مسرت عالم بھٹ جن کے لیے قید بھی ’اعزاز‘ ہے

ﭘﭼﮭﻠﮯ 24 ﺳﺎﻟوں ﺳﮯ ﺑﻐﯾر ﮐﺳﯽ اﻟزام ﯾﺎ ﻣﻘدﻣﮯ ﮐﯽ ﺳﻣﺎﻋت ﮐﮯ وه قید کاٹ رہے ہیں۔

ﭘﭼﮭﻠﮯ 24 ﺳﺎﻟوں ﺳﮯ ﺑﻐﯾر ﮐﺳﯽ اﻟزام ﯾﺎ ﻣﻘدﻣﮯ ﮐﯽ ﺳﻣﺎﻋت ﮐﮯ وه قید کاٹ رہے ہیں۔

سنگاپور کے ڈاکٹر چائی تھائے پوش کے بعد اﯾﺷﯾﺎ ﻣﯾں طوﯾل ﻋرﺻﮯ ﺗﮏ ﺳﯾﺎﺳﯽ ﻗﯾدی رہنے والے ﮐﺷﻣﯾر ﮐﯽ ﻣزاﺣﻣت ﮐﯽ ﻋﻼﻣت ﻣﺳرت ﻋﺎﻟم ﺑﮭٹ ﮨو سکتے ہیں۔

اﻧﮩﯾں مقبوضہ ﮐﺷﻣﯾر ﻣﯾں ﺣق ﺧود ارادیت اور آزادی ﮐﯽ ﺟﻧﮓ کے لیے سرگرم ہونے پر ﻧﺎم ﻧﮩﺎد ﺟﻣوں و ﮐﺷﻣﯾر ﭘﺑﻠﮏ ﺳﯾﻔﭨﯽ اﯾﮑٹ ( ﭘﯽ اﯾس اے 1978) ﮐﮯ ﺗﺣت 38 ﺑﺎر ﺣراﺳت ﻣﯾں ﻟﯾﺎ ﮔﯾﺎ ﮨﮯ اور ﭘﭼﮭﻠﮯ 24 ﺳﺎﻟوں ﺳﮯ ﺑﻐﯾر ﮐﺳﯽ اﻟزام ﯾﺎ ﻣﻘدﻣﮯ ﮐﯽ ﺳﻣﺎﻋت ﮐﮯ وه قید کاٹ رہے ہیں۔

آزادی ﮐﯽ ﺟﻧﮓ ﻣﯾں اﭘﻧﮯ ﮐردار ﮐﮯ لیے ﮐﺋﯽ ﺳﺎل ﻧظرﺑﻧد رﮨﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎوﺟود ﻣﺳرت کے نام سے کشمیر کے زیادہ تر لوگ واقف نہیں تھے۔
مسرت 2008 میں اس وقت مزاحمتی رہنما سید علی گیلانی کے سائے کے طور پر ابھرے جب انہوں نے ہند انتفاضہ کے ذریعے کشمیر کی زمینوں کی آل ہندو شرائن بورڈ کو منتقل کیے جانے کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا اور عملی جدوجہد شروع کی۔

ان کی سیاسی صلاحیتوں اور عوام میں ملنے والی پذیرائی سے بوکھلا کر انڈیا نے ان کو حراست میں لیا اور انہیں ﺟﻣوں و ﮐﺷﻣﯾر ﮐﮯ اﻗوام ﻣﺗﺣده ﺳﮯ ﻣﻧظور ﺷده ﻣﺗﻧﺎزعہ ﺧطﮯ اور اس سے باہر کی جیلوں میں رکھا گیا۔

ﻋداﻟت ﮐﯽ ﮐﺎررواﺋﯽکے دوران ﺟب ﻣﯾں ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎر ﻣﺳرت ﺳﮯ ﻣﻼ ﺗﮭﺎ ﺗو ﻣﯾں ﻗﺎﻧون ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯾم ﺣﺎﺻل ﮐررﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ وه ﭘوﻟﯾس ﮐﯽ ﺗﺣوﯾل ﻣﯾں تھے۔
یہ 2008 ﮐﯽ اﯾﮏ ملگجی ﺷﺎم ﺗﮭﯽ کہ جب مسرت کو آرمی ویٹن نامی بکتر بند گاڑی میں لایا گیاجو ﮨﻧدوﺳﺗﺎﻧﯽ اﻓواج ﮐﮯ لیے ﺧﺻوﺻﯽ طور ﭘر ڈﯾزاﺋن ﮐرده ﺑﻠٹ ﭘروف ﮔﺎڑی ﺗﮭﯽ۔ ﺑﻐﯾر ﮐﺳﯽ ﺗﺎﺧﯾر ﮐﮯ ﻣﺳرت ﮐو ﺟﺞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻧﮯ ﭘﯾش ﮐﯾﺎ ﮔﯾﺎ، اس وقت عدالت میں انڈٰین فوجیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

ﺟﺞ ﻧﮯ ﻣﺳرت ﺳﮯ ﭘوﭼﮭﺎ 'ﮐﯾﺎ آپ کو ﻣﯾڈﯾﮑل ﭼﯾﮏ اپ ﮐﮯ لیے لے جایا گیا ہے؟' جس کے جواب میں انہوں نے ہاں کہا۔ اﻧﮩوں ﻧﮯ مزید کہا 'ﻟﯾﮑن ﻣﯾں ﺳوﻧﮯ ﺳﮯ ﻗﺎﺻر رﮨﺎ کیونکہ کل رات دس بارہ افسر مجھ سے پوچھ گچھ کرتے رہے۔ٗ

اس دوران ﮐﺷﻣﯾر ﮨﺎﺋﯽ ﮐورٹ ﺑﺎر اﯾﺳوﺳﯽ اﯾﺷن ﮐﮯ اﯾﮏ ﺳﯾﻧﺋر وﮐﯾل نے عرض کیا کہ پولیس کو ہدایت کی جائے کہ مسرت کو سیاسی قیدی کی حیثیت سے پولیس حراست کے بجائے جوڈیشل لاک اپ میں رکھا جائے۔

ﺟﺞ ﻧﮯ اس درﺧواﺳت ﮐو ﻧظراﻧداز ﮐرﺗﮯ ﮨوﺋﮯ ﻣﺳرت ﺳﮯ ﭘوﭼﮭﺎ 'آپ ﮐو ﺗﯾن ﻣﺎه ﻗﺑل رﮨﺎ ﮐﯾﺎ ﮔﯾﺎ ﺗﮭﺎ لیکن آپ مزاحمت کی سیاست کیوں کر رہے ہیں۔؟'

ان کا جواب تھا 'ﻣﺳﭨر ﺟﺞ! ﻣﯾں ﮐﺳﯽ ﭼوری ﻣﯾں ﻣﻠوث ﻧﮩﯾں ﮨوں اور ﻧہ ﮨﯽ ﮐﺳﯽ ﮔﮭﻧﺎؤﻧﮯ ﺟرم ﮐﺎ اﻟزام مجھ پر لگا ہے، میرا جرم صرف یہ ہے کہ میں اپنے حق کے لیے لڑ رہا ہوں، میں آپ کی ﺳرزﻣﯾن ﮐو ﺑﭼﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐوﺷش ﮐر رﮨﺎ ﮨوں ﺟو جبراً امرناتھ مزار بورڈ کو منتقل کی جا رہی ہے۔' جج نے فوری طور پر ﭘوﻟﯾس ﮐو دس دن ﺳﮯ زﯾﺎده ﺗﺣوﯾل ﻣﯾں ﻟﯾﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑم دﯾﺎ۔

26 ﻣﺋﯽ 2008 ﮐو ﮐﺷﻣﯾر ﻣﯾں ﮨﻧدوﺳﺗﺎﻧﯽ اور ﻣﻘﺎﻣﯽ ﺣﮑﺎم ﻧﮯ 99 اﯾﮑڑ ﺟﻧﮕﻼت ﮐﯽ زﻣﯾن ﮐو اﻣرﻧﺎﺗﮭ ﻣزار ﺑورڈ کو ﻣﻧﺗﻘل ﮐردﯾﺎ ﺗﺎﮐہ ﮨﻧدو ﯾﺎﺗرﯾوں ﮐﮯ ﻟﺋﮯ ﻋﺎرﺿﯽ ﭘﻧﺎه ﮔﺎﮨﯾں اور ﺳﮩوﻟﯾﺎت ﻗﺎﺋم ﮐﯽ ﺟﺎ ﺳﮑﯾں۔

اس پر تنازعہ پیدا ہوا اور زمین کی منتقلی کے خلاف ﻣﺗﻧﺎزﻋہ ﺧطﮯ ﻣﯾں ﻣظﺎﮨرے ﮨوﺋﮯ۔ ﮐﺷﻣﯾرﯾوں ﻧﮯ ﻣﻧﺗﻘﻠﯽ ﮐﮯ آرڈر ﮐو واپس لینے کا مطالبہ کیا ﮐﯾوﻧﮑہ اس ﺳﮯ ﻣﺎﺣوﻟﯾﺎﺗﯽ ﺗﺑﺎﮨﯽ ﮐﮯ ﻋﻼوه ﻣﺳﻠم اﮐﺛرﯾﺗﯽ ﺧطﮯ ﻣﯾں ﮨﻧدوؤں ﮐو آﺑﺎد ﮐرﻧﮯ کی منصوبہ بندی عیاں تھی۔

جب انڈٰین فوج نے تین ماہ تک جاری رہنے والی بغاوت کے دوران 60 سے زائد افراد کو قتل کیا تو ﮐﺷﻣﯾر ﻣﯾں اﯾﮏ ﮨﯽ رﯾﻠﯽ ﻣﯾں 500,000 ﺳﮯ زﯾﺎده افراد کے مظاہرے دیکھنے میں آئے اور ﺑﺎﻵﺧر ﻣﻧﺗﻘﻠﯽ روک دی ﮔﺋﯽ۔

دو ﺳﺎل ﺑﻌد ﺟون ﻣﯾں ﻣﺳرت ﮐﯽ ﺣراﺳت ﮐو ﮐﺷﻣﯾر ﮐﯽ اﯾﮏ اﻋﻠﯽٰ ﻋداﻟت ﻧﮯ ﻣﻧﺳوخ ﮐردﯾﺎ اور رﮨﺎ ﮐردﯾﺎ ﮔﯾﺎ، ان دنوں کپواڑہ میں فرضی انکاونٹرز میں تین نہتے کشمیریوں کو دہشت گرد قرار دے کر شہید کیا گیا جس کے خلاف وادی میں سخت غصے کی کیفیت تھی۔ ﻣﺳرت ﻓوری طور ﭘر روپوش ہو گئے اور ﮐﺷﻣﯾرﯾوں ﮐو ﺑڑے ﭘﯾﻣﺎﻧﮯ ﭘر ﺑﮭﺎرت ﻣﺧﺎﻟف ﺑﻐﺎوت ﮐﮯ ﻟﺋﮯ ﺗﯾﺎر ﮨوﻧﮯ ﮐﺎ اﺷﺎره دیا۔ ﮐﭼﮭ دن ﺑﻌد انہوں اس ﻧﮯ 'ﮐﺷﻣﯾر ﭼﮭوڑ دو' تحریک ﮐﺎ اﻋﻼن ﮐﯾﺎ ﺟس ﮐﺎ اﺧﺗﺗﺎم ﮐﺷﻣیری اﻧﺗﻔﺎﺿہ 2010 ﻣﯾں ﮨوا۔

ﺟون ﮐﮯ مہینے سے ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺑﮭﺎرﺗﯽ ﻓورﺳز ﻧﮯ ﮐﺷﻣﯾرﯾوں ﭘر مظالم کا ﺳﻠﺳﻠہ ﺷروع ﮐﯾﺎ۔ 120 عام ﺷﮩرﯾوں ﮐو ﮨﻼک ﮐﯾﺎ اور پہلی بار پیلٹ گنز کا استعمال کیا گیا جس کو بزنٹین دور کے بعد دنیا کا سب سے بڑا 'اجتماعی اندھا پن' قرار دیا جاتا ہے۔

ﭘﯾﻠٹ ﮔﻧوں ﮐو ﭘﮩﻠﮯ اﺳراﺋﯾل ﻧﮯ 1980 ﮐﯽ دﮨﺎﺋﯽ ﮐﮯ آﺧر ﻣﯾں فلسطینیوں ﮐﮯ ﺧﻼف اﺳﺗﻌﻣﺎل ﮐﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯾﮑن ان ﭘر ﭘﺎﺑﻧدی ﻋﺎﺋد ﮐردی ﮔﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﯾوﻧﮑہ اس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے زبردست تنقید کی تھی، تاہم انڈٰیا آج بھی مقبوضہ کشمیر میں پیلٹ گنز کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہے۔

مسرت کے نعرے ٗگو انڈیا، گو بیکٗ نے پورے کشمیر کو اپنے سحر میں لے لیا جس کی وجہ سے انڈٰیا کی نو لاکھ مسلح افواج کے گرفت کمزور ہو رہی تھی۔


اکتوبر کے مہنے میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مسرت کو ایک بار پھر گرفتار کیا گیا، یاد رہے یہ وہی پبلک سیفٹی ایکٹ ہے جس کو ایمنسٹی انٹرنیشنل عالمی طور پر غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ ﺟون ﮐﮯ ﺑﻌد سے ہی زمینی سطح پر نام نہاد بھارتی حکومت کا کنٹرول ختم ہو گیا اور لوگ مسرت اور سید علی گیلانی کی کال پر روزمرہ کا نظام پر چلا رہے تھے۔ اس وقت کی انتظامیہ نے پولیس سے کہا تھا کہ مسرت کو زندہ کیوں پکڑا گیا ان کو مار کیوں نہیں دیا گیا۔

ﻣﺳرت ﺗب ﺳﮯ ﻣزاﺣﻣﺗﯽ ﺳﯾﺎﺳت ﻣﯾں ﺑڑھ ﭼڑھ ﮐر ﺣﺻہ ﻟﮯ رہے ہیں۔ ﺟب ﺳﮯ وه ﮐﺷﻣﯾر ﮐﮯ اﯾﻠﯾٹ ﺳﮑول ﻣﯾں طالب علم تھے۔ وہ ﻣﺣض 19 ﺳﺎل کے تھے جب ان کو پہلی بار گرفتار کیا گیا تھا اور ان کو ﺣزب ﷲ کا رکن ہونے کے الزام میں دو اکتوبر 1990 کو پی ایس اے کے تحت گرفتار کیا گیا۔ یہ ایک مقامی عکسری گروہ تھا جو انڈیا کے خلاف برسرپیکار تھا۔

اﻧﮭﯾں نومبر 1991 ﻣﯾں رﮨﺎ ﮐﯾﺎ ﮔﯾﺎ، ﺗﺎﮨم 1993 ﻣﯾں ﭘﮭر ﺣراﺳت ﻣﯾں ﻟﯾﺎ ﮔﯾﺎ، جس کا سلسلہ 1997 تک چلا، رہائی کے چھ ماہ بعد ستمبر 1997 ﻣﯾں گرفتار کیا گیا جبکہ چوتھی بار ﻣﺋﯽ 2000 ﺗﮏ ﮔرﻓﺗﺎر ﮐﯾﺎ ﮔﯾﺎ۔ ﺟﻧوری ﻣﯾں 2001 ﻣﯾں پھر گرفتار ہوئے اور اﮔﺳت 2003 ﻣﯾں دو ﻣﺎه ﮐﮯ ﻟﺋﮯ رﮨﺎ ﮐﯾﺎ ﮔﯾﺎ۔ انہیں دوﺑﺎره اﮐﺗوﺑر 2003 ﻣﯾں ﺣراﺳت ﻣﯾں ﻟﯾﺎ ﮔﯾﺎ اور 2005 ﻣﯾں رﮨﺎ ﮐﯾﺎ ﮔﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔

اس دوران اے پی ایچ ﺳﯽ ﮐﮯ اﯾﮏ حصے ﻧﮯ اس وقت کے وزﯾراﻋظم ڈاﮐﭨر ﻣن ﻣوﮨن ﺳﻧﮕﮭ کے ساتھ تنازعہ کشمیر کے حوالے سے ﺑﺎت ﭼﯾت شروع ﮐﯽ ﺗﮭﯽ۔ اس ﻣﯾﭨﻧﮓ ﻣﯾں منموہن ﺳﻧﮕﮭ ﻧﮯ پبلک سیفٹی ایکٹ اور پوٹا کے تحت گرفتار کیے جانے والے کشمیری قائدین کو رہا کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ 22 اپریل 2007 کو مسرت عالم کو اس لیے رہا کیا گیا تاکہ ان کو پھر سے گرفتار کیا جا سکے۔

ﮐﺷﻣﯾر ﮐﯽ اﻋﻠﯽ ﻋداﻟت ﻧﮯ اﮐﺗوﺑر 2007 ﻣﯾں اس ﻧظرﺑﻧدی ﮐﮯ ﺣﮑم ﮐو ﻣﻧﺳوخ ﮐردﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺗﺎﮨم اس وقت مسرت کے اہل خانہ نے ﻧظرﺑﻧدی ﮐﮯ ﺣﮑم ﮐو ﭼﯾﻠﻧﺞ ﮐﯾﺎ۔ اس سے قبل انہوں نے کسی بھی انڈین عدالت میں درخواست دینے سے انکار کیا تھا۔ اس ﮐﮯ ﻧﺗﯾﺟﮯ ﻣﯾں انہوں نے 1990 ﺳﮯ 2005 ﮐﮯ درﻣﯾﺎن 15 ﺳﺎﻟوں ﻣﯾں ﺳﮯ 12 ﮐﺳﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﺟرﻣﺎﻧہ اﻟزام ﯾﺎ ﻣﻘدﻣﮯ ﮐﯽ ﺳﻣﺎﻋت ﮐﮯ ﺑﻐﯾر سﻧظرﺑﻧدی ﻣﯾں ﮔزارے۔

بھارت کی حکومت آج تک مسرت کے خلاف ایک بھی جرم ثابت نہ کر سکی سوائے اپنے تخیلی تعصب کے، کہ اگر انہیں رہا کیا گیا تو وہ ایسا کر سکتے ہیں، ویسا کر سکتے ہیں، یہ بھارتی حکومت کی اپنی ذہنی اختراع تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مسرت کے ایک نظربندی کے آرڈر میں لکھا گیا تھا کہ ٗآپ پیدائشی طور پر انڈیا کے خلاف ہیں اور اسی بنا پر آپ کا باہر رکھنا بھارتی قومی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ٗ

ﺟﯾﺳﺎ کہ اﭘرﯾل 2008 ﺳﮯ اﭘرﯾل 2010 ﺗﮏ اﯾﮏ ﮐﮯ ﺑﻌد اﯾﮏ ﭼﮭ ﺣراﺳﺗﯽ آرڈر ﮐﮯ ﺗﺣت مسرت کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ﯾﮩﺎں ﺗﮏ ﮐہ انہیں ﭼﮭ ﻣﺎه ﺗﮏ رﮨﺎ ﮐﯾﺎ ﮔﯾﺎ ﺗﮭﺎ اور ﺑﻌد ﻣﯾں اﮐﺗوﺑر 2010 ﻣﯾں ﺗﯾرﮨوﯾں ﻧظرﺑﻧدی آرڈر ﮐﮯ ﺗﺣت دوﺑﺎره ﮔرﻓﺗﺎر ﮐﯾﺎ ﮔﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﺷﻣﯾری مظاہرین کے خلاف بھارت کی کارروائیوں کے حوالے سے ایمنسٹی اﻧﭨرﻧﯾﺷﻧل ﻧﮯ اﯾﮏ جامع رﭘورٹ ﺗﯾﺎر ﮐﯽ۔

ﯾہ رﭘورٹ اﯾﻣﻧﺳﭨﯽ اﻧﭨرﻧﯾﺷﻧل ﮐﯽ ﭨﯾم ﻧﮯ ﻣﺋﯽ 2010 ﻣﯾں ﺳرﯾﻧﮕر ﮐﮯ دورے ﮐﮯ دوران اپنی ٹیم کی تحقیق کے بعد تیار کی جس میں 2003 اور 2010 ﮐﮯ درﻣﯾﺎن پی ایس اے ﮐﮯ ﺗﺣت زﯾر ﺣراﺳت 600 ﺳﮯ زﯾﺎده اﻓراد ﺳﮯ ﻣﺗﻌﻠق ﺣﮑوﻣﺗﯽ اور ﻗﺎﻧوﻧﯽ دﺳﺗﺎوﯾزات ﮐا تجزیہ کیا گیا ہے۔

ﺗﺣﻘﯾﻘﺎت ﺳﮯ ﭘﺗہ ﭼﻠﺗﺎ ﮨﮯ ﮐہ ﻋﺎم ﻓوﺟداری اﻧﺻﺎف ﮐﮯ اداروں طرﯾﻘہ ﮐﺎر اور اﻧﺳﺎﻧﯽ ﺣﻘوق ﮐﮯ تحفظ کو ملحوظ خاطر رکھنے کے بجائے حکام پی ایس اے کو ﺳﯾﺎﺳﯽ ﮐﺎرﮐﻧوں اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے والوں کی طویل نظربندی کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
اﯾﻣﻧﺳﭨﯽ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وه اﻓراد ﺟن ﮐﮯ ﺧﻼف ﻣﻘدﻣات ﮐﯽ ﺳﻣﺎﻋت ﯾﺎ ﺳزا ﮐﮯ ﻟﺋﮯ ﻧﺎﮐﺎﻓﯽ ﺛﺑوت ﻣوﺟود ﮨﯾں ان کو بھی بلاجواز قید میں رکھا جاتا ہے۔

مسرت عالم کو ﻋوام ﮐﯽ ﻧظروں ﺳﮯ دور رﮐﮭﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺋﮯ 20 اﮐﺗوﺑر 2010 ﺗﮏ حراست میں رکھا گیا۔ ﻣﺳرت آزادی ﮐﮯ ﺣﺎﻣﯽ ﮔروپ ﮐﯽ ﻗﯾﺎدت کرتے ہیں جس کو ﻣﺳﻠم ﻟﯾﮓ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ اور ان کو ﻣﺎﺿﯽ ﻣﯾں ﮔﯾﻼﻧﯽ ﻧﮯ اے ﭘﯽ اﯾﭻ ﺳﯽ ﮐﮯ ﺳﯾﮑریﭨری ﺟﻧرل ﮐﮯ ﻋﮩدے کے لیے ﺑﮭﯽ ﻧﺎﻣزد ﮐﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﻗوم ﭘرﺳت ﮨﻧدو ﮔروه ﻣﺳرت ﮐو ﮨﻼک ﮐرﻧﺎ ﭼﺎﮨﺗﮯ ﮨﯾں، 2015 ﻣﯾں عدالت نے ان کی 33 وﯾں ﻧظرﺑﻧدی منسوخ کرتے ہوئے 45 روز کے لیے رہا کیا ﻟﯾﮑن ﺑﮭﺎرﺗﯾہ ﺟﻧﺗﺎ ﭘﺎرﭨﯽ ﯾﺎ ﺑﯽ ﺟﮯ ﭘﯽ ﻧﮯ ان ﮐﯽ رﮨﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﺧﻼف ﮨﻧدوﺳﺗﺎﻧﯽ ﭘﺎرﻟﯾﻣﻧٹ ﻣﯾں اﯾﮏ ﮨﻧﮕﺎﻣہ ﮐﮭڑا ﮐردﯾﺎ اور حکمران طبقے کے ایما پر سری نگر سے مسرت عالم کو پھر سے گرفتار کر لیا گیا۔ ﻣﺳرت ﺗب ﺳﮯ ﺟﯾل ﻣﯾں ہیں۔ ﯾﮩﺎں ﺗﮏ ﮐہ آر ایس ایس جو ایک ہندو قوم پرست گروپ ہے، اس نے مسرت کو جیل میں یا جیل سے باہر قتل کرنے والے کے لیے انعام کا اعلان بھی کیا۔

1990 ﮐﮯ ﺑﻌد ﺳﮯ ﻣﺳرت ﮐﯽ 38 نظربندیوں نے انہیں ﻧہ ﺻرف ﮐﺷﻣﯾر ﻣﯾں ﺑﻠﮑہ ﭘورے اﯾﺷﯾﺎ ﻣﯾں طوﯾل ﻋرﺻﮯ ﺗﮏ حراست میں رہنے والا سیاسی قیدی بنا دیا۔ سنگا پور کے ڈاﮐﭨر ﭘوش ﮐﮯ ﺑﻌد وہ طویل ترین حراستیں برداشت کرنے والے رہنما ہیں، ڈاکٹر پوش ﺳﻧﮕﺎﭘور ﮐﮯ ﻧﺎم ﻧﮩﺎد داﺧﻠﯽ ﺳﻼﻣﺗﯽ اﯾﮑٹ ﮐﮯ ﺗﺣت اﮐﺗوﺑر 1966 ﮐﮯ ﺑﻌد 22 ﺳﺎل ﺗﮏ ﻧظرﺑﻧد رہے۔

ﻣﺳرت 1990 ﮐﮯ ﺑﻌد ﺳﮯ ﻣﺣض 54 ﻣﺎه ﺟﯾل ﺳﮯ ﺑﺎﮨر رہے۔ جیلیں مسرت کے عزم کو نہیں توڑ سکیں۔ ﮐﺷﻣﯾر ﮐﯽ آزادی ﮐﮯ ﻟﺋﮯ ان ﮐﯽ ﻟڑاﺋﯽ ﺟﺎری ﮨﮯ۔ وه ﺟو ﮐﭼﮭ پڑھتے ہیں سمجھتے ہیں ان میں ﺳﯾﺎﺳت اور اﺳﻼﻣﯽ ﻋﻠوم دوﻧوں ﺷﺎﻣل ﮨﯾں۔ ﻣﺟﮭﮯ ﮐﺷﻣﯾر ﮨﺎﺋﯽ ﮐورٹ ﺑﺎر اﯾﺳوﺳﯽ اﯾﺷن ﮐﯽ ﭨﯾم ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮭ ﻣﺳرت سے جیل میں ملنے کا موقع ملا۔

ﺟب ﺑﺎر ﭨﯾم ﻧﮯ ﮐﭨﮭوﻋہ ﺟﯾل ﮐﺎ دوره ﮐﯾﺎ ﺗو ﻣﺳرت اﭘﻧﯽ ڈاﺋرﯾری اور اﯾڈورڈ ﺳﯾد ﮐﯽ کتاب ﻟﮯ ﮐر ﺟﯾل ﺳﮯ ﺑﺎﮨر آئے۔ ﻣﯾں ﻧﮯ ﻣﺳرت ﺳﮯ کہا ﮐہ ﮐﯾﺎ ﮨﻣﯾں اﯾﺷﯾن ﮨﯾوﻣن راﺋﭨس میں ان کا ﻣﻌﺎﻣﻠہ اﭨﮭﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺋﮯ ﮐﯾوں ﮐہ وه ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ 21 ﺳﺎﻟوں ﺳﮯ ﺟﯾل ﻣﯾں ﺑﻧد ہیں۔ ﻣﯾں ﻧﮯ ڈاﮐﭨر ﭘوش اور ﺑﮭﮕت ﺳﻧﮕﮭ کا بھی ﺣواﻟہ دﯾﺎ ﺟو اﻧﮕرﯾزوں ﮐﮯ ﺧﻼف ﮨﻧدوﺳﺗﺎن ﮐﯽ آزادی ﮐﯽ ﺟدوﺟﮩد ﮐﮯ آزادی ﮐﮯ ﮨﯾرو ﺗﮭﮯ۔

ان کا جواب کچھ یوں تھا 'ﮨﻣﺎرے ﭘﺎس ﺑﮩت ﮐم وﻗت ﮨﮯ۔ ﻣﺟﮭﮯ ﺟﯾل ﻣﯾں اﺗﻧﺎ زﯾﺎده وﻗت ﮔزارﻧﮯ پر اﯾوارڈز ﻣﯾں دﻟﭼﺳﭘﯽ ﻧﮩﯾں ﮨﮯ۔ بہتر ہے کہ انڈین سپریم کورٹ میں آر ایس ایس تھنک ٹیک کی طرف سے دائر درخواست کے حوالے سے بات کرتے ہیں جو آرٹیکل 35 اے کو ختم کرنے کے حوالے سے ہے، یہ آرٹیکل کشمیریوں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔

5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے آرٹیکل 35 اے اور آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا جس کے بعد کوئی بھی غیر کشمیری کشمیر میں جا کر اراضی خرید سکتا ہے یا ملازمت کر سکتا ہے۔ اس طرح خطے میں مسلم اکثریت کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں اور وہاں آبادی کے تناسب کو انڈیا کی جانب سے اپنے حق میں موڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

مسرت عالم بھٹ نے اپنے انٹرویوز میں کئی بار کہا کہ 'آپ ﺟو ﻣﺳﺋﻠہ ﮐﺷﻣﯾر ﻣﯾں دﯾﮑﮭ رﮨﮯ ﮨﯾں وه ہندوستان کا فوجی قبضہ ہے، اور قبضے حل نہیں ہوتے بلکہ قابضین کو نکالا جاتا ہے، بھارت کو واپس جانا چاہیے۔ ﻣﺳرت ﮐﯽ ﺷﺎدی 2007 ﺳﮯ زاﮨده ﺑﮭٹ ﺳﮯ ﮨوﺋﯽ۔ ان کی اولاد نہیں ہے، وہ شادی کے بعد فقط گیارہ روز گھر میں رہے اور پھر گرفتار ہوئے۔

ان کی بہن کا 2016 میں انتقال ہوا تو انہیں جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی، اس وقت وہ دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔ مسرت کا تعلق ﺳری ﻧﮕر ﮐﮯ مشہور کاروباری خاندان سے ہے، مسرت عالم کے سیاست میں آنے کے بعد ان کے خاندان کا کاروبار بھی بری طرح متاثر ہوا، لیکن خود مختاری کے لیے اس سودے پر مسرت کو کوئی افسوس نہیں ہے۔
Load Next Story