سعید پرویز شاعر ادیب اورکالم نگار
ہر ایک افسانہ بیان کی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ افسانوں کا یہ مجموعہ 1992 میں منظر عام پر آیا
سعید پرویز کی وفات بہت بڑا ادبی خلا ہے۔ 1946 میں مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے گاؤں بستی افغاناں میں پیدا ہوئے۔ البتہ قیام پاکستان کے وقت یہ خاندان کاروباری سلسلے میں دہلی میں مقیم تھا۔ قیام پاکستان کے وقت انھوں نے اپنے والد صوفی عنایت اللہ و والدہ رابعہ بصریٰ، بھائی حمید، بہن رشیدہ کے ساتھ ہجرت کی اور کراچی میں مقیم ہوئے۔
البتہ ان کے دونوں بڑے بھائی چند یوم قبل ہی ہجرت کرچکے تھے جن میں 27 سالہ مبارک علی شان و نامور شاعر حبیب جالب جن کی عمر عزیز اس وقت 19 برس تھی۔ سعید پرویز نے کل 75 برس عمر پائی اور آخری دم تک متحرک رہے۔ سعید پرویز نے مجموعی طور پر آٹھ کتابیں تحریر کیں جن کے نام یہ ہیں نہ وہ سورج نکلتا ہے، حبیب جالب گھر کی گواہی، حبیب جالب شاعر شعلہ نوا، رات کلینی، میں طلوع ہو رہا ہوں، حبیب جالب فن اور شخصیت (پاکستانی ادب کے معمار)، اماں، اس کتاب میں اپنی والدہ کی کہانی بیان کی۔
بلاشبہ سعید پرویز نے اپنے بڑے بھائی نامورشاعر حبیب جالب کے زیر سایہ ادبی تربیت پائی، مگر یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنے ادبی کام کے باعث اپنی پہچان خود بنائی۔ وہ دو دہائیوں سے روزنامہ ایکسپریس کراچی میں کالم لکھ رہے تھے ۔ اپنی بات خوبصورت پیرائے میں کرنے کی کوشش کرتے تھے، بلاوجہ کسی پر اپنی تحریروں میں تنقید نہ کرتے بلکہ تنقید میں بھی اصلاح کا پہلو ہوتا اور نہ ہی کسی بڑی سے بڑی شخصیت کی بے وجہ تعریف کرتے، قلم سے ان کا رشتہ تادم آخر قائم رہا۔ خالد علیگ نے کہا تھا کہ:
ہم صبح پرستوں کی ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا
گویا وہ قلم کی حرمت سے مکمل آگاہ تھے، یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ قلم ان کو وراثت میں ملا تھا۔ ان کے والد محترم صوفی عنایت اللہ کا بھی قلم و کتاب سے خاص تعلق تھا جب کہ دونوں بڑے بھائی حبیب جالب و مبارک علی شان نامور شاعر و قلم کار تھے، چنانچہ سعید پرویز کا یہ بھی کارنامہ ہے کہ انھوں نے اپنے والد محترم کی تحریروں کو ایک خوبصورت کتاب کی شکل دی اور وہ تحریریں منظر عام پر آئیں، انھوں نے افسانہ نگاری بھی کی اور نہ وہ سورج نکلتا ہے جیسی اولین افسانوں کی کتاب تحریر کی، جس میں 17 افسانے لکھے گئے۔
ہر ایک افسانہ بیان کی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ افسانوں کا یہ مجموعہ 1992 میں منظر عام پر آیا، جب کہ 2017 میں اس کا دوسرا ایڈیشن آیا۔ گزشتہ برس جب پوری دنیا کورونا کی لپیٹ میں آگئی تو انھوں نے اس فارغ وقت کو ضایع نہیں کیا اور تخلیقی عمل جاری رکھا اور خوبصورت افسانوں کا ایک مجموعہ تخلیق کر ڈالا۔ وہ اس افسانوں کے مجموعے کی جلد سے جلد اشاعت کے خواہش مند تھے مگر کورونا کی وبا آڑے آ رہی تھی۔
اس مجموعہ کی کمپوزنگ کے مراحل طے ہوچکے ہیں، مگر اس کی اشاعت کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل امر ہے۔ میرا تعلق سعید پرویز سے یوں قائم ہوا کہ میں نے ایک کالم حبیب جالب کی یاد میں لکھا جو 22 مارچ 2016 کو روزنامہ ایکسپریس میں چھپا۔ جس کے ایک عرصے بعد ایک روز میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی تو دوسری جانب محترم سعید پرویز تھے۔
انھوں نے ایک شکوہ کیا کہ تم نے جالب صاحب کے بارے میں ایک کالم لکھا اور مجھ سے کوئی رابطہ بھی نہ کیا۔ میں نے عرض کیا گوکہ میں خود بھی باقاعدگی سے کالم لکھتا ہوں مگر حقیقت تو یہ ہے کہ میں تو شروع دن سے آپ کی تحریریں ذوق و شوق سے پڑھتا ہوں۔ پھر انھوں نے اگلے روز اپنے در دولت پر مجھے مدعو کیا اور بے حد عزت افزائی کی۔ جب میں نے ایک بار ان سے عرض کیا کہ میرے چھوٹے صاحب زادے کی شادی خانہ آبادی ہے تو بے حد مسرور ہوئے۔ میں نے عرض کی کہ آپ کو لازمی شرکت کرنی ہے۔
انھوں نے حسب وعدہ نہ صرف خود شرکت کی بلکہ حبیب جالب کی دونوں نواسیوں اور ان کے نواسے کو ساتھ لائے گویا یہ میرے لیے ایک اعزاز تھا کہ حبیب جالب کے خاندان کے افراد میرے گھر کی خوشیوں میں بڑے اہتمام کے ساتھ شریک ہوئے۔ سعید پرویز سے اولین ملاقات کے ساتھ مجھے اپنائیت کا ایسا احساس ہوا کہ گویا اب میرے سر پر تین تین بھائیوں کا سایہ موجود ہے گوکہ ان سے ملاقات سے قبل مجھے بزرگوار بڑے بھائیوں اصغر علی و اکبر علی کی سرپرستی حاصل تھی اور ہے، رب سے التجا ہے کہ ان دونوں کا سایہ تاحیات میرے سر پر قائم رہے۔
سعید پرویز کی یادوں کا ایک سلسلہ ہے جو کہ ختم ہونے والا نہیں ہے گزشتہ برس کے اختتام سے ذرا قبل انھوں نے ہر برس کی طرح حبیب جالب کی یاد میں ایک نشست آرٹس کونسل کراچی میں رکھی اور مجھے مدعو کیا۔ جہاں مجھے سعید پرویز کے ساتھ دیگر ادبا کی گفتگو سے فیض یاب ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ حسب سابق انھوں نے گزشتہ برس سر مقتل ایوارڈ محترمہ عاصمہ جہانگیر کو بعدازمرگ عطا کیا جب کہ اس سے قبل یہ ایوارڈ وہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خدمات انجام دینے والوں کو عطا کرچکے تھے، وہ مجھ سے ہمیشہ پنجابی میں گفتگو کرتے، ان کی گفتگو میں مشرقی پنجاب کا لہجہ نمایاں ہوتا جوکہ بھلا معلوم ہوتا۔ ان کی انسان دوستی کا یہ عالم تھا کہ دوسرے کو تکلیف میں دیکھنا انھیں گوارا نہ تھا۔
گویا دوسرے کی تکلیف دیکھ کر بے چین ہو جاتے۔ چنانچہ چند ماہ قبل میں نے اپنی بیماری کا ذکر کیا تو پریشان ہوگئے اور حکم دینے کے انداز میں فرمایا '' جلد سے جلد میرے گھر چلے آؤ تاکہ میرا بیٹا ڈاکٹر ذیشان آپ کو چیک کرکے میڈیسن تجویز کرے گا'' جب میں ان کے در دولت پر حاضر ہوا تو ان کے سعادت مند صاحب زادے نے بڑی توجہ سے میرا چیک اپ کیا اور میرے لیے میڈیسن تجویز کی جن کے استعمال سے میں چند یوم بعد شفایاب ہو گیا۔ البتہ جس روز میں ان کے در دولت پر گیا ایک صاحب ان کے افسانوں کے مجموعے کی کمپوزنگ کے لیے آئے ہوئے تھے جنھیں وہ چند ہدایات دے رہے تھے مگر جیسے کہ میں نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے اب اس افسانوی مجموعہ کے اشاعت کے بارے وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ سعید پرویز 24 جولائی 2021 کو اس دنیا سے کوچ کرچکے ہیں اور 25 جولائی بروز اتوار منوں مٹی تلے آرام فرما رہے ہیں۔
خداوند کریم انھیں کروٹ کروٹ چین نصیب فرمائے۔ البتہ ان کا کافی تخلیقی کام مسودوں کی شکل میں موجود ہے کہ شاید کبھی اشاعت کے مراحل سے گزرکر ہمارے زیر مطالعہ آسکے ، لیکن ان کا حقیقی سرمایہ ان کی سعادت مند اولاد ہے۔
البتہ ان کے دونوں بڑے بھائی چند یوم قبل ہی ہجرت کرچکے تھے جن میں 27 سالہ مبارک علی شان و نامور شاعر حبیب جالب جن کی عمر عزیز اس وقت 19 برس تھی۔ سعید پرویز نے کل 75 برس عمر پائی اور آخری دم تک متحرک رہے۔ سعید پرویز نے مجموعی طور پر آٹھ کتابیں تحریر کیں جن کے نام یہ ہیں نہ وہ سورج نکلتا ہے، حبیب جالب گھر کی گواہی، حبیب جالب شاعر شعلہ نوا، رات کلینی، میں طلوع ہو رہا ہوں، حبیب جالب فن اور شخصیت (پاکستانی ادب کے معمار)، اماں، اس کتاب میں اپنی والدہ کی کہانی بیان کی۔
بلاشبہ سعید پرویز نے اپنے بڑے بھائی نامورشاعر حبیب جالب کے زیر سایہ ادبی تربیت پائی، مگر یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنے ادبی کام کے باعث اپنی پہچان خود بنائی۔ وہ دو دہائیوں سے روزنامہ ایکسپریس کراچی میں کالم لکھ رہے تھے ۔ اپنی بات خوبصورت پیرائے میں کرنے کی کوشش کرتے تھے، بلاوجہ کسی پر اپنی تحریروں میں تنقید نہ کرتے بلکہ تنقید میں بھی اصلاح کا پہلو ہوتا اور نہ ہی کسی بڑی سے بڑی شخصیت کی بے وجہ تعریف کرتے، قلم سے ان کا رشتہ تادم آخر قائم رہا۔ خالد علیگ نے کہا تھا کہ:
ہم صبح پرستوں کی ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا
گویا وہ قلم کی حرمت سے مکمل آگاہ تھے، یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ قلم ان کو وراثت میں ملا تھا۔ ان کے والد محترم صوفی عنایت اللہ کا بھی قلم و کتاب سے خاص تعلق تھا جب کہ دونوں بڑے بھائی حبیب جالب و مبارک علی شان نامور شاعر و قلم کار تھے، چنانچہ سعید پرویز کا یہ بھی کارنامہ ہے کہ انھوں نے اپنے والد محترم کی تحریروں کو ایک خوبصورت کتاب کی شکل دی اور وہ تحریریں منظر عام پر آئیں، انھوں نے افسانہ نگاری بھی کی اور نہ وہ سورج نکلتا ہے جیسی اولین افسانوں کی کتاب تحریر کی، جس میں 17 افسانے لکھے گئے۔
ہر ایک افسانہ بیان کی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ افسانوں کا یہ مجموعہ 1992 میں منظر عام پر آیا، جب کہ 2017 میں اس کا دوسرا ایڈیشن آیا۔ گزشتہ برس جب پوری دنیا کورونا کی لپیٹ میں آگئی تو انھوں نے اس فارغ وقت کو ضایع نہیں کیا اور تخلیقی عمل جاری رکھا اور خوبصورت افسانوں کا ایک مجموعہ تخلیق کر ڈالا۔ وہ اس افسانوں کے مجموعے کی جلد سے جلد اشاعت کے خواہش مند تھے مگر کورونا کی وبا آڑے آ رہی تھی۔
اس مجموعہ کی کمپوزنگ کے مراحل طے ہوچکے ہیں، مگر اس کی اشاعت کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل امر ہے۔ میرا تعلق سعید پرویز سے یوں قائم ہوا کہ میں نے ایک کالم حبیب جالب کی یاد میں لکھا جو 22 مارچ 2016 کو روزنامہ ایکسپریس میں چھپا۔ جس کے ایک عرصے بعد ایک روز میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی تو دوسری جانب محترم سعید پرویز تھے۔
انھوں نے ایک شکوہ کیا کہ تم نے جالب صاحب کے بارے میں ایک کالم لکھا اور مجھ سے کوئی رابطہ بھی نہ کیا۔ میں نے عرض کیا گوکہ میں خود بھی باقاعدگی سے کالم لکھتا ہوں مگر حقیقت تو یہ ہے کہ میں تو شروع دن سے آپ کی تحریریں ذوق و شوق سے پڑھتا ہوں۔ پھر انھوں نے اگلے روز اپنے در دولت پر مجھے مدعو کیا اور بے حد عزت افزائی کی۔ جب میں نے ایک بار ان سے عرض کیا کہ میرے چھوٹے صاحب زادے کی شادی خانہ آبادی ہے تو بے حد مسرور ہوئے۔ میں نے عرض کی کہ آپ کو لازمی شرکت کرنی ہے۔
انھوں نے حسب وعدہ نہ صرف خود شرکت کی بلکہ حبیب جالب کی دونوں نواسیوں اور ان کے نواسے کو ساتھ لائے گویا یہ میرے لیے ایک اعزاز تھا کہ حبیب جالب کے خاندان کے افراد میرے گھر کی خوشیوں میں بڑے اہتمام کے ساتھ شریک ہوئے۔ سعید پرویز سے اولین ملاقات کے ساتھ مجھے اپنائیت کا ایسا احساس ہوا کہ گویا اب میرے سر پر تین تین بھائیوں کا سایہ موجود ہے گوکہ ان سے ملاقات سے قبل مجھے بزرگوار بڑے بھائیوں اصغر علی و اکبر علی کی سرپرستی حاصل تھی اور ہے، رب سے التجا ہے کہ ان دونوں کا سایہ تاحیات میرے سر پر قائم رہے۔
سعید پرویز کی یادوں کا ایک سلسلہ ہے جو کہ ختم ہونے والا نہیں ہے گزشتہ برس کے اختتام سے ذرا قبل انھوں نے ہر برس کی طرح حبیب جالب کی یاد میں ایک نشست آرٹس کونسل کراچی میں رکھی اور مجھے مدعو کیا۔ جہاں مجھے سعید پرویز کے ساتھ دیگر ادبا کی گفتگو سے فیض یاب ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ حسب سابق انھوں نے گزشتہ برس سر مقتل ایوارڈ محترمہ عاصمہ جہانگیر کو بعدازمرگ عطا کیا جب کہ اس سے قبل یہ ایوارڈ وہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خدمات انجام دینے والوں کو عطا کرچکے تھے، وہ مجھ سے ہمیشہ پنجابی میں گفتگو کرتے، ان کی گفتگو میں مشرقی پنجاب کا لہجہ نمایاں ہوتا جوکہ بھلا معلوم ہوتا۔ ان کی انسان دوستی کا یہ عالم تھا کہ دوسرے کو تکلیف میں دیکھنا انھیں گوارا نہ تھا۔
گویا دوسرے کی تکلیف دیکھ کر بے چین ہو جاتے۔ چنانچہ چند ماہ قبل میں نے اپنی بیماری کا ذکر کیا تو پریشان ہوگئے اور حکم دینے کے انداز میں فرمایا '' جلد سے جلد میرے گھر چلے آؤ تاکہ میرا بیٹا ڈاکٹر ذیشان آپ کو چیک کرکے میڈیسن تجویز کرے گا'' جب میں ان کے در دولت پر حاضر ہوا تو ان کے سعادت مند صاحب زادے نے بڑی توجہ سے میرا چیک اپ کیا اور میرے لیے میڈیسن تجویز کی جن کے استعمال سے میں چند یوم بعد شفایاب ہو گیا۔ البتہ جس روز میں ان کے در دولت پر گیا ایک صاحب ان کے افسانوں کے مجموعے کی کمپوزنگ کے لیے آئے ہوئے تھے جنھیں وہ چند ہدایات دے رہے تھے مگر جیسے کہ میں نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے اب اس افسانوی مجموعہ کے اشاعت کے بارے وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ سعید پرویز 24 جولائی 2021 کو اس دنیا سے کوچ کرچکے ہیں اور 25 جولائی بروز اتوار منوں مٹی تلے آرام فرما رہے ہیں۔
خداوند کریم انھیں کروٹ کروٹ چین نصیب فرمائے۔ البتہ ان کا کافی تخلیقی کام مسودوں کی شکل میں موجود ہے کہ شاید کبھی اشاعت کے مراحل سے گزرکر ہمارے زیر مطالعہ آسکے ، لیکن ان کا حقیقی سرمایہ ان کی سعادت مند اولاد ہے۔