بیرون ملک فرار روکنے کیلیے ظاہر جعفر کے والدین کا نام بلیک لسٹ کرنے کی سفارش
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق نے ملزمان کے نام پرویژنل نیشنل آئیڈنٹی فکیشن لسٹ میں شامل کرنے کی سفارش کردی
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق نے نور مقدم کیس میں ملزم ظاہر جعفر کے والدین کو بیرون ملک فرار سے روکنے کے لیے نام پرویژنل نیشنل آئیڈنٹی فیکیشن لسٹ (پی این آئی ایل) میں شامل کرنے کی سفارش کردی۔
بدھ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین ولید اقبال کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں اسلام آباد پولیس کی جانب سے کمیٹی کو بریفنگ دی گئی۔ اجلاس کے دوران کمیٹی ارکان نے ملزم کے والدین کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کی سفارش کی۔
وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ ای سی ایل میں نام شامل کرنے کا طریقہ کار میں وقت لگ لگ سکتا ہے چونکہ تحقیقاتی ایجنسی کابینہ کو سمری بھیجی گی اور کابینہ سے سمری منظور ہونے کے بعد ای سی ایل میں شامل کیا جا سکتا ہے اس لیے بیرون ملک سفر کرنے سے روکنے کے لیے ان کا نام فوری طور پر پی این آئی ایل میں شامل کرنے کی سفارش کردی جائے گی۔
کمیٹی کو انسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس کی جانب سے سفارش کی گئی کہ بریفنگ کو ان کیمرا رکھ دیا گیا تاہم ابتدائی بریفنگ صحافیوں کی موجودگی میں ہی دی گئی۔
ایس ایس پی انویسٹی گیشن عطا الرحمن نے کمیٹی کو بتایا کہ 20 جولائی کو رات 8 بجے ملزم کو گرفتار کیا گیا اور جائے وقوع سے ہی لاش برآمد ہوئی، ابتدائی تفتیش سے ملزم ظاہر جعفر اور ان کے والدین کے درمیان وقوعے کے وقت موبائل پر رابطے ہونے کی تصدیق ہوئی ہے جس کی بنیاد پر والدین کو گرفتار کیا گیا تاہم ان کے درمیان کیا گفتگو ہوئی اس بارے ابھی تفتیش جاری ہے۔
ایس ایس پی انوسٹی گیشن نے دوران بریفنگ بتایا کہ پولیس سے قبل تھیراپی ورکرز جائے وقوع پر پہنچے تھے اور ملزم ظاہر جعفر نے تھیراپی سینٹر کے ایک اہلکار کو چاقو سے شدید زخمی بھی کیا جس کے باعث اہل کار کی سرجری ہوئی ہے اور ابھی تک اس کا بیان ریکارڈ نہیں ہوا۔
کمیٹی کے رکن مشاہد حسین سید نے سوال کیا کہ تھیراپی سینٹر کے اہل کاروں کو اطلاع کس نے دی؟ جس پر شیریں مزاری نے جواب دیا کہ ان کی وزارت تفتیشی ٹیم کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے اور ملزم کی والدہ کو گھریلو ملازم نے واقعے کا بتایا اور والدہ نے تھیراپی سینٹر کال کر کے اطلاع دی جہاں سے پانچ اہلکار ملزم کے گھر پہنچے اور تھیراپی ورکس والوں نے پولیس کو اطلاع دی۔
سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے اعتراض اٹھایا کہ حساس نوعیت کی معلومات منظر عام پر آرہی ہیں جس سے تفتیش متاثر ہو سکتی ہے اس لیے بہتر ہے کمیٹی کی بریفنگ کو ان کیمرا ہی کرلیا جائے۔
شیری مزاری نے کہا کہ میں متاثرہ خاندان سے ملاقات کرچکی ہوں اور وہ اس کیس کی میڈیا کوریج سے خاندان کی پرائیویسی متاثر ہونے کا شکوہ کر رہے ہیں جس کے بعد کمیٹی نے پولیس سے ان کیمرا بریفنگ حاصل کی۔
ملزم دماغی طور پر صحت مند انسان ہے، سینیٹر مشاہد حسین
بریفنگ کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کمیٹی کے رکن سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ملزم کے والدین کو گھر کے ملازم نے نور مقدم پر تشدد کی اطلاع اس وقت دی تھی جب اس نے فرسٹ فلور سے چھلانگ لگائی، والدین نے بجائے پولیس کو اطلاع دینے کے تھیراپی سینٹر کو کال کی، اگر پولیس کو اطلاع دی جاتی تو شاید بچی کی زندگی بچائی جاسکتی تھی، والدین نے پولیس کو اطلاع نہ دے کر غفلت برتی۔
مشاہد حسین کے مطابق بریفنگ میں ملزم ظاہر جعفر کے ذہنی صحت خراب ہونے سے متعلق کوئی بات نہیں بتائی گئی اور جو بریفنگ دی گئی ہے اس کے مطابق ملزم ہوش و حواس میں ہے اور دماغی طور پر صحت مند انسان ہے۔
مشاہد حسین سید نے بتایا کہ کمیٹی ارکان کی جانب سے خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اس کیس میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی جائیں تاہم پولیس کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اس کیس میں دہشت گردی کے دفعات شامل نہیں کی جاسکتیں۔
بدھ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین ولید اقبال کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں اسلام آباد پولیس کی جانب سے کمیٹی کو بریفنگ دی گئی۔ اجلاس کے دوران کمیٹی ارکان نے ملزم کے والدین کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کی سفارش کی۔
وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ ای سی ایل میں نام شامل کرنے کا طریقہ کار میں وقت لگ لگ سکتا ہے چونکہ تحقیقاتی ایجنسی کابینہ کو سمری بھیجی گی اور کابینہ سے سمری منظور ہونے کے بعد ای سی ایل میں شامل کیا جا سکتا ہے اس لیے بیرون ملک سفر کرنے سے روکنے کے لیے ان کا نام فوری طور پر پی این آئی ایل میں شامل کرنے کی سفارش کردی جائے گی۔
کمیٹی کو انسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس کی جانب سے سفارش کی گئی کہ بریفنگ کو ان کیمرا رکھ دیا گیا تاہم ابتدائی بریفنگ صحافیوں کی موجودگی میں ہی دی گئی۔
ایس ایس پی انویسٹی گیشن عطا الرحمن نے کمیٹی کو بتایا کہ 20 جولائی کو رات 8 بجے ملزم کو گرفتار کیا گیا اور جائے وقوع سے ہی لاش برآمد ہوئی، ابتدائی تفتیش سے ملزم ظاہر جعفر اور ان کے والدین کے درمیان وقوعے کے وقت موبائل پر رابطے ہونے کی تصدیق ہوئی ہے جس کی بنیاد پر والدین کو گرفتار کیا گیا تاہم ان کے درمیان کیا گفتگو ہوئی اس بارے ابھی تفتیش جاری ہے۔
ایس ایس پی انوسٹی گیشن نے دوران بریفنگ بتایا کہ پولیس سے قبل تھیراپی ورکرز جائے وقوع پر پہنچے تھے اور ملزم ظاہر جعفر نے تھیراپی سینٹر کے ایک اہلکار کو چاقو سے شدید زخمی بھی کیا جس کے باعث اہل کار کی سرجری ہوئی ہے اور ابھی تک اس کا بیان ریکارڈ نہیں ہوا۔
کمیٹی کے رکن مشاہد حسین سید نے سوال کیا کہ تھیراپی سینٹر کے اہل کاروں کو اطلاع کس نے دی؟ جس پر شیریں مزاری نے جواب دیا کہ ان کی وزارت تفتیشی ٹیم کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے اور ملزم کی والدہ کو گھریلو ملازم نے واقعے کا بتایا اور والدہ نے تھیراپی سینٹر کال کر کے اطلاع دی جہاں سے پانچ اہلکار ملزم کے گھر پہنچے اور تھیراپی ورکس والوں نے پولیس کو اطلاع دی۔
سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے اعتراض اٹھایا کہ حساس نوعیت کی معلومات منظر عام پر آرہی ہیں جس سے تفتیش متاثر ہو سکتی ہے اس لیے بہتر ہے کمیٹی کی بریفنگ کو ان کیمرا ہی کرلیا جائے۔
شیری مزاری نے کہا کہ میں متاثرہ خاندان سے ملاقات کرچکی ہوں اور وہ اس کیس کی میڈیا کوریج سے خاندان کی پرائیویسی متاثر ہونے کا شکوہ کر رہے ہیں جس کے بعد کمیٹی نے پولیس سے ان کیمرا بریفنگ حاصل کی۔
ملزم دماغی طور پر صحت مند انسان ہے، سینیٹر مشاہد حسین
بریفنگ کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کمیٹی کے رکن سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ملزم کے والدین کو گھر کے ملازم نے نور مقدم پر تشدد کی اطلاع اس وقت دی تھی جب اس نے فرسٹ فلور سے چھلانگ لگائی، والدین نے بجائے پولیس کو اطلاع دینے کے تھیراپی سینٹر کو کال کی، اگر پولیس کو اطلاع دی جاتی تو شاید بچی کی زندگی بچائی جاسکتی تھی، والدین نے پولیس کو اطلاع نہ دے کر غفلت برتی۔
مشاہد حسین کے مطابق بریفنگ میں ملزم ظاہر جعفر کے ذہنی صحت خراب ہونے سے متعلق کوئی بات نہیں بتائی گئی اور جو بریفنگ دی گئی ہے اس کے مطابق ملزم ہوش و حواس میں ہے اور دماغی طور پر صحت مند انسان ہے۔
مشاہد حسین سید نے بتایا کہ کمیٹی ارکان کی جانب سے خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اس کیس میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی جائیں تاہم پولیس کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اس کیس میں دہشت گردی کے دفعات شامل نہیں کی جاسکتیں۔