تبدیلی کےلیے خود کو تبدیل کرنا ہوگا
معاشرے میں تبدیلی صرف حکومتوں سے نہیں آتی، بلکہ تبدیلی کےلیے خود آگے آنا پڑتا ہے
اسلام آباد سے دو گھنٹے کی مسافت پر واقع پاکستان کے تاریخی شہر تحصیل بھیرہ کے دور افتادہ گاؤں سردار پور نون سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی پہلی پٹوار خاتون حافظہ مریم تبدیلی کی بہترین مثال ہیں۔
مریم نے دس سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد بیوہ ماں کو جائیداد کے حقوق حاصل کرنے کےلیے محکمہ مال، عدالتوں اور کچہری کے چکر لگاتے دیکھ کر اپنی ذات کی حد تک نظام کو بدلنے کا فیصلہ کیا اور یونیورسٹی آف سرگودھا سے ایجوکیشن میں ماسٹرز کرنے کے بعد شعبہ تعلیم کے بجائے محکمہ مال کا انتخاب کیا تاکہ خواتین اپنی بات مرد کے بجائے خاتون سے کرسکیں اور انہیں ان کی والدہ جیسے حالات پیش نہ آئیں۔ اور آج مریم پاکستان کی پہلی پٹوار خاتون کے طور پر تحصیل آفس بھیرہ میں آنے والی خواتین کےلیے ان حالات کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہیں جن کا سامنا ان کی بیوہ ماں کو کرنا پڑا۔
مریم ان تمام پاکستانیوں کےلیے ایک بہترین مثال ہیں جو تبدیلی کے خواہشمند ہیں، جو اس بدبودار نظام کو بدلنا چاہتے ہیں، جو اسلامی جمہوریہ پاکستان سے رشوت، چور بازاری، ناانصافی، ظلم کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ الغرض جو پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ بھی یہ سب چاہتے ہیں تو آپ کو حافظہ مریم کی طرح خود کو وقف کرنا ہوگا۔ کیونکہ تبدیلی حکومتوں سے نہیں آتی، تبدیلی کےلیے خود آگے آنا پڑتا ہے۔ ریاست مدینہ کےلیے اپنی ذات کو مدنی بنانا پڑتا ہے۔
اگر ہم سب عمران خان سے توقعات چھوڑ کر حافظہ مریم کی طرح اپنی ذات کو تبدیلی کےلیے وقف کردیں۔ مثال کے طور پر اگر وکیل ہیں تو یہ عہد کرلیں کہ ہم ججوں کو تھپڑ، کرسیاں، عدالتوں کی تالہ بندی، ہڑتالوں کے ذریعے دباؤ میں نہیں لائیں گے، غیر ضروری طور پر کیس نہیں لٹکائیں گے، تو آپ یقین کیجئے 18 لاکھ سے زائد زیر التوا کیسز 18 ماہ میں ختم ہوجائیں گے۔ ہم تاجر ہیں تو قرآن پاک کے احکامات کے مطابق نہ صرف تجارت کریں گے بلکہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ (مفہوم) ''اللہ کی اطاعت کرو، رسولؐ کی اطاعت کرو اور جو تم میں حاکم ہے اس کی اطاعت کرو'' پر عمل کرتے ہوئے حکومت وقت کے احکامات پر عمل شروع کردیں۔ ہڑتالوں کے ذریعے حکومت کو دباؤ میں نہ لائیں۔ ملاوٹ، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی اور دیگر خرافات سے باز آجائیں تو عوام کو مدینے کی طرز کی تجارت میسر آجائے گی۔ اور حیرت انگیز طور پر اسپتالوں کی حالت زار بھی ٹھیک ہوجائے گی، میڈیکل اسٹورز پر رش کم ہوجائے گا، کیونکہ لوگوں کو خالص اشیا میسر ہوں گی تو بیماریاں خودبخود کم ہوجائیں گی، اگر صرف تاجروں کا طبقہ مدنی بن جائے اور اپنی ذات کی حد تک معاشرے کو ٹھیک کرنے کا فیصلہ کرلے۔
اسی طرح ہم جہاں ہیں اور جس شعبے میں ہیں وہاں پر اپنی ذات کو استعمال کرتے ہوئے تبدیلی لے آئیں۔ اور اگر ہم کہیں پر نہیں ہیں، تو بھی ہم اسکردو کے اس استاد کی طرح تبدیلی لاسکتے ہیں جنہوں نے اپنے جیسے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ''زیرو پرافٹ سبزی شاپ'' کا آغاز کیا۔ ان استاد کا کہنا تھا کہ گزشتہ عید پر جب بازار میں ٹماٹر 70 روپے تھا ہم نے 7 روپے کلو کے حساب سے 400 کلو سے زائد ٹماٹر فروخت کیا، (اس سے آپ اندازہ کرلیں کہ منافع خوری کا کیا عالم ہے)۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تاجر حضرات سوچ رہے تھے کہ آج کا دن ہی کمانے کا ہے، ہماری سوچ تھی کہ آج کا دن ہی خدمت کرنے کا ہے۔
ہم بھی اسی طرح انتظار کرنے کے بجائے ہر جگہ، ہر شعبے میں تبدیلی کےلیے کوشش کرسکتے ہیں۔ کیونکہ ہر شعبہ میں اہل وطن نے برا حال کیا ہوا ہے۔ بقول ایک معروف عالم دین اس ملک میں بے ایمانی اس قدر رچ بس گئی ہے کہ ایک ریڑھی بان یہ کہتے ہوئے رو پڑا کہ میں نے آم کی ایک پیٹی خریدی تھی، اس میں اوپر کے حصے میں اچھے آم تھے اور نیچے خراب آم تھے۔ بتائیے میرا نقصان کون پورا کرے گا؟
آئیے پاکستان سے محبت کی خاطر آج سے عہد کریں ہم بھی حافظہ مریم، اسکردو کے استاد اور دیگر خدمات کرنے والے پاکستانیوں کی طرح خود کو پاکستان کےلیے وقف کریں، تاکہ وطن عزیز میں ہر شعبے میں تبدیلی آسکے اور ہم دنیا کے نقشے پر ایک ترقی یافتہ قوم بن کر ابھر سکیں۔ بصورت دیگر حکومت کوئی بھی ہو، کشکول ہاتھ میں ہوگا۔ حکومت کے مخالفین تبدیلی نہ لانے کے طعنے دیتے ہوئے نظام کو مزید بدبودار بناتے رہیں گے اور حکومت کے حامی یہ کہہ کر خود کو تسلی دیتے رہیں گے کہ اکیلا بندہ کیا کرسکتا ہے، ستر سال، 80 سال یا پھر ایک صدی کا گند ہے، اس کی صفائی کےلیے وقت تو چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مریم نے دس سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد بیوہ ماں کو جائیداد کے حقوق حاصل کرنے کےلیے محکمہ مال، عدالتوں اور کچہری کے چکر لگاتے دیکھ کر اپنی ذات کی حد تک نظام کو بدلنے کا فیصلہ کیا اور یونیورسٹی آف سرگودھا سے ایجوکیشن میں ماسٹرز کرنے کے بعد شعبہ تعلیم کے بجائے محکمہ مال کا انتخاب کیا تاکہ خواتین اپنی بات مرد کے بجائے خاتون سے کرسکیں اور انہیں ان کی والدہ جیسے حالات پیش نہ آئیں۔ اور آج مریم پاکستان کی پہلی پٹوار خاتون کے طور پر تحصیل آفس بھیرہ میں آنے والی خواتین کےلیے ان حالات کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہیں جن کا سامنا ان کی بیوہ ماں کو کرنا پڑا۔
مریم ان تمام پاکستانیوں کےلیے ایک بہترین مثال ہیں جو تبدیلی کے خواہشمند ہیں، جو اس بدبودار نظام کو بدلنا چاہتے ہیں، جو اسلامی جمہوریہ پاکستان سے رشوت، چور بازاری، ناانصافی، ظلم کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ الغرض جو پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ بھی یہ سب چاہتے ہیں تو آپ کو حافظہ مریم کی طرح خود کو وقف کرنا ہوگا۔ کیونکہ تبدیلی حکومتوں سے نہیں آتی، تبدیلی کےلیے خود آگے آنا پڑتا ہے۔ ریاست مدینہ کےلیے اپنی ذات کو مدنی بنانا پڑتا ہے۔
اگر ہم سب عمران خان سے توقعات چھوڑ کر حافظہ مریم کی طرح اپنی ذات کو تبدیلی کےلیے وقف کردیں۔ مثال کے طور پر اگر وکیل ہیں تو یہ عہد کرلیں کہ ہم ججوں کو تھپڑ، کرسیاں، عدالتوں کی تالہ بندی، ہڑتالوں کے ذریعے دباؤ میں نہیں لائیں گے، غیر ضروری طور پر کیس نہیں لٹکائیں گے، تو آپ یقین کیجئے 18 لاکھ سے زائد زیر التوا کیسز 18 ماہ میں ختم ہوجائیں گے۔ ہم تاجر ہیں تو قرآن پاک کے احکامات کے مطابق نہ صرف تجارت کریں گے بلکہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ (مفہوم) ''اللہ کی اطاعت کرو، رسولؐ کی اطاعت کرو اور جو تم میں حاکم ہے اس کی اطاعت کرو'' پر عمل کرتے ہوئے حکومت وقت کے احکامات پر عمل شروع کردیں۔ ہڑتالوں کے ذریعے حکومت کو دباؤ میں نہ لائیں۔ ملاوٹ، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی اور دیگر خرافات سے باز آجائیں تو عوام کو مدینے کی طرز کی تجارت میسر آجائے گی۔ اور حیرت انگیز طور پر اسپتالوں کی حالت زار بھی ٹھیک ہوجائے گی، میڈیکل اسٹورز پر رش کم ہوجائے گا، کیونکہ لوگوں کو خالص اشیا میسر ہوں گی تو بیماریاں خودبخود کم ہوجائیں گی، اگر صرف تاجروں کا طبقہ مدنی بن جائے اور اپنی ذات کی حد تک معاشرے کو ٹھیک کرنے کا فیصلہ کرلے۔
اسی طرح ہم جہاں ہیں اور جس شعبے میں ہیں وہاں پر اپنی ذات کو استعمال کرتے ہوئے تبدیلی لے آئیں۔ اور اگر ہم کہیں پر نہیں ہیں، تو بھی ہم اسکردو کے اس استاد کی طرح تبدیلی لاسکتے ہیں جنہوں نے اپنے جیسے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ''زیرو پرافٹ سبزی شاپ'' کا آغاز کیا۔ ان استاد کا کہنا تھا کہ گزشتہ عید پر جب بازار میں ٹماٹر 70 روپے تھا ہم نے 7 روپے کلو کے حساب سے 400 کلو سے زائد ٹماٹر فروخت کیا، (اس سے آپ اندازہ کرلیں کہ منافع خوری کا کیا عالم ہے)۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تاجر حضرات سوچ رہے تھے کہ آج کا دن ہی کمانے کا ہے، ہماری سوچ تھی کہ آج کا دن ہی خدمت کرنے کا ہے۔
ہم بھی اسی طرح انتظار کرنے کے بجائے ہر جگہ، ہر شعبے میں تبدیلی کےلیے کوشش کرسکتے ہیں۔ کیونکہ ہر شعبہ میں اہل وطن نے برا حال کیا ہوا ہے۔ بقول ایک معروف عالم دین اس ملک میں بے ایمانی اس قدر رچ بس گئی ہے کہ ایک ریڑھی بان یہ کہتے ہوئے رو پڑا کہ میں نے آم کی ایک پیٹی خریدی تھی، اس میں اوپر کے حصے میں اچھے آم تھے اور نیچے خراب آم تھے۔ بتائیے میرا نقصان کون پورا کرے گا؟
آئیے پاکستان سے محبت کی خاطر آج سے عہد کریں ہم بھی حافظہ مریم، اسکردو کے استاد اور دیگر خدمات کرنے والے پاکستانیوں کی طرح خود کو پاکستان کےلیے وقف کریں، تاکہ وطن عزیز میں ہر شعبے میں تبدیلی آسکے اور ہم دنیا کے نقشے پر ایک ترقی یافتہ قوم بن کر ابھر سکیں۔ بصورت دیگر حکومت کوئی بھی ہو، کشکول ہاتھ میں ہوگا۔ حکومت کے مخالفین تبدیلی نہ لانے کے طعنے دیتے ہوئے نظام کو مزید بدبودار بناتے رہیں گے اور حکومت کے حامی یہ کہہ کر خود کو تسلی دیتے رہیں گے کہ اکیلا بندہ کیا کرسکتا ہے، ستر سال، 80 سال یا پھر ایک صدی کا گند ہے، اس کی صفائی کےلیے وقت تو چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔