روایتی سیاست ترک کیجئے
ہارنے والی پارٹی دھاندلی کا راگ الاپ کر حکومتی امور میں روڑے اٹکانے کے بجائے کھلے دل سے شکست تسلیم کرے
ایک بچے نے اپنے والد سے پوچھا کہ آپ جب فیل ہوئے تھے تو آپ کے والد محترم نے کیا سلوک کیا تھا؟
والد نے جواب دیا انہوں نے مجھے بہت سخت سزاد ی تھی۔
''اور جب آپ کے والد فیل ہوئے تھے تو ان کے بابا جان نے؟''
''بیٹا انہوں نے ان کی ہڈیاں توڑ دی تھیں۔''
بچہ یہ جواب سن کر بولا ''ابا جان اگر آپ چاہیں تو نسلوں سے جاری یہ غلط روایت ختم ہوسکتی ہے۔''
''وہ کیسے؟'' باپ نے حیرت پوچھا۔
''یہ بہت آسان ہے، آپ دل بڑا کریں اور مجھے سزا نہ دیں کیونکہ میں فیل ہوگیا ہوں۔''
بظاہر یہ ایک پرانا اور گھسا پٹا لطیفہ ہے، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ اچھی روایات کی شروعات کرنے کا آسان طریقہ ہے۔ اور حال ہی میں اس پر پاکستان مسلم لیگ سیالکوٹ کے رہنما ملک احمد خان اور نوشین افتخار نے عمل کیا۔ انہوں نے نہ صرف پی پی 38 سیالکوٹ کے انتخابات کو شفاف قرار دیا بلکہ پی ٹی آئی کو مبارکباد بھی دی۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کسی ہاری ہوئی سیاسی پارٹی کے رہنما نے جیتی ہوئی پارٹی کے امیدوار کو مبارکباد دیتے ہوئے الیکشن کو شفاف قرار دیا ہو۔ بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ یہ پارٹی کے اندرونی اختلافات کی بدولت ممکن ہوا، لیکن یہ بہرحال اچھی شروعات ہے۔ قومیں اسی طریقے سے آگے بڑھتی ہیں۔ بقول مفتی طارق مسعود اگر آپ کسی کو پسند نہیں کرتے تو آپ اسے ناکام کرنے کےلیے اپنا پورا زور لگا دیں، لیکن اگر وہ پھر بھی کامیاب ہوجائے تو پھر آپ پر اس کی اطاعت لازم ہے۔ نہ کہ آپ کامیابی کےلیے پورا زور بھی لگادیں اور پھر بھی ناکام ہوجائیں تو پھر ریاستی امور میں مداخلت شروع کردیں۔ خود اے سی والے کمروں میں بیٹھ کر اپنی شعلہ بیانی کے ذریعے عوام کی زندگی اجیرن کردیں۔
ایک اور اہم پہلو جو حالیہ آزاد کشمیر الیکشن کے دوران سامنے آیا کہ مسلم لیگ ن کشمیر میں حکمران جماعت ہونے کے باوجود اپنے دور حکومت کے کارناموں کے ذریعے عوام کو قائل کرنے کے بجائے عمران خان پر لفظی گولہ باری سے کام چلاتی نظر آئی۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ عمران خان بھی گزشتہ تین سال سے مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے باوجود عوام کے سامنے اپنی کارکردگی رکھنے کے بجائے الزامات کی سیاست کرتے نظر آئے۔ ایک موقع پر تو وہ جنید صفدر کے پولو کھیلنے کے ذریعے عوام کو ''ن لیگ'' سے متنفر کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے، جس کے جواب میں مریم صفدر بھی جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور خاندانی وضع داری کو پس پشت ڈال کر اخلاقی حدود کو پامال کرتی نظر آئیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ اگر جنید صفدر یوکے میں عوام کے پیسوں سے پولو کھیل رہا ہے تو اس کو پکڑنا کس کی ذمے دار ی ہے؟ کیا اس کےلیے عمران خان کو وزیراعظم سے بھی بڑا عہدہ درکار ہے؟
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خان صاحب جسمانی طور پر وزیراعظم بن چکے ہیں، لیکن ذہنی لحاظ سے ابھی تک ڈی چوک میں ہی ہیں۔ شاید اس میں عمران خان کا بھی قصور نہیں، کیونکہ 22 سال مسلسل اپوزیشن کرنے والے کو یہ یقین ہونے میں وقت تو لگے گا کہ میں حکومت میں آچکا ہوں، مجھے اب غلطیوں کی نشاندہی نہیں کرنی بلکہ انہیں درست کرنا ہے۔ بقول اقبال
وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم شہبازی
ضرورت اس امر کی ہے کہ مثبت اور تعمیری سیاست کو فروغ دیا جائے۔ ملک احمد خان نے جس بڑے دل کا مظاہرہ کیا ہے اس سلسلے کو آگے بڑھایا جائے۔ آنے والے ضمنی الیکشن یا جنرل الیکشنز میں شکست کھانے والی پارٹی دھاندلی کا راگ الاپ کر حکومتی امور میں روڑے اٹکانے کے بجائے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شکست تسلیم کرے، دوسری پارٹی کو جیت کی مبارکباد دے، اور تنبیہہ کرے کہ اب آپ اپنے وعدے پورے کریں، ہم آپ کے اچھے کاموں کی توصیف اور ناکامیوں پر تنقید کریں گے۔
اور ایک آخری بات کہ پی ٹی آئی سرکار اپوزیشن کی موجودہ ابتر صورت حال کو غنیمت سمجھتے ہوئے اپنی توجہ وطن عزیز کی تعمیر و ترقی پر مرکوز کرے۔ ترقیاتی منصوبوں کی بروقت اور شفافیت کے ساتھ تکمیل کو یقینی بنایا جائے تاکہ آنے والے الیکشن میں الزمات کی سیاست کے بجائے وہ عوام کے سامنے اپنی کارکردگی پیش کرسکے۔ کیونکہ پی ٹی آئی کہ موجودہ کارکردگی میں تسلسل کی صورت میں اپوزیشن کو کامیابی کےلیے صرف اپنی صفوں کو درست کرنا ہی کافی ہوگا، جو بڑے میاں یا چھوٹے میاں کی ایک نکی جئی ہاں کی مار ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
والد نے جواب دیا انہوں نے مجھے بہت سخت سزاد ی تھی۔
''اور جب آپ کے والد فیل ہوئے تھے تو ان کے بابا جان نے؟''
''بیٹا انہوں نے ان کی ہڈیاں توڑ دی تھیں۔''
بچہ یہ جواب سن کر بولا ''ابا جان اگر آپ چاہیں تو نسلوں سے جاری یہ غلط روایت ختم ہوسکتی ہے۔''
''وہ کیسے؟'' باپ نے حیرت پوچھا۔
''یہ بہت آسان ہے، آپ دل بڑا کریں اور مجھے سزا نہ دیں کیونکہ میں فیل ہوگیا ہوں۔''
بظاہر یہ ایک پرانا اور گھسا پٹا لطیفہ ہے، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ اچھی روایات کی شروعات کرنے کا آسان طریقہ ہے۔ اور حال ہی میں اس پر پاکستان مسلم لیگ سیالکوٹ کے رہنما ملک احمد خان اور نوشین افتخار نے عمل کیا۔ انہوں نے نہ صرف پی پی 38 سیالکوٹ کے انتخابات کو شفاف قرار دیا بلکہ پی ٹی آئی کو مبارکباد بھی دی۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کسی ہاری ہوئی سیاسی پارٹی کے رہنما نے جیتی ہوئی پارٹی کے امیدوار کو مبارکباد دیتے ہوئے الیکشن کو شفاف قرار دیا ہو۔ بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ یہ پارٹی کے اندرونی اختلافات کی بدولت ممکن ہوا، لیکن یہ بہرحال اچھی شروعات ہے۔ قومیں اسی طریقے سے آگے بڑھتی ہیں۔ بقول مفتی طارق مسعود اگر آپ کسی کو پسند نہیں کرتے تو آپ اسے ناکام کرنے کےلیے اپنا پورا زور لگا دیں، لیکن اگر وہ پھر بھی کامیاب ہوجائے تو پھر آپ پر اس کی اطاعت لازم ہے۔ نہ کہ آپ کامیابی کےلیے پورا زور بھی لگادیں اور پھر بھی ناکام ہوجائیں تو پھر ریاستی امور میں مداخلت شروع کردیں۔ خود اے سی والے کمروں میں بیٹھ کر اپنی شعلہ بیانی کے ذریعے عوام کی زندگی اجیرن کردیں۔
ایک اور اہم پہلو جو حالیہ آزاد کشمیر الیکشن کے دوران سامنے آیا کہ مسلم لیگ ن کشمیر میں حکمران جماعت ہونے کے باوجود اپنے دور حکومت کے کارناموں کے ذریعے عوام کو قائل کرنے کے بجائے عمران خان پر لفظی گولہ باری سے کام چلاتی نظر آئی۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ عمران خان بھی گزشتہ تین سال سے مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے باوجود عوام کے سامنے اپنی کارکردگی رکھنے کے بجائے الزامات کی سیاست کرتے نظر آئے۔ ایک موقع پر تو وہ جنید صفدر کے پولو کھیلنے کے ذریعے عوام کو ''ن لیگ'' سے متنفر کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے، جس کے جواب میں مریم صفدر بھی جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور خاندانی وضع داری کو پس پشت ڈال کر اخلاقی حدود کو پامال کرتی نظر آئیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ اگر جنید صفدر یوکے میں عوام کے پیسوں سے پولو کھیل رہا ہے تو اس کو پکڑنا کس کی ذمے دار ی ہے؟ کیا اس کےلیے عمران خان کو وزیراعظم سے بھی بڑا عہدہ درکار ہے؟
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خان صاحب جسمانی طور پر وزیراعظم بن چکے ہیں، لیکن ذہنی لحاظ سے ابھی تک ڈی چوک میں ہی ہیں۔ شاید اس میں عمران خان کا بھی قصور نہیں، کیونکہ 22 سال مسلسل اپوزیشن کرنے والے کو یہ یقین ہونے میں وقت تو لگے گا کہ میں حکومت میں آچکا ہوں، مجھے اب غلطیوں کی نشاندہی نہیں کرنی بلکہ انہیں درست کرنا ہے۔ بقول اقبال
وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم شہبازی
ضرورت اس امر کی ہے کہ مثبت اور تعمیری سیاست کو فروغ دیا جائے۔ ملک احمد خان نے جس بڑے دل کا مظاہرہ کیا ہے اس سلسلے کو آگے بڑھایا جائے۔ آنے والے ضمنی الیکشن یا جنرل الیکشنز میں شکست کھانے والی پارٹی دھاندلی کا راگ الاپ کر حکومتی امور میں روڑے اٹکانے کے بجائے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شکست تسلیم کرے، دوسری پارٹی کو جیت کی مبارکباد دے، اور تنبیہہ کرے کہ اب آپ اپنے وعدے پورے کریں، ہم آپ کے اچھے کاموں کی توصیف اور ناکامیوں پر تنقید کریں گے۔
اور ایک آخری بات کہ پی ٹی آئی سرکار اپوزیشن کی موجودہ ابتر صورت حال کو غنیمت سمجھتے ہوئے اپنی توجہ وطن عزیز کی تعمیر و ترقی پر مرکوز کرے۔ ترقیاتی منصوبوں کی بروقت اور شفافیت کے ساتھ تکمیل کو یقینی بنایا جائے تاکہ آنے والے الیکشن میں الزمات کی سیاست کے بجائے وہ عوام کے سامنے اپنی کارکردگی پیش کرسکے۔ کیونکہ پی ٹی آئی کہ موجودہ کارکردگی میں تسلسل کی صورت میں اپوزیشن کو کامیابی کےلیے صرف اپنی صفوں کو درست کرنا ہی کافی ہوگا، جو بڑے میاں یا چھوٹے میاں کی ایک نکی جئی ہاں کی مار ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔