مظلومِ مدینہ سیدنا عثمان بن عفان ؓ دوسرا اور آخری حصہ
عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں سلطنتِ اسلامی کافی وسیع ہو چکی تھی
خلافت کے صدیقی دور میں کیونکہ اسلامی سلطنت اتنی وسیع نہیں تھی اس لیے کنٹرول مظبوط رہا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سلطنت کو وسعت ملی مگر امورِ سلطنت چلانے میں اور بغاوت کے سر نہ اٹھانے کے معاملے میں اْن کی سختی کام آئی لہٰذا اس دور میں کسی کو بغاوت کی ہمت نہ ہوئی۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں سلطنتِ اسلامی کافی وسیع ہو چکی تھی، قریش کے علاوہ جن لوگوں کی تلواروں کی وجہ سے دور دور کے علاقے فتح ہوئے تھے، وہ بھی اب اپنے آپ کو خلافت کا حقدار سمجھنے لگے۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی حلیم الطبعی کی وجہ سے اْن کی خلافت کے خلاف شورشیں سر اٹھانے لگیں۔
ایسی سازش کا سرغنہ عبداللہ بن سبا یہودی تھا جس نے اسلام کا لبادہ اْڑھ رکھا تھا۔ اس نے مختلف انداز سے آپ کی خلافت کو داغدار کرنے کی کوشش کی۔ اس نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر اقرباء پروری کا الزام لگایا۔ مختلف گورنروں کے خلاف وہاں کی عوام سے جھوٹے خطوط لکھوا دیے کہ خلافتِ عثمانؓ کے گورنرز عوام پر ظلم کرتے ہیں۔ اس پر بزرگ صحابہ کرام پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی بنی جس نے متعلقہ علاقوں میں جا کر تحقیق کی مگر یہ فواہ ہر طرح سے جھوٹ ثابت ہوئی۔
حج کے موقع پر آپ رضی اللہ عنہ کے گورنروں نے سازشیوں کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا مشورہ دیا مگر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس امت کے لیے جس فتنے کا خوف ہے وہ آ کر رہے گا، اگرچہ اس کا دروازہ سختی سے بند کر دیا جائے، لہٰذا میں اس دروازے کو نرمی سے بند کروں گا، البتہ حق تعالیٰ کی حدود میں ہر گز نرمی نہیں برتوں گا، بے شک فتنے کی چکی چلنے والی ہے۔ اگر عثمان اس حالت میں مر گیا کہ اس نے اس چکی کو حرکت نہیں دی تو یہ عثمان کے لیے خوشخبری ہے۔
وہی ہو اجس کا ڈر تھا، باغیوں کا پانچ سو پر مشتمل قافلہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے معزولی کا مطالبہ کرنے مدینہ کے لیے روانہ ہوا۔ سیدنا عثمان نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان کے ساتھ مذکرات کے لیے بھیجا مگر وہ اپنے عزائم سے باز نہ آئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف وہی الزامات دہرائے جو پہلے بیان کیے جا چکے ہیں۔
اشرار کے اس وفدکو آخر مسجدِ نبوی میں طلب کیا گیا جہاں اہلِ مدینہ بار بار ان کے قتل کا مشورہ دیتے مگر سیدنا عثمان نے انھیں معاف کردیا اور ان لوگوں نے اپنے اپنے علاقوں میں واپس جانے میں عافیت سمجھی۔جب ابن سبا کو معلوم ہوا کہ ہماری سازش ناکام ہو گئی ہے تو اس بدبخت نے دوسری سازش یہ تیار کی کہ ہر صوبے کے باغی مدینہ کے مضافات میں جمع ہوں اور پھر یک مشت مدینہ میں داخل ہو کر سیدنا عثمان کی معزولی کا مطالبہ کریں اور مطالبہ پورا ہونے تک وہاں سے واپس نہ آئیں مگر اْنہیں اس بار بھی مدینہ سے ناکام لوٹنا پڑا۔
بظاہر باغی مدینہ سے باہر نکل آئے مگر وہ وہاں سے نکلنے کا بہانا کر کے آس پاس رہ کر سازش تیار کر رہے تھے، کہ ایک دن اہلِ مدینہ نے مدینہ کی گلیوں میں گھوڑے دوڑنے کی آوازیں سنیں، جب دیکھا تو وہ باغی تھے جو اہلِ مدینہ سے کہہ رہے تھے اگر امان چاہتے ہو تو ہاتھ اٹھا لو۔ اہلِ مدینہ یہ سمجھ کر کہ مدینہ میں خون ریزی نہ ہو، گھروں میں چلے گئے۔ اس کے بعد باغیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا گھیراؤ کر لیا۔
چالیس روز تک آپ کو قصرِ خلافت میں محصور رکھا گیا حتیٰ کہ بعد میں مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی آپ کو روک دیا گیا تھا۔ بئرِ رومہ خرید کراہلِ مدینہ کے لیے میٹھے پانی کا بندوبست کرنے والے کا پانی باغیوں نے بند کر دیا۔ جن کے مال و دولت سے صرف جنگِ تبوک کے لشکر میں سے بارہ ہزار افراد کے کھانے پینے اور سواری کا بندوبست ہو اور جن کی سخاوت پورے عرب میں مشہور تھی، آج اس مہربان کا کھانا بند کر دیا گیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف سے بار بار باغیوں کے قتال کی اجازت طلب کرنے کے باوجود آپ نے انھیں سختی سے منع کیا اور فرمایا: میں تمہیں جنت کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے جہنم کی طرف بلاتے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے عہد لیا ہے جسے میں پورا کروں گا۔
اس وقت میرا سب سے بڑا حمایتی وہ ہے جو میری حمایت میں تلوار نہ اٹھائے۔ باغیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا چالیس دن تک محاصرہ کر کے 18 ذوالحج 35ہجری بروز جمعہ تقریباً نماز عصر کے وقت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔
آپ کا صبر اور باغیوں کے مقابلے سے صحابہ کو روکنا ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو اپنی شہادت کا یقین تھا کیونکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبل ثبیر کو یہ کہہ کر لرزنے سے سکون دلایا تھا کہ تمہارے اوپر ایک رسول، ایک صدیق اور دو شہید کھڑے ہیں اور وہ دو شہید سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ نے 82 سال کی عمر پائی۔
حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خون میں لت پت پڑے ہوئے تھے اور آپ کی زبان پر اللہ کے حضور یہ دعا جاری تھی:
اے اللہ امت محمدیہ کو باہمی اتفاق نصیب فرما۔
بقول شاعر
وہ سیرت و صورت میں نمونہ مصطفی کا تھا
وہ ہر پہلو چمکتا تھا کہ آئینہ حیا کا تھا
وہ ٹھنڈک بانٹتا تھا لمحہ لمحہ اپنی صبح کی
وہ خوشبوؤں میں لپٹا ہوا جھونکا صبا کا تھا
کھلا رہتا تھا ہر ایک آدمی کے واسطے ہر دم
وہ قلعہ تھا محبت کا وہ دروازہ وفا کا تھا
ابوبکرؓ و عمرؓ کی جانشینی اس کو سجتی تھی
وہ حاصل ہر تمنا کا وہ حاصل ہر دعا کا تھا
وہ کیسے موڑ لیتا اپنا منہ شہادت سے
وہ پروانہ رسالت کا وہ دیوانہ خدا کا تھا
زمانہ کرسکا نہ پیدا کوئی ایسا غنی پھر انجم
وہ اک دریا اخوت کا وہ عطیہ ایک خدا کا تھا
رَّضِیَ اللہْ عَنہْم وَرَضْوا عَنہْ
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں سلطنتِ اسلامی کافی وسیع ہو چکی تھی، قریش کے علاوہ جن لوگوں کی تلواروں کی وجہ سے دور دور کے علاقے فتح ہوئے تھے، وہ بھی اب اپنے آپ کو خلافت کا حقدار سمجھنے لگے۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی حلیم الطبعی کی وجہ سے اْن کی خلافت کے خلاف شورشیں سر اٹھانے لگیں۔
ایسی سازش کا سرغنہ عبداللہ بن سبا یہودی تھا جس نے اسلام کا لبادہ اْڑھ رکھا تھا۔ اس نے مختلف انداز سے آپ کی خلافت کو داغدار کرنے کی کوشش کی۔ اس نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر اقرباء پروری کا الزام لگایا۔ مختلف گورنروں کے خلاف وہاں کی عوام سے جھوٹے خطوط لکھوا دیے کہ خلافتِ عثمانؓ کے گورنرز عوام پر ظلم کرتے ہیں۔ اس پر بزرگ صحابہ کرام پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی بنی جس نے متعلقہ علاقوں میں جا کر تحقیق کی مگر یہ فواہ ہر طرح سے جھوٹ ثابت ہوئی۔
حج کے موقع پر آپ رضی اللہ عنہ کے گورنروں نے سازشیوں کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا مشورہ دیا مگر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس امت کے لیے جس فتنے کا خوف ہے وہ آ کر رہے گا، اگرچہ اس کا دروازہ سختی سے بند کر دیا جائے، لہٰذا میں اس دروازے کو نرمی سے بند کروں گا، البتہ حق تعالیٰ کی حدود میں ہر گز نرمی نہیں برتوں گا، بے شک فتنے کی چکی چلنے والی ہے۔ اگر عثمان اس حالت میں مر گیا کہ اس نے اس چکی کو حرکت نہیں دی تو یہ عثمان کے لیے خوشخبری ہے۔
وہی ہو اجس کا ڈر تھا، باغیوں کا پانچ سو پر مشتمل قافلہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے معزولی کا مطالبہ کرنے مدینہ کے لیے روانہ ہوا۔ سیدنا عثمان نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان کے ساتھ مذکرات کے لیے بھیجا مگر وہ اپنے عزائم سے باز نہ آئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف وہی الزامات دہرائے جو پہلے بیان کیے جا چکے ہیں۔
اشرار کے اس وفدکو آخر مسجدِ نبوی میں طلب کیا گیا جہاں اہلِ مدینہ بار بار ان کے قتل کا مشورہ دیتے مگر سیدنا عثمان نے انھیں معاف کردیا اور ان لوگوں نے اپنے اپنے علاقوں میں واپس جانے میں عافیت سمجھی۔جب ابن سبا کو معلوم ہوا کہ ہماری سازش ناکام ہو گئی ہے تو اس بدبخت نے دوسری سازش یہ تیار کی کہ ہر صوبے کے باغی مدینہ کے مضافات میں جمع ہوں اور پھر یک مشت مدینہ میں داخل ہو کر سیدنا عثمان کی معزولی کا مطالبہ کریں اور مطالبہ پورا ہونے تک وہاں سے واپس نہ آئیں مگر اْنہیں اس بار بھی مدینہ سے ناکام لوٹنا پڑا۔
بظاہر باغی مدینہ سے باہر نکل آئے مگر وہ وہاں سے نکلنے کا بہانا کر کے آس پاس رہ کر سازش تیار کر رہے تھے، کہ ایک دن اہلِ مدینہ نے مدینہ کی گلیوں میں گھوڑے دوڑنے کی آوازیں سنیں، جب دیکھا تو وہ باغی تھے جو اہلِ مدینہ سے کہہ رہے تھے اگر امان چاہتے ہو تو ہاتھ اٹھا لو۔ اہلِ مدینہ یہ سمجھ کر کہ مدینہ میں خون ریزی نہ ہو، گھروں میں چلے گئے۔ اس کے بعد باغیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا گھیراؤ کر لیا۔
چالیس روز تک آپ کو قصرِ خلافت میں محصور رکھا گیا حتیٰ کہ بعد میں مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی آپ کو روک دیا گیا تھا۔ بئرِ رومہ خرید کراہلِ مدینہ کے لیے میٹھے پانی کا بندوبست کرنے والے کا پانی باغیوں نے بند کر دیا۔ جن کے مال و دولت سے صرف جنگِ تبوک کے لشکر میں سے بارہ ہزار افراد کے کھانے پینے اور سواری کا بندوبست ہو اور جن کی سخاوت پورے عرب میں مشہور تھی، آج اس مہربان کا کھانا بند کر دیا گیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف سے بار بار باغیوں کے قتال کی اجازت طلب کرنے کے باوجود آپ نے انھیں سختی سے منع کیا اور فرمایا: میں تمہیں جنت کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے جہنم کی طرف بلاتے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے عہد لیا ہے جسے میں پورا کروں گا۔
اس وقت میرا سب سے بڑا حمایتی وہ ہے جو میری حمایت میں تلوار نہ اٹھائے۔ باغیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا چالیس دن تک محاصرہ کر کے 18 ذوالحج 35ہجری بروز جمعہ تقریباً نماز عصر کے وقت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔
آپ کا صبر اور باغیوں کے مقابلے سے صحابہ کو روکنا ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو اپنی شہادت کا یقین تھا کیونکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبل ثبیر کو یہ کہہ کر لرزنے سے سکون دلایا تھا کہ تمہارے اوپر ایک رسول، ایک صدیق اور دو شہید کھڑے ہیں اور وہ دو شہید سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ نے 82 سال کی عمر پائی۔
حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خون میں لت پت پڑے ہوئے تھے اور آپ کی زبان پر اللہ کے حضور یہ دعا جاری تھی:
اے اللہ امت محمدیہ کو باہمی اتفاق نصیب فرما۔
بقول شاعر
وہ سیرت و صورت میں نمونہ مصطفی کا تھا
وہ ہر پہلو چمکتا تھا کہ آئینہ حیا کا تھا
وہ ٹھنڈک بانٹتا تھا لمحہ لمحہ اپنی صبح کی
وہ خوشبوؤں میں لپٹا ہوا جھونکا صبا کا تھا
کھلا رہتا تھا ہر ایک آدمی کے واسطے ہر دم
وہ قلعہ تھا محبت کا وہ دروازہ وفا کا تھا
ابوبکرؓ و عمرؓ کی جانشینی اس کو سجتی تھی
وہ حاصل ہر تمنا کا وہ حاصل ہر دعا کا تھا
وہ کیسے موڑ لیتا اپنا منہ شہادت سے
وہ پروانہ رسالت کا وہ دیوانہ خدا کا تھا
زمانہ کرسکا نہ پیدا کوئی ایسا غنی پھر انجم
وہ اک دریا اخوت کا وہ عطیہ ایک خدا کا تھا
رَّضِیَ اللہْ عَنہْم وَرَضْوا عَنہْ