افغانستان کی بدلتی ہوئی صورت حال

افغان طالبان کے لیے موسم بھی سازگار ہے اور ان کی کوشش ہوگی کہ سردیوں سے پہلے خود کو زیادہ مضبوط کرلیں


Editorial July 30, 2021
افغان طالبان کے لیے موسم بھی سازگار ہے اور ان کی کوشش ہوگی کہ سردیوں سے پہلے خود کو زیادہ مضبوط کرلیں

امریکا افغان مسئلہ کا فوجی حل تلاش کرتا رہا جو ممکن نہیں تھا ،چنانچہ امریکا افغان مسئلہ کا حل نکالنے میں ناکام رہا، اس وقت افغانستان کی صورت حال بدترین ہے۔ سرحد پار ہونے والی ممکنہ خانہ جنگی پاکستان میں داخل ہوسکتی ہے، پاکستان افغانستان میں امن کے لیے سہولت کاری کررہا ہے، ہمارا ملک فغانستان میں کسی تنازعہ کا حصہ نہیں بنے گا، ہم صرف امن کے شراکت دار ہیں۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعظم عمران خان نے امریکی ٹی وی پی بی ایس کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا ۔

افغانستان کی صورت حال کے حوالے سے انٹرویو میں وزیراعظم نے جو حقائق بیان کیے ہیں، وہ حقیقت سے قریب تر ہیں اور ان کے ویژن کی نشاندہی کررہے ہیں۔ درحقیقت خطے میں سب سے زیادہ افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورت حال سے متاثر ہونے والا ملک پاکستان ہی ہے، اگر ہم انٹرویو کے مندرجات پر نظر ڈالیں تو صورت حال کو سمجھنے اور اس کا حل تلاش کرنے کا راستہ ہمیں نظر آتا ہے ،کیونکہ افغانستان میں جیسے جیسے لڑائی میں شدت آئے گی ویسے ہی اس خطے میں امن کو درپیش خطرات بڑھتے جائیں گے۔

اس جنگ میں کون کس کی حمایت کرے گا اور کس کا کتنا جانی و مالی نقصان ہوگا؟ یہ تو آنے والے وقت میں پتہ چلے گا، امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کی صورت حال روز بروز تشویشناک ہوتی جا رہی ہے۔ افغان حکومت کی فوج ،افغان طالبان کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں،لیکن اس وقت سب سے زیادہ پریشانی بھارت کو ہے کہ اس کی افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری ہے جب کہ اس وقت طالبان کو برتری حاصل ہے۔

افغانستان میں خانہ جنگی اور لڑائی میں شدت کے اثرات پورے خطے پر پڑیں گے۔ لاکھوں افغانوں کی آمد پاکستان کے لیے نئی مشکلات پیدا کرے گی۔ماضی میں بھی پاکستان کو مہاجرین کی آمد سے سماجی و معاشی منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑاہے۔ اس وقت افغان طالبان کے لیے اہم ترین ٹارگٹ کابل پر قبضہ کرناہے،وہ اس وقت تک افغانستان میں برسراقتدار نہیں آسکتے جب تک کابل کا کنٹرول حاصل نہ کریں۔ اس کے علاوہ قندھار بھی طالبان کے لیے بہت اہم ہے،اگرچہ ماضی میں افغان طالبان کی ابتدا ملاعمر کی رہنمائی میں قندھار سے ہوئی تھی لیکن اب صورت حال مختلف ہے۔

قندھار اور کابل میں شدید لڑائی کا خطرہ موجود ہے۔ افغان طالبان کے لیے اس وقت موسم بھی سازگار ہے اور ان کی کوشش ہوگی کہ سردیوں سے پہلے خود کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرلیں۔دوسری طرف افعان صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کبھی نہ تو طالبان کی برتری کو تسلیم کرے گی، نہ طالبان کو افغاستان پر قبضہ کرنے دے گی،لیکن حقیقت یہ ہے کہ طالبان کی پیش قدمی جاری ہے،انھوں نے شروعات ہی شمالی افغانستان کے اہم علاقوں سے کی ہیں۔ ماضی میں طالبان کو مخالف گروپوں کی جانب سے یہاں سخت مزاحمت کا سامنا رہا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر اس بار ایسا نہیں ہوا۔

افغان طالبان کے راستے میں رکاوٹ امریکی جنگی ہوائی جہاز ہیں جن کی بمباری سے طالبان مشکل میں ہیں۔ ایک اور حیرت انگیزبات یہ ہے کہ طالبان نے امریکی فوجیوں کا کہیں بھی راستہ روکا نہ ان کے انخلامیں کوئی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی، مزید اہم بات یہ کہ امریکی فوجی بکتر بند گاڑیاں، جیپیں، جنگی سامان اور بھاری مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود ایک ایسے مقام پر چھوڑ گئے جو طالبان کے راستے اور پہنچ میں ہے جس پر طالبان نے آسانی سے قبضہ کرلیا۔ یہ سب اتفاقات ہیں یا کوئی افہام و تفہیم، یہ فریقین ہی جانتے ہوں گے۔ میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق افغان طالبان اب تک دوسو سے زائد اضلاع کا کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔

وزیراعظم کے انٹرویو سے یہ بات اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ امریکا اپنی غیر منصفانہ پالیسیوں کی وجہ سے افغانستان میں موجودہ بگاڑ کا ذمے دار ہے ۔حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ چین چونکہ بقائے باہمی انصاف اور شراکتی ترقی پر یقین رکھتا ہے، اس لیے پوری دنیا میں اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ آنے والے پانچ دس سالوں کے بعد چین دنیا کی نمبر ون عظیم قوت بن جائے گا، چین کے صدر نے اپنے دلیرانہ بیان میں کہا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے بلیک میل اور ڈکٹیٹ نہیں کر سکتی۔

یہ بات درست ہے کہ طالبان افغانستان کے 85 فیصد سے زائد علاقے پر قبضے کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرکاری سطح پر آج بھی افغانستان کے صدر اشرف غنی ہیں، اگر پاکستان چاہتا ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ تجارت کرے تو افغان حکومت سے معاملات طے کرنا ہوں گے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان افغانستان کو تقریباً دو ارب ڈالرز کی سالانہ برآمدات کرتا ہے جو کہ پاکستانی کسانوں کے لیے خوشحالی کا سبب بنتی ہے۔

جب افغان بارڈر بند ہوتا ہے تو پاکستان میں آلو کوڑیوں کے مول بکتے ہیں، بعض اوقات تو فصلوں سے آلو اٹھوانے کے لیے کرایہ بھی کسانوں کو جیب سے ادا کرنا پڑتا ہے، جو لوگ زمین سے جڑے ہیں وہ افغان تجارت کی اہمیت سے سے بخوبی آگاہ ہیں۔افغان بارڈر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وسطی ایشیائی ممالک سے تجارت کے لیے پاکستان کے ٹرک پہلے افغانستان پہنچتے ہیں اور وہاں سے سینٹرل ایشیائی ممالک کے بارڈر تک سامان پہنچاتے ہیں لیکن 2017 میں اشرف غنی نے پاکستان کے ٹرکوں کو افغانستان کے بارڈر پر روک کر آف لوڈ کرنے اور سامان کو افغان ٹرکوں میں لاد کر سینٹرل ایشیائی ممالک تک پہنچانے کا حکم جاری کیا جس سے پاکستان کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا کیونکہ آف لوڈ کر کے دوبارہ ٹرکوں پر سامان لادنے سے کوالٹی خراب ہو جاتی ہے۔

حکومت پاکستان نے اس پر احتجاج ریکارڈ کروایا لیکن افغان صدر نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ افغان ٹرکوں کو پاکستان بارڈر پر روک کر آف لوڈ کیا جاتا ہے اور سامان پاکستانی ٹرکوں میں لاد کر مطلوبہ مقامات پر پہنچایا جاتا ہے، اس سے کوالٹی میں فرق آنے سے کروڑوں روپوں کا نقصان بھی ہوتا ہے۔

دوسری جانب داسو حملے میں ملوث ہونے کے شبے میں لاہور سے دو مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے، لاہور جوہر ٹاؤن اور داسو حملے ایک ہی سلسلے کی کڑی ثابت ہورہے ہیں۔ دوسری جانب بھارت افغانستان میں مسلسل پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں پاکستان کے لیے سنگین خطرات کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ، اگر افغانستان میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوگئی تو پاکستان کو ایک بار پھر افغان مہاجرین کے بوجھ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور پاکستان دشمن افغان طالبان مہاجرین کی شکل میں پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں۔

امریکا اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے کہ جس کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ کسی بھی ملک نے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان سے زیادہ کوششیں نہیں کیں، افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا الزام پاکستان پر دھرنا انتہائی ناانصافی ہے۔

ادھر افغان شہریوں کی فی الحال پاکستان کی طرف رخ نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس وقت طالبان شمالی افغانستان میں مصروف اور برسرپیکار ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر باشندے ازبک، تاجک اور ہزارہ برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

ان میں سے صرف ہزار ہ برادری کے لوگ ایران کا رخ کرسکتے ہیں۔ ماضی میں بھی جب طالبان کے خلاف احمد شاہ مسعود اور جنرل دوستم کے گروپس لڑرہے تھے تو صرف ہزارہ برادری کے لوگ ایک مخصوص تعداد میں ایران چلے گئے تھے۔ طالبان کے قندھار، کابل اور خوست، پکتیا، لوگر اور جلال آباد کے قریب پہنچنے پر بڑی تعداد میں افغانوں کی پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ہماری سیاسی قیادت کو تاریخ کے اس نازک ترین موڑ پر فہم وفراست،تدبر کاعملی ثبوت دیتے ہوئے فیصلے کرنا ہوں گے، ہمارے یہاں ایک طبقے کی رائے میں گڈ اور بیڈ طالبان کا تصور پیش کیا جاتا ہے ، اس کو رد کرنے ضرورت ہے ، کیونکہ پاکستان کی قومی سلامتی خود ساختہ نظریات اور مفروضوں سے زیادہ اہم ہے ۔

افغانستان کی صورتحال انتہائی سنگین ہے ،جو اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان میں سیاسی اتفاق رائے ہو اور پوری قوم مل کر آنے والے سنگین چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے۔چین ،روس اور ایران خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں اور وہ ایسے حفاظتی اقدامات بھی اٹھا رہے ہیں، جن کے نتیجے میں افغانستان میں امن اور استحکام کو یقینی بنایا جا سکے تاکہ ان ممالک کے دشمن جنوبی ایشیا کو ایک بار پھر دہشت گردی کا مرکز نہ بنا سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں