تنکے کی گنجائش بھی باقی نہیں
پہلے جتنے پیسوں سے مہینے بھر کا راشن مل جاتا تھا، اب وہ ایک ہفتے کے راشن تک محدود ہو گیا ہے۔
ہم پاکستانی دو زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔ ایک زندگی ان روساء کی ہے جوجدی پشتی شہروں میں رہائش پذیر ہیں، ان لوگوں کی زندگی میں سوائے عیش و عشرت کے اورکچھ نہیں ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اس فکر میں رہتے ہیں کہ وہ اپنی دولت کو خرچ کرنے کے مواقع کہاں سے حاصل کریں۔
اس کے لیے وہ ہر سال ملک سے باہر عیش و عشرت کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔ کچھ تو باقاعدہ طور پر وہیں قیام پذیر رہتے ہیں۔ دوسری زندگی عوام کی زندگی ہے یعنی اصل پاکستانیوں کی زندگی ہے جن کی زندگی اتنے زیادہ مسائل کا شکار ہو چکی ہے کہ ان کے حل کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ہر گھر کے ماہوار راشن کے اخراجات کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔
پہلے جتنے پیسوں سے مہینے بھر کا راشن مل جاتا تھا، اب وہ ایک ہفتے کے راشن تک محدود ہو گیا ہے۔ حکومت کی مقدور بھر کوشش ضرور کر رہی ہے کہ سستے بازاروں کے ذریعے عوام کو آسانی فراہم کی جائے لیکن مجموعی طور پر مہنگائی نے تختوں کے پشتے لگا دیے ہیں۔
پٹرول کوقیمتوں کو مہنگائی کی ماں کہا جاتا ہے، جب اس کی قیمت بڑھتی ہے وہ تو تمام ضروریات کی قیمتیں خود بخود بڑھ جاتی ہیں، پٹرول بازار کے بھاؤ کا پیمانہ مقرر ہو چکا ہے۔ ہماری حکومت نے بجٹ میں گج وج کے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کے مطالبے کے باوجود پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا گیا لیکن ہم نے کیا دیکھا کہ بجٹ کے بعد ہر پندرہ روز کے بعد پٹرول کی قیمت میںمسلسل اضافہ ہو رہا ہے البتہ ایک یہ مہربانی ضرور کی جارہی ہے کہ پٹرول کی قیمت بڑھانے کاجتنا مطالبہ متعلقہ محکمے کی جانب سے کیا جاتا ہے وزیر اعظم صاحب کمال مہربانی کرتے ہوئے اس سے کچھ کم کی منظوری دیتے ہیں۔
اب حالت یہ ہے اور ماہرین کے اعدادو شمار یہ بتا رہے ہیں کہ بالآخر آئی ایم ایف نے پٹرول کی قیمت بڑھانے کا جو مطالبہ اور ہدف مقرر کیا تھا ،حکومت بہت جلد اس مطلوبہ ہدف تک پہنچ جائے گی۔ آسان الفاظ میں اگر بات کی جائے تو اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی اسی شرح سے مسلسل بڑھ رہی ہیںاور یہ جاریہ اضافہ ہے جو ہر پندرہ روز کے بعد ہوتا رہتا ہے کیونکہ تیل کی قیمتوں ہر پندرہ روز بعد نظرثانی ہوتی ہے، ایک اضافہ تو وہ ہے جو تیل کی قیمتوں کی وجہ سے جائز طور پر ہوتا ہے، دوسرا اضافہ ہمارے تاجر طبقے کا ہے، ہمارے یہ بھائی نرخ کسی قاعدے اور حساب کے بغیر اپنی ضرورت اور خواہش کے مطابق مقرر کرتے ہیں۔ آج پاکستان میں کوئی مارکیٹ نرخ نہیں ہے ۔ہر دکان کا اپنا نرخ ہے، اگر دو دکانیں ساتھ ساتھ جڑی ہیں تو پھر بھی دونوں کے الگ الگ نرخ ہوں گے۔
یہ آزمودہ بات ہے۔کسی زمانے میں حکومت کے پرائس کنٹرول مجسٹریٹ ہوتے تھے، نجانے یہ عہدہ ابھی تک موجود ہے یا نہیں لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ حکومت کی جانب سے کوئی ایسا موثر انتظام نہیں کیا گیا کہ جس کے تحت مارکیٹ میں ضروری اشیاء کے نرخوں کی نگرانی کی جا سکے۔ بزرگوں سے سنتے ہیں کہ پاکستان کے قیام سے پہلے زیادہ تر کاروبار ہندوؤں کے پاس تھے تو اس وقت مارکیٹ کے نرخ ہوا کرتے تھے اور ان نرخوں پر سامان فروخت کرتے ہیں، آج کی جدید دنیا میں جب سہولتیں زیادہ اور سرکاری افسروں کی بھر مار ہے تو مارکیٹ کے نرخوں کی بات ایک افسانہ لگتی ہے۔
ہر آنے والا حکمران قرضوں کا کشکول توڑنے کا دعویٰ تو ضرور کرتا ہے، قرض نہ لینے کے اعلانات کیے جاتے ہیں لیکن عملاً یہ سب کچھ ممکن نہیں ہوپاتا اور بالآخر حکومت قرضوں کا مزید بوجھ اٹھانے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ عوام کو یہ خوشخبری سنائی جاتی ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض کے لیے مذاکرات میں تاخیر سے نقصان ہوا ہے اور اب انھوں قرض فراہمی کے لیے ہماری درخواست منظور کر لی ہے۔
قرض کی اس مئے پر بھنگڑے بھی ڈالے جاتے ہیں اور ان قرضوں کو ہماری معیشت کی کامیابی بھی قرار دیا جاتا ہے۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ کیا کامیاب معیشت یہ ہوتی ہے کہ اس کو چلانے کے لیے قرض درکار ہو اور وہ بھی ایک ایسے ساہوکار سے جس کی ایک ایک پائی کے ساتھ کوئی نہ کوئی سیاسی قسم کی شرط بھی نتھی کر دی جاتی ہے۔ پاکستان جیسے کمزور اور محتاج ملک کو دیے جانے والے قرضے یہ قرض خواہ کسی نہ کسی بہانے آدھے کے قریب نقد بھی لے جاتے ہیں جب کہ ان کے ماہرین کی ایک فوج بھی ان قرضوں کی وصولی کے لیے مسلط کر دی جاتی ہے۔ ان کھلی باتوں کے علاوہ دوسرے حربے بھی ہوتے ہیں جن کو خفیہ سمجھا جاتا ہے ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ ہوتے تو قرضے ہیں لیکن ان ظالمانہ قرضوں کو برضا ورغبت قبول کرنے والے خفیہ ہاتھوں کو ان پر کیش بھی دیا جاتا ہے کیونکہ یہ قرضے درحقیقت کسی ملک کی حقیقی ترقی کے لیے نہیں دیے جاتے، اس ملک کے عوام سے کوئی کام لینا ہوتا ہے جس کا معاوضہ امداد کے طور پر نہیں قرض کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ ماضی کے تجربات کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو ہم نے قرضوں کے لالچ میںامریکا کی خاطر اپنا بہت کچھ تباہ کر لیا ہے جس کا ازالہ شاید ہی ممکن ہو سکے۔ اب ہم نے ایک نئی راہ اپنا لی ہے جس پر مسلسل شادیانے بجائے جارہے ہیں اور اقتصادی راہداری کے نام پر ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھکیلاجارہا ہے جس کا انجام بھی کوئی مختلف نہیں ہو گا۔
معیشت کے ماہرین سے درمندانہ گزارش ہی کی جا سکتی ہے کہ مزید قرضوں کو قوم پر مسلط نہ کریں، اس قوم پر پہلے ہی اتنا کچھ مسلط کیا جا چکا ہے کہ اب ایک تنکے کی گنجائش بھی باقی نہیں ہے۔ اس قوم پر رحم کریں اور بینکاری مہارتوں سے قوم کو مزید خواب نہ دکھائیں ۔