مظلومِ مدینہ سیدنا عثمان بن عفان ؓ پہلا حصہ
اللہ رب العزت کے امت پر بیشمار احسانات ہیں، جن کا شمار انسانی عقل کے بس کی بات نہیں۔
آج 18ذوالحجہ ہے، آج کے دن تاریخ اسلام کی سب سے مظلوم شہادت کا واقعہ رونما ہوا۔یہ شہادت داماد مصطفی، خلیفۃ المسلمین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تھی۔میرا ایمان اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میں آج کے دن عالم اسلام کی اس عظیم ہستی کو چھوڑ کر کسی اور موضوع پر لکھوں۔
اللہ رب العزت کے امت پر بیشمار احسانات ہیں، جن کا شمار انسانی عقل کے بس کی بات نہیں۔ پروردگار عالم کے ان بے شمار احسانات میں سے ایک احسان یہ بھی ہے کہ اس نے ہمیں ایسی عظیم ہستیاں عطا فرمائیں جن کے مقام و مرتبہ کا احاطہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔
جن کی زندگیوں کا ہر ہر گوشہ ہمارے لیے روشن مینار کی حیثیت رکھتا ہے۔انھی عظیم ہستیوں میں ایک چمکتا دمکتا نام سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی ہے۔ وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جنھیں دو لقب ملے ایک ذوالنورین اور دوسرا غنی۔ وہ عثمان بن عفانؓ جنھیں دو کنیت ملیں ایک ابوعبداللہ اور دوسری ابو عمرو۔ وہ عثمان بن عفانؓ جن کا سلسلہ نسب پانچویں نمبر پر جاکر رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتا ہے۔
وہ عثمان بن عفانؓ جن کا تعلق قریش کی مشہور شاخ بنی امیہ سے ہے۔ وہ عثمان بن عفانؓ جن کا خاندان اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد دونوں زمانوں میں معزز و محترم تھا۔ وہ عثمان بن عفانؓ جن کا شمار عشرہ مبشرہ صحابہؓ میں تھا۔ وہ عثمان بن عفانؓ جن کا شمار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب شوریٰ میں ہوتا تھا۔ وہ عثمان بن عفانؓ جن کے لیے کامل الحیاء و الایمان کے الفاظ استعمال ہوئے جن کے بارے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ عثمان سے آسمان کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب نبوت و رسالت سے نوازا گیا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی تحریک پر آپؓ اسلام کی روشنی سے منور ہوئے، آپ اسلام لانے والے چوتھے مرد تھے۔ حضرت عثمان بن عفانؓ دولت و ثروت کے اعتبار سے تمام صحابہ کرامؓ پر ممتاز تھے، لیکن آپ نے اپنی دولت و ثروت کو کبھی اپنے عیش و آرام کا ذریعہ نہ بنایا جب بھی ضرورت پڑی آپ کی دولت ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے کام آئی۔
جب آقا کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے جانثار صحابہ کرامؓ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو وہاں میٹھے پانی کی سخت تکلیف تھی، پوری بستی میں میٹھے پانی کا صرف ایک ہی کنواں تھا جو کسی یہودی کی ملکیت تھا اور وہ پانی فروخت کرتا تھا، غریب مسلمان قیمت ادا کرکے پانی نہیں پی سکتے تھے، اس صورتحال میں حضرت عثمان بن عفانؓ آگے بڑھے اور 24ہزار درہم کی ادائیگی کرکے کنواں مسلمانوں کے لیے وقف کردیا۔ مدینہ کی بستی میں آقا کریم نے مسجد نبوی کی بنیاد رکھی، ابتدا میں جب مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا تو یہ چھوٹی سی مسجد مسلمانوں کے لیے ناکافی ہوگئی۔
آقا کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے خطبہ نماز جمعہ میں ارشاد فرمایا جو شخص مسجد سے ملے ہوئے گھر خرید کر مسجد میں شامل کرے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں گھر عطا فرمائے گا اور اس کے گناہ معاف کردے گا۔ ایک بار پھر حضرت عثمان بن عفانؓ آگے بڑھے اور پچیس ہزار اشرفیوں کے عوض وہ تمام گھر خرید کر مسجد میں شامل کردیے۔ اسی طرح جب غزوہ تبوک میں اسلامی لشکر دشمنان اسلام کے مقابل مصیبت کا شکار ہوا اور اشیائے خور و نوش کی قلت پیدا ہوگئی تو آپؓ نے غلہ کے منہ کھول دیے اور آقا کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں سامان کا ڈھیر لگا دیا۔ جس پر آقا کریم نے آسمان کی جانب ہاتھ بلند کرکے دعا فرمائی ''اے اللہ! میں عثمان سے راضی ہوگیا ہوں تو بھی راضی ہوجا۔ ''
مکہ سے مدینہ ہجرت کے بعد چھ سال تک مسلمان خانہ کعبہ کی زیارت کو مکہ نہ جاسکے۔ 6ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چودہ سو صحابہ کرام کے ہمراہ فریضہ حج ادا کرنے کے لیے مدینہ سے روانہ ہوئے۔ مشرکین مکہ نے تہیہ کر لیا تھا کہ مسلمانوں کو حج نہ کرنے دیں گے۔
آقاکریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر قیام کیا۔ جومکہ معظمہ سے نو میل کے فاصلہ پر ہے اور اہل مکہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمارا مقصد جنگ کرنا نہیں، ہم حج کرنے آئے ہیں لیکن قریش مکہ کے ساتھ تمام بات چیت بے سود ثابت ہوئی۔ آخر آقا کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سفیر بنا کر بھیجا کہ وہ قریش سے بات چیت کریں۔
قریش نے حضرت عثمان کو مکے میں روک لیا۔ اس سے مسلمانوں کو خدشہ پیدا ہو گیا کہ کہیں حضرت عثمان کو شہید نہ کر دیا گیا ہو۔ آقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر تمام جانثاروں سے بیعت لی کہ جب تک عثمان کے خون کا بدلہ نہیں لیں گے اس جگہ سے نہیں ہلیں گے۔
مرتے دم تک آقاکریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ دیں گے۔ اس بیعت کو بیعت الرضوان کہتے ہیں اور وہ درخت شجرء الرضوان کہلاتا ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ الفتح میں اس واقعے کی طرف اشارہ موجود ہے۔ جب خلیفہ ثانی، مراد حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد آپ نے خلافت سنبھالی تو بنیادی طور پر نظام حکومت اسی نہج پر چلایا جس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ چلا رہے تھے۔ عرب کا اتنا بڑا تاجر جب خلافت کے منصب پر آتا ہے تو حال یہ ہوتا ہے کہ خود فرماتے ہیں کہ جس وقت میں خلیفہ بنایا گیا اس وقت میں عرب میں سب سے زیادہ اونٹوں اور بکریوں کا مالک تھا اور آج میرے پاس سوائے ان دو اونٹوں کے کچھ بھی نہیں جو میں نے حج کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔
آپ کی زندگی میں کوئی ایک واقعہ ایسا نہیں ملتا جس سے یہ معلوم ہو کہ آپ نے اپنے مال و دولت کو اپنی یا اپنے اہل و عیال کی راحت، آسائش اور عیش کا ذریعہ بنایا ہو۔ ہر موقعے پر آپ کی دولت و فراخی اسلام اور مسلمانوں کو سہارا دیتی نظر آئی۔ آپ کے دور خلافت میں لاتعداد فتوحات ہوئیں اور اسلامی سلطنت وسیع سے وسیع تر ہوگئی۔
(جاری ہے)
اللہ رب العزت کے امت پر بیشمار احسانات ہیں، جن کا شمار انسانی عقل کے بس کی بات نہیں۔ پروردگار عالم کے ان بے شمار احسانات میں سے ایک احسان یہ بھی ہے کہ اس نے ہمیں ایسی عظیم ہستیاں عطا فرمائیں جن کے مقام و مرتبہ کا احاطہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔
جن کی زندگیوں کا ہر ہر گوشہ ہمارے لیے روشن مینار کی حیثیت رکھتا ہے۔انھی عظیم ہستیوں میں ایک چمکتا دمکتا نام سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی ہے۔ وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جنھیں دو لقب ملے ایک ذوالنورین اور دوسرا غنی۔ وہ عثمان بن عفانؓ جنھیں دو کنیت ملیں ایک ابوعبداللہ اور دوسری ابو عمرو۔ وہ عثمان بن عفانؓ جن کا سلسلہ نسب پانچویں نمبر پر جاکر رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتا ہے۔
وہ عثمان بن عفانؓ جن کا تعلق قریش کی مشہور شاخ بنی امیہ سے ہے۔ وہ عثمان بن عفانؓ جن کا خاندان اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد دونوں زمانوں میں معزز و محترم تھا۔ وہ عثمان بن عفانؓ جن کا شمار عشرہ مبشرہ صحابہؓ میں تھا۔ وہ عثمان بن عفانؓ جن کا شمار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب شوریٰ میں ہوتا تھا۔ وہ عثمان بن عفانؓ جن کے لیے کامل الحیاء و الایمان کے الفاظ استعمال ہوئے جن کے بارے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ عثمان سے آسمان کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب نبوت و رسالت سے نوازا گیا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی تحریک پر آپؓ اسلام کی روشنی سے منور ہوئے، آپ اسلام لانے والے چوتھے مرد تھے۔ حضرت عثمان بن عفانؓ دولت و ثروت کے اعتبار سے تمام صحابہ کرامؓ پر ممتاز تھے، لیکن آپ نے اپنی دولت و ثروت کو کبھی اپنے عیش و آرام کا ذریعہ نہ بنایا جب بھی ضرورت پڑی آپ کی دولت ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے کام آئی۔
جب آقا کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے جانثار صحابہ کرامؓ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو وہاں میٹھے پانی کی سخت تکلیف تھی، پوری بستی میں میٹھے پانی کا صرف ایک ہی کنواں تھا جو کسی یہودی کی ملکیت تھا اور وہ پانی فروخت کرتا تھا، غریب مسلمان قیمت ادا کرکے پانی نہیں پی سکتے تھے، اس صورتحال میں حضرت عثمان بن عفانؓ آگے بڑھے اور 24ہزار درہم کی ادائیگی کرکے کنواں مسلمانوں کے لیے وقف کردیا۔ مدینہ کی بستی میں آقا کریم نے مسجد نبوی کی بنیاد رکھی، ابتدا میں جب مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا تو یہ چھوٹی سی مسجد مسلمانوں کے لیے ناکافی ہوگئی۔
آقا کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے خطبہ نماز جمعہ میں ارشاد فرمایا جو شخص مسجد سے ملے ہوئے گھر خرید کر مسجد میں شامل کرے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں گھر عطا فرمائے گا اور اس کے گناہ معاف کردے گا۔ ایک بار پھر حضرت عثمان بن عفانؓ آگے بڑھے اور پچیس ہزار اشرفیوں کے عوض وہ تمام گھر خرید کر مسجد میں شامل کردیے۔ اسی طرح جب غزوہ تبوک میں اسلامی لشکر دشمنان اسلام کے مقابل مصیبت کا شکار ہوا اور اشیائے خور و نوش کی قلت پیدا ہوگئی تو آپؓ نے غلہ کے منہ کھول دیے اور آقا کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں سامان کا ڈھیر لگا دیا۔ جس پر آقا کریم نے آسمان کی جانب ہاتھ بلند کرکے دعا فرمائی ''اے اللہ! میں عثمان سے راضی ہوگیا ہوں تو بھی راضی ہوجا۔ ''
مکہ سے مدینہ ہجرت کے بعد چھ سال تک مسلمان خانہ کعبہ کی زیارت کو مکہ نہ جاسکے۔ 6ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چودہ سو صحابہ کرام کے ہمراہ فریضہ حج ادا کرنے کے لیے مدینہ سے روانہ ہوئے۔ مشرکین مکہ نے تہیہ کر لیا تھا کہ مسلمانوں کو حج نہ کرنے دیں گے۔
آقاکریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر قیام کیا۔ جومکہ معظمہ سے نو میل کے فاصلہ پر ہے اور اہل مکہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمارا مقصد جنگ کرنا نہیں، ہم حج کرنے آئے ہیں لیکن قریش مکہ کے ساتھ تمام بات چیت بے سود ثابت ہوئی۔ آخر آقا کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سفیر بنا کر بھیجا کہ وہ قریش سے بات چیت کریں۔
قریش نے حضرت عثمان کو مکے میں روک لیا۔ اس سے مسلمانوں کو خدشہ پیدا ہو گیا کہ کہیں حضرت عثمان کو شہید نہ کر دیا گیا ہو۔ آقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر تمام جانثاروں سے بیعت لی کہ جب تک عثمان کے خون کا بدلہ نہیں لیں گے اس جگہ سے نہیں ہلیں گے۔
مرتے دم تک آقاکریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ دیں گے۔ اس بیعت کو بیعت الرضوان کہتے ہیں اور وہ درخت شجرء الرضوان کہلاتا ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ الفتح میں اس واقعے کی طرف اشارہ موجود ہے۔ جب خلیفہ ثانی، مراد حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد آپ نے خلافت سنبھالی تو بنیادی طور پر نظام حکومت اسی نہج پر چلایا جس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ چلا رہے تھے۔ عرب کا اتنا بڑا تاجر جب خلافت کے منصب پر آتا ہے تو حال یہ ہوتا ہے کہ خود فرماتے ہیں کہ جس وقت میں خلیفہ بنایا گیا اس وقت میں عرب میں سب سے زیادہ اونٹوں اور بکریوں کا مالک تھا اور آج میرے پاس سوائے ان دو اونٹوں کے کچھ بھی نہیں جو میں نے حج کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔
آپ کی زندگی میں کوئی ایک واقعہ ایسا نہیں ملتا جس سے یہ معلوم ہو کہ آپ نے اپنے مال و دولت کو اپنی یا اپنے اہل و عیال کی راحت، آسائش اور عیش کا ذریعہ بنایا ہو۔ ہر موقعے پر آپ کی دولت و فراخی اسلام اور مسلمانوں کو سہارا دیتی نظر آئی۔ آپ کے دور خلافت میں لاتعداد فتوحات ہوئیں اور اسلامی سلطنت وسیع سے وسیع تر ہوگئی۔
(جاری ہے)