بلوچستان میں امن کیلیے انٹیلی جنس اداروں کی مداخلت ختم کانفرنس میں مطالبہ

اکبربگٹی کیخلاف آپریشن پرکمیشن قائم،مشرف کوانٹرپول کے ذریعے واپس لاکرسزادی جائے،،یاسین آزاد،عاصمہ جہانگیر


Numainda Express September 10, 2012
انسانی حقوق کی رہنما عاصمہ جہانگیر کوئٹہ میں سپریم کورٹ بار کی قومی کانفرنس سے خطاب کررہی ہیں۔ فوٹو : ایکسپریس

لاہور: بلوچستان کی مذہبی،سیاسی وقوم پرست جماعتوں،وکلابرادری اورانسانی و سماجی حقوق کی تنظیموں کے رہنمائوں نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں اوربڑھتی ہوئی بدامنی پرتشویش کااظہارکرتے ہوئے کہاہے۔

بلوچستان میں قیام امن یقینی بنانے کیلیے لاپتہ افرادکوبازیاب،ایف کو واپس،انٹیلی جنس اداروں کی مداخلت کاخاتمہ،فوجی آپریشن بندکیاجائے،بلوچستان میں شفاف انتخابات کرواکرعوام کے اصل نمائندوںکوایوان میں لایاجائے،جب تک سیاسی جماعتیں آپس کے اختلافات کوبالائے طاق رکھ کراتحادویکجہتی کامظاہرہ نہیں کریںگی۔

بلوچستان سے زیادتیوںکاتسلسل جاری رہے گا۔ان خیالات کااظہارنیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبد المالک بلوچ،پاکستان مسلم لیگ ن بلوچستان کے صدر چیف آف جھالاوان نواب ثنااللہ زہری،پشتونخواملی عوامی پارٹی کے مرکزی رہنمانواب ایازخان جوگیزئی، نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنمانواب محمدخان شاہوانی،پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر صادق عمرانی،جمعیت علمائے اسلام کے رہنماسینیٹرحافظ حمداللہ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائم مقام مرکزی صدرڈاکٹر جہانزیب جمالدینی،سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر یاسین آزاد،انسانی حقوق کی سرگر م رہنماعاصمہ جہانگیر، پشتو نخواملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات رضامحمد رضا، نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹرعبدالحئی بلوچ،جماعت اسلامی بلوچستان کے امیرعبدالمتین اخوندزادہ اوردیگرنے سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے زیراہتمام بلوچستان سے متعلق منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

مقررین نے کہاکہ موجودہ حالات میں بلوچستان کے مسائل کی اصل وجہ تلاش کرنی ہوگی کیونکہ بلوچستان کامسئلہ انتہائی نازک ہے مگرافسوس ہے کہ ہمیشہ سے اسے طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی گئی،تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی مسئلے کاحل طاقت کے ذریعے نہیں نکلا،آج جوحالات بلوچستان میں پیداہوئے ہیں اس میں کسی حدتک گزشتہ الیکشن میں یہاںکی سیاسی جماعتوں کاانتخابات سے بائیکاٹ بھی ہے کیونکہ اس سے عوام کے اصل نمائندے ایوانوں تک نہیں پہنچ سکے ، سیاست میں غیرسیاسی عناصرکی مداخلت کا رویہ اختیارکیا گیا ہے اس سے حالات مزیدخراب ہورہے ہیں۔

عدلیہ پارلیمنٹ دونوں آئین کے طابع کام کرتے ہیں اورہمیں اس بات کا ادراک کرناہوگااگرایسانہ کیاگیااداروںکے درمیان تصادم کی صورت حال پیداہوگی،بلوچستان میں جمہوری سیاست کرنے والوںکوبزورطاقت دبانے کی کوشش کی گئی،64سالوں سے بلوچوںکوغدار قراردیاگیا، بلوچستان کامسئلہ ایک دن کانہیں بلکہ 64سالوں سے پیداہونے والی محرومیوں کانتیجہ ہے، نفرتیں ایک دن میں پیدانہیں ہوتیں بلکہ ظلم جبراور استحصال کے بعد میں نفرتوں میں اضافہ ہوتا ہے،64سالوں میں بلوچستان کی کسی نے نہیں سنی مگرامریکی کانگریس میں بل پاس ہونے کے بعد سب نے یہاں کارخ کیا۔

بلوچوں پررحم کرکے مسئلے کوحل کرنے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ انہیں بحیثیت ایک قوم تسلیم کرتے ہوئے بلوچستان کامسئلہ حل کیا جائے۔ مقررین نے کہا کہ آج بلوچ پہاڑوں پرگئے ہیں اگرصورتحال یہی رہی تو پشتون علاقوں میں بھی مزاحمت شروع ہوجائے گی،طالبان مزاحمت کارپیدا ہونگے،بلوچستان کامسئلہ سننے میںکوئی بھی سنجیدہ نہیں،بے بنیادکمیٹیاں اور بے اثرپیکیجزسے یہاں کے عوام کوبہلانے کی کوشش کی جارہی ہے،اس وقت 3قوتیں ہیں جن سے بلوچستان کامسئلہ حل ہوسکتا ہے ایک وہ لوگ ہیں جواس وقت پہاڑوںپرہیں۔

دوسری اسٹیبلشمنٹ ہے اور تیسری عالمی قوتیں جب تک ان سب کوبٹھایانہیں جاتامسئلہ حل نہیں ہوسکتا،بنگالیوں نے بھی پاکستان کے قیام میں بھرپورجدوجہدکی تھی مگر ان کے ساتھ بھی وہی ناروارویہ اختیارکیاگیاجوآج بلوچوں کے ساتھ بلوچستان میں رواہ رکھا جارہا ہے اوراب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچستان میں پشتونوں اوربلوچوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔مقررین نے کہاکہ جس طرح سپریم کورٹ نے لاپتہ افرادکے مقدمات میں سماعت کی ہے وہ خوش آئندہے۔

سابقہ آمرپرویزمشرف نے جب جمہوریت کاگلاگھونٹ کراقتدارسنبھالاتو سب سے پہلے بلوچستان میں موجودوسائل پراختیارات حاصل کرنے کیلیے یہاں آگ اورخون کی ہولی کھیلی،نواب اکبر بگٹی نے کبھی بھی ملک کے خلاف بات نہیں کی تھی،ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے مسئلے کو اناکامسئلہ بنایاگیا،اسی لیے گزشتہ64سالوں میں وقتاً فوقتاً یہاں پر5بڑے فوجی آپریشن کیے گئے،اکبرخان بگٹی کے خلاف ہونیوالے آپریشن کے خلاف ایک کمیشن قائم کیاجانا چاہیے۔

جواس بات کی تحقیقات کرے کہ کیانواب اکبربگٹی کے خلاف آپریشن کی ضرورت تھی یانہیں،بزرگ بلوچ قوم پرست رہنما سمیت بے گناہوں کے قاتل سابق صدرپرویز مشرف کو انٹرپول کے ذریعے پاکستان لاکرسزا دی جائے، مشرف کے دورمیں آپریشن کے د وران نقل مکانی کرنے والے افرادکی دوبارہ آبادکاری کے اقدامات کویقینی بنایاجائے ماورائے،آئین قانون میں لاپتہ کیے جانے والے افراد کومنظر عام پر لایاجائے اگران کے خلاف کوئی مقدمہ ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیاجائے۔

نواب نوروزخان کے کیس کو ری اوپن کیاجائے جبکہ قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے۔سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے زیراہتمام'' بلوچستان کامسئلہ،اس کاحل اورپیشرفت''کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس کے اعلامیے میں بلوچستان کے حالات پر تشویش کااظہارکرتے ہوئے مطالبہ کیاگیاکہ آئندہ انتخابات کوصاف وشفاف بنائے بغیرمرکزاورصوبے کے درمیان خلیج کوکم نہیںکیاجاسکتا،ریاستی اداروںکی انتخابات میں مداخلت تشددکوفروغ اورمسئلے کومزیدالجھادے گی۔

سپریم کورٹ بار آئندہ انتخابات کی نگرانی کریگی۔کانفرنس کے اختتام پر سپریم کورٹبارایسوسی ایشن کے عہدیدارسردارعبدالمجیدنے اعلامیہ پڑھا۔اعلامیہ میںکہاگیاکہ بلوچستان میںلاپتہ افرادکی تعدادمیں اضافہ اوران کی لاشیں مل رہی ہیں،ایف سی اورخفیہ اداروںکی موجودگی کے باوجودصوبے میںامن قائم نہیں ہوا،ہردن خون بہایاجارہاہے،ایف سی اور پولیس کے جوانوں کی قیمتیں جانیں بھی ضائع ہورہی ہیں جن کا ذکر بھی ناگزیرہے۔

بلوچستان میں سیکیورٹی فورسزاورخفیہ ادارے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کررہی ہیں۔ اعلامیے میں سپریم کورٹ کی جانب سے بلوچستان کے مسئلے پرمقدمات کی سماعت کوحوصلہ افزاقراردیتے ہوئے ان کی حمایت کااعلان کیا گیااورکہاگیاکہ سپریم کورٹ ان حالات میں لوگوںکی امیدوںکامحور ہے۔ اعلامیے میں اس بات کااعادہ کیا گیاکہ بلوچستان کے مسئلے کا حل بات چیت ہے لیکن وفاقی اورصوبائی حکومتوں کی جانب سے اب تک علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کیلیے سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

اعلامیے میں کہا گیااس بات کے زیادہ خدشات ہیں کہ بلوچستان میں آئندہ انتخابات کاصاف و شفاف اور پرامن اندازسے انعقاد مشکل نظرآرہاہے اس لیے حکومت کو خبردار کیاجاتا ہے کہ اگر آئندہ انتخابات میں ریاست کے اداروں اورخفیہ ایجنسیوں کی جانب سے مداخلت رہی تواس سے تشددبڑھے گااور یہ اقدام صوبے اور مرکزکے درمیان مزیداختلافات اورخلاپیدا کرے گا۔اعلامیے میں پارلیمان سے مطالبہ کیاگیاکہ وہ ایک کمیٹی بناکربلوچستان میں پرویزمشرف دورسے اب تک ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پروائٹ پیپرجاری کرے اوراس وائٹ پیپرکوپارلیمان میں پیش کرکے اس پرباقاعدہ بحث کی جائے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں