”شیم آن یو انڈین کرکٹ بورڈ“
آئی سی سی بھی مکمل طور پر بھارتی کرکٹ بورڈ کے کنٹرول میں ہے
"آپ بُرا نہ مانیں تو ایک بات پوچھوں" لندن کی ایک سہانی شام میں نے جب چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے اس وقت کے چیئرمین پی سی بی شہریارخان سے یہ جملہ کہا تو انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا "ضرور"
"آپ کی ان سے اتنی دوستی ہے تو انھوں نے بھارت میں ملاقات کیوں نہیں کی تھی؟ کیوں پی سی بی کے وفد کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا"
میری یہ بات سن کر شہریار صاحب مسکرائے اور جواب دیا "سلیم میاں میں سمجھ گیا تمہارا اشارہ ششانک منوہر کی جانب ہے، دراصل بھارت میں انتہا پسندی اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہاں کے سنجیدہ قسم کے لوگ بھی منفی ردعمل سے خوفزدہ رہتے ہیں، بی سی سی آئی حکام کو رہنا تو بھارت میں ہی ہے، وہ کیوں ہماری وجہ سے اپنا جینا دوبھر کریں گے"
ہماری اس غیررسمی ملاقات سے قبل جب میں ہوٹل پہنچا تو میں نے شہریارخان، اہلیہ، ششانک منوہر اور اہلیہ کو دوستوں کی طرح گپ شپ کرتے دیکھا تھا،2015میں انہی ششانک منوہرنے شہریارخان کو بھارت بلانے کے بعد ملاقات سے انکار کردیا تھا، اس وقت وہ بی سی سی آئی کے صدر تھے، بعد میں آئی سی سی کے چیئرمین بن گئے،مذکورہ واقعہ بھی اسی دوران کا ہے۔
اس سے قبل بظاہر بھارتی کرکٹ بورڈ مکمل طور پر انتہا پسندی کی لپیٹ میں نہیں آیا تھا مگر حکومتی دباؤ پر پاکستان سے باہمی میچز کھیلنے سے بھی گریزاں تھا،اربوں،کھربوں کے بینک بیلنس اور اثاثوں کا مالک بی سی سی آئی اب تو مکمل طور پر انتہاپسندوں کے نرغے میں ہے، سیکریٹری جے شاکے والد وزیر اعظم نریندر مودی کے دست راست بی جے پی لیڈر امیت شاہ ہیں، آپ اس سے اندازہ لگا لیں کہ سابق کپتان اور موجودہ بورڈ صدر سارو گنگولی پر انتہا پسند جماعت بی جے پی میں شمولیت کیلیے اتنا دباؤ ڈالا گیا کہ انھیں دل کا دورہ پڑ گیا اور وہ مرتے مرتے بچے۔
اس کا انکشاف خود بھارتی میڈیا نے کیا تھا، اب تو پاک بھارت باہمی کرکٹ کا باب مکمل طور پر بند ہو چکا ہے، ہمیں ان کی ضرورت بھی نہیں، ہماری کرکٹ جاری ہے، اگر آئی پی ایل میں ہمارے کھلاڑیوں کو موقع نہیں ملتا تو ہماری اپنی پی ایس ایل بھی بڑا برانڈ بن چکی، سابق جنوبی افریقی اسٹار ڈیل اسٹین نے تو مجھے ایک انٹرویو میں پاکستانی لیگ کو بھارتی ایونٹ سے بہتر قرار دے کران کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی، بھارت کو پاکستان سے نہیں کھیلنا نہ کھیلے، آئی پی ایل میں ہمارے کھلاڑیوں کو نہیں شامل کرنا تو نہ کرے، ہمیں کوئی مسئلہ نہیں لیکن اگر وہ ہماری کرکٹ میں دوسروں کو شرکت سے روکے گا تو ہم بھی چپ نہیں رہیں گے۔
اس سے پہلے بھی یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ پی ایس ایل میں بعض غیرملکی کرکٹرز کو بھارت کی جانب سے عدم شرکت کا کہا جاتا ہے، مگر اب کشمیر پریمیئر لیگ میں جب کھلاڑیوں کوشمولیت سے روکا گیا تو سابق جنوبی افریقی اسٹار ہرشل گبز نے بھانڈا پھوڑ دیا، انھوں نے یہ بھی بتایا کہ بی سی سی آئی کے سیکریٹری جے شاہ نے کرکٹ جنوبی افریقہ کے آفیشل گریم اسمتھ کے ذریعہ پیغام پہنچایا،ان کو دھمکی دی کہ اگر کے پی ایل میں شامل ہوئے تو بھارت میں گھسنے نہیں دیا جائے گا، ایسے ہی پیغامات اور بھی غیرملکی کرکٹرز کو دیے گئے، یہ کیا طریقہ ہے؟ منافقت کی بلندیوں پر پہنچے ہوئے بھارتی کرکٹ بورڈ کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ کشمیر میں اگر ٹورنامنٹ ہوا اور بڑے نام شریک ہوئے تو اس سے دنیا میں پاکستان کا امیج مزید بہتر ہو گا۔
مقبوضہ کشمیر میں تو بھارت نے عوام کو قیدی بنا کر رکھا ہوا ہے، ان کے حقوق سلب کیے ہوئے ہیں،اسے ڈر ہوگا کہ آزاد کشمیر میں کامیاب کرکٹ ٹورنامنٹ سے دنیا کے سامنے اس کی پوزیشن مزید خراب ہوگی،اسی لیے ٹورنامنٹ کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کر دیے،میرے پاس وہ ای میل موجود ہے جس میں ایک پلیئرز ایجنٹ نے انکشاف کیا کہ انگلش بورڈ سے بھی بھارت نے سابق کرکٹرز کوکشمیر لیگ میں حصہ لینے سے روکنے کا کہا ہے، شکر ہے پی سی بی نے بھی اس معاملے پر سخت موقف اپنایا اور معاملہ آئی سی سی کے سامنے اٹھانے کا بھی اعلان کردیا،پاکستان کبھی کھیلوں میں سیاست کو نہیں لایا لیکن بھارت ہمیشہ ایسا ہی کرتا ہے، ماضی میں پی ایس ایل کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔
فکسنگ کیسز کے تانے بانے بھی بھارتیوں سے ملے،بھارتی پروڈکشن ٹیم بھی ایک بار آخری لمحات میں دستبردار ہو گئی تھی، آپ منافقت کی انتہا دیکھیں، جب آئی سی سی کا کوئی ایونٹ ہو تو پاکستان سے اختلافات بھلا دیے جاتے ہیں، ان کی حکومت بھی خاموش ہو جاتی ہے، اس میں پاکستانی ٹیم سے میچ پر انتہاپسندوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا، تب آئی سی سی بھی خوش رہتی ہے، مگر باہمی سیریز کی بات ہو تو بھارتی بورڈ حکومتی اعتراضات سمیت کئی باتیں سامنے لے آتا ہے، آئی سی سی اسے آپس کا مسئلہ قرار دے کر سائیڈ میں ہو جاتی ہے،پی سی بی کو اس معاملے پر قانونی چارہ جوئی پر بھی بھاری جرمانہ بھرنا پڑا تھا۔
اب یا تو بھارت پکا ارادہ کر لے کہ پاکستان سے نہیں کھیلنا چاہے کتنا بڑا نقصان ہوجائے یا پھر منافقت ترک کر کے سیریز بھی کھیلے،یقیناً مستقبل قریب میں اس کا کوئی چانس نہیں، ایسے میں اب پاکستان کو بھی سخت موقف اپنانا چاہیے، اگر احسان مانی میں ہمت ہے تو کہہ دیں آئی سی سی سے کہ ہماری ٹیم ورلڈکپ میں بھی بھارت سے نہیں کھیلے گی وہ ہماری کرکٹ کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے،مگر میں جانتا ہوں ایسا نہیں ہوگا،"ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور" ابھی سخت بیان بھی عوامی غصہ دیکھتے ہوئے دیا ورنہ سارے دن خاموشی چھائی رہی تھی۔
آئی سی سی بھی مکمل طور پر بھارتی کرکٹ بورڈ کے کنٹرول میں ہے، اس سے آپ لاکھ شکایتیں کریں کوئی فائدہ نہیں ہونا، ہاں بھارت شکایت کرے تو فوراً خلاف فیصلہ آجائے گا بھاری جرمانہ یا پابندی بھی عائد ہو سکتی ہے، ہمیں اپنے آپ کو اتنا مضبوط بنانا چاہیے کہ ایسے منفی ہتھکنڈوں سے کوئی نقصان نہ پہنچے،ہرشبل گبز قابل تعریف ہیں کہ انھوں نے اسٹینڈ لیا، ہمیں اپنے دوستوں کی تعداد بڑھانا ہوگی، دیگر بورڈز کو بھی قریب لائیں، طویل عرصے سے بھارت کیخلاف کوئی سیریز نہیں ہوئی لیکن ہماری کرکٹ قائم و دائم ہے اور آئندہ بھی رہے گی، البتہ بھارتی بورڈ کی اس حرکت نے اسے دنیا کے سامنے مزید بے نقاب کردیا، "شیم آن یو بی سی سی آئی"۔
(نوٹ:آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
"آپ کی ان سے اتنی دوستی ہے تو انھوں نے بھارت میں ملاقات کیوں نہیں کی تھی؟ کیوں پی سی بی کے وفد کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا"
میری یہ بات سن کر شہریار صاحب مسکرائے اور جواب دیا "سلیم میاں میں سمجھ گیا تمہارا اشارہ ششانک منوہر کی جانب ہے، دراصل بھارت میں انتہا پسندی اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہاں کے سنجیدہ قسم کے لوگ بھی منفی ردعمل سے خوفزدہ رہتے ہیں، بی سی سی آئی حکام کو رہنا تو بھارت میں ہی ہے، وہ کیوں ہماری وجہ سے اپنا جینا دوبھر کریں گے"
ہماری اس غیررسمی ملاقات سے قبل جب میں ہوٹل پہنچا تو میں نے شہریارخان، اہلیہ، ششانک منوہر اور اہلیہ کو دوستوں کی طرح گپ شپ کرتے دیکھا تھا،2015میں انہی ششانک منوہرنے شہریارخان کو بھارت بلانے کے بعد ملاقات سے انکار کردیا تھا، اس وقت وہ بی سی سی آئی کے صدر تھے، بعد میں آئی سی سی کے چیئرمین بن گئے،مذکورہ واقعہ بھی اسی دوران کا ہے۔
اس سے قبل بظاہر بھارتی کرکٹ بورڈ مکمل طور پر انتہا پسندی کی لپیٹ میں نہیں آیا تھا مگر حکومتی دباؤ پر پاکستان سے باہمی میچز کھیلنے سے بھی گریزاں تھا،اربوں،کھربوں کے بینک بیلنس اور اثاثوں کا مالک بی سی سی آئی اب تو مکمل طور پر انتہاپسندوں کے نرغے میں ہے، سیکریٹری جے شاکے والد وزیر اعظم نریندر مودی کے دست راست بی جے پی لیڈر امیت شاہ ہیں، آپ اس سے اندازہ لگا لیں کہ سابق کپتان اور موجودہ بورڈ صدر سارو گنگولی پر انتہا پسند جماعت بی جے پی میں شمولیت کیلیے اتنا دباؤ ڈالا گیا کہ انھیں دل کا دورہ پڑ گیا اور وہ مرتے مرتے بچے۔
اس کا انکشاف خود بھارتی میڈیا نے کیا تھا، اب تو پاک بھارت باہمی کرکٹ کا باب مکمل طور پر بند ہو چکا ہے، ہمیں ان کی ضرورت بھی نہیں، ہماری کرکٹ جاری ہے، اگر آئی پی ایل میں ہمارے کھلاڑیوں کو موقع نہیں ملتا تو ہماری اپنی پی ایس ایل بھی بڑا برانڈ بن چکی، سابق جنوبی افریقی اسٹار ڈیل اسٹین نے تو مجھے ایک انٹرویو میں پاکستانی لیگ کو بھارتی ایونٹ سے بہتر قرار دے کران کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی، بھارت کو پاکستان سے نہیں کھیلنا نہ کھیلے، آئی پی ایل میں ہمارے کھلاڑیوں کو نہیں شامل کرنا تو نہ کرے، ہمیں کوئی مسئلہ نہیں لیکن اگر وہ ہماری کرکٹ میں دوسروں کو شرکت سے روکے گا تو ہم بھی چپ نہیں رہیں گے۔
اس سے پہلے بھی یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ پی ایس ایل میں بعض غیرملکی کرکٹرز کو بھارت کی جانب سے عدم شرکت کا کہا جاتا ہے، مگر اب کشمیر پریمیئر لیگ میں جب کھلاڑیوں کوشمولیت سے روکا گیا تو سابق جنوبی افریقی اسٹار ہرشل گبز نے بھانڈا پھوڑ دیا، انھوں نے یہ بھی بتایا کہ بی سی سی آئی کے سیکریٹری جے شاہ نے کرکٹ جنوبی افریقہ کے آفیشل گریم اسمتھ کے ذریعہ پیغام پہنچایا،ان کو دھمکی دی کہ اگر کے پی ایل میں شامل ہوئے تو بھارت میں گھسنے نہیں دیا جائے گا، ایسے ہی پیغامات اور بھی غیرملکی کرکٹرز کو دیے گئے، یہ کیا طریقہ ہے؟ منافقت کی بلندیوں پر پہنچے ہوئے بھارتی کرکٹ بورڈ کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ کشمیر میں اگر ٹورنامنٹ ہوا اور بڑے نام شریک ہوئے تو اس سے دنیا میں پاکستان کا امیج مزید بہتر ہو گا۔
مقبوضہ کشمیر میں تو بھارت نے عوام کو قیدی بنا کر رکھا ہوا ہے، ان کے حقوق سلب کیے ہوئے ہیں،اسے ڈر ہوگا کہ آزاد کشمیر میں کامیاب کرکٹ ٹورنامنٹ سے دنیا کے سامنے اس کی پوزیشن مزید خراب ہوگی،اسی لیے ٹورنامنٹ کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کر دیے،میرے پاس وہ ای میل موجود ہے جس میں ایک پلیئرز ایجنٹ نے انکشاف کیا کہ انگلش بورڈ سے بھی بھارت نے سابق کرکٹرز کوکشمیر لیگ میں حصہ لینے سے روکنے کا کہا ہے، شکر ہے پی سی بی نے بھی اس معاملے پر سخت موقف اپنایا اور معاملہ آئی سی سی کے سامنے اٹھانے کا بھی اعلان کردیا،پاکستان کبھی کھیلوں میں سیاست کو نہیں لایا لیکن بھارت ہمیشہ ایسا ہی کرتا ہے، ماضی میں پی ایس ایل کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔
فکسنگ کیسز کے تانے بانے بھی بھارتیوں سے ملے،بھارتی پروڈکشن ٹیم بھی ایک بار آخری لمحات میں دستبردار ہو گئی تھی، آپ منافقت کی انتہا دیکھیں، جب آئی سی سی کا کوئی ایونٹ ہو تو پاکستان سے اختلافات بھلا دیے جاتے ہیں، ان کی حکومت بھی خاموش ہو جاتی ہے، اس میں پاکستانی ٹیم سے میچ پر انتہاپسندوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا، تب آئی سی سی بھی خوش رہتی ہے، مگر باہمی سیریز کی بات ہو تو بھارتی بورڈ حکومتی اعتراضات سمیت کئی باتیں سامنے لے آتا ہے، آئی سی سی اسے آپس کا مسئلہ قرار دے کر سائیڈ میں ہو جاتی ہے،پی سی بی کو اس معاملے پر قانونی چارہ جوئی پر بھی بھاری جرمانہ بھرنا پڑا تھا۔
اب یا تو بھارت پکا ارادہ کر لے کہ پاکستان سے نہیں کھیلنا چاہے کتنا بڑا نقصان ہوجائے یا پھر منافقت ترک کر کے سیریز بھی کھیلے،یقیناً مستقبل قریب میں اس کا کوئی چانس نہیں، ایسے میں اب پاکستان کو بھی سخت موقف اپنانا چاہیے، اگر احسان مانی میں ہمت ہے تو کہہ دیں آئی سی سی سے کہ ہماری ٹیم ورلڈکپ میں بھی بھارت سے نہیں کھیلے گی وہ ہماری کرکٹ کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے،مگر میں جانتا ہوں ایسا نہیں ہوگا،"ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور" ابھی سخت بیان بھی عوامی غصہ دیکھتے ہوئے دیا ورنہ سارے دن خاموشی چھائی رہی تھی۔
آئی سی سی بھی مکمل طور پر بھارتی کرکٹ بورڈ کے کنٹرول میں ہے، اس سے آپ لاکھ شکایتیں کریں کوئی فائدہ نہیں ہونا، ہاں بھارت شکایت کرے تو فوراً خلاف فیصلہ آجائے گا بھاری جرمانہ یا پابندی بھی عائد ہو سکتی ہے، ہمیں اپنے آپ کو اتنا مضبوط بنانا چاہیے کہ ایسے منفی ہتھکنڈوں سے کوئی نقصان نہ پہنچے،ہرشبل گبز قابل تعریف ہیں کہ انھوں نے اسٹینڈ لیا، ہمیں اپنے دوستوں کی تعداد بڑھانا ہوگی، دیگر بورڈز کو بھی قریب لائیں، طویل عرصے سے بھارت کیخلاف کوئی سیریز نہیں ہوئی لیکن ہماری کرکٹ قائم و دائم ہے اور آئندہ بھی رہے گی، البتہ بھارتی بورڈ کی اس حرکت نے اسے دنیا کے سامنے مزید بے نقاب کردیا، "شیم آن یو بی سی سی آئی"۔
(نوٹ:آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)