صدر ممنون حسین…چند یادیں
صدر صاحب میری پیشہ وارانہ اہلیت اور کارکردگی کے بارے میں کسی حد تک باخبر تھے۔
RIYADH:
سابق صدرِ پاکستان جناب ممنون حسین صاحب بھی چلے گئے، ایوانِ صدر کا عملہ جب اُن کا موازنہ اُن کے پیشرو سے کرتا تھا تو انھیں بحرالکاہل جتنا فرق نظر آتا تھا۔ ممنون حسین صاحب ایک نفیس، مہذب ، ایماندار اور محب وطن شخصیّت تھے، ان کے ساتھ راقم کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں، چند ایک قارئین کے ساتھ شیئر کررہا ہوں۔
پاسپورٹ کا بحران حل ہوگیا تو مجھے نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹرویز کا آئی جی مقرر کردیا گیا، اس ادارے کی اچھی روایات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر سال اس کے ملازمین کو ایک بڑی تقریب میں انعامات سے نوازا جاتا ہے اور انعامات کی رقم بھی بڑی دلکش ہوتی ہے۔
راقم نے ادارے کے سینئر افسران سے میٹنگ کرکے تین فیصلے کیے، ایک یہ کہ انعامات کے حقداران کا فیصلہ سوفیصد میرٹ پر ہوگا، دوسرا یہ کہ انعام لینے والوں میں روایت کے برعکس آئی جی شامل نہیں ہوگا اور انعامات ملک کے وزیرِاعظم یا صدر ِ مملکت کے ہاتھوں دلوائے جائیںگے تاکہ ملازمین کی عزت افزائی بھی ہو ۔
پرائم منسٹر کے اسٹاف نے وزیراعظم کی مصروفیات کے باعث معذوری ظاہر کی (اس سے اگلے سال ہونے والی تقریب کے مہمانِ خصوصی وزیرِاعظم ہی بنے) تو ہم نے صدر صاحب سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ راقم نے ملٹری سیکریٹری کو فون پر صدر صاحب سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی، ایم ایس مجھے پاسپورٹ بحران کے دَور سے جانتے تھے، انھوں نے دوسرے روز ہی ملاقات طے کرادی ، میں وقت پر ایوانِ صدر پہنچ گیا، مجھ سے پہلے ایک اور میٹنگ چل رہی تھی۔
دس پندرہ منٹ میں وہ میٹنگ ختم ہوگئی تو ڈپٹی ملٹری سیکریٹری ایم ایس کے کمرے میں آئے اور مجھے صدرِمملکت کے آفس میں لے گئے۔ صدر صاحب نے گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور میں ان کے ساتھ والے صوفے پر بیٹھ گیا۔ ان کی باتوں سے معلوم ہوگیا کہ وہ جانتے تھے کہ فیڈرل گورنمنٹ مجھے صوبہ سندھ کا آئی جی لگانا چاہتی تھی مگر زرداری صاحب نے مخالفت کی۔
صدر صاحب میری پیشہ وارانہ اہلیت اور کارکردگی کے بارے میں کسی حد تک باخبر تھے، میں نے ان سے موٹروے پولیس کی تقسیم انعامات کی تقریب ایوانِ صدر میں منعقد کرنے اور اس میں مہمانِ خصوصی بننے کی درخواست کی تو انھوں نے فوراًقبول کرلی، اور فرمایا کہ آپ باقی انتظامات ملٹری سیکریٹری کے ساتھ مل کر طے کرلیں۔
دفتر واپس پہنچ کر جب کولیگز کو یہ بتایا کہ پہلی بار موٹروے پولیس کے جونیئر ترین اہلکار ایوانِ صدرمیں مہمان بن کر جائیں گے اور صدرِمملکت سے انعامات وصول کریں گے تو تمام افسران مسرّت و انبساط سے سرشار ہوگئے کہ موٹروے پولیس کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہونے جارہا تھا۔ صدرِمملکت کے اسٹاف سے سارے معاملات بطریقِ احسن طے پاگئے تو انعامات وصول کرنے والوں کو پورے ملک سے اسلام آباد بلالیاگیا۔ تقریب سے ایک دن پہلے ریہرسل ہونا تھی۔
ریہرسل کے سلسلے میں ہمارے ڈی آئی جی زبیر ہاشمی اور ناصر ستی نے ایوانِ صدر کے اسٹاف سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے گریز کیا جس پر ہمیں تشویش ہوئی۔ میں نے ملٹری سیکریٹری کو فون کیا تو انھوں نے کہا، '' تقریب شاید کل منعقدنہ ہوسکے''۔ میں نے وجہ پوچھی توکہنے لگے، ''لگتا ہے بیوروکریسی نے کوئی سازش کی ہے۔'' میں نے تفصیل سے پوچھا توکہنے لگے، ''پریزیڈنٹ صاحب کو پرائم منسٹر آفس نے غالباً پی ایم صاحب کا کوئی پیغام پہنچایا ہے۔'' سینئر سول سرونٹ بڑے عہدوں پر پہنچ کر عموماً کشادہ دل ہوجاتے ہیں مگر کئی جگہوں پر عقابوں کے نشیمن زاغوں کے تصرف میں بھی آجاتے ہیںاور کئی بڑے عہدوں پر براجمان بابو اپنی طاقت کے جلوے دکھانے سے باز نہیں آتے۔
ہوا یہ کہ ایک ڈی ایم جی افسر نے دوسرے ڈی ایم جی افسر سے کہا کہ موٹروے پولیس نے اپنے طور پر ہی صدر صاحب سے ملکر وقت لے لیا ہے اور ہمیں پوچھے بغیر ہی تقریب منعقد ہورہی ہے، اس سے ہماری چوہدراہٹ برقرار نہیں رہتی لہٰذا کسی طریقے سے تقریب کو منسوخ کرائیں۔ پرائم منسٹر آفس کو یہ بات پیشِ نظر رکھنی چاہیے تھی کہ اسے مکمل طور پرغیر جانبدار رہنا ہوتا ہے مگر وہ ایک گروپ کا نمایندہ بن گیا۔
یہ بھی نہ سوچا گیا کہ تقریب منعقد ہونے سے ایک قومی ادارے کے جوانوں اور افسروں کا مورال بلند ہوگااور اس سے اس ان کی کارکردگی مزید بہتر ہوگی ، بلکہ اُس نے یہ سوچا کہ ادارے کا مورال پست ہوتا ہے تو ہوجائے، میرے سروس کولیگ کی بالادستی کم نہیں ہونی چاہیے، چنانچہ صدرصاحب کو convey کیا گیا کہ اس تقریب کے لیے پرائم منسٹر صاحب سے نہ صرف اجازت نہیں لی گئی بلکہ وہ اس سے ناخوش ہیں لہٰذا اسے منسوخ کردیا جائے۔ اندازہ کریںاپنے گروپ کی چوہدراہٹ کے لیے صدرِ مملکت کو وزیرِاعظم کی خودساختہ ناراضگی کا جعلی پیغام دینے سے بھی گریز نہیں کیاگیا۔
جس طرح پولیس میں بہت اچھے افسر بھی ہیں اور نہایت کرپٹ اور نوکری باز بھی بیشمار ہیں اسی طرح ڈی ایم جی میں سیرت اصغر ، عابد سعید، بابریعقوب، ارشد مرزا، خواجہ شمائل اور کئی اور فراخ دل اور تعصبات سے پاک افسر بھی رہے ہیں مگر تنگ دل اور کم ظرف افسروں کی بھی کمی نہیں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کہا کرتے تھے کہ اگر نیوکلیئر پروگرام میںکسی بھی سطح پر ڈی سی یا کمشنر involveہوتا تو یہ منصوبہ دھرے کا دھرا رہ جاتا۔ اسی طرح پبلک سیکٹر کے سب سے نیک نام ادارے موٹروے پولیس کے پہلے دونوں آئی جی صاحبان کی یہ متفقہ رائے تھی کہ موٹروے جیسا بہترین ساکھ کا حامل ادارہ اس لیے قائم ہوسکا کہ یہ مجسٹریسی کی مداخلت سے مکمل طور پر پاک تھا۔
بہرحال جب ایوانِ صدر سے ریہرسل کی اجازت سے انکار ہوا تو موٹروے پولیس کے افسران میں سخت مایوسی پھیل گئی اور جب تمام تیاریاں مکمل ہونے کے بعد تقریب کی منسوخی کی اطلاعات آنے لگیں توادارے کے ہیڈکواٹرز میں مُردنی سی چھاگئی۔ اس پسِ منظر میںمَیں نے پرائم منسٹر آفس فون کیا، اور پورے احترام کے ساتھ بتایا کہ ''پورے ملک سے افسران پہنچ چکے ہیں،تمام تیاّریاں مکمل ہیں،اس موقع پر تقریب کی منسوخی سے ایک باوقار اور نیک نام ادارے کی توہین ہوگی اور افسروں کا مورال پست ہوگا، خدارا ایسا نہ کیجیے۔ جواب ملا ''پہلے پرائم منسٹرصاحب کو مدعو کیا جانا ضروری تھااو پرائم منسٹر سے اجازت بھی نہیں لی گئی۔
میں نے کہا، ''حضور میں جانتا ہوں کہ بات پرائم منسٹر کی اجازت کی نہیں ہے۔بات یہ کہ ہم پہلے صدر صاحب کے سیکریٹری کے پاس پیش ہوتے، وہ کہتا پہلے منسٹری کے سیکریٹری کے حضور پیش ہوں، پھر دونوں اپنی اپنی شرائط لگاتے کہ ہماری کرسی اسٹیج پر لگائی جائے اور ہم سے تقریر بھی کرائی جائے۔
اس طرح کئی مہینے اناؤں کی بھینٹ چڑھ جاتے۔ موٹروے پولیس ایک Autonomous ادارہ ہے جہاں ڈی آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر آئی جی خود کرتے ہیں۔ادارہ اپنی تقریبات منعقد کرنے کا اختیار رکھتا ہے لہٰذازیادتی نہ کی جائے اور تقریب منعقد ہونے دیں''۔ اس پر آواز بلند حکم سنایا گیا کہ ''کل پریزیڈنسی میں موٹروے پولیس کی تقریب نہیں ہوگی۔''
یہ سن کر میں نے اس سے زیادہ بلند آواز میں کہا، ''اگر کل تقریب نہیں ہوگی تو میں اس ادارے کا سربراہ نہیں رہوں گا''۔ I will resign ـ'' اس کے ساتھ ہی دونوں طرف سے فون بند ہوگئے۔ صورتِ حال کتنی ہی گھمبیر کیوں نہ ہو حواس قائم رہنے چاہئیںتاکہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں ماؤف نہ ہوجائیں۔
میں نے حواس قابو میں رکھے اور پرائم منسٹر کے ملٹری سیکریٹری بریگیڈیئر اکمل کو فون کیا اور انھیں ساری صورتِ حال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ''آپ پرائم منسٹر صاحب کو صورتِ حال سے آگاہ کریں، مجھے یقین ہے کہ انھیں ایوانِ صدر میں ہونے والی موٹروے پولیس کی تقسیم انعامات کی تقریب پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔'' انھوں نے کہا کہ '' پرائم منسٹر صاحب ایک گھنٹے تک پہنچنے والے ہیں، ان کی واپسی پر بات کروںگا''۔ ایک گھنٹے کے بعد میں نے دوبارہ فون کرکے بریگیڈیئر صاحب کو یاد کرایا۔ پندرہ منٹ کے بعد ان کا فون آگیا کہ ''پرائم منسٹر صاحب سے بات ہوگئی ہے۔
انھوں نے موٹروے پولیس کی تقریب کے بارے میں کسی قسم کے تحفظات کا اظہار نہیں کیا''۔ میں نے ان سے کہا،''ایم ایس ٹو پریزیڈنٹ کو بھی آگاہ کر دیجیے''۔ اللہ بھلا کرے پرائم منسٹر اور صدرِ مملکت کے ملٹری سیکریٹری صاحبان کا، جن کے مثبت رویے اور تعاون نے ایک قومی ادارے کو سبکی اور تضحیک سے بچالیا۔ موٹروے پولیس کے ہرسطح کے افسران میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ دوسرے روز تقریب شروع ہونے سے پہلے صدر صاحب سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بھی بابوؤں کی منفی سوچ پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ موٹروے پولیس کے بہت سے جونئیر افسران (خواتین و حضرات) نے زندگی میں پہلی بار ایوانِ صدر دیکھا اور صدرِ مملکت کے ہاتھوں انعامات وصول کیے۔
(جاری ہے)
سابق صدرِ پاکستان جناب ممنون حسین صاحب بھی چلے گئے، ایوانِ صدر کا عملہ جب اُن کا موازنہ اُن کے پیشرو سے کرتا تھا تو انھیں بحرالکاہل جتنا فرق نظر آتا تھا۔ ممنون حسین صاحب ایک نفیس، مہذب ، ایماندار اور محب وطن شخصیّت تھے، ان کے ساتھ راقم کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں، چند ایک قارئین کے ساتھ شیئر کررہا ہوں۔
پاسپورٹ کا بحران حل ہوگیا تو مجھے نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹرویز کا آئی جی مقرر کردیا گیا، اس ادارے کی اچھی روایات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر سال اس کے ملازمین کو ایک بڑی تقریب میں انعامات سے نوازا جاتا ہے اور انعامات کی رقم بھی بڑی دلکش ہوتی ہے۔
راقم نے ادارے کے سینئر افسران سے میٹنگ کرکے تین فیصلے کیے، ایک یہ کہ انعامات کے حقداران کا فیصلہ سوفیصد میرٹ پر ہوگا، دوسرا یہ کہ انعام لینے والوں میں روایت کے برعکس آئی جی شامل نہیں ہوگا اور انعامات ملک کے وزیرِاعظم یا صدر ِ مملکت کے ہاتھوں دلوائے جائیںگے تاکہ ملازمین کی عزت افزائی بھی ہو ۔
پرائم منسٹر کے اسٹاف نے وزیراعظم کی مصروفیات کے باعث معذوری ظاہر کی (اس سے اگلے سال ہونے والی تقریب کے مہمانِ خصوصی وزیرِاعظم ہی بنے) تو ہم نے صدر صاحب سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ راقم نے ملٹری سیکریٹری کو فون پر صدر صاحب سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی، ایم ایس مجھے پاسپورٹ بحران کے دَور سے جانتے تھے، انھوں نے دوسرے روز ہی ملاقات طے کرادی ، میں وقت پر ایوانِ صدر پہنچ گیا، مجھ سے پہلے ایک اور میٹنگ چل رہی تھی۔
دس پندرہ منٹ میں وہ میٹنگ ختم ہوگئی تو ڈپٹی ملٹری سیکریٹری ایم ایس کے کمرے میں آئے اور مجھے صدرِمملکت کے آفس میں لے گئے۔ صدر صاحب نے گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور میں ان کے ساتھ والے صوفے پر بیٹھ گیا۔ ان کی باتوں سے معلوم ہوگیا کہ وہ جانتے تھے کہ فیڈرل گورنمنٹ مجھے صوبہ سندھ کا آئی جی لگانا چاہتی تھی مگر زرداری صاحب نے مخالفت کی۔
صدر صاحب میری پیشہ وارانہ اہلیت اور کارکردگی کے بارے میں کسی حد تک باخبر تھے، میں نے ان سے موٹروے پولیس کی تقسیم انعامات کی تقریب ایوانِ صدر میں منعقد کرنے اور اس میں مہمانِ خصوصی بننے کی درخواست کی تو انھوں نے فوراًقبول کرلی، اور فرمایا کہ آپ باقی انتظامات ملٹری سیکریٹری کے ساتھ مل کر طے کرلیں۔
دفتر واپس پہنچ کر جب کولیگز کو یہ بتایا کہ پہلی بار موٹروے پولیس کے جونیئر ترین اہلکار ایوانِ صدرمیں مہمان بن کر جائیں گے اور صدرِمملکت سے انعامات وصول کریں گے تو تمام افسران مسرّت و انبساط سے سرشار ہوگئے کہ موٹروے پولیس کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہونے جارہا تھا۔ صدرِمملکت کے اسٹاف سے سارے معاملات بطریقِ احسن طے پاگئے تو انعامات وصول کرنے والوں کو پورے ملک سے اسلام آباد بلالیاگیا۔ تقریب سے ایک دن پہلے ریہرسل ہونا تھی۔
ریہرسل کے سلسلے میں ہمارے ڈی آئی جی زبیر ہاشمی اور ناصر ستی نے ایوانِ صدر کے اسٹاف سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے گریز کیا جس پر ہمیں تشویش ہوئی۔ میں نے ملٹری سیکریٹری کو فون کیا تو انھوں نے کہا، '' تقریب شاید کل منعقدنہ ہوسکے''۔ میں نے وجہ پوچھی توکہنے لگے، ''لگتا ہے بیوروکریسی نے کوئی سازش کی ہے۔'' میں نے تفصیل سے پوچھا توکہنے لگے، ''پریزیڈنٹ صاحب کو پرائم منسٹر آفس نے غالباً پی ایم صاحب کا کوئی پیغام پہنچایا ہے۔'' سینئر سول سرونٹ بڑے عہدوں پر پہنچ کر عموماً کشادہ دل ہوجاتے ہیں مگر کئی جگہوں پر عقابوں کے نشیمن زاغوں کے تصرف میں بھی آجاتے ہیںاور کئی بڑے عہدوں پر براجمان بابو اپنی طاقت کے جلوے دکھانے سے باز نہیں آتے۔
ہوا یہ کہ ایک ڈی ایم جی افسر نے دوسرے ڈی ایم جی افسر سے کہا کہ موٹروے پولیس نے اپنے طور پر ہی صدر صاحب سے ملکر وقت لے لیا ہے اور ہمیں پوچھے بغیر ہی تقریب منعقد ہورہی ہے، اس سے ہماری چوہدراہٹ برقرار نہیں رہتی لہٰذا کسی طریقے سے تقریب کو منسوخ کرائیں۔ پرائم منسٹر آفس کو یہ بات پیشِ نظر رکھنی چاہیے تھی کہ اسے مکمل طور پرغیر جانبدار رہنا ہوتا ہے مگر وہ ایک گروپ کا نمایندہ بن گیا۔
یہ بھی نہ سوچا گیا کہ تقریب منعقد ہونے سے ایک قومی ادارے کے جوانوں اور افسروں کا مورال بلند ہوگااور اس سے اس ان کی کارکردگی مزید بہتر ہوگی ، بلکہ اُس نے یہ سوچا کہ ادارے کا مورال پست ہوتا ہے تو ہوجائے، میرے سروس کولیگ کی بالادستی کم نہیں ہونی چاہیے، چنانچہ صدرصاحب کو convey کیا گیا کہ اس تقریب کے لیے پرائم منسٹر صاحب سے نہ صرف اجازت نہیں لی گئی بلکہ وہ اس سے ناخوش ہیں لہٰذا اسے منسوخ کردیا جائے۔ اندازہ کریںاپنے گروپ کی چوہدراہٹ کے لیے صدرِ مملکت کو وزیرِاعظم کی خودساختہ ناراضگی کا جعلی پیغام دینے سے بھی گریز نہیں کیاگیا۔
جس طرح پولیس میں بہت اچھے افسر بھی ہیں اور نہایت کرپٹ اور نوکری باز بھی بیشمار ہیں اسی طرح ڈی ایم جی میں سیرت اصغر ، عابد سعید، بابریعقوب، ارشد مرزا، خواجہ شمائل اور کئی اور فراخ دل اور تعصبات سے پاک افسر بھی رہے ہیں مگر تنگ دل اور کم ظرف افسروں کی بھی کمی نہیں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کہا کرتے تھے کہ اگر نیوکلیئر پروگرام میںکسی بھی سطح پر ڈی سی یا کمشنر involveہوتا تو یہ منصوبہ دھرے کا دھرا رہ جاتا۔ اسی طرح پبلک سیکٹر کے سب سے نیک نام ادارے موٹروے پولیس کے پہلے دونوں آئی جی صاحبان کی یہ متفقہ رائے تھی کہ موٹروے جیسا بہترین ساکھ کا حامل ادارہ اس لیے قائم ہوسکا کہ یہ مجسٹریسی کی مداخلت سے مکمل طور پر پاک تھا۔
بہرحال جب ایوانِ صدر سے ریہرسل کی اجازت سے انکار ہوا تو موٹروے پولیس کے افسران میں سخت مایوسی پھیل گئی اور جب تمام تیاریاں مکمل ہونے کے بعد تقریب کی منسوخی کی اطلاعات آنے لگیں توادارے کے ہیڈکواٹرز میں مُردنی سی چھاگئی۔ اس پسِ منظر میںمَیں نے پرائم منسٹر آفس فون کیا، اور پورے احترام کے ساتھ بتایا کہ ''پورے ملک سے افسران پہنچ چکے ہیں،تمام تیاّریاں مکمل ہیں،اس موقع پر تقریب کی منسوخی سے ایک باوقار اور نیک نام ادارے کی توہین ہوگی اور افسروں کا مورال پست ہوگا، خدارا ایسا نہ کیجیے۔ جواب ملا ''پہلے پرائم منسٹرصاحب کو مدعو کیا جانا ضروری تھااو پرائم منسٹر سے اجازت بھی نہیں لی گئی۔
میں نے کہا، ''حضور میں جانتا ہوں کہ بات پرائم منسٹر کی اجازت کی نہیں ہے۔بات یہ کہ ہم پہلے صدر صاحب کے سیکریٹری کے پاس پیش ہوتے، وہ کہتا پہلے منسٹری کے سیکریٹری کے حضور پیش ہوں، پھر دونوں اپنی اپنی شرائط لگاتے کہ ہماری کرسی اسٹیج پر لگائی جائے اور ہم سے تقریر بھی کرائی جائے۔
اس طرح کئی مہینے اناؤں کی بھینٹ چڑھ جاتے۔ موٹروے پولیس ایک Autonomous ادارہ ہے جہاں ڈی آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر آئی جی خود کرتے ہیں۔ادارہ اپنی تقریبات منعقد کرنے کا اختیار رکھتا ہے لہٰذازیادتی نہ کی جائے اور تقریب منعقد ہونے دیں''۔ اس پر آواز بلند حکم سنایا گیا کہ ''کل پریزیڈنسی میں موٹروے پولیس کی تقریب نہیں ہوگی۔''
یہ سن کر میں نے اس سے زیادہ بلند آواز میں کہا، ''اگر کل تقریب نہیں ہوگی تو میں اس ادارے کا سربراہ نہیں رہوں گا''۔ I will resign ـ'' اس کے ساتھ ہی دونوں طرف سے فون بند ہوگئے۔ صورتِ حال کتنی ہی گھمبیر کیوں نہ ہو حواس قائم رہنے چاہئیںتاکہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں ماؤف نہ ہوجائیں۔
میں نے حواس قابو میں رکھے اور پرائم منسٹر کے ملٹری سیکریٹری بریگیڈیئر اکمل کو فون کیا اور انھیں ساری صورتِ حال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ''آپ پرائم منسٹر صاحب کو صورتِ حال سے آگاہ کریں، مجھے یقین ہے کہ انھیں ایوانِ صدر میں ہونے والی موٹروے پولیس کی تقسیم انعامات کی تقریب پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔'' انھوں نے کہا کہ '' پرائم منسٹر صاحب ایک گھنٹے تک پہنچنے والے ہیں، ان کی واپسی پر بات کروںگا''۔ ایک گھنٹے کے بعد میں نے دوبارہ فون کرکے بریگیڈیئر صاحب کو یاد کرایا۔ پندرہ منٹ کے بعد ان کا فون آگیا کہ ''پرائم منسٹر صاحب سے بات ہوگئی ہے۔
انھوں نے موٹروے پولیس کی تقریب کے بارے میں کسی قسم کے تحفظات کا اظہار نہیں کیا''۔ میں نے ان سے کہا،''ایم ایس ٹو پریزیڈنٹ کو بھی آگاہ کر دیجیے''۔ اللہ بھلا کرے پرائم منسٹر اور صدرِ مملکت کے ملٹری سیکریٹری صاحبان کا، جن کے مثبت رویے اور تعاون نے ایک قومی ادارے کو سبکی اور تضحیک سے بچالیا۔ موٹروے پولیس کے ہرسطح کے افسران میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ دوسرے روز تقریب شروع ہونے سے پہلے صدر صاحب سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بھی بابوؤں کی منفی سوچ پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ موٹروے پولیس کے بہت سے جونئیر افسران (خواتین و حضرات) نے زندگی میں پہلی بار ایوانِ صدر دیکھا اور صدرِ مملکت کے ہاتھوں انعامات وصول کیے۔
(جاری ہے)