دائرے کا سفر
صادق اورامین یعنی آمنا و صدقنا لوگ کہہ رہے ہیں کہ ’’چل پڑی‘‘ تو یقیناً چل پڑی ہوگی۔
کوئی ایسے ویسے یعنی ہماشما جیسے لوگ کہتے تو ہم ہرگز نہ مانتے لیکن صادق اورامین یعنی آمنا و صدقنا لوگ کہہ رہے ہیں کہ ''چل پڑی'' تو یقیناً چل پڑی ہوگی۔ ریاست مدینہ سے جنت الفردوس ایکسپریس کی ہم بات کر رہے ہیں یا شاید ایک خصوصی برائے مذہبی امور کے مطابق ہماری منزل خلافت راشدہ ہے۔
چرچے تو ایک عرصے سے سن رہے تھے کوئی کہتا تھا کہ ٹریک تیار ہوگیا ہے کوئی بتاتا تھا کہ کوئلہ پانی ڈال دیاگیا ہے، کسی کا کہنا تھا کہ سارے پرزے گریس کر دیے گئے اور زنگ دورکردیاگیا ہے، کبھی خبرآتی تھی کہ ٹریک کی روڑی پتھر بھی ٹھیک کردیے گئے یہاں تک کہ ڈرائیور اپنی سیٹ پر بیٹھ چکا ہے اور اب سیٹی بجنے ہی والی ہے اور اب خبر آئی ہے کہ اس بجٹ اور اس کے آفٹرشاکس شروع ہوچکے ہیں اورچل پڑی ایسی چلی ویسی چلی سلو چل پڑی۔
واقف حال لوگوں کاکہنا ہے کہ ٹرین میں ہر طرح کی سہولت موجود ہے، ڈائننگ کار بھی منسلک ہے، بیٹھنے ، لیٹنے، سونے، جاگنے کے لیے سارے انتظامات بھی موجود ہیں اور تو اور وہ مشہور اور بین الاقوامی جملے بھی لکھے ہوتے ہیں کہ سواری اپنے سامان کی خود ذمے دار ہے، جیب کتروں سے ہوشیار، دیر سے پہنچنا بہتر ہے نہ پہنچنے سے، ڈرائیورکو تیز رفتاری پر مجبورنہ کریں۔
مطلب یہ کہ... تھا جس کا انتظار وہ شاہکار ''چل پڑی''
رو میں ہے رخش عمر، کہاں دیکھتے تھے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں
لیکن ایک صاحب وژن نے کہا ہے کہ سارے خدشات غلط ہیں باگ آزمودہ کار، مضبوط اور محفوظ ہاتھوں میں ہے، اب گاڑی کو اپنی منزل مقصود تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اس خوشی کے موقعے پرکیا۔ بلکہ کیا کیا سُنیں۔ کس طرح اپنی مسرت کا اظہار کریں۔ لیکن کہنا بھی تو ضروری ہے۔ سنا ہے مسافروں کوچیونگم وافر مقدار میں دیے گئے ہیں کہ چبائیں اور اپنا سفر مصروف بنائیں۔ایسے میں رحمان بابا یاد نہ آئیں یہ تو ممکن نہیں کہ سفر کے موضوع پر وہ اتھارٹی ہیں، فرماتے ہیں۔
نہ د زایہ چرتہ خوزم نہ سفر کڑم
بے سفرہ مے لنڈیگی لارد عمر
ترجمہ: میں نہ اپنی جگہ سے ہلتا ہوں نہ سفر کرتا ہوں لیکن پھر بھی عمر کا سفر کٹ رہا ہے۔ایک حقیقہ ہمارے ساتھ بھی ہوا ہے، ایک روز ہم پشاور سے اپنے گاؤں کے لیے بس میں بیٹھے تو شام کا ملگجا سا اندھیرا پھیل رہا تھا ۔کوئی آٹھ ،دس میل کے سفر کے بعد بس ایک بجری کے ڈھیر سے ٹکرائی تواچھل پڑی اور لوٹ پوٹ ہوئی کنارے جا پڑی اور اُلٹ گئی۔
سواریاں کھڑکیوں وغیرہ سے نکلنے اور نکالی جانے لگی ۔ چلتی ہوئی گاڑیاں بھی رُکنے لگیں ادھر اُدھر سے بھی بہت سارے لوگ جمع ہوگئے۔ حیرت انگیز طور پر کسی سواری کو معمولی تراش خراش کے سوا کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا اور ایک ایک کرکے گزرنے والی گاڑیوں میں سوارہونے لگیں، ہم بھی دوسری بس میں بیٹھ گئے۔
کنڈیکٹر نے شاید مروت سے کرائے کا نہیں پوچھا لیکن اچانک ہم نے محسوس کیا کہ سفر کچھ لمبا ہو گیا اور ارد گرد کا منظر بھی ہماری منزل مقصود جیسا نہیں تھا چاروں طرف روشنیاں ہی روشنیاں تھیں غور کیا تو ہم واپس پشاور شہر پہنچ گئے تھے۔ حیرت ہوئی ہم تو اپنے خیال میں نوشہرہ کوچلے تھے، سمجھ گئے کہ بدحواسی میں سمت کا تعین غلط کیا۔
واپس ایک اوربس میں چل پڑے توحادثے کے مقام پر ہم نے دیکھا کہ وہ بس صرف لوٹ پوٹ ہی نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کا آگا پیچھا بھی ہو گیا تھا اور پیچھا آگا، یعنی اس نے اپنا قبلہ بھی غلط کیا تھا بس میں ملکہ ترنم کا گانا بج رہا تھا۔
لے آئی ہے کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
دائرے کے سفر میں صرف سفرہوتا ہے منزل کبھی نہیں آتی،'' ہماری گاڑی''۔ جو چل پڑی ہے، کہیں دائرے میں تو سفر نہیں کر رہی ہے۔
ترسم کہ بہ کعبہ نہ رسی اے اعرابی
کہیں راہ کہ تومے روی بہ ترکستان است
اے اعرابی مجھے ڈر ہے کہ تو کعبہ نہیں پہنچے گا ،جس راستے پرتو چل پڑا ہے، ترکستان کی طرف جاتا ہے۔