اتنی مہنگی گیس خریدنے کا کیا جواز ہے
قومی خزانے کونااہلی اور غفلت کی بنیاد پر حد درجہ نقصان کس وجہ سے پہنچایا گیا۔ قوم تو پہلے ہی مرکھپ چکی ہے
بلوم برگ' اقتصادی دنیا کا ایک معتبر ترین نام ہے۔ اس ادارے کا کام صنعتی ' مالیاتی ' کاروباری اور دیگر اہم معاشی حالات کو غیر متعصب طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ بلوم برگ کے ٹی وی اسٹیشن ' ریڈیو نیٹ ورک اور سیکڑوں ماہرین سارا دن اور رات اپنے تجزیاتی کام میں مگن رہتے ہیں۔
کونسا ملک کتنی تیزی سے صنعتی ترقی کر رہا ہے۔ کیوں کر رہا ہے۔ کون سے ممالک اپنی کوتاہ اندیشیوں سے منجمد ہو چکے ہیں۔ یہ سب حد درجہ اہم معاملات بلوم برگ کا ادارہ پرکھتا رہتا ہے۔ پوری دنیا میں اگر کوئی بھی اہم مالیاتی معاملہ ہو' تو وہ اس ادارے کی آنکھ سے روپوش نہیں رہ سکتا۔ بلوم برگ کا کسی بھی ملک کی سیاست سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے اور یہی غیر جانبداری اس کی بہترین ساکھ کی بنیادی وجہ ہے۔
انتیس جولائی ' 2021کو بلوم برگ نے پاکستان کی ایل این جی کی خریداری پر ایک حد درجہ اہم رپورٹ شائع کی ہے۔ اس کو ضبط قلم کرنے والے دو صاحبان ہیں۔ایک Stephen Stapczynskiاور دوسرے فصیح مانگی ہیں۔ یہ دونوں اس ادارے کے لیے کالم' آرٹیکلز اور رپورٹیں لکھتے رہتے ہیں۔ اس رپورٹ کا عنوان ہے۔''پاکستان مجبور ہو کر مہنگی ترین ایل این جی خرید رہا ہے''۔ انگریزی میں عنوان کچھ یوں ہے۔ Pakistan Forced to Buy Priciest LNG Shipments To avoid Blackouts
عنوان کے نیچے لکھا ہوا ہے کہ پاکستان نے جو جوا کھیلا تھا کہ شائد ایل این جی کی قیمتیں کم ہو جائیں وہ ناکام ہو چکا ہے۔ چلیے'ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ فرمانے لگیں کہ یہ تو محض لفاظی ہے۔ مگر اس رپورٹ کے بقول 'پاکستان نے ایل این جی گیس 'مہنگے ترین داموں پر خریدی ہے۔
یہ میرے الفاظ نہیں۔ یہ بلوم برگ کے الفاظ ہیں ۔ اگر متعلقہ وزارت یا وزیر یا مشیر' ان سنجیدہ الفاظ کو دیکھنا چاہیں تو بصد شوق 29 جولائی کے بلوم برگ کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ بلوم برگ نے یہ بھی لکھا ہے کہ پاکستانی حکومت ' یہ گیس بجلی گھروں کو دینے کا ارادہ رکھتی ہے' کیونکہ لوڈشیڈنگ سے جو عوامی غصہ جنم لیتا ہے' حکومت اس کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ یوں لازم ہے کہ اس کا مالی بوجھ بجلی' گیس ' پٹرول' تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر کے پورا کیا جائے گا۔ یعنی اب آنے والے چند ماہ میں عوام کے بدن سے خون کے آخری قطرے بھی نچوڑ لیے جائیں گے۔ مہنگائی کے اس خود پیدا کردہ طوفان سے حکومتی سطح پر کیسے نبٹا جائے گا' کم از کم طالب علم اس کا بالکل اندازہ نہیں لگا سکتا ۔
اسی مضمون میں 2015 سے لے کر 2021 تک کی ہر مہینے کی ' قیمتیں گراف کی فارم میں پیش کی ہیں۔ یہ گراف ہماری متعلقہ وزارت' اہم فیصلہ کرنے والے اکابرین کے لیے مقام فکر ہونا چاہیے۔ مگر دراصل یہ ایک فرد جرم کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔2015سے لے کر آج تک ایل این جی گیس کی قیمت گھٹتی بڑھتی رہی ہے۔
جیسے آج سے پہلے 2018 میں یہ کافی حد تک بلند ہو چکی تھی۔ مگر قیامت خیز بات بالکل مختلف ہے ۔ پاکستان 2015سے گیس درآمد کر رہا ہے۔ ان سات برسوں میں۔ 2020 وہ منفرد سال تھا جس میں ایل این جی کی قیمت کوڑیوں کے برابر تھی۔ گزشتہ دسمبر میں اس گیس کی قیمت صرف اور صرف پانچ ڈالر تھی۔ یعنی آج کی قیمت پندرہ ڈالر سے دو سو فیصد کم۔ مگرٹھہریے۔ تھوڑا سا توقف فرمائیے ۔ ای آئے اے( EIA)جیسے معتبر ادارہ نے گزشتہ برس اس کی قیمت پانچ ڈالر سے بھی کم ' یعنی صرف ڈھائی ڈالر بتائی تھی۔ ایک نکتہ عرض کرتا ہوں۔ سات سالہ گراف' کسی یہودی یا ہندو تجزیاتی ادارے نے تشکیل نہیں دیے۔ بلکہ یہ حکومت پاکستان کے بیورو آف اسٹیٹکس ادارے کے شائع شدہ ہیں۔ آپ بڑے آرام سے اس کی تصدیق فرما سکتے ہیں۔
2020 میں ہماری متعلقہ وزارت اور مشیر کیا کر رہے تھے۔ یہ کم از کم میں نہیں پوچھ سکتا۔یہ تو صرف وزیراعظم کا اختیار ہے۔ مگر یہ بھی عجب کرشمہ ہے کہ گیس کی مہنگی ترین قیمت کی منظوری عمران خان اور ان کی کابینہ سے دلوائی گئی ہے۔ آگے کیا عرض کروں۔ وزیراعظم نے تو اپنے ہاتھ کاٹ کر ' خود ہی اپنا باز پرس کرنے کا اختیار گنوا دیا ہے۔
لازم ہے کہ جب پوری کابینہ اس منظوری کا نیک کام سرانجام دے رہی ہے' تو کسی بھی متعلقہ افسر یا وزیرکے خلاف کیا کارروائی ہو پائے گی۔ تمام وزرا اعظم کی طرح' عمران خان کو بھی ہر ذرائع سے اطلاعات ملتی رہتی ہیں۔ درجنوں ادارے ملکی معاملات کی باریک سے باریک چیز پر بھی اپنا تجزیہ پیش کرتے رہتے ہیں۔ یہ ہر وزیراعظم کا استحقاق بھی ہے اور فیصلہ سازی کرنے میں مددگار بھی۔ مگر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے' کہ کس سرکاری بابو نے وزیراعظم کو اتنا ڈرا دیا کہ وہ تاریخ کی مہنگی ترین گیس خریدنے پر آمادہ ہو گئے۔
کس مشیر نے لوڈ شیڈنگ کے ردعمل سے اتنا خوف زدہ کر دیا کہ انھوںنے مجبور ہوکر مہنگی ترین ایل این جی خریدنے کی اجازت دے دی۔ اس کے علاوہ ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا '' رولز آف بزنس'' میں یہ معاملہ متعلقہ منسٹری کے اختیار میں تھا' یا اس کو سمری کی صورت میں وزیراعظم کے پاس بھجوایا جانا چاہیے تھا۔
یا اس معاملہ کو قانونی طور پر وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنا چاہیے تھا؟ ان اہم ترین سوالات کا کوئی بھی جواب نہیں دے گا۔ مگر تھوڑی سی تحقیق سے معاملہ کی تہہ تک پہنچنا از حد آسان ہے۔ اس پورے کھیل میں کابینہ اور وزیراعظم کو انتہائی عیاری سے استعمال کیا گیا ہے۔ مجھے تین سو فیصد یقین ہے کہ وزیراعظم اردو اخبار بہت کم پڑھتے ہیں۔
ان کے کان ' آج کل صرف چند قریبی لوگوں کی باتیں سننے کے عادی ہو چکے ہیں۔ میرے جیسے طالب علم کا تجزیہ بھلا ان تک کیونکر پہنچے گا۔ مگر ان کے کوئی بھی ساتھی ' خان صاحب کے سامنے بلوم برگ کی تجزیاتی رپورٹ ضرور پیش کرے۔ یہ تمام قوم پر احسان ہو گا۔ خان صاحب کو علم ہو جائے گا کہ ان سے کیا کروا لیا گیا ہے۔ بلکہ ان کو یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ کس نے انھیں اندھیرے میں رکھ کر اتنا خوفناک فیصلہ کروایا ہے۔
پچھلے برس جس وقت ایل این جی گیس ٹکوں کے حوالے سے مل رہی تھی۔ اس وقت سرکاری متعلقہ وزارت نے کیونکر غفلت کا مظاہرہ کیا۔ سستی گیس خریدنے میں کیوں کوتاہی کی۔ کیا وزیراعظم اپنی متعلقہ ٹیم سے یہ بھی نہیں پوچھ سکتے کہ تم لوگوں نے کیوں اتنی نااہلی دکھائی' کہ سستی ترین گیس کو مناسب وقت پر خرید نہ پائے۔ کیا محترم عمران خان' متعلقہ وزارت کے عمائدین کو بیورو آف اسٹیٹکس کے سات سالہ چارٹ کے حوالے سے بھی باز پرس نہیں کر سکتے کہ آپ لوگ کس وجہ سے بروقت فیصلہ سازی نہ کر پائے۔آخر اس مجرمانہ نااہلی کی سزا کسی معتبر کو تو ملنی چاہیے۔
اس کی قانون میں گنجائش بھی ہے اور یہ وزیراعظم کا فرض بھی ہے۔ موجودہ گیس کی مہنگی خریداری اور آٹھ دس مہینے پہلے کی سستی ترین خریداری نہ کرنا 'کن وجوہات کی بنا پروقوع پذیر نہ ہو پائی۔ قومی خزانے کونااہلی اور غفلت کی بنیاد پر حد درجہ نقصان کس وجہ سے پہنچایا گیا۔ قوم تو پہلے ہی مرکھپ چکی ہے ۔
خان صاحب! اتنی مہنگی گیس کی خریداری سے مہنگائی کا جو سیلاب آئے گا' کیا اس سے آپ کی نیک نامی میں اضافہ ہو گا' تنہائی میں بیٹھ کر تھوڑا سا ضرور سوچییے۔مگر یہاں سوچنے کا وقت تو کسی کے پاس نہیں ہے۔ چلیے۔ موجودہ ایل این جی ڈیل میں جن لوگوں نے پیسے کمائے ہیں انھیں کے گریبان پر ہاتھ ڈال دیجیے ۔ شائد آپ کو سچ کا پتہ چل جائے۔مگر جھوٹ کے کاروبار میں سچ سب سے بے وقعت عنصر ہوتا ہے۔ اس معاملہ میں بھی کچھ نہیں ہو گا۔