پی ایس ایل مجوزہ فنانشل ماڈل بورڈ کے گلے کی ہڈی بن گیا
فرنچائزز کو فائدہ پہنچانے کیلیے اپنے منافع میں کمی سے مستقبل میں قانونی مشکلات کا خدشہ ستانے لگا۔
پی ایس ایل کا مجوزہ فنانشل ماڈل پی سی بی کے گلے کی ہڈی بن گیا جب کہ فرنچائزز کو فائدہ پہنچانے کیلیے اپنے منافع میں کمی سے مستقبل میں قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پی ایس ایل فرنچائزز کافی عرصے سے مالی نقصان کا رونا روتی چلی آ رہی ہیں، معاملہ جب عدالت گیا تو بورڈ نے اسے حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں شروع کردیں، اب نیا مجوزہ فنانشل ماڈل تیار کر کے ایک ریٹائرڈ جج کو بھیجا گیا ہے، وہ فرنچائزز کی جانب سے فراہم کردہ دستاویزات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں تاکہ نقصان کے حوالے سے دعوے کی تصدیق ہو سکے،ان کی سفارشات پر بورڈ اس ماڈل کو لاگو کر سکتا ہے، البتہ اس صورت میں اسے ممکنہ طور پرکئی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا،حکام اس سے بخوبی واقف ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ اعلیٰ حکام فرنچائز اونرز کے سامنے بھی کئی بار اس خدشے کا اظہار کر چکے کہ اپنا منافع کم کرنے سے وہ مستقبل میں نیب اور ایف آئی اے کے ریڈار میں آ سکتے ہیں،اسی لیے بعض وفاقی وزرا سے رابطہ کر کے معاملہ کابینہ کے سامنے لانے کی درخواست بھی کر دی تھی جو مسترد ہو گئی، ایک اعلیٰ حکومتی شخصیت کی تجویز پر ریٹائرڈ جج سے رجوع کیا گیا جو آئندہ ماہ سفارشات پیش کریں گے۔
ماضی میں ایسی مثالیں کم ہی ملتی ہیں جب حکومت کی تبدیلی کی صورت میں بورڈ حکام فارغ ہوئے تو ان کیخلاف کارروائی ہوئی،بعض کیخلاف بھی مختلف نوعیت کے الزامات لگے مگرکچھ ثابت نہ ہوا،البتہ سابق سی او او سبحان احمد جیسے آفیشلز طویل عرصے پیشیاں بھگتے رہے تھے، مستقبل میں بھی بورڈ کے نسبتاً چھوٹے آفیشلز مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔
دوسری جانب میڈیا رپورٹس سامنے آنے کے بعد بعض افراد قانونی آپشنز بھی دیکھ رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے موجودہ فنانشل ماڈل کو دیکھ کر بڈنگ میں زیادہ دلچسپی نہیں لی تھی،اب اگر تبدیلی آئی تو یہ غلط اور دلچسپی رکھنے والے دیگر افراد کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہوگا۔ دریں اثنا رابطے پر پی سی بی کے ترجمان نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
پی ایس ایل فرنچائزز کافی عرصے سے مالی نقصان کا رونا روتی چلی آ رہی ہیں، معاملہ جب عدالت گیا تو بورڈ نے اسے حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں شروع کردیں، اب نیا مجوزہ فنانشل ماڈل تیار کر کے ایک ریٹائرڈ جج کو بھیجا گیا ہے، وہ فرنچائزز کی جانب سے فراہم کردہ دستاویزات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں تاکہ نقصان کے حوالے سے دعوے کی تصدیق ہو سکے،ان کی سفارشات پر بورڈ اس ماڈل کو لاگو کر سکتا ہے، البتہ اس صورت میں اسے ممکنہ طور پرکئی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا،حکام اس سے بخوبی واقف ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ اعلیٰ حکام فرنچائز اونرز کے سامنے بھی کئی بار اس خدشے کا اظہار کر چکے کہ اپنا منافع کم کرنے سے وہ مستقبل میں نیب اور ایف آئی اے کے ریڈار میں آ سکتے ہیں،اسی لیے بعض وفاقی وزرا سے رابطہ کر کے معاملہ کابینہ کے سامنے لانے کی درخواست بھی کر دی تھی جو مسترد ہو گئی، ایک اعلیٰ حکومتی شخصیت کی تجویز پر ریٹائرڈ جج سے رجوع کیا گیا جو آئندہ ماہ سفارشات پیش کریں گے۔
ماضی میں ایسی مثالیں کم ہی ملتی ہیں جب حکومت کی تبدیلی کی صورت میں بورڈ حکام فارغ ہوئے تو ان کیخلاف کارروائی ہوئی،بعض کیخلاف بھی مختلف نوعیت کے الزامات لگے مگرکچھ ثابت نہ ہوا،البتہ سابق سی او او سبحان احمد جیسے آفیشلز طویل عرصے پیشیاں بھگتے رہے تھے، مستقبل میں بھی بورڈ کے نسبتاً چھوٹے آفیشلز مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔
دوسری جانب میڈیا رپورٹس سامنے آنے کے بعد بعض افراد قانونی آپشنز بھی دیکھ رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے موجودہ فنانشل ماڈل کو دیکھ کر بڈنگ میں زیادہ دلچسپی نہیں لی تھی،اب اگر تبدیلی آئی تو یہ غلط اور دلچسپی رکھنے والے دیگر افراد کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہوگا۔ دریں اثنا رابطے پر پی سی بی کے ترجمان نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔