اپوزیشن جماعتوں کے اختلافات کا فائدہ تحریک انصاف کو ملنے لگا
آزاد کشمیر کے عام انتخابات میں بھی پاکستان تحریک انصاف میدان مارنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
سال 2018ء میں منعقدہ عام انتخابات کو تین سال مکمل ہوگئے ہیں لیکن نہ تو عام انتخابات میں پیدا ہونے والی تلخیاں کم ہو پائی ہیں اور نہ ہی حکومت و اپوزیشن کے درمیان مفاہمت کی کوئی راہ نکلی ہے، الٹا اپوزیشن جماعتیں آپس ہی میں تقسیم ہوکر رہ گئی ہیں جس کی وجہ سے آزاد کشمیر کے عام انتخابات میں بھی پاکستان تحریک انصاف میدان مارنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
اگرچہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے حوالے سے یہ تاریخ رہی ہے کہ جس بھی پارٹی کی اسلام آباد میں حکومت ہو وہی پارٹی ان دونوں مقامات پر منعقد ہونے والے انتخابات میں بھی میدان مارتی ہے اور اس اعتبار سے آزاد کشمیر الیکشن کے نتائج پی ٹی آئی ہی کے حق میں آنے چاہئیں تھے اور ایسا ہی ہوا ہے۔
تاہم اپوزیشن کی دو جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی جانب سے آزاد کشمیر میں ایسی ہوا بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ جیسے وہاں کے نتائج ان ہی کے حق میں آئیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ یہ دونوں اپوزیشن جماعتیں، پی ٹی آئی کے علاوہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے خلاف مہم چلانے میں مصروف تھیں۔ یہ دونوں اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی چونکہ آزاد کشمیر میں حکومت کر چکی ہیں اس لیے ان کا وہاں پر اثرورسوخ بھی ہے اور اگر یہ دونوں جماعتیں مل کرتحریک انصاف کے خلاف میدان میں اترتیں تو ہو سکتا ہے کہ صورت حال مختلف ہوتی۔
تاہم یہ اندازہ تو اس وقت بھی لگایا جا رہا تھا کہ جب یہ دونوں جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھی تھیں،کہ جب کبھی انتخابی میدان سجا پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں مشترکہ طور پر میدان میں اترنے کی بجائے تنہا پرواز کریں گی اور کم ازکم پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن تو ہر صورت ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں گی اور اب تو چونکہ یہ دونوں جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر بھی اکٹھی نہیں رہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف مورچہ بند ہیں اس صورت میں فائدہ کسی اور کو نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف کو ہی پہنچنا تھا اور پی ٹی آئی نے کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھ لیا ہے اور اب کچھ ایسی ہی صورت حال آگے بلدیاتی اور پھر دو سال بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات میں بھی دکھائی دے رہی ہے۔
بلدیاتی انتخابات کا احوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اس کے انعقاد کی تیاریاں جاری رکھے ہوئے ہے اورخیبرپختونخوا کی کابینہ بھی ماہ ستمبر، اکتوبر میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی منظوری دے چکی ہے، تاہم اس وقت جو کچھ افغانستان میں ہو رہا ہے اور پھر کورونا کی چوتھی لہر جس طریقہ سے اپنا زور دکھا رہی ہے۔
اس کی وجہ سے خیبرپختونخوا کی پی ٹی آئی حکومت کو یہ تجویز دی گئی ہے کہ ان حالات میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نقصان دہ ہو سکتا ہے کیونکہ ایک جانب اگر افغانستان میں جاری خانہ جنگی کے اثرات پاکستان پر مرتب ہونا شروع ہوتے ہیں تو اس سے سب سے زیادہ اور کوئی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا ہی متاثر ہوگا کیونکہ پہلے پاکستان اورافغانستان کے درمیان بفر زون کے طور پر قبائلی علاقہ جات موجود تھے لیکن اب ایسی کوئی رکاوٹ نہیں رہی بلکہ خیبرپختونخوا کی حدود بین الاقوامی سرحدوں تک جا پہنچی ہیں اور یہ صوبہ طورخم بارڈر کے ذریعے افغانستان سے جڑا ہوا ہے۔
اس لیے افغانستان کی صورت حال کے اثرات براہ راست اگر مرتب ہونگے تو خیبرپختونخوا پر ہی ہونگے۔اور جہاں تک کوروناکی چوتھی لہر کا تعلق ہے تو یہ لہر جاری ہے جس کی وجہ سے مشکلات موجود ہیں اور اگر ان حالات میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے جس کے لیے گلی ،گلی، محلہ ،محلہ انتخابی مہم چلے گی اور عوام اس میں شامل ہونگے تو اس صورت حال کی وجہ سے کورونا کے مزید پھیلنے کے امکانات ہیں۔
اس تجویز سے صوبائی حکومت تو اتفاق کرتی ہے تاہم صورت حال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین اور وزیراعظم پاکستان عمران خان ہر صورت بلدیاتی انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں اس لیے صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی تیاری جاری رکھے ہوئے ہے تاہم اس کے ساتھ ہی یہ بھی فیصلہ ہوا ہے کہ وزیراعظم کو افغانستان اور کورونا صورت حال کے حوالے سے ایک تفصیلی بریفنگ دی جائے گی اور اگر اس کے باوجود بھی وزیراعظم بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر مصر رہے تو اس صورت میں بلدیاتی انتخابات منعقد کرائے جائیں گے بصورت دیگر انھیں ایک سال کے لیے ملتوی کر دیا جائے گا ،بلدیاتی انتخابات اس سال منعقد ہوتے ہیں یا اگلے سال ، تاہم دکھائی یہی دے رہا ہے کہ اپوزیشن سیاسی جماعتیں بمشکل ہی ایک ہو پائیں گی ۔
یہ ہو سکتا ہے کے کوئی دو پارٹیاں ایک ہوجائیں یا پھر اپوزیشن جماعتوں ہی کے ایک سے زائد اتحاد تشکیل پائیں تاہم اس بات کے قطعی طور پر کوئی امکانات دکھائی نہیں دے رہے ہیں کہ تمام اپوزیشن جماعتیں یکجا ہوکر بلدیاتی انتخابات کے میدان میں اتریں اور پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دیں جس کا فائدہ یقینی طور پر کسی اور کو نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف ہی کو ہوگا جو اپوزیشن جماعتوں کے اس عدم اتفاق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میدان مارنے کی کوشش کرے گی اور رہی بات عام انتخابات کی تو عام انتخابات کا انعقاد ابھی دو سال بعد ہونا ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جو حکومت مخالف تحریک لیے چل رہی ہیں اس کے نتیجے میں کسی بھی طور یہ دکھائی نہیں دیتا کہ اپوزیشن جماعتیں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو گرا پائیں گی۔
موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کو ایک کے بعد ایک کامیابی ملتی چلی جا رہی ہے اور اس حکومت کے لیے سب سے بڑا درد سر مہنگائی بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ پا رہی ،اس صورت میں اس میں کوئی اچنبے کی بات نہیں کہ پی ٹی آئی حکومت اگلے دو سال بھی نکال لے گی ۔
پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت تو اپوزیشن کا ہدف تھی ہی اس کے ساتھ ہی پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ بھی اپوزیشن کے نشانے پر تھے جنھیں کمزور قراردیتے ہوئے باقاعدہ طور پر مہم چلاتے ہوئے انھیں ان کے عہدوں سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی تھی لیکن اپوزیشن جماعتوں کو اپنی اس کوشش میں بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور نہ صرف یہ کہ عمران خان وزیراعظم کے طور پر موجود ہیں بلکہ محمود خان اور عثمان بزدار بھی اپنے عہدوں پر براجمان ہیں اورانھیں اپوزیشن کی جانب سے کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ دکھائی نہیں دے رہا۔
خیبرپختونخوا کی حکومت اور وزیراعلیٰ اگلے دو سالوں کے حوالے سے مضبوط منصوبہ بندی کیے ہوئے ہیں اور اگلے دو سالوں کے دوران ایسے کئی اقدامات اور کام کیے جائیں گے کہ جن کی وجہ سے وہ اپنے لیے 2023ء کے عام انتخابات میں کامیابی کی راہ ہموار کرنے میں کامیاب رہیں اوردوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کی کوئی ایسی پوزیشن بھی نہیں کہ وہ ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر پی ٹی آئی کا مقابلہ کر پائیں ۔
گزشتہ دو سے تین عام انتخابات کی صورت حال کوسامنے رکھاجائے تو یہ بات بالکل واضح اور صاف دکھائی دیتی ہے کہ سیاسی جماعتیں عام انتخابات کے لیے میدان میں اترتے وقت کئی زمینی حقائق کو نظر انداز کردیتی ہیں اورالیکشن سے قبل ہی ہر سیاسی پارٹی سب کچھ اپنا سمجھتے ہوئے معاملات کو اپنے ہاتھ کے نیچے رکھنے کی کوشش کرتی ہے جس کی وجہ سے مختلف جماعتوں کا آپس میں اتفاق ہوتا ہے نہ ہی اتحاد اور نتیجتاً فائدہ اس پارٹی کو پہنچتا ہے کہ جسے کہیں سے آشیر باد حاصل ہو اور اس وقت کی صورت حال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جن حالات سے دوچار ہیں۔
ان کی وجہ سے انھیں بہرکیف آشیر باد حاصل ہے نہ ہی فوری طور پر مستقبل قریب میں انھیں ایسی کوئی آشیر باد حاصل ہونے کے کوئی امکانات دکھائی دے رہے ہیں، ان حالات میں پی ٹی آئی ہی ایک آپشن کے طور پر اسٹیبلشمنٹ کی جیب میں موجود ہے اسی لیے خود پی ٹی آئی بھی یہی دعویٰ کر رہی ہے کہ اگلے پانچ سال بھی انہی کے ہوں گے۔
اگرچہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے حوالے سے یہ تاریخ رہی ہے کہ جس بھی پارٹی کی اسلام آباد میں حکومت ہو وہی پارٹی ان دونوں مقامات پر منعقد ہونے والے انتخابات میں بھی میدان مارتی ہے اور اس اعتبار سے آزاد کشمیر الیکشن کے نتائج پی ٹی آئی ہی کے حق میں آنے چاہئیں تھے اور ایسا ہی ہوا ہے۔
تاہم اپوزیشن کی دو جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی جانب سے آزاد کشمیر میں ایسی ہوا بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ جیسے وہاں کے نتائج ان ہی کے حق میں آئیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ یہ دونوں اپوزیشن جماعتیں، پی ٹی آئی کے علاوہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے خلاف مہم چلانے میں مصروف تھیں۔ یہ دونوں اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی چونکہ آزاد کشمیر میں حکومت کر چکی ہیں اس لیے ان کا وہاں پر اثرورسوخ بھی ہے اور اگر یہ دونوں جماعتیں مل کرتحریک انصاف کے خلاف میدان میں اترتیں تو ہو سکتا ہے کہ صورت حال مختلف ہوتی۔
تاہم یہ اندازہ تو اس وقت بھی لگایا جا رہا تھا کہ جب یہ دونوں جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھی تھیں،کہ جب کبھی انتخابی میدان سجا پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں مشترکہ طور پر میدان میں اترنے کی بجائے تنہا پرواز کریں گی اور کم ازکم پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن تو ہر صورت ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں گی اور اب تو چونکہ یہ دونوں جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر بھی اکٹھی نہیں رہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف مورچہ بند ہیں اس صورت میں فائدہ کسی اور کو نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف کو ہی پہنچنا تھا اور پی ٹی آئی نے کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھ لیا ہے اور اب کچھ ایسی ہی صورت حال آگے بلدیاتی اور پھر دو سال بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات میں بھی دکھائی دے رہی ہے۔
بلدیاتی انتخابات کا احوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اس کے انعقاد کی تیاریاں جاری رکھے ہوئے ہے اورخیبرپختونخوا کی کابینہ بھی ماہ ستمبر، اکتوبر میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی منظوری دے چکی ہے، تاہم اس وقت جو کچھ افغانستان میں ہو رہا ہے اور پھر کورونا کی چوتھی لہر جس طریقہ سے اپنا زور دکھا رہی ہے۔
اس کی وجہ سے خیبرپختونخوا کی پی ٹی آئی حکومت کو یہ تجویز دی گئی ہے کہ ان حالات میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نقصان دہ ہو سکتا ہے کیونکہ ایک جانب اگر افغانستان میں جاری خانہ جنگی کے اثرات پاکستان پر مرتب ہونا شروع ہوتے ہیں تو اس سے سب سے زیادہ اور کوئی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا ہی متاثر ہوگا کیونکہ پہلے پاکستان اورافغانستان کے درمیان بفر زون کے طور پر قبائلی علاقہ جات موجود تھے لیکن اب ایسی کوئی رکاوٹ نہیں رہی بلکہ خیبرپختونخوا کی حدود بین الاقوامی سرحدوں تک جا پہنچی ہیں اور یہ صوبہ طورخم بارڈر کے ذریعے افغانستان سے جڑا ہوا ہے۔
اس لیے افغانستان کی صورت حال کے اثرات براہ راست اگر مرتب ہونگے تو خیبرپختونخوا پر ہی ہونگے۔اور جہاں تک کوروناکی چوتھی لہر کا تعلق ہے تو یہ لہر جاری ہے جس کی وجہ سے مشکلات موجود ہیں اور اگر ان حالات میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے جس کے لیے گلی ،گلی، محلہ ،محلہ انتخابی مہم چلے گی اور عوام اس میں شامل ہونگے تو اس صورت حال کی وجہ سے کورونا کے مزید پھیلنے کے امکانات ہیں۔
اس تجویز سے صوبائی حکومت تو اتفاق کرتی ہے تاہم صورت حال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین اور وزیراعظم پاکستان عمران خان ہر صورت بلدیاتی انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں اس لیے صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی تیاری جاری رکھے ہوئے ہے تاہم اس کے ساتھ ہی یہ بھی فیصلہ ہوا ہے کہ وزیراعظم کو افغانستان اور کورونا صورت حال کے حوالے سے ایک تفصیلی بریفنگ دی جائے گی اور اگر اس کے باوجود بھی وزیراعظم بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر مصر رہے تو اس صورت میں بلدیاتی انتخابات منعقد کرائے جائیں گے بصورت دیگر انھیں ایک سال کے لیے ملتوی کر دیا جائے گا ،بلدیاتی انتخابات اس سال منعقد ہوتے ہیں یا اگلے سال ، تاہم دکھائی یہی دے رہا ہے کہ اپوزیشن سیاسی جماعتیں بمشکل ہی ایک ہو پائیں گی ۔
یہ ہو سکتا ہے کے کوئی دو پارٹیاں ایک ہوجائیں یا پھر اپوزیشن جماعتوں ہی کے ایک سے زائد اتحاد تشکیل پائیں تاہم اس بات کے قطعی طور پر کوئی امکانات دکھائی نہیں دے رہے ہیں کہ تمام اپوزیشن جماعتیں یکجا ہوکر بلدیاتی انتخابات کے میدان میں اتریں اور پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دیں جس کا فائدہ یقینی طور پر کسی اور کو نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف ہی کو ہوگا جو اپوزیشن جماعتوں کے اس عدم اتفاق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میدان مارنے کی کوشش کرے گی اور رہی بات عام انتخابات کی تو عام انتخابات کا انعقاد ابھی دو سال بعد ہونا ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جو حکومت مخالف تحریک لیے چل رہی ہیں اس کے نتیجے میں کسی بھی طور یہ دکھائی نہیں دیتا کہ اپوزیشن جماعتیں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو گرا پائیں گی۔
موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کو ایک کے بعد ایک کامیابی ملتی چلی جا رہی ہے اور اس حکومت کے لیے سب سے بڑا درد سر مہنگائی بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ پا رہی ،اس صورت میں اس میں کوئی اچنبے کی بات نہیں کہ پی ٹی آئی حکومت اگلے دو سال بھی نکال لے گی ۔
پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت تو اپوزیشن کا ہدف تھی ہی اس کے ساتھ ہی پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ بھی اپوزیشن کے نشانے پر تھے جنھیں کمزور قراردیتے ہوئے باقاعدہ طور پر مہم چلاتے ہوئے انھیں ان کے عہدوں سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی تھی لیکن اپوزیشن جماعتوں کو اپنی اس کوشش میں بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور نہ صرف یہ کہ عمران خان وزیراعظم کے طور پر موجود ہیں بلکہ محمود خان اور عثمان بزدار بھی اپنے عہدوں پر براجمان ہیں اورانھیں اپوزیشن کی جانب سے کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ دکھائی نہیں دے رہا۔
خیبرپختونخوا کی حکومت اور وزیراعلیٰ اگلے دو سالوں کے حوالے سے مضبوط منصوبہ بندی کیے ہوئے ہیں اور اگلے دو سالوں کے دوران ایسے کئی اقدامات اور کام کیے جائیں گے کہ جن کی وجہ سے وہ اپنے لیے 2023ء کے عام انتخابات میں کامیابی کی راہ ہموار کرنے میں کامیاب رہیں اوردوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کی کوئی ایسی پوزیشن بھی نہیں کہ وہ ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر پی ٹی آئی کا مقابلہ کر پائیں ۔
گزشتہ دو سے تین عام انتخابات کی صورت حال کوسامنے رکھاجائے تو یہ بات بالکل واضح اور صاف دکھائی دیتی ہے کہ سیاسی جماعتیں عام انتخابات کے لیے میدان میں اترتے وقت کئی زمینی حقائق کو نظر انداز کردیتی ہیں اورالیکشن سے قبل ہی ہر سیاسی پارٹی سب کچھ اپنا سمجھتے ہوئے معاملات کو اپنے ہاتھ کے نیچے رکھنے کی کوشش کرتی ہے جس کی وجہ سے مختلف جماعتوں کا آپس میں اتفاق ہوتا ہے نہ ہی اتحاد اور نتیجتاً فائدہ اس پارٹی کو پہنچتا ہے کہ جسے کہیں سے آشیر باد حاصل ہو اور اس وقت کی صورت حال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جن حالات سے دوچار ہیں۔
ان کی وجہ سے انھیں بہرکیف آشیر باد حاصل ہے نہ ہی فوری طور پر مستقبل قریب میں انھیں ایسی کوئی آشیر باد حاصل ہونے کے کوئی امکانات دکھائی دے رہے ہیں، ان حالات میں پی ٹی آئی ہی ایک آپشن کے طور پر اسٹیبلشمنٹ کی جیب میں موجود ہے اسی لیے خود پی ٹی آئی بھی یہی دعویٰ کر رہی ہے کہ اگلے پانچ سال بھی انہی کے ہوں گے۔