قوموں کی ایک غلطی بھی قابل معافی نہیں ہوتی
صرف ایک غلطی کروڑوں انسانوں کی بدقسمتی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
BERLIN:
اوڈلف ہٹلر نے اٹھارہ دسمبر1940 کو حکم نامہ نمبر21جاری کیا۔ تاریخ کے مشکل ترین کردار کی یہ نتیجہ خیز غلطی تھی۔
روس' جو بنیادی طور پر ایک معاہدے کے تحت جرمنی کا حلیف تھا' اس پر یلغار اور فتح کرنے کا حکم۔ اس آپریشن کو ''آپریشن باربروسا'' کا نام دیا گیا۔ وجہ تسمیہ رومن سلطنت کے ایک کامیاب فاتح ''فریڈرک اول '' تھی۔ ہٹلر اور اس کے ساتھیوں نے' اس منصوبہ پر حد درجہ محنت کی۔ گمان تھا کہ روس اس قدر کمزور ہے کہ زیادہ سے زیادہ دس ہفتے کی جنگ برداشت کر سکتا ہے۔
نازی قیادت کو روس کے بے پناہ معدنی ذخائر پر قبضہ کرنے کا جنون تھا۔ اور پھر اس زمینی دولت کے حصول کے بعد دنیا ان کی ٹھوکروں میں ہونی تھی۔ ہٹلر کے حکم پر بائیس جون 1941 کو عمل شروع کیا گیا۔ حملے میں جرمن فوج کی تعداد پینتس لاکھ تھی۔یہ تعداد آج بھی پاکستان' ہندوستان' بنگلہ دیش' ملیشیا اور دیگر ایشیائی ممالک کی فوج کو ملا کر بھی زیادہ بنتی ہے۔ ایک سو اڑتالیس ڈویژن افواج کے پاس تین ہزار چار سو ٹینک تھے۔اٹھائیس سو جنگی ہوائی جہاز' فوج کی معاونت کے لیے موجود تھے۔
حد درجہ مضبو ط فوج کے تین حصے کیے گئے اور ہر حصہ کی قیادت فیلڈ مارشل کی سطح کا کہنہ مشق جنرل کر رہا تھا۔ فیلڈ مارشل ولہیلم رٹر (Vilhelm Ritter) ' فیلڈ مارشل فیڈر وون بوک (Feder von Bock)اور فیلڈ مارشل جرڈ دون رنٹرٹیٹ (Gerd von Rundstet) ' اس میں شامل تھے۔ ہٹلر کو یقین تھا کہ اتنی بڑی عسکری طاقت کے سامنے کوئی ملک کھڑا نہیں ہو سکتا۔ ابتدائی طور پر نازی قیادت کا اندازہ بالکل درست نکلا۔ جرمن افواج لینن گراڈ کے نزدیک پہنچ گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ماسکو کے بھی بالکل سامنے آ گئے۔
جرمن فوج کی ایک یونٹ تو ماسکو سے صرف پانچ میل کے دائرے میں موجود تھی ۔ روسی افواج کو ابتدائی طور پر ہولناک نقصان ہوا۔ بیلی اسٹاک اورا سمالنک کی جنگوں میں چھ لاکھ بیس ہزار روسی فوجی گرفتار ہوئے۔ اس طرح یوکرین کے نزدیک ایک معرکہ میں ایک لاکھ روسی فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس قدر بھاری نقصان کے باوجود روسی فوج نے ہار نہ مانی اور لڑتے رہے ۔ مگر پھر دو قدرتی آفات ایسی رونما ہوئیں جس سے جنگ کا پانسا پلٹ گیا۔ بظاہر خیال تھا کہ جرمنی' بہتر موسم میں ہی پورے روس پر قبضہ کر لے گا۔ موسم خزاں کے آغاز میں روس میں قیامت خیز بارشیں ہوتی ہیں۔
اسے روسی زبان میں Rasputitsa کہا جاتا ہے۔ ان بارشوں نے دنیا کی سب سے مہلک فوج کی پیش قدمی مکمل طور پر روک دی ۔ میدانی علاقے دلدل بن گئے۔ سڑکوں پر اتنا کیچڑ جمع ہو گیا کہ مال برداری کے چھکڑے رک گئے۔ گیلی مٹی کی بدولت ٹینک زمین میں دھنسنے شروع ہو گئے ۔اس کے علاوہ فوج کی سپلائی لائن میں بھی تعطل آگیا۔
دوسرا عفریت روس کی وہ قیامت خیز برف باری اور ٹھنڈ تھی جس نے پوری جرمن فوج کو عضو معطل بنا دیا۔ ٹرکوں' ٹینکوں' گاڑیوں میں تیل منجمد ہو گیا۔ جرمن فوج کے پاس اتنی قیامت خیز سردی کو برداشت کرنے کے لیے مناسب کپڑے تک نہیں تھے۔ جرمن سپاہی سردی میں ٹھٹھرتے رہتے تھے اور ان کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں تھا۔ ''آپریشن باربروسا'' بھرپور طریقے سے ناکام ہوا۔ جرمن افواج کے چیتھڑے اڑا دیے گئے۔ روس مفتوح ہونے سے بچ گیا۔
اور جرمنی کو حد درجہ شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا، مگر ٹھہریے۔ جرمن فوج تو پینتیس لاکھ تھی۔ اس کا مقابلہ تو تھا ہی نہیں۔ پھر کیا ہوا ۔ صرف یہ کہ ہٹلر اور اس کے ذہین ترین جرنیل بارش اور سردی کو بھو ل گئے۔ یہ ان کی سب سے بڑی اور فاش غلطی تھی۔ جنگ دوم میں جو کچھ بعد میں ہوا' وہ سب کو معلوم ہے۔ مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایک غلط فیصلے نے جرمنی کو کتنی زیادہ ذلت سے دو چار کر ڈالا۔
یہاں صرف ایک نکتہ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ کسی بھی ملک کی قیادت کا صرف ایک غیر معقول فیصلہ اس کو فنا کے راستے سے دو چار کر دیتا ہے۔ صرف ایک غلطی کروڑوں انسانوں کی بدقسمتی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ خطے بانجھ ہو جاتے ہیں۔ اور پھر وہ ملک یا قومیں صرف اور صرف وقت کے دھارے کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں۔ طاقتور دشمن' ایک مہیب غلطی کا حد درجہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ قوموں کی قسمت اور جغرافیہ دونوں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ بہت زیادہ خوش قسمت قومیں وہ ہوتی ہیں جنھیں اپنی بھیانک غلطی کو درست کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
یاد رکھیے کہ ملکوں کی زندگی میں قیامت خیز غلطی صرف ایک ہوتی ہے۔ خدانخواستہ اگر یہ ایک سے زیادہ ہوں' تو پھر تباہی سر پر آکر فوراً ناچنا شروع کر دیتی ہے۔ آپ کے ذہن میں سوال ہو گا کہ طالب علم' اپنے ملک کے حوالے سے کس غلطی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
ہماری غلطی دراصل یہ ہے کہ 1947ء سے لے کر آج تک ہمارے چند طاقت ور حلقوں نے سیاسی قیادت کو پنپنے کا موقع ہی فراہم نہیں کیا۔قیامت یہ برپا ہوئی کہ جنرل ایوب نے سیاسی لوگوں کو اس درجہ بدنام کیا کہ حقیقت میں سیاست ایک دشنام بن کر رہ گئی ۔ وہ چند سیاست دان جو مکمل طور پر ایماندار تھے' انھیں بھی جھوٹے' ادنیٰ اور گھٹیا الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر یہاں ایک نکتہ حد درجہ غور طلب ہے۔ ایوب خان کو کس نے موقع فراہم کیا کہ وہ سویلین حکمرانوں کی کمزوریوں کو بذات خود دیکھ سکے۔
یہ تباہ کن موقع غلام محمد اور اسکندر مرزا نے فراہم کیا تھا۔ کس نے فوجی کمانڈر کو وزیر دفاع بنا کر کابینہ میں وزراء کی بچوں جیسی بحث سننے اور دیکھنے کا موقع فراہم کیا۔ سچ صرف یہ ہے کہ ابتدائی دور میں ہمارے سویلین حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی نے طاقت ور حلقوں پر اپنی کمزوریاں کھول کر سامنے رکھ دیں۔ لازمی بات ہے کہ جو فریق بھی مضبوط ہو گا' وہ کمزور فریق کو دبائے گا۔ جس پرانی بیورو کریسی کو آج چند لوگ مثالی بیان فرماتے ہیں۔ اقتدار کے کھیل میں انھوںنے بھی بطور فریق بھرپور غلطیاں کیں۔ بساط پر دینی حلقوں کو بھی بٹھایا گیا۔
مجموعی طور پر المیہ یہ رونما ہوا کہ ٹھوس قومی سیاسی سوچ کو پختہ ہونے کا موقع نہیں دیا گیا۔ جدید فکر کے بغیر ملک تو گڑتے پڑتے چلتا رہا۔ مگرپھر پٹڑی سے ایسا اترا ' کہ آج تک واپس نہیں چڑھ سکا۔ ہمارے چند چیدہ سیاست دانوں نے بھی سانپ اور سیڑھی کے اس کھیل میں ہر طاقت ور فریق کا ساتھ دیا۔ اس کی بھرپور قیمت بھی وصول کی اور اس طرح پورے ملک کو ذہنی طور پر بنجر کر دیا گیا۔
ایک حادثے سے نکل کر دوسرے حادثے کا شکار ہوتا ہوا ملک آج جس مقام پر پہنچ چکا ہے۔ وہ ہر طور پر جائے عبرت ہے۔ اپنے ماحول' سماج پر نظر ڈالیے۔ شدت پسندی ' دھوکا دہی' فراڈ' جھوٹ' ناانصافی اور دوغلہ پن آج ہماری قومی سرشت میں شامل ہو چکے ہیں۔ کوئی بھی سچ بولنے اور سننے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ ایک بھی قومی ادارہ اپنے فرائض پورے کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ بین الاقوامی سطح پر ہم اس وقت حد درجہ ضعف کا شکار ہیں۔ دنیا کے مہذب ملک ہمارے رویوں سے خوف زدہ ہیں۔ ہمیں دہشت گردی کامنبع سمجھا جاتا ہے۔ اور صاحبان زیست اس گڑھے سے نکالنے کے لیے ہمارے پاس کوئی سنجیدہ قیادت موجود نہیں ہے۔ یہ اس غلطی کا نتیجہ ہے جو ہمارے بڑوں نے چھ سات دہائیاں پہلے کی تھی اور آج بھی مسلسل جاری ہے۔
اب اس تباہ کن راستے سے واپسی کا کوئی امکان نہیں۔ جس قافلے میں موجود ہیں' اس میں تو اب احساس بھی نہیں ہے کہ دلدل میں آنکھوں تک دھنس چکے ہیں۔ دور دور تک کوئی ایسا زیرک لیڈر نہیں جو ہمیں واپس اعتدال کے راستے پر ڈال سکے۔ نتیجہ تو قانون قدرت کے حساب سے ہو گا۔ اٹل فیصلہ۔ اگر قدرت' ہٹلر کی ایک غلطی کو معاف نہیں کر سکی' تو آپ کا گمان ہے کہ ہمیں معافی مل جائے گی؟
اوڈلف ہٹلر نے اٹھارہ دسمبر1940 کو حکم نامہ نمبر21جاری کیا۔ تاریخ کے مشکل ترین کردار کی یہ نتیجہ خیز غلطی تھی۔
روس' جو بنیادی طور پر ایک معاہدے کے تحت جرمنی کا حلیف تھا' اس پر یلغار اور فتح کرنے کا حکم۔ اس آپریشن کو ''آپریشن باربروسا'' کا نام دیا گیا۔ وجہ تسمیہ رومن سلطنت کے ایک کامیاب فاتح ''فریڈرک اول '' تھی۔ ہٹلر اور اس کے ساتھیوں نے' اس منصوبہ پر حد درجہ محنت کی۔ گمان تھا کہ روس اس قدر کمزور ہے کہ زیادہ سے زیادہ دس ہفتے کی جنگ برداشت کر سکتا ہے۔
نازی قیادت کو روس کے بے پناہ معدنی ذخائر پر قبضہ کرنے کا جنون تھا۔ اور پھر اس زمینی دولت کے حصول کے بعد دنیا ان کی ٹھوکروں میں ہونی تھی۔ ہٹلر کے حکم پر بائیس جون 1941 کو عمل شروع کیا گیا۔ حملے میں جرمن فوج کی تعداد پینتس لاکھ تھی۔یہ تعداد آج بھی پاکستان' ہندوستان' بنگلہ دیش' ملیشیا اور دیگر ایشیائی ممالک کی فوج کو ملا کر بھی زیادہ بنتی ہے۔ ایک سو اڑتالیس ڈویژن افواج کے پاس تین ہزار چار سو ٹینک تھے۔اٹھائیس سو جنگی ہوائی جہاز' فوج کی معاونت کے لیے موجود تھے۔
حد درجہ مضبو ط فوج کے تین حصے کیے گئے اور ہر حصہ کی قیادت فیلڈ مارشل کی سطح کا کہنہ مشق جنرل کر رہا تھا۔ فیلڈ مارشل ولہیلم رٹر (Vilhelm Ritter) ' فیلڈ مارشل فیڈر وون بوک (Feder von Bock)اور فیلڈ مارشل جرڈ دون رنٹرٹیٹ (Gerd von Rundstet) ' اس میں شامل تھے۔ ہٹلر کو یقین تھا کہ اتنی بڑی عسکری طاقت کے سامنے کوئی ملک کھڑا نہیں ہو سکتا۔ ابتدائی طور پر نازی قیادت کا اندازہ بالکل درست نکلا۔ جرمن افواج لینن گراڈ کے نزدیک پہنچ گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ماسکو کے بھی بالکل سامنے آ گئے۔
جرمن فوج کی ایک یونٹ تو ماسکو سے صرف پانچ میل کے دائرے میں موجود تھی ۔ روسی افواج کو ابتدائی طور پر ہولناک نقصان ہوا۔ بیلی اسٹاک اورا سمالنک کی جنگوں میں چھ لاکھ بیس ہزار روسی فوجی گرفتار ہوئے۔ اس طرح یوکرین کے نزدیک ایک معرکہ میں ایک لاکھ روسی فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس قدر بھاری نقصان کے باوجود روسی فوج نے ہار نہ مانی اور لڑتے رہے ۔ مگر پھر دو قدرتی آفات ایسی رونما ہوئیں جس سے جنگ کا پانسا پلٹ گیا۔ بظاہر خیال تھا کہ جرمنی' بہتر موسم میں ہی پورے روس پر قبضہ کر لے گا۔ موسم خزاں کے آغاز میں روس میں قیامت خیز بارشیں ہوتی ہیں۔
اسے روسی زبان میں Rasputitsa کہا جاتا ہے۔ ان بارشوں نے دنیا کی سب سے مہلک فوج کی پیش قدمی مکمل طور پر روک دی ۔ میدانی علاقے دلدل بن گئے۔ سڑکوں پر اتنا کیچڑ جمع ہو گیا کہ مال برداری کے چھکڑے رک گئے۔ گیلی مٹی کی بدولت ٹینک زمین میں دھنسنے شروع ہو گئے ۔اس کے علاوہ فوج کی سپلائی لائن میں بھی تعطل آگیا۔
دوسرا عفریت روس کی وہ قیامت خیز برف باری اور ٹھنڈ تھی جس نے پوری جرمن فوج کو عضو معطل بنا دیا۔ ٹرکوں' ٹینکوں' گاڑیوں میں تیل منجمد ہو گیا۔ جرمن فوج کے پاس اتنی قیامت خیز سردی کو برداشت کرنے کے لیے مناسب کپڑے تک نہیں تھے۔ جرمن سپاہی سردی میں ٹھٹھرتے رہتے تھے اور ان کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں تھا۔ ''آپریشن باربروسا'' بھرپور طریقے سے ناکام ہوا۔ جرمن افواج کے چیتھڑے اڑا دیے گئے۔ روس مفتوح ہونے سے بچ گیا۔
اور جرمنی کو حد درجہ شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا، مگر ٹھہریے۔ جرمن فوج تو پینتیس لاکھ تھی۔ اس کا مقابلہ تو تھا ہی نہیں۔ پھر کیا ہوا ۔ صرف یہ کہ ہٹلر اور اس کے ذہین ترین جرنیل بارش اور سردی کو بھو ل گئے۔ یہ ان کی سب سے بڑی اور فاش غلطی تھی۔ جنگ دوم میں جو کچھ بعد میں ہوا' وہ سب کو معلوم ہے۔ مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایک غلط فیصلے نے جرمنی کو کتنی زیادہ ذلت سے دو چار کر ڈالا۔
یہاں صرف ایک نکتہ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ کسی بھی ملک کی قیادت کا صرف ایک غیر معقول فیصلہ اس کو فنا کے راستے سے دو چار کر دیتا ہے۔ صرف ایک غلطی کروڑوں انسانوں کی بدقسمتی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ خطے بانجھ ہو جاتے ہیں۔ اور پھر وہ ملک یا قومیں صرف اور صرف وقت کے دھارے کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں۔ طاقتور دشمن' ایک مہیب غلطی کا حد درجہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ قوموں کی قسمت اور جغرافیہ دونوں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ بہت زیادہ خوش قسمت قومیں وہ ہوتی ہیں جنھیں اپنی بھیانک غلطی کو درست کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
یاد رکھیے کہ ملکوں کی زندگی میں قیامت خیز غلطی صرف ایک ہوتی ہے۔ خدانخواستہ اگر یہ ایک سے زیادہ ہوں' تو پھر تباہی سر پر آکر فوراً ناچنا شروع کر دیتی ہے۔ آپ کے ذہن میں سوال ہو گا کہ طالب علم' اپنے ملک کے حوالے سے کس غلطی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
ہماری غلطی دراصل یہ ہے کہ 1947ء سے لے کر آج تک ہمارے چند طاقت ور حلقوں نے سیاسی قیادت کو پنپنے کا موقع ہی فراہم نہیں کیا۔قیامت یہ برپا ہوئی کہ جنرل ایوب نے سیاسی لوگوں کو اس درجہ بدنام کیا کہ حقیقت میں سیاست ایک دشنام بن کر رہ گئی ۔ وہ چند سیاست دان جو مکمل طور پر ایماندار تھے' انھیں بھی جھوٹے' ادنیٰ اور گھٹیا الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر یہاں ایک نکتہ حد درجہ غور طلب ہے۔ ایوب خان کو کس نے موقع فراہم کیا کہ وہ سویلین حکمرانوں کی کمزوریوں کو بذات خود دیکھ سکے۔
یہ تباہ کن موقع غلام محمد اور اسکندر مرزا نے فراہم کیا تھا۔ کس نے فوجی کمانڈر کو وزیر دفاع بنا کر کابینہ میں وزراء کی بچوں جیسی بحث سننے اور دیکھنے کا موقع فراہم کیا۔ سچ صرف یہ ہے کہ ابتدائی دور میں ہمارے سویلین حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی نے طاقت ور حلقوں پر اپنی کمزوریاں کھول کر سامنے رکھ دیں۔ لازمی بات ہے کہ جو فریق بھی مضبوط ہو گا' وہ کمزور فریق کو دبائے گا۔ جس پرانی بیورو کریسی کو آج چند لوگ مثالی بیان فرماتے ہیں۔ اقتدار کے کھیل میں انھوںنے بھی بطور فریق بھرپور غلطیاں کیں۔ بساط پر دینی حلقوں کو بھی بٹھایا گیا۔
مجموعی طور پر المیہ یہ رونما ہوا کہ ٹھوس قومی سیاسی سوچ کو پختہ ہونے کا موقع نہیں دیا گیا۔ جدید فکر کے بغیر ملک تو گڑتے پڑتے چلتا رہا۔ مگرپھر پٹڑی سے ایسا اترا ' کہ آج تک واپس نہیں چڑھ سکا۔ ہمارے چند چیدہ سیاست دانوں نے بھی سانپ اور سیڑھی کے اس کھیل میں ہر طاقت ور فریق کا ساتھ دیا۔ اس کی بھرپور قیمت بھی وصول کی اور اس طرح پورے ملک کو ذہنی طور پر بنجر کر دیا گیا۔
ایک حادثے سے نکل کر دوسرے حادثے کا شکار ہوتا ہوا ملک آج جس مقام پر پہنچ چکا ہے۔ وہ ہر طور پر جائے عبرت ہے۔ اپنے ماحول' سماج پر نظر ڈالیے۔ شدت پسندی ' دھوکا دہی' فراڈ' جھوٹ' ناانصافی اور دوغلہ پن آج ہماری قومی سرشت میں شامل ہو چکے ہیں۔ کوئی بھی سچ بولنے اور سننے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ ایک بھی قومی ادارہ اپنے فرائض پورے کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ بین الاقوامی سطح پر ہم اس وقت حد درجہ ضعف کا شکار ہیں۔ دنیا کے مہذب ملک ہمارے رویوں سے خوف زدہ ہیں۔ ہمیں دہشت گردی کامنبع سمجھا جاتا ہے۔ اور صاحبان زیست اس گڑھے سے نکالنے کے لیے ہمارے پاس کوئی سنجیدہ قیادت موجود نہیں ہے۔ یہ اس غلطی کا نتیجہ ہے جو ہمارے بڑوں نے چھ سات دہائیاں پہلے کی تھی اور آج بھی مسلسل جاری ہے۔
اب اس تباہ کن راستے سے واپسی کا کوئی امکان نہیں۔ جس قافلے میں موجود ہیں' اس میں تو اب احساس بھی نہیں ہے کہ دلدل میں آنکھوں تک دھنس چکے ہیں۔ دور دور تک کوئی ایسا زیرک لیڈر نہیں جو ہمیں واپس اعتدال کے راستے پر ڈال سکے۔ نتیجہ تو قانون قدرت کے حساب سے ہو گا۔ اٹل فیصلہ۔ اگر قدرت' ہٹلر کی ایک غلطی کو معاف نہیں کر سکی' تو آپ کا گمان ہے کہ ہمیں معافی مل جائے گی؟