دلہن وہی جو پیا من بھائے
سول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اچھی انڈر اسٹینڈنگ چل رہی ہے۔
لاہور:
سول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اچھی انڈر اسٹینڈنگ چل رہی ہے۔ میاں نوازشریف بھی کبھی منظور نظر ہوا کرتے تھے لیکن اس قدر نہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت تک وہ آنکھوں کا تارا بنے رہے لیکن اُن کی ناگہانی موت کے بعد نواز شریف بھی بعد میں مشکلات کا شکار رہے۔ مگر موجودہ حکومت کی یہ خوش قسمتی ہے کہ وہ اپنی تمام ناتجربہ کاری کے باوجود ابھی تک خفیہ قوتوں کے قریب ہے۔
موجودہ حکومت کی کارکردگی کو اگر دیکھاجائے تو اشیائے ضروریہ کی مہنگائی اورگرانی نے عوام کو مایوس کر دیا ہے ، وہ اچھے دنوں کی آس اور اُمید میں بھلا کب تک صبر سے دن گذارتے رہیں گے۔ مہنگائی ہے کہ رکنے اورختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی بلکہ ہرآنے والا دن غریب لوگوں کے لیے نئی مشکلوں کاباعث بنا ہوتاہے۔
پیٹرول کے دام ہیں کہ ہر پندرہ روز بعد بڑھ جاتے ہیں اورجس کی وجہ سے کھانے پینے کی تمام اشیاء کے دام بھی آسمانوں کو چھونے لگتے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں نے دوسری جانب قوم کو انتہائی حد تک مایوس کیا ہوا ہے ، وہ متحد ہوکر حکومت کے خلاف کوئی لائحہ عمل طے کرہی نہیں پاتی کہ عوام اُن کی طرف دیکھ سکیں۔ اُن کے اپنے اختلافات اس قدر زیادہ ہیں کہ وہ ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہوکر کوئی تحریک چلانہیں سکتے۔ جس کا براہ راست اور بالواسطہ فائدہ یقینا موجودہ حکمرانوں کو جا رہا ہے۔ اپوزیشن کی اس کمزوری سے حکمران نہ صرف لطف اندوز ہورہے ہیں بلکہ اب دھڑلے سے حکومت بھی کررہی ہے ، جوکچھ تھوڑی بہت مشکلات پی ڈی ایم نے گزشتہ برس پیدا کی تھیں وہ تمام کی تمام اب ختم ہوچکی ہیں اورحکومت پہلے کی نسبت بلاخوف و خطرحکمرانی کے لوازمات سے لطف اندوز ہورہی ہے۔
حکومتی بدعنوانیوں کے خلاف نیب کی جانب سے بھی جو تھوڑی بہت تحقیقات شروع کی گئی تھیں وہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہیں ۔ مالم جبہ اور بی آر ٹی سمیت سارے معاملات بغیرکسی نتیجہ کے رہے ہیں اور یوں حکومت کی راہوں میں مزید آسانیاں پیدا کی جارہی ہیں۔ نہ اپوزیشن کی طرف سے کوئی پریشانی ہے اور نہ پس پردہ قوتوں کی جانب سے کوئی دباؤ ہے ، اس کے باوجود اگر موجودہ حکومت عوام کی بھلائی اور بہتری کے لیے کوئی کام نہ کرسکے تو پھر افسوس کے سوا اورکیا کیا جاسکتا ہے۔ اتنے سازگار حالات ہماری کسی سویلین حکومت کو نہیں ملے۔
تاریخ شاہد ہے کہ وطن عزیز کے معرض وجود میں آجانے کے بعد کسی بھی سویلین اور جمہوری حکومت کو آسانی سے کام کرنے نہیں دیا گیا۔ یہ کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کے الزامات تو جنرل ضیاء کے دور سے لگائے جانے لگے لیکن اُس سے پہلے جمہوری حکومتوں کا خاتمہ کن وجوہات کی وجہ سے کیا جاتا رہا یہ ہم سب کومعلوم ہے۔ خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی سمیت کسی بھی جمہوری حکمراں کو اپنی دستوری اور آئینی مدت پوری کرنے نہیں دی گئی۔ بعد میں آنے والے تمام جمہوری اور سویلین حکمرانوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا رہا۔ دو تہائی اکثریت سے جیت جانے والے میاں نوازشریف کو بھی اپنے تینوں ادوار کبھی پورے کرنے نہیں دیے گئے۔ ہر بار دو ڈھائی سال بعد اُن کا دھڑن تختہ کر دیا گیا۔
آخری بار تو انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیاست سے ایسا فارغ کر دیا گیاکہ وہ اب شاید ہی اپنی زندگی میں کبھی وزیراعظم بن سکیں۔ اُن کی جانشین اُن کی بیٹی محترمہ مریم نواز تن تنہا سیاست میں اپنی جان لگا رہی ہے لیکن اس ملک کی خفیہ طاقتیں اُن کی تمام جدوجہد کو ایسے خوبصورت طریقے سے نقصان پہنچاتی ہیں کہ کسی کو پتا بھی نہیں چلتا اوروہ یوں خاموش ہو کر کبھی کبھارکئی مہینوں کے لیے سیاسی کنارہ کشی کر لیتی ہیں۔
مذکورہ بالا تمام حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ بات آج بھی بڑے وثوق سے کی جاسکتی ہے کہ ہمارے اِس ملک میں خفیہ قوتوں کی مدد کے بغیر کوئی بھی شخص حکمران نہیں بن سکتا ہے ، وہ چاہے کتنا زور لگا لے یا پھر اسے چاہے عوام الناس کی کتنی ہی پذیرائی حاصل ہو جب تک خفیہ قوت نہیں چاہے گی کچھ نہیں ہوگا۔ کشمیر کے حالیہ الیکشن میں ہم سب نے دیکھ لیا۔ مریم نواز صاحبہ نے پورا مہینہ سیاسی مہم چلائی اور کامیابی سے بڑے بڑے جلسے بھی منعقد کیے ، مگر نتیجہ کیا نکلا صرف اور صرف چھ نشست۔ اُن سے زیادہ تو پاکستان پیپلزپارٹی منافع اور فائدہ میں رہی جس کے لیڈر بلاول زرداری نے تو اتنے کامیاب جلسے بھی نہ کیے اور سیاسی مہم کے دوران امریکا یاترا پر بھی نکل گئے مگر 11 نشستوں کے ساتھ دوسری بڑی پارٹی بن کر سامنے آگئے۔
اپنی من پسند پارٹی کو جتوانے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی کسی ایک سیاسی پارٹی کو بھی اتنی سیٹیں نواز دی جاتی ہیں کہ وہ متحد ہوکر دھاندلی کے خلاف کوئی تحریک شروع کر ہی نہ سکے۔ یہی کچھ 2018کے الیکشن میں بھی دیکھا گیا تھا۔ جیسے جیسے نتائج کسی اور سیاسی پارٹی کے حق میں آنا شروع ہوئے RTS مشین ہی نے کام کرنا بند کردیا۔ بعد میں جب صبح سویرے سسٹم نے کام کرنا شروع کیا تو سارے ملک کا نقشہ ہی مختلف تھا ، لیکن حیران کن طور پرRTS سسٹم صوبہ سندھ میں کوئی گڑبڑ نہ کرسکا۔ یہ طرز عمل کشمیر کے حالیہ الیکشن میں بھی اپنایا گیا اور پاکستان پیپلزپارٹی کو گیارہ سیٹیں دیکر خوش کردیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کو اب سوچنا ہوگا کہ کیا وہ اسی طرح محاذ آرائی کرکے خود کو ناپسندیدہ اور نا قابل قبول کروا کے سیاست سے باہر ہوتی چلی جائے گی یا پھر آیندہ الیکشن سے پہلے کچھ ہوش کے ناخن بھی لے گی۔
سول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اچھی انڈر اسٹینڈنگ چل رہی ہے۔ میاں نوازشریف بھی کبھی منظور نظر ہوا کرتے تھے لیکن اس قدر نہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت تک وہ آنکھوں کا تارا بنے رہے لیکن اُن کی ناگہانی موت کے بعد نواز شریف بھی بعد میں مشکلات کا شکار رہے۔ مگر موجودہ حکومت کی یہ خوش قسمتی ہے کہ وہ اپنی تمام ناتجربہ کاری کے باوجود ابھی تک خفیہ قوتوں کے قریب ہے۔
موجودہ حکومت کی کارکردگی کو اگر دیکھاجائے تو اشیائے ضروریہ کی مہنگائی اورگرانی نے عوام کو مایوس کر دیا ہے ، وہ اچھے دنوں کی آس اور اُمید میں بھلا کب تک صبر سے دن گذارتے رہیں گے۔ مہنگائی ہے کہ رکنے اورختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی بلکہ ہرآنے والا دن غریب لوگوں کے لیے نئی مشکلوں کاباعث بنا ہوتاہے۔
پیٹرول کے دام ہیں کہ ہر پندرہ روز بعد بڑھ جاتے ہیں اورجس کی وجہ سے کھانے پینے کی تمام اشیاء کے دام بھی آسمانوں کو چھونے لگتے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں نے دوسری جانب قوم کو انتہائی حد تک مایوس کیا ہوا ہے ، وہ متحد ہوکر حکومت کے خلاف کوئی لائحہ عمل طے کرہی نہیں پاتی کہ عوام اُن کی طرف دیکھ سکیں۔ اُن کے اپنے اختلافات اس قدر زیادہ ہیں کہ وہ ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہوکر کوئی تحریک چلانہیں سکتے۔ جس کا براہ راست اور بالواسطہ فائدہ یقینا موجودہ حکمرانوں کو جا رہا ہے۔ اپوزیشن کی اس کمزوری سے حکمران نہ صرف لطف اندوز ہورہے ہیں بلکہ اب دھڑلے سے حکومت بھی کررہی ہے ، جوکچھ تھوڑی بہت مشکلات پی ڈی ایم نے گزشتہ برس پیدا کی تھیں وہ تمام کی تمام اب ختم ہوچکی ہیں اورحکومت پہلے کی نسبت بلاخوف و خطرحکمرانی کے لوازمات سے لطف اندوز ہورہی ہے۔
حکومتی بدعنوانیوں کے خلاف نیب کی جانب سے بھی جو تھوڑی بہت تحقیقات شروع کی گئی تھیں وہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہیں ۔ مالم جبہ اور بی آر ٹی سمیت سارے معاملات بغیرکسی نتیجہ کے رہے ہیں اور یوں حکومت کی راہوں میں مزید آسانیاں پیدا کی جارہی ہیں۔ نہ اپوزیشن کی طرف سے کوئی پریشانی ہے اور نہ پس پردہ قوتوں کی جانب سے کوئی دباؤ ہے ، اس کے باوجود اگر موجودہ حکومت عوام کی بھلائی اور بہتری کے لیے کوئی کام نہ کرسکے تو پھر افسوس کے سوا اورکیا کیا جاسکتا ہے۔ اتنے سازگار حالات ہماری کسی سویلین حکومت کو نہیں ملے۔
تاریخ شاہد ہے کہ وطن عزیز کے معرض وجود میں آجانے کے بعد کسی بھی سویلین اور جمہوری حکومت کو آسانی سے کام کرنے نہیں دیا گیا۔ یہ کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کے الزامات تو جنرل ضیاء کے دور سے لگائے جانے لگے لیکن اُس سے پہلے جمہوری حکومتوں کا خاتمہ کن وجوہات کی وجہ سے کیا جاتا رہا یہ ہم سب کومعلوم ہے۔ خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی سمیت کسی بھی جمہوری حکمراں کو اپنی دستوری اور آئینی مدت پوری کرنے نہیں دی گئی۔ بعد میں آنے والے تمام جمہوری اور سویلین حکمرانوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا رہا۔ دو تہائی اکثریت سے جیت جانے والے میاں نوازشریف کو بھی اپنے تینوں ادوار کبھی پورے کرنے نہیں دیے گئے۔ ہر بار دو ڈھائی سال بعد اُن کا دھڑن تختہ کر دیا گیا۔
آخری بار تو انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیاست سے ایسا فارغ کر دیا گیاکہ وہ اب شاید ہی اپنی زندگی میں کبھی وزیراعظم بن سکیں۔ اُن کی جانشین اُن کی بیٹی محترمہ مریم نواز تن تنہا سیاست میں اپنی جان لگا رہی ہے لیکن اس ملک کی خفیہ طاقتیں اُن کی تمام جدوجہد کو ایسے خوبصورت طریقے سے نقصان پہنچاتی ہیں کہ کسی کو پتا بھی نہیں چلتا اوروہ یوں خاموش ہو کر کبھی کبھارکئی مہینوں کے لیے سیاسی کنارہ کشی کر لیتی ہیں۔
مذکورہ بالا تمام حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ بات آج بھی بڑے وثوق سے کی جاسکتی ہے کہ ہمارے اِس ملک میں خفیہ قوتوں کی مدد کے بغیر کوئی بھی شخص حکمران نہیں بن سکتا ہے ، وہ چاہے کتنا زور لگا لے یا پھر اسے چاہے عوام الناس کی کتنی ہی پذیرائی حاصل ہو جب تک خفیہ قوت نہیں چاہے گی کچھ نہیں ہوگا۔ کشمیر کے حالیہ الیکشن میں ہم سب نے دیکھ لیا۔ مریم نواز صاحبہ نے پورا مہینہ سیاسی مہم چلائی اور کامیابی سے بڑے بڑے جلسے بھی منعقد کیے ، مگر نتیجہ کیا نکلا صرف اور صرف چھ نشست۔ اُن سے زیادہ تو پاکستان پیپلزپارٹی منافع اور فائدہ میں رہی جس کے لیڈر بلاول زرداری نے تو اتنے کامیاب جلسے بھی نہ کیے اور سیاسی مہم کے دوران امریکا یاترا پر بھی نکل گئے مگر 11 نشستوں کے ساتھ دوسری بڑی پارٹی بن کر سامنے آگئے۔
اپنی من پسند پارٹی کو جتوانے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی کسی ایک سیاسی پارٹی کو بھی اتنی سیٹیں نواز دی جاتی ہیں کہ وہ متحد ہوکر دھاندلی کے خلاف کوئی تحریک شروع کر ہی نہ سکے۔ یہی کچھ 2018کے الیکشن میں بھی دیکھا گیا تھا۔ جیسے جیسے نتائج کسی اور سیاسی پارٹی کے حق میں آنا شروع ہوئے RTS مشین ہی نے کام کرنا بند کردیا۔ بعد میں جب صبح سویرے سسٹم نے کام کرنا شروع کیا تو سارے ملک کا نقشہ ہی مختلف تھا ، لیکن حیران کن طور پرRTS سسٹم صوبہ سندھ میں کوئی گڑبڑ نہ کرسکا۔ یہ طرز عمل کشمیر کے حالیہ الیکشن میں بھی اپنایا گیا اور پاکستان پیپلزپارٹی کو گیارہ سیٹیں دیکر خوش کردیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کو اب سوچنا ہوگا کہ کیا وہ اسی طرح محاذ آرائی کرکے خود کو ناپسندیدہ اور نا قابل قبول کروا کے سیاست سے باہر ہوتی چلی جائے گی یا پھر آیندہ الیکشن سے پہلے کچھ ہوش کے ناخن بھی لے گی۔