خان کے پیچھے پیچھے
لفظ خان کی اصل خگان ہے جس سے مختلف زبانوں میں معززین کے لیے الفاظ بنے ہیں۔
دلیپ کمارکی وفات پر ،ایک مرتبہ پھر ''خان'' اور''خانوں'' کا ذکر چھڑ گیا ہے۔ خاص طورپر ''مومبائی'' بمقام ''گالی ووڈ'' کے ''خانوں'' کے چرچے تو ہر طرف ہورہے ہیں۔
ہمارے ایک دوست جواپنے آپ کوٹاپ کلاس دانا دانشورسمجھتے ہیں لیکن اصل میں ''نرگسیت'' کے ناقابل علاج مریض ہیں۔ کہنے لگے، دیکھا ''ہم ''کاکمال ،جہاں پہلے لوگ ہندوانہ نام رکھتے تھے، یوسف خان، دلیپ کمارہوجاتا تھا، ممتاز جہاں بیگم مدھوبالا ہوجاتی تھی، موسیٰ رضا سنتوش کمار اورشاہ زمان سدھیر ہو جاتا تھا، وہاں آج کل اروڑے، گوری ،ہیلین اور سوزین۔ ''خان'' ہوجاتے ہیں۔
دوردورسے ''کچھ پکڑ کر'' فخر کرنے کی بری عادت ہمارے ہاں عام ہے ورنہ مومبائی کے یہ ''خان'' اورخانیاں، پشتون تو کیا مسلمان بھی نہیں ہیں۔ ہم کئی باربھارت یاترا کرچکے ہیں اوران خان اورخانیوں کو اندر تک دیکھ چکے ہیں۔ اکثرکے سارے رشتے ناطے ہندوئوں سے ہیں۔ اکثرکے گھروں میں مندر بنے ہوتے ہیں اوربتوں کو گھروں، دفتروں اورگاڑیوں میں سجائے ہوئے ہیں۔ خوشخال خان خٹک نے ''خان'' کی تین نشانیاں یاشرائط بیان کی ہیں۔
چہ گٹل،خوڑل، بخل کاخان ھغہ
(جوکماتاہے، کھاتاہے اورکھلاتاہے وہی خان ہوتاہے)
جہاں تک پہلی دوشرائط ہیں،کمانا اورکھانا وہ تو جانوربھی کرتے ہیں لیکن اصل شرط تیسری''کھلانا'' بہت ہی کڑی اورمشکل شرط ہے جوخان ہی کی نہیں انسان ہونے کی بھی نشانی ہے۔جن خانوں کابالی وڈ سے تعلق ہے، ان کے بارے میں ہم جڑ تک جانتے ہیں کہ کسی اورکو تو کیا اپنے خونی رشتہ داروں تک کو بھلاچکے ہیں۔کامیابیوں کے بعد پلٹ کر کبھی دیکھا تک نہیں۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے، کہنا صرف یہ ہے کہ کوئی خان حقیقت میں خان نہیں ہے ،صرف ایک ''سکہ'' ہے جو آج کل رائج الوقت ہے۔اصل میں ہم لفظ ''خان'' کا ''مالہ وماعلیہ'' بیان کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لفظ کہاں سے چلا اورکہاں سے ہوتاہواکہاں پہنچاہے۔ اس کے لیے ہمیںذرادوردورتک گہری اورفراخ کھدائی کرنا ہوگی۔
مشہور یونانی جغرافیہ دان سٹرایو،ہیروڈوٹس اور خاص طورپر سکندر کے مورخ کاونٹس کریٹس نے لکھا ہے کہ پشتون تین طبقوں میں تقسیم ہیں۔ ایک کوہستانی، دوسراریگستانی اورتیسراطبقہ آبی ، جو پانی والے علاقوں کے قریب رہتاہے۔ یہ طبقہ نسبتاًخوش الحال،مالدار اور فارغ البال ہوتاہے اورپشتونوں میں معززسمجھا جاتا ہے۔ اب اس تناظرمیں ایک لفظ ''گان'' کولیتے ہیں، پشتومیں کسی خاص کمیونٹی کو ''گان'' کہتے ہیں جس کا واحد ''گے'' یا ''گئی'' ہوتاہے اورجمع ''گان''۔
اردو فارسی میں بھی یہ گان کالفظ استعمال ہوتا ہے جیسے زدگان، باشندگان،پسماندگان ،کنندگان، رفتگان، میاںگان، وغیرہ،چنانچہ اس قاعدے سے ان پانی والے لوگوں کو ''ابگان'' کہاجاتاتھا جوآہستہ آہستہ افغان اوراوگان وغیرہ بناکیوں کہ کثرت استعمال اورلہجوں کی تبدیلی سے ایسا ہوتا رہتا ہے جیسے ''دیہہ'' سے دیہیگان اور پھر ''دہقان'' بناہے ۔اب یونانیوں کے مطابق یہ پانی والے لوگ معززین اورخاص لوگ ہوتے تھے ۔ مالدار، فارغ البال، اوراس وجہ سے لڑائی بھڑائی سے بھی دور رہتے تھے چنانچہ کاونٹس کریٹس کے مطابق بحیرہ کیسپین کے کنارے یاجزیروں اورٹاپوئوں والے ان لوگوں کے ساتھ سکندر کامعاملہ بھی پرامن رہا۔ ان لوگوں نے سکندر کی فوج کے لیے سامان رسد، گھوڑوں کے لیے چارہ وغیرہ فراہم کیااورسکندر نے ان سے تعرض نہیںکیا۔
ابگان کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کاایک اور نام ''خہ گان'' بھی تھا۔''خہ'' کامطلب پشتو میں اچھا یا اچھے ہوتاہے جس کی جمع خہ گان ہوتاہے۔ پھرپشتو میں دولہجے ہیں، ایک جنوبی اوردوسرا شمالی۔ شمالی یا یوسفزئی لہجے میں جہاں(خ) ہوتی ہے، جنوبی میں (ش) ہوتا ہے جیسے پختون اورپشتون ۔پختو اوپشتو، پیخور اور پشاور۔ چنانچہ خہ گان سے دولفظ بنے، ایک خگان اور دوسرا شگان ،شگان سے پھر''شاہاں'' اورعربی میں ''شیخان'' بنابلکہ برصغیرمیں سکھ اورسکھان بھی بنا۔ اور خہ گان سے خاقان،خاقان کان اورآخر میں''خان'' معنی وہی سرکردہ مغزز اورمحترم لوگ ،یہی لفظ عبری میں جا کرکاہان اورپھرکاہن بناہے جومذہبی لحاظ سے محترم اورخاص لوگ ہوتے ہیں ۔
خلاصہ اس بحث کایہ ہے کہ لفظ خان کی اصل خگان ہے جس سے مختلف زبانوں میں معززین کے لیے الفاظ بنے ہیں۔ ترکی میں''خاقان''منگولین میں قان اورپھرقان،چنگیز،ہلاکو، تولائی ،چغتائی اورقبلائی کے ساتھ بھی قان یاقآن تھا۔جوفارسی عربی میں ''خان'' لکھا اوربولاجاتاہے۔
بہرحال لفظ نے جوبھی شکلیں اختیارکی ہوں،معنی وہی ہیں جوخوشحال خان خٹک نے بتائے ہیں،یعنی جو کماتا ہے، کھاتا کھلاتاہے، خان وہی ہے لیکن مرورایام کے ساتھ یہ لفظ خصوص سے نکل عموم میں آگیاہے ورنہ اس کی اصل تعریف بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے جوایک اچھے انسان کے لیے بھی مختص ہیں۔ اور اگر کمانے، کھانے اورکھلانے کومعیار بنایاجائے توآج کل کے خان، خوانین یا زادگان نہیں ہیں بلکہ میں کہتا ہوں، اب ہنرمند ،پیشہ ورمزدوراور کھیت مزدور ہی اصل ''خان'' ہیں جومحنت کرکے حق حلال کماتے ہیں اور کھلاتے ہیں نہ کہ وہ جوہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھ کر آباؤ اجداد کی جاگیروں یا عبادتوں کو کیش کرتے ہیں۔
اس معیار پرسب سے زیادہ پورا اترنے والا کسان ہے جوخون پسینہ بہا کرمٹی سے رزق حاصل کرتا ہے اورانسانوں سے لے کر حیوانوں بلکہ چرند پرند اور کیڑے مکوڑوں کوکھلاتاہے۔
ہمارے ایک دوست جواپنے آپ کوٹاپ کلاس دانا دانشورسمجھتے ہیں لیکن اصل میں ''نرگسیت'' کے ناقابل علاج مریض ہیں۔ کہنے لگے، دیکھا ''ہم ''کاکمال ،جہاں پہلے لوگ ہندوانہ نام رکھتے تھے، یوسف خان، دلیپ کمارہوجاتا تھا، ممتاز جہاں بیگم مدھوبالا ہوجاتی تھی، موسیٰ رضا سنتوش کمار اورشاہ زمان سدھیر ہو جاتا تھا، وہاں آج کل اروڑے، گوری ،ہیلین اور سوزین۔ ''خان'' ہوجاتے ہیں۔
دوردورسے ''کچھ پکڑ کر'' فخر کرنے کی بری عادت ہمارے ہاں عام ہے ورنہ مومبائی کے یہ ''خان'' اورخانیاں، پشتون تو کیا مسلمان بھی نہیں ہیں۔ ہم کئی باربھارت یاترا کرچکے ہیں اوران خان اورخانیوں کو اندر تک دیکھ چکے ہیں۔ اکثرکے سارے رشتے ناطے ہندوئوں سے ہیں۔ اکثرکے گھروں میں مندر بنے ہوتے ہیں اوربتوں کو گھروں، دفتروں اورگاڑیوں میں سجائے ہوئے ہیں۔ خوشخال خان خٹک نے ''خان'' کی تین نشانیاں یاشرائط بیان کی ہیں۔
چہ گٹل،خوڑل، بخل کاخان ھغہ
(جوکماتاہے، کھاتاہے اورکھلاتاہے وہی خان ہوتاہے)
جہاں تک پہلی دوشرائط ہیں،کمانا اورکھانا وہ تو جانوربھی کرتے ہیں لیکن اصل شرط تیسری''کھلانا'' بہت ہی کڑی اورمشکل شرط ہے جوخان ہی کی نہیں انسان ہونے کی بھی نشانی ہے۔جن خانوں کابالی وڈ سے تعلق ہے، ان کے بارے میں ہم جڑ تک جانتے ہیں کہ کسی اورکو تو کیا اپنے خونی رشتہ داروں تک کو بھلاچکے ہیں۔کامیابیوں کے بعد پلٹ کر کبھی دیکھا تک نہیں۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے، کہنا صرف یہ ہے کہ کوئی خان حقیقت میں خان نہیں ہے ،صرف ایک ''سکہ'' ہے جو آج کل رائج الوقت ہے۔اصل میں ہم لفظ ''خان'' کا ''مالہ وماعلیہ'' بیان کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لفظ کہاں سے چلا اورکہاں سے ہوتاہواکہاں پہنچاہے۔ اس کے لیے ہمیںذرادوردورتک گہری اورفراخ کھدائی کرنا ہوگی۔
مشہور یونانی جغرافیہ دان سٹرایو،ہیروڈوٹس اور خاص طورپر سکندر کے مورخ کاونٹس کریٹس نے لکھا ہے کہ پشتون تین طبقوں میں تقسیم ہیں۔ ایک کوہستانی، دوسراریگستانی اورتیسراطبقہ آبی ، جو پانی والے علاقوں کے قریب رہتاہے۔ یہ طبقہ نسبتاًخوش الحال،مالدار اور فارغ البال ہوتاہے اورپشتونوں میں معززسمجھا جاتا ہے۔ اب اس تناظرمیں ایک لفظ ''گان'' کولیتے ہیں، پشتومیں کسی خاص کمیونٹی کو ''گان'' کہتے ہیں جس کا واحد ''گے'' یا ''گئی'' ہوتاہے اورجمع ''گان''۔
اردو فارسی میں بھی یہ گان کالفظ استعمال ہوتا ہے جیسے زدگان، باشندگان،پسماندگان ،کنندگان، رفتگان، میاںگان، وغیرہ،چنانچہ اس قاعدے سے ان پانی والے لوگوں کو ''ابگان'' کہاجاتاتھا جوآہستہ آہستہ افغان اوراوگان وغیرہ بناکیوں کہ کثرت استعمال اورلہجوں کی تبدیلی سے ایسا ہوتا رہتا ہے جیسے ''دیہہ'' سے دیہیگان اور پھر ''دہقان'' بناہے ۔اب یونانیوں کے مطابق یہ پانی والے لوگ معززین اورخاص لوگ ہوتے تھے ۔ مالدار، فارغ البال، اوراس وجہ سے لڑائی بھڑائی سے بھی دور رہتے تھے چنانچہ کاونٹس کریٹس کے مطابق بحیرہ کیسپین کے کنارے یاجزیروں اورٹاپوئوں والے ان لوگوں کے ساتھ سکندر کامعاملہ بھی پرامن رہا۔ ان لوگوں نے سکندر کی فوج کے لیے سامان رسد، گھوڑوں کے لیے چارہ وغیرہ فراہم کیااورسکندر نے ان سے تعرض نہیںکیا۔
ابگان کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کاایک اور نام ''خہ گان'' بھی تھا۔''خہ'' کامطلب پشتو میں اچھا یا اچھے ہوتاہے جس کی جمع خہ گان ہوتاہے۔ پھرپشتو میں دولہجے ہیں، ایک جنوبی اوردوسرا شمالی۔ شمالی یا یوسفزئی لہجے میں جہاں(خ) ہوتی ہے، جنوبی میں (ش) ہوتا ہے جیسے پختون اورپشتون ۔پختو اوپشتو، پیخور اور پشاور۔ چنانچہ خہ گان سے دولفظ بنے، ایک خگان اور دوسرا شگان ،شگان سے پھر''شاہاں'' اورعربی میں ''شیخان'' بنابلکہ برصغیرمیں سکھ اورسکھان بھی بنا۔ اور خہ گان سے خاقان،خاقان کان اورآخر میں''خان'' معنی وہی سرکردہ مغزز اورمحترم لوگ ،یہی لفظ عبری میں جا کرکاہان اورپھرکاہن بناہے جومذہبی لحاظ سے محترم اورخاص لوگ ہوتے ہیں ۔
خلاصہ اس بحث کایہ ہے کہ لفظ خان کی اصل خگان ہے جس سے مختلف زبانوں میں معززین کے لیے الفاظ بنے ہیں۔ ترکی میں''خاقان''منگولین میں قان اورپھرقان،چنگیز،ہلاکو، تولائی ،چغتائی اورقبلائی کے ساتھ بھی قان یاقآن تھا۔جوفارسی عربی میں ''خان'' لکھا اوربولاجاتاہے۔
بہرحال لفظ نے جوبھی شکلیں اختیارکی ہوں،معنی وہی ہیں جوخوشحال خان خٹک نے بتائے ہیں،یعنی جو کماتا ہے، کھاتا کھلاتاہے، خان وہی ہے لیکن مرورایام کے ساتھ یہ لفظ خصوص سے نکل عموم میں آگیاہے ورنہ اس کی اصل تعریف بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے جوایک اچھے انسان کے لیے بھی مختص ہیں۔ اور اگر کمانے، کھانے اورکھلانے کومعیار بنایاجائے توآج کل کے خان، خوانین یا زادگان نہیں ہیں بلکہ میں کہتا ہوں، اب ہنرمند ،پیشہ ورمزدوراور کھیت مزدور ہی اصل ''خان'' ہیں جومحنت کرکے حق حلال کماتے ہیں اور کھلاتے ہیں نہ کہ وہ جوہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھ کر آباؤ اجداد کی جاگیروں یا عبادتوں کو کیش کرتے ہیں۔
اس معیار پرسب سے زیادہ پورا اترنے والا کسان ہے جوخون پسینہ بہا کرمٹی سے رزق حاصل کرتا ہے اورانسانوں سے لے کر حیوانوں بلکہ چرند پرند اور کیڑے مکوڑوں کوکھلاتاہے۔