ ویسے بھی مصنف نے نیکی اور شرافت ہی عمر بھر کمائی ہے۔ ان کی وجۂ شہرت میں یہ حقیقت بھی شامل ہے۔
''شرگوشیاں'' کی تقریباً تمام ہی کہانیاں پڑھیں، اختصار کی افادیت اور مطالعہ کے شوق نے کم سے کم وقت میں سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ مسکرانے کا موقعہ بھی فراہم کیا اور دلچسپ واقعات سے محظوظ ہونے کی وجہ سے دل پر چھائی اداسی پل بھر میں دور ہوگئی۔
تو پھر خواتین و حضرات! یوں کرتے ہیں ایک، دو کہانیاں آپ کے گوش گزار کردیں تاکہ ماحول خوشگوار اور مزاج میں شگفتگی اپنی جگہ بنا لے۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ تقریب کے شرکاء فطری طور پر فرحت اور شادابی محسوس کرتے ہیں کہ تقریب ہے محمد اسلام کی کتاب کی ان کی کتابیں خوش مزاجی کی طرف لے جاتی ہیں۔
''حور کے ساتھ لنگور'' یہ محاورہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔ اس کہانی کا عنوان ہے ''لنگور'' آپ کی سماعتوں کی نذر۔
اس کی پروفائل پکچر کی جگہ پھول کی تصویر تھی، میں نے اسے ریکوئسٹ بھیج دی، ہم دوست بن گئے، میں نے اسے دیکھنے کی خواہش کی، طے پایا کہ میں مخصوص لباس میں موٹرسائیکل پر اس کی گلی سے گزروں گا، مجھے موٹرسائیکل چلانی نہیں آتی تھی، میں ایک دوست کی موٹرسائیکل پر پیچھے بیٹھ گیا ہم اس کی گلی سے گزرے تو وہ دروازے پر کھڑی تھی، نہایت حسین لڑکی تھی، ایک گھنٹے بعد میں نے رابطہ کرکے پوچھا، کیسا لگا؟ وہ بولی شاندار، مگر موٹرسائیکل پر پیچھے وہ لنگورکون تھا؟
ایک کہانی اور۔۔۔۔۔ آپ کی سماعتوں کی نذر۔ نام ہے ''ویڈیو''۔
سلیم اللہ نے اپنے آفس سے اپنی بیوی کو فون کیا اور بتایا کہ میں ایمرجنسی میں بیرون ملک جا رہا ہوں، اس کی بیوی بولی اگر بنگلہ دیش جاؤ تو ساڑھی لے آنا، لندن جاؤ تو جیولری اور اگر تم فرانس جاؤ تو میرے لیے پرفیوم لے کر ضرور آنا۔ سلیم اللہ بیوی کی باتیں سن کر بھنا گیا اور سوال کیا کہ اگر جہنم میں جاؤں تو؟ جس پر اس کی بیوی مسکراتے ہوئے بولی، اپنی ویڈیو بھیج دینا تاکہ ہمیں بھی پتا چلے بیوی کو ستانے والے کہاں کس حال میں رہتے ہیں؟
اس کے علاوہ بھی بہت سی ہنستی مسکراتی کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی اور قاری کے دل و دماغ پر ایسا تاثر چھوڑیں گی جو خوشی اور مسکان کا باعث ہوگا۔
اس کے ساتھ اجازت چاہوں گی، سماع خراشی کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ (شکریہ)
(تقریبِ رونمائی کے موقع پر پڑھا گیا مضمون)
محمد اسلام ممتاز صحافی ہیں۔ اس کے ساتھ لکھنے، پڑھنے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے وہ مجلسی آدمی ہیں بہت بااخلاق اور مہذب آشنا ہیں جو ان سے ایک بار ملتا ہے وہ ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے، تعصب، نفرت اور اقربا پروری کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتے ہیں، عزت کرتے ہیں اور عزت کرواتے ہیں، اپنے اور بیگانوں میں ہر دلعزیز ہونے کا یہ بہترین اصول ہے۔
''شرگوشیاں'' کی خوبی یہ ہے کہ اس کتاب میں سو لفظی کہانیاں شامل ہیں ، ایک لفظ آگے نہ پیچھے، گن کر دیکھ سکتے ہیں اگر آپ کے پاس وقت ہے تو۔ کمال کی بات یہ ہے کہ یہ مکمل کہانیاں ہیں۔ سو لفظی کہانیاں پڑھنے کا لطف اس وقت دوبالا ہوتا ہے جب قاری پنچ لائن پر پہنچ کر ہنسنے اور قہقہہ لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
آج کا دور بڑا مصروفیت کا ہے کسی کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہے کہ دوست احباب کی خیریت بذریعہ فون معلوم کرلیں۔ اب تو ساری ضرورتیں سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک کے ذریعے پوری ہو جاتی ہیں، تو ان حالات میں مختصر کہانیاں بہت کم وقت میں پڑھ لی جاتی ہیں۔
مصنف نے معاشی تلخیاں، سماجی مسائل اور روز مرہ زندگی میں ہونے والے واقعات کو بڑے سلیقے اور فنی لوازمات کے ساتھ تخلیق کے پیکر میں ڈھالا ہے، قارئین و سامعین کو ان کا لکھا ہوا ایک لفظ بھی گراں نہیں گزرتا ہے اور باعث آزار تو ان کے لیے بھی نہیں ہوتا جن کی وجہ سے معاشرتی برائیاں اور ناانصافیاں پروان چڑھی ہیں۔
مصنف کی تحریر کا یہی کمال ہے مسکرا مسکرا کر اور تاک تاک کر نشانے لگاتے ہیں، گویا نشانہ بازی میں بھی ماہر ہیں۔سو لفظی کہانیوں کا یہ ان کا پہلا تجربہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل ''مزاح صغیرہ و کبیرہ'' میں اسی طرز کی تحریریں قلم بند کرچکے ہیں جس کی انھوں نے داد بھی وصول کی اور کتاب اور صاحب کتاب کے خوب چرچے ہوئے اور یہ چرچے یا شہرت دور دور تک پہنچی اور اس طویل سفر کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی بہترین کتابوں پر ایم فل کی ڈگری شاہد فرید نے بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان سے حاصل کی۔
مزاح کی مختلف صورتیں ہیں جن سے مصنف نے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے، واقعاتی مزاح، مزاحیہ کردار، لفظی مزاح، مزاح نگاری کے کامیاب ترین عمل میں تینوں صورتوں کی اہمیت مسلم ہے اس انداز میں رعایت لفظی سے بھی کام لیا جاتا ہے اکبر الٰہ آبادی کا یہ شعر بہترین مثال کے طور پر سامنے آیا ہے:
عاشقی کا ہوا برا اس نے بگاڑے سارے کام
ہم تو اے بی میں رہے، اغیار بی اے ہوگئے
بات شاعری کی آگئی تو مزاح کے حوالے سے مختصراً شاعری کا ذکر کرتے چلیں۔ جعفر زٹلی اردو کا پہلا ظریف شاعر تھا ، انشا، مصحفی اور نظیر اکبر آبادی کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری بھی سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، مزاحیہ شاعری میں غالب کا نام نمایاں ہے فرماتے ہیں:
وفا کیسی کہاں کا عشق' جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگدل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
اگر نثر کے حوالے سے موجودہ دور کی بات کریں تو مشتاق احمد یوسفی کا ثانی مشکل سے ہی نظر آتا ہے اسی لیے مزاح کے اعتبار سے ان کے دور کو دورِ یوسفی کا نام دیا گیا۔ مزاح نگاروں میں شفیق الرحمن، ایس ایم معین قریشی، انور علوی کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، محمد اسلام بھی ان ہی کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اور سو لفظی کہانیوں کے موجد یا پہلے قلم کار ہونے کا سہرا بھی ان کے سر جاتا ہے اور یہ بات یقینا ان کے لیے اعزاز کی ہے۔ ویسے بھی مصنف نے نیکی اور شرافت ہی عمر بھر کمائی ہے۔ ان کی وجۂ شہرت میں یہ حقیقت بھی شامل ہے۔
''شرگوشیاں'' کی تقریباً تمام ہی کہانیاں پڑھیں، اختصار کی افادیت اور مطالعہ کے شوق نے کم سے کم وقت میں سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ مسکرانے کا موقعہ بھی فراہم کیا اور دلچسپ واقعات سے محظوظ ہونے کی وجہ سے دل پر چھائی اداسی پل بھر میں دور ہوگئی۔
تو پھر خواتین و حضرات! یوں کرتے ہیں ایک، دو کہانیاں آپ کے گوش گزار کردیں تاکہ ماحول خوشگوار اور مزاج میں شگفتگی اپنی جگہ بنا لے۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ تقریب کے شرکاء فطری طور پر فرحت اور شادابی محسوس کرتے ہیں کہ تقریب ہے محمد اسلام کی کتاب کی ان کی کتابیں خوش مزاجی کی طرف لے جاتی ہیں۔
''حور کے ساتھ لنگور'' یہ محاورہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔ اس کہانی کا عنوان ہے ''لنگور'' آپ کی سماعتوں کی نذر۔
اس کی پروفائل پکچر کی جگہ پھول کی تصویر تھی، میں نے اسے ریکوئسٹ بھیج دی، ہم دوست بن گئے، میں نے اسے دیکھنے کی خواہش کی، طے پایا کہ میں مخصوص لباس میں موٹرسائیکل پر اس کی گلی سے گزروں گا، مجھے موٹرسائیکل چلانی نہیں آتی تھی، میں ایک دوست کی موٹرسائیکل پر پیچھے بیٹھ گیا ہم اس کی گلی سے گزرے تو وہ دروازے پر کھڑی تھی، نہایت حسین لڑکی تھی، ایک گھنٹے بعد میں نے رابطہ کرکے پوچھا، کیسا لگا؟ وہ بولی شاندار، مگر موٹرسائیکل پر پیچھے وہ لنگورکون تھا؟
ایک کہانی اور۔۔۔۔۔ آپ کی سماعتوں کی نذر۔ نام ہے ''ویڈیو''۔
سلیم اللہ نے اپنے آفس سے اپنی بیوی کو فون کیا اور بتایا کہ میں ایمرجنسی میں بیرون ملک جا رہا ہوں، اس کی بیوی بولی اگر بنگلہ دیش جاؤ تو ساڑھی لے آنا، لندن جاؤ تو جیولری اور اگر تم فرانس جاؤ تو میرے لیے پرفیوم لے کر ضرور آنا۔ سلیم اللہ بیوی کی باتیں سن کر بھنا گیا اور سوال کیا کہ اگر جہنم میں جاؤں تو؟ جس پر اس کی بیوی مسکراتے ہوئے بولی، اپنی ویڈیو بھیج دینا تاکہ ہمیں بھی پتا چلے بیوی کو ستانے والے کہاں کس حال میں رہتے ہیں؟
اس کے علاوہ بھی بہت سی ہنستی مسکراتی کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی اور قاری کے دل و دماغ پر ایسا تاثر چھوڑیں گی جو خوشی اور مسکان کا باعث ہوگا۔
اس کے ساتھ اجازت چاہوں گی، سماع خراشی کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ (شکریہ)
(تقریبِ رونمائی کے موقع پر پڑھا گیا مضمون)