بدلتا ہوا عالمی منظر نامہ اور پاکستان

ہم نے امریکی ورلڈ آرڈر کے ساتھ چل کر پیاز بھی کھائے اور جوتے بھی۔


سرور منیر راؤ August 01, 2021

KABUL: افغانستان سے امریکی افواج کے نکلنے کے ساتھ ہی عالمی منظر نامہ ایک نیا رخ اختیار کر رہا ہے۔بدلتے منظر نامے میں چین بتدریج امریکا کے مدمقابل آ رہا ہے۔ روس اس منظرنامے میں اہم کردار حاصل کرنے کے جتن کر رہا ہے۔

افغانستان کی جنگ ہارنے کے بعد سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا اور وہ ایک عالمی طاقت نہ رہ سکا، اس طرح امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا۔ امریکا نے واحد سپر پاور بننے کے بعد دنیا کے دوسرے خطوں میں اپنی حاکمیت قائم کرنے کے لیے نیو گلوبل آرڈر نافذ کرنے کے جارحانہ اقدامات شروع کیے جس کی اہم مثالیں عراق، لیبیا، شام، ایران، پاکستان اور افغانستان ہیں۔

نیو ورلڈ آرڈر کے اہم مقاصد میں چین کو عالمی منظر نامے میں نمایاں کردار ادا کرنے سے روکنے کے لیے بھارت کو بڑی طاقت کی حیثیت دلانا تھا۔اس مقصد کو حاصل کے لیے امریکا نے زندگی کے ہر شعبے میں بھارت کی بھرپور مدد کی حتی کہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا رکن بنانے کی بھی پوری کوشش کی لیکن چین اور پاکستان نے اس خواہش کو پورا نہ ہونے دیا۔

امریکا نے تمام بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لیبیا اور عراق کے حکمرانوں کو نہ صرف معزول کرایا بلکہ انھیں اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔عراق اور لیبیا کے عوام کی اکثریت اس جنگ سے معاشی اور نفسیاتی طور پر انتہائی مشکلات کا شکار اور بے سمت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

امریکا نے افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے افغانستان اور ستر دوسرے اسلامی ممالک کے جہادیوں کو عسکری قوت بنا کر افغانستان کے میدان میں اتارا۔اس طرح امریکا نے بظاہر سوویت یونین کو شکست دینے کا مقصد تو حاصل کرلیا لیکن جنگ کے بعد تمام اخلاقی قدروں کو پامال کرتے ہوئے اس جنگ میں شریک تمام جہادیوں کو دہشتگرد کہنا شروع کر دیا اسامہ بن لادن اور ملا عمر کو دنیا کا سب سے بڑا دہشتگرد قرار دیا گیا اور ان کے سروں کی قیمت مقرر کی۔

امریکا اس وقت افغانستان کو جس حالت میں بے یارومددگار چھوڑ کر جا رہا ہے، اس سے کیسے نکلا جائے۔ یہ بات نہ تو افغانستان کے حکمرانوں کو سمجھ آ رہی ہے اور نہ ہی ہمسایہ ممالک کو۔افغانستان کی اس پیچیدہ صورتحال کا زیادہ اثر پاکستان پر پڑ رہا ہے۔

بلاشبہ عالمی منظر نامے میں امریکا اب واحد سپر پاور کی حیثیت کھوتا جا رہا ہے لیکن پھر بھی دنیا کے اکثر ممالک کی فیصلہ سازی پر امریکا کا اثر بدستور موجود ہے۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، فیٹف اور اقوام متحدہ کے اداروں پر اب تک امریکا کا مکمل کنٹرول ہے۔ امریکا اس وقت بھی دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہے۔اس پس منظر میں پاکستان کشتیاں جلا کر چین کے ساتھ کھل کر میدان میں نہیں آ سکتا۔

دوسری طرف مشرق وسطی کے تقریبا سبھی ممالک اب بھی امریکا کے اتحادی ہیں۔ بھارت بھی اس خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ کرنے اور پاکستان کو ہمہ وقت مشکل کا شکار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ ان حالات میں پاکستان کو قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہے۔اس بدلتے عالمی منظر نامے نے پاکستان کو ایک کڑے امتحان میں ڈالا ہوا ہے۔ اس صورتحال میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ''نیت صاف منزل آسان''اس وقت ہم کو عظیم تر قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے دانشمندانہ فیصلے کرنا ضروری ہے۔

ہم نے امریکی ورلڈ آرڈر کے ساتھ چل کر پیاز بھی کھائے اور جوتے بھی۔ دیکھنا ہے کہ پاکستان کے سفارتکار،سیاستدان، عسکری قوتیں اور میڈیا اس حوالے سے کس طرح مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے پاس ''وقت کم اور مقابلہ سخت ہے''۔ پاکستان کو ماضی کی افغان پالیسی کی وجہ سے انتہائی مشکل کا شکار ہونا پڑا، اب بھی افغانستان کے لیے جو بھی پالیسی اختیار کی جائے گی، اس میں پاکستان کے مستقبل کا امن پوشیدہ ہے۔ چین، ایران اور جنوبی ایشیائی ممالک سے کھلی مشاورت وقت کی اہم ضرورت ہے۔

بدلتے ہوئے منظر نامے میں پاکستان کے باعزت مقام کے لیے ملک کی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کی سوچ کا ایک ہونا ضروری ہے۔ عظیم قومی مقصد کے لیے گروہی، سیاسی یا ذاتی مفادات کو پس پشت ڈالنا لازم ہے ۔اس سلسلے میں حزب اختلاف سے زیادہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر عظیم تر قومی مفاد کا ایجنڈا ترتیب دے اور اسے مخالف سیاسی جماعتوں کے قائدین کو بھیجنے کے ساتھ میڈیا کو بھی جاری کریں تاکہ قومی اتفاق رائے رائے پیدا کرنا آسان ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔