پرتگالیوں کی ہند میں آمد
یورپین اقوام میں سب سے پہلے اہل پرتگال نے ہندوستان کا راستہ دریافت کرنے کی کوشش کی
تاریخ ہند میں اہل پرتگال کی آمد کا واقعہ اپنی اہمیت کا حامل ہے ، کیونکہ اس کے نتیجے میں ہندوستان میں انقلابی تبدیلیاں ظہور پذیر ہوئیں۔ یورپین اقوام میں سب سے پہلے جو قوم سرزمین ہند پر پہنچی وہ پرتگالی تھے۔ ہندوستان کی تجارتی اشیا کی یورپ کی منڈیوں میں بڑی مانگ تھی۔ یہ تجارتی اشیا خشکی کے راستے یا پھر سمندر کے راستے یورپ پہنچائی جاتی تھیں ، لیکن ترکوں کے عروج کے بعد خشکی کا راستہ بالکل بند ہوگیا تھا اس لیے ہندوستان جانے کے لیے ایک نئے راستے کی ضرورت پیش آئی۔
یورپین اقوام میں سب سے پہلے اہل پرتگال نے ہندوستان کا راستہ دریافت کرنے کی کوشش کی۔ اس ضمن میں پرتگالی شہزادے ہنری 1393 سے 1460 کا نام سرفہرست ہے۔ اس کو لوگ ملاح شہزادے کے نام سے پکارتے تھے، اس نے ملاحوں کو سائنسی انداز پر تربیت دینے کے لیے نئے اسکول کھولے۔ ان لوگوں کی سرپرستی کی جنھوں نے سمندری سفرکا پیشہ اختیار کیا تھا۔ اہل پرتگال کی ان کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اہل پرتگال افریقہ کے ساحل سمندر سے مکمل طور پر واقف ہوگئے۔ انھوں نے 1471 میں خط استوا کو پارکیا اور 1481میں دریائے کانگو تک پہنچ گئے۔1487 میں اومن ڈیز کو طوفان و طلاطم نے خلیج راس امید سے آگے بڑھا دیا، اس بات پر بادشاہ دوم نے اس کی سرپرستی کی۔
1497 میں واسکوڈی گاما بادشاہ امیونیل کی سرپرستی میں سمندری سفر پر روانہ ہوا۔ ابتدا میں اس نے اس راستے پر سفرکیا جس پر اس سے پہلے اومن ڈیز سفرکرچکا تھا۔ چنانچہ اس نے بھی خلیج راس امید کو پار کیا اور موزمبیق جا پہنچا۔ وہ ایک عرب ملاح کی مدد سے 2 اپریل 1498 میں ہند آیا۔ ایک ماہ سفر کے بعد کالی کٹ پہنچا۔ یہاں اس کی بادشاہ زمورن نے بڑی آؤ بھگت کی اور اسے کچھ خاص حقوق عطا کیے۔ ہند میں واسکو ڈی گاما کی آمد کو کیونکہ عربوں نے پسندیدگی کی نظروں سے نہیں دیکھا اس لیے تجارت میں ان کی پرتگالیوں کی رقابت شروع ہوگئی۔ چنانچہ وہ واسکوڈی گاما اس صورتحال کا مقابلہ نہ کرسکا ، ہندوستان میں تین ماہ قیام کے بعد واپس پرتگال چلا آیا۔
ڈوڈیل کے مطابق پرتگالی چار لحاظ سے بڑے خوش قسمت تھے، وہ مالابار کے ساحل پر لنگر انداز ہوئے ،ان کے تعلقات چھوٹے چھوٹے حکمرانوں سے قائم ہوگئے۔ یہ حکمران آپس میں حسد اور رقابت میں مبتلا تھے۔ اس لیے ان کی کسی ایک حکمران سے دشمنی خود بخود دوسرے سے دوستی کرلیتے۔ مزید برآں کوچین اور کالی کٹ کے گرد و نواح کے علاقے میں وہ یہاں کے باشندوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی چاول پیدا نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ مسلمان جہاز راں کارمینڈل چاول لے کر یہاں آتے تھے۔ اس لحاظ سے یہ علاقہ سمندری ناکہ بندی کے لیے بڑا موزوں تھا۔
تیسرے یہ کہ اہل پرتگال پندرہویں صدی کے آخر میں ہندوستان پہنچے۔ اس زمانے میں اتنی بڑی حکومت نہیں تھی جو اس ملک میں اس کے قیام کو روک سکتی ان کو اس ملک میں جو مشکلات پیش آئیں اور جن پر انھوں نے بعد میں قابو حاصل کرلیا۔ ان سے یہ بات عیاں ہوگئی تھی کہ جنگ کے مقاصد کے لیے ان کے جہاز ہندوستانی جہازوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور خوفناک ہیں۔
یہ آخری بات بڑی اہم ہے کیونکہ جو حیثیت پرتگالی ہندوستان میں حاصل کرسکتے تھے اس کا انحصار ان کی بحری قوت پر تھا۔ ہندوستان میں پرتگالیوں نے یہ تہیہ کرلیا اگر ان سے ممکن ہوا تو مسلم ریاستوں کو ہندوستان میں نیست و نابود کردیں گے۔ اسی لیے اس نے غیر مسلح اور بے بس تاجروں کی طرح ہند میں رہنے پر کبھی غور نہیں کیا۔ اس زمانے میں سمندری طاقت کامیابی کی بڑی حد تک ضامن تھی۔ طبعی حالات جنھوں نے مشرق میں جہاز رانی کو ترقی دی تھی۔
اس ترقی کا مسلسل ساتھ نہ دے سکے وہ باقاعدہ وقتی ہوائیں جو بحر ہند میں عموماً چلتیں موسم کے کچھ حصوں میں جہازوں کو عدن اور بصرہ سے گجرات تک، بنگال سے ملاکٹ اور ملاکٹ سے مالابار تک باقاعدگی اور آسانی سے سفر کرنے میں مدد کرتیں۔ لیکن اس کی اسی باقاعدگی اور تندی کی وجہ سے اس کے خلاف جہاز چلانا انتہائی مشکل تھا ان طلاطم اور طوفانوں کی شدت زیادہ ہوتی تھی کہ اس زمانے کے جہاز راں ان کا مقابلہ کرکے زندہ بچ جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ مشرقی جہاز راں اور ان قابل بھروسہ اور مددگار ہواؤں کی صورت میں تھے یہ سفر کرسکتے تھے۔
ان کے ہما دان جہازوں کی نسبت جن کو بحر اوقیانوس میں سفر کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ پرتگالیوں کے جہاز اس موسم میں بھی سمندر میں رہتے تھے، جب کہ دوسرے جہاز ہوا کے رخ کے ساتھ بندرگاہ (ساحل) کی طرف پناہ لینے کے لیے بھاگتے تھے۔ دوسرے یہ کہ اہل پرتگال اپنے جہازوں پر توپیں نصب کرتے تھے جن کی بوچھاڑ ہندوستانی جہازوں کے ٹکڑے اڑا سکتی تھی۔
1501 میں واسکوڈی گاما دوبارہ ہندوستان آیا اس نے کنا نور میں ایک فیکٹری قائم کی اور 1503 میں وہ واپس پرتگال چلا گیا۔
عربوں کی مخالفت کے باوجود پرتگالی کالی کٹ، کوچین کوکنانور میں اپنے تجارتی مراکز قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اپنی اس کامیابی کے بعد اس نے عربوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگا، قتل و غارت میں لگ گیا۔ بادشاہ زمورن کو جب اس ظلم و ستم کا علم ہوا تو اس نے کوچین میں پرتگالیوں پر حملہ کیا چونکہ پرتگالیوں کے پاس توپیں زیادہ تھیں جو آگ کے شعلے اگلتی رہیں جس کے باعث رمورن کے فوجی مارے گئے اور شکست کھائی۔ اس واقعے کے بعد پرتگالیوں کی برتری تسلیم کر لی گئی۔
10 جنوری 1466 سے 3 دسمبر 11499 تک ہندوستان میں پرتگالی مقبوضات پہلا وائسرائے ڈی آرمیڈا مقررکیا وہ خشکی پر مقبوضات میں اضافے کے حق میں نہ تھا اس کی سرکار مطمئن نہ تھی۔
1500 میں پرتگال کا دوسرا وائسرائے ابرق کا تقرر ہوا۔ یہ ہندوستان میں تادم مرگ وائسرائے رہا 20 اگست 1508 کو اس کا انتقال ہوا۔ مسٹر اسٹیفل کہتا ہے کہ اس کی پالیسی کی بنیاد چار نکات پر تھی جس پر وہ کامیاب رہا۔ ابرق کی وفات کے بعد ہندوستان میں کوئی لائق پرتگالی شخص بطور وائسرائے نہیں بھیجا نتیجہ یہ نکلا کہ پرتگالی حکومت کا شیرازہ بکھرنا شروع ہو گیا۔
یورپین اقوام میں سب سے پہلے اہل پرتگال نے ہندوستان کا راستہ دریافت کرنے کی کوشش کی۔ اس ضمن میں پرتگالی شہزادے ہنری 1393 سے 1460 کا نام سرفہرست ہے۔ اس کو لوگ ملاح شہزادے کے نام سے پکارتے تھے، اس نے ملاحوں کو سائنسی انداز پر تربیت دینے کے لیے نئے اسکول کھولے۔ ان لوگوں کی سرپرستی کی جنھوں نے سمندری سفرکا پیشہ اختیار کیا تھا۔ اہل پرتگال کی ان کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اہل پرتگال افریقہ کے ساحل سمندر سے مکمل طور پر واقف ہوگئے۔ انھوں نے 1471 میں خط استوا کو پارکیا اور 1481میں دریائے کانگو تک پہنچ گئے۔1487 میں اومن ڈیز کو طوفان و طلاطم نے خلیج راس امید سے آگے بڑھا دیا، اس بات پر بادشاہ دوم نے اس کی سرپرستی کی۔
1497 میں واسکوڈی گاما بادشاہ امیونیل کی سرپرستی میں سمندری سفر پر روانہ ہوا۔ ابتدا میں اس نے اس راستے پر سفرکیا جس پر اس سے پہلے اومن ڈیز سفرکرچکا تھا۔ چنانچہ اس نے بھی خلیج راس امید کو پار کیا اور موزمبیق جا پہنچا۔ وہ ایک عرب ملاح کی مدد سے 2 اپریل 1498 میں ہند آیا۔ ایک ماہ سفر کے بعد کالی کٹ پہنچا۔ یہاں اس کی بادشاہ زمورن نے بڑی آؤ بھگت کی اور اسے کچھ خاص حقوق عطا کیے۔ ہند میں واسکو ڈی گاما کی آمد کو کیونکہ عربوں نے پسندیدگی کی نظروں سے نہیں دیکھا اس لیے تجارت میں ان کی پرتگالیوں کی رقابت شروع ہوگئی۔ چنانچہ وہ واسکوڈی گاما اس صورتحال کا مقابلہ نہ کرسکا ، ہندوستان میں تین ماہ قیام کے بعد واپس پرتگال چلا آیا۔
ڈوڈیل کے مطابق پرتگالی چار لحاظ سے بڑے خوش قسمت تھے، وہ مالابار کے ساحل پر لنگر انداز ہوئے ،ان کے تعلقات چھوٹے چھوٹے حکمرانوں سے قائم ہوگئے۔ یہ حکمران آپس میں حسد اور رقابت میں مبتلا تھے۔ اس لیے ان کی کسی ایک حکمران سے دشمنی خود بخود دوسرے سے دوستی کرلیتے۔ مزید برآں کوچین اور کالی کٹ کے گرد و نواح کے علاقے میں وہ یہاں کے باشندوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی چاول پیدا نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ مسلمان جہاز راں کارمینڈل چاول لے کر یہاں آتے تھے۔ اس لحاظ سے یہ علاقہ سمندری ناکہ بندی کے لیے بڑا موزوں تھا۔
تیسرے یہ کہ اہل پرتگال پندرہویں صدی کے آخر میں ہندوستان پہنچے۔ اس زمانے میں اتنی بڑی حکومت نہیں تھی جو اس ملک میں اس کے قیام کو روک سکتی ان کو اس ملک میں جو مشکلات پیش آئیں اور جن پر انھوں نے بعد میں قابو حاصل کرلیا۔ ان سے یہ بات عیاں ہوگئی تھی کہ جنگ کے مقاصد کے لیے ان کے جہاز ہندوستانی جہازوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور خوفناک ہیں۔
یہ آخری بات بڑی اہم ہے کیونکہ جو حیثیت پرتگالی ہندوستان میں حاصل کرسکتے تھے اس کا انحصار ان کی بحری قوت پر تھا۔ ہندوستان میں پرتگالیوں نے یہ تہیہ کرلیا اگر ان سے ممکن ہوا تو مسلم ریاستوں کو ہندوستان میں نیست و نابود کردیں گے۔ اسی لیے اس نے غیر مسلح اور بے بس تاجروں کی طرح ہند میں رہنے پر کبھی غور نہیں کیا۔ اس زمانے میں سمندری طاقت کامیابی کی بڑی حد تک ضامن تھی۔ طبعی حالات جنھوں نے مشرق میں جہاز رانی کو ترقی دی تھی۔
اس ترقی کا مسلسل ساتھ نہ دے سکے وہ باقاعدہ وقتی ہوائیں جو بحر ہند میں عموماً چلتیں موسم کے کچھ حصوں میں جہازوں کو عدن اور بصرہ سے گجرات تک، بنگال سے ملاکٹ اور ملاکٹ سے مالابار تک باقاعدگی اور آسانی سے سفر کرنے میں مدد کرتیں۔ لیکن اس کی اسی باقاعدگی اور تندی کی وجہ سے اس کے خلاف جہاز چلانا انتہائی مشکل تھا ان طلاطم اور طوفانوں کی شدت زیادہ ہوتی تھی کہ اس زمانے کے جہاز راں ان کا مقابلہ کرکے زندہ بچ جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ مشرقی جہاز راں اور ان قابل بھروسہ اور مددگار ہواؤں کی صورت میں تھے یہ سفر کرسکتے تھے۔
ان کے ہما دان جہازوں کی نسبت جن کو بحر اوقیانوس میں سفر کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ پرتگالیوں کے جہاز اس موسم میں بھی سمندر میں رہتے تھے، جب کہ دوسرے جہاز ہوا کے رخ کے ساتھ بندرگاہ (ساحل) کی طرف پناہ لینے کے لیے بھاگتے تھے۔ دوسرے یہ کہ اہل پرتگال اپنے جہازوں پر توپیں نصب کرتے تھے جن کی بوچھاڑ ہندوستانی جہازوں کے ٹکڑے اڑا سکتی تھی۔
1501 میں واسکوڈی گاما دوبارہ ہندوستان آیا اس نے کنا نور میں ایک فیکٹری قائم کی اور 1503 میں وہ واپس پرتگال چلا گیا۔
عربوں کی مخالفت کے باوجود پرتگالی کالی کٹ، کوچین کوکنانور میں اپنے تجارتی مراکز قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اپنی اس کامیابی کے بعد اس نے عربوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگا، قتل و غارت میں لگ گیا۔ بادشاہ زمورن کو جب اس ظلم و ستم کا علم ہوا تو اس نے کوچین میں پرتگالیوں پر حملہ کیا چونکہ پرتگالیوں کے پاس توپیں زیادہ تھیں جو آگ کے شعلے اگلتی رہیں جس کے باعث رمورن کے فوجی مارے گئے اور شکست کھائی۔ اس واقعے کے بعد پرتگالیوں کی برتری تسلیم کر لی گئی۔
10 جنوری 1466 سے 3 دسمبر 11499 تک ہندوستان میں پرتگالی مقبوضات پہلا وائسرائے ڈی آرمیڈا مقررکیا وہ خشکی پر مقبوضات میں اضافے کے حق میں نہ تھا اس کی سرکار مطمئن نہ تھی۔
1500 میں پرتگال کا دوسرا وائسرائے ابرق کا تقرر ہوا۔ یہ ہندوستان میں تادم مرگ وائسرائے رہا 20 اگست 1508 کو اس کا انتقال ہوا۔ مسٹر اسٹیفل کہتا ہے کہ اس کی پالیسی کی بنیاد چار نکات پر تھی جس پر وہ کامیاب رہا۔ ابرق کی وفات کے بعد ہندوستان میں کوئی لائق پرتگالی شخص بطور وائسرائے نہیں بھیجا نتیجہ یہ نکلا کہ پرتگالی حکومت کا شیرازہ بکھرنا شروع ہو گیا۔