ق لیگ کی کامیاب سیاست
مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں اپنی دس سالہ حکومت میں (ق) لیگ کو کوئی اہمیت نہیں دی۔
PARIS:
جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ قائد اعظم قائم ہوئی اور پھر وہ الیکشن جیت کر برسراقتدار میں آئی ۔ اس جماعت میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ارکان شامل کیے گئے تھے ،اس جماعت کے قیام میں پنجاب کے چوہدریوں کا اہم کردار تھا جو پہلے مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنما تھے۔
انھوں نے نواز شریف دور میں گورنر پنجاب میاں محمد اظہر کو (ق) لیگ کا پہلا صدر بنوایا تھا مگر میاں اظہر 2002 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست ہار گئے۔ موجودہ پی ٹی آئی حکومت میں میاں اظہر کے صاحبزادے حماد اظہر وفاقی وزیر ہیں۔
مسلم لیگ ق کے ارکان نے میاں اظہر پر عدم اعتماد کیا اور چوہدری شجاعت حسین ق لیگ کے نئے صدر بن گئے تھے اور چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے بااختیار وزیر اعلیٰ بن گئے تھے ۔
چوہدریوں کی حمایت سے ہی میر ظفر اللہ جمالی کو بلوچستان کی نمایندگی کے لیے وزیر اعظم بنایا گیا تھا مگر اصل اختیار جنرل پرویز مشرف کے پاس تھا کیونکہ جمالی صاحب خوشامدی نہیں تھے ،اپنے اصول پر چلتے تھے جس کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف نے انھیں جلد فارغ کرا کر عارضی طور پر چوہدری شجاعت کو وزیر اعظم بنا کر شوکت عزیز کو نیا وزیراعظم بنوایاجو غیر سیاسی تھے جب کہ سیاست چوہدریوں کے ہاتھ میں رہی ۔
پرویز الٰہی کے دور میں پنجاب میں ترقی اور متعدد نئے منصوبے مکمل ہوئے مگر سیاسی طور پر مسلم لیگ (ق) عوام میں مقبولیت حاصل نہ کرسکی۔ پرویز الٰہی نے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو انتقام کا نشانہ اتنا نہیں بنایا جتنا جنرل پرویز مشرف چاہتے تھے۔ پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی حکومت میں مسلم لیگ (ن) کے قائدین کی ٹرالی کا چالان تک نہیں ہونے دیا تھا جب کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں چوہدری ضرور انتقامی کارروائی کا نشانہ بنے تھے۔
2007 میں عام انتخابات کا اعلان ہو چکا تھا اور توقع تھی کہ مسلم لیگ (ق) واضح کامیابی حاصل کرلے گی اور دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی مگر محترمہ بے نظیر بھٹو جنرل پرویز مشرف کے منع کرنے کے باوجود پاکستان واپس آگئیں اور شہید کردی گئیں۔
محترمہ ، جنرل پرویز مشرف سے این آر او کرنے کے بعد پاکستان آئی تھیں۔ جنرل پرویز مشرف چوہدریوں کی سیاست سے مطمئن نہیں تھے جس کی وجہ سے انھوں نے چوہدریوں کو اعتماد میں لینا مناسب نہیں سمجھا اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ این آر او کرلیا تھا جو مسلم لیگ (ق) پر ان کا عدم اعتماد تھا۔
بے نظیر بھٹوکی شہادت سے (ق) لیگ کو بڑا سیاسی نقصان ہوا اور وہ 2008 میں بمشکل پنجاب سے چند نشستیں حاصل کر پائی تھی اور پنجاب کے چند اضلاع تک محدود ہوکر رہ گئی تھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت سے مسلم لیگ (ن) کی علیحدگی کے بعد پی پی حکومت نے ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کیا مگر اس کی من مانی کے باعث صدر آصف زرداری نے مجبور ہو کر (ق) لیگ کو اپنی حکومت میں شامل کرنا پڑا۔ صدر زرداری کی مجبوری کا (ق) لیگ نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پی پی حکومت میں پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیر اعظم بنوایا اور وزارتیں اور مفادات حاصل کیے۔
مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں اپنی دس سالہ حکومت میں (ق) لیگ کو کوئی اہمیت نہیں دی تو وہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے ساتھ سیاسی اتحاد پر مجبور ہوئے اور پی ٹی آئی کے تعاون سے پنجاب میں قومی اسمبلی کی 5 نشستیں اور پنجاب اسمبلی کی دس نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی اور پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے پی ٹی آئی کی مجبوری بن گئی، اسپیکر اور ایک ایک قومی و صوبائی وزارتیں لینے میں کامیاب رہی۔ عمران خان نے چوہدریوں کو اہمیت نہیں دی مگر پھر وہ چوہدریوں کے گھر جانے پر مجبور ہوئے کیونکہ (ق) لیگ اچھی سیاست کر رہی تھی۔
عمران خان ، مونس الٰہی کو وزارت دینے پر اس وقت مجبور ہوئے جب پرویز الٰہی آصف زرداری سے ملے تو عمران خان کو پالیسی بدلنا پڑی۔ مسلم لیگ (ق) نے اپنی سیاست سیاسی فوائد تک محدود کر رکھی ہے اور اب وہ پی پی حکومت کے بعد تحریک انصاف کی بھی مجبوری بنی ہوئی ہے اور پنجاب میں اپنا وجود نہ صرف برقرار رکھے ہوئے ہے بلکہ فائدے بھی اٹھا رہی ہے۔
(ق) لیگ نے آصف زرداری اور عمران خان کو اپنی ضد چھوڑنے پر مجبور کردیا اور 5قومی نشستوں پر دو وفاقی وزارتیں لے کر اپنی سیاست کی کامیابی تو قرار دیا مگر یہ بھی ثابت کردیا کہ اس کا کوئی اصول نہیں ہے اور وہ مفادات کے حصول پر زیادہ یقین رکھتی ہے اور جہاں سے فائدہ ملے موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی اور کبھی انتہا پر نہیں جاتی۔